لندن کے پاکستانی نژاد میئر۔صادق خان

گزشتہ دنوں لندن کے میئر کے انتخابات ہوئے جس میں لیبر پارٹی کے امیدوار صادق خان جو مسلمان تھے ایک یہودی گولڈ اسمتھ کو شکست دی، صادق خان کی چیت کو دنیا میں خاص طور پر مسلمانوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ۔ اس کالم کا موضوع لندن کے میئر کا انتخاب اور صادق خان کی فتح ہے
 پاکستانی نژاد برطانوی شہری صادق خان نے برطانیہ کی تاریخ میں برطانوی دار الحکومت کا پہلا مسلمان میئر منتخب ہوکر ایک نئی تاریخ رقم کی۔ صادق خان کے آباؤ اجداد کا تعلق پاکستان کے شہر کراچی سے تھا۔ یہ خاندان صادق خان کی پیدا ئش سے قبل برطانیہ منتقل ہوگیا تھا۔ صادق خان کے والد امان اﷲ خان محنت کش اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے برطانیہ میں 25برس بس چلائی یعنی وہ بس ڈرائیور تھے۔ ان کے ایک بھائی موٹر مکینک کا کام کرتے ہیں۔ صادق خان نے یہ ثابت کردیا کہ بڑا آدمی بننے کے لیے اعلیٰ خاندان اور والدین کا رئیس ابن رئیس ہونا ہی ضروری نہیں ہوتا۔ایک عام انسان اگر صدق دل سے محبت کرے، اﷲ پر مکمل بھروسہ، سچائی اور ایمانداری سے اعلیٰ مقصد حاصل کرسکتا ہے۔ صادق خان 8اکتوبر 1970ء کو لندن کے شہر ٹوٹنگ(Tooting) میں پیدا ہوئے، ٹوٹنگ لندن شہر کے جنوب میں واقع ہے۔اسی شہر کی نمائندگی بھی کی۔ وہ چھ بہن بھائی ہیں، ریاضی اور سائنس میں اے لیول کے بعد وہ ڈینٹسٹ بننا چاہتے تھے لیکن ان کے ایک استاد نے انہیں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دی جسے انہوں نے قبول کر لیا ، انہوں نے قانون کی ڈگری یونیورسٹی آف نارتھ لندن سے حاصل کی ۔ ان کی شادی سعدیہ احمد سے ہوئی ان کی دو بیٹیاں انیشہ خان اور عمارہ خان ہیں۔ صادق خان دو کتابوں کے مصنف بھی ہیں ان میں سے ایک 'Faimess Not Favours'اور دوسری کتاب 'How to Reconnect with British Muslims' ہے۔ وہ فٹبال ، باکسنگ اور کرکٹ کے کھلاڑی بھی رہے۔

صادق خان نے قانون کی ڈگری کے حصول کے بعد عملی طور پر انسانی حقوق کے لیے عملی جدوجہد کا آغاز کیا،وہ برطانیہ کی عملی سیاست میں حصہ لینے لگے۔ وہ بے باک ، نڈر، صاف گواور اچھے مقرر بھی ہیں۔ اپنی صلاحیتوں اور عوام کی خدمت کے جذبے سے سرشار صادق خان کو عوامی حلقوں میں پسند کیا جانے لگا،انہوں نے اپنی عملی سیاست کے لیے برطانویہ کی لیبر پارٹی کا انتخاب کیا، 2005ء میں وہ برطانوی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوگئے۔ رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے صادق خان کو عوامی حلقوں میں جانے اور ان کے لیے آواز بلند کرنے کا موقع ملا گورڈن براؤن کی کیبنٹ میں منسٹر آف اسٹیٹ برائے کمیونیٹیز مقرر ہوئے ، بعد میں ٹرانسپورٹ کے وزیر بھی ہوئے۔ لندن کے میئر منتخب ہونے تک وہ پارلیمنٹ کے رکن اور وزارت کے عہدہ پر فائز تھے۔ 2016ء کے انتخابات میں برطانیہ کی لیبر پارٹی نے انہیں لندن کے میئر کے لیے اپنا امیدوار نامزد کیا ، لیبر پارٹی کا یہ فیصلہ صادق خان کے لیے بڑا چیلنج تھا۔وہ اس پر نازاں بھی تھے اور فکر مند بھی۔ صادق خان ایک غریب گھرانے کے چشم و چراغ تھے ، ساتھ ہی مسلمان بھی تھے جب کے ان کے مد ِ مقابل کنزرویٹو پارٹی کے امیدوار ایک یہودی اور ایک ارب پتی باپ کے بیٹے زیک گولڈ اسمتھ تھے۔گولڈ اسمتھ تحریک انصاف کے چیرٔ میں عمران خان کی سابقہ اہلیا ’جمائما’ کے بھائی بھی ہیں، یہی وجہ رہی کہ الیکشن کے دنوں میں جب کپتان لندن گئے تو مخالفین نے ان پر تنقید کی کہ اپنے سابقہ سالے کی الیکشن مہم میں اپنا حصہ ڈالنے گئے ہیں، یہ بھی کہا گیا کہ وہ ایک مسلمان کے مقابلے میں ایک یہودی کی حمایت کررہے ہیں، سابقہ ہی سہی گولڈ اسمتھ ہیں تو سالے صاحب ،ان کی حمایت کرنا تو کپتان کا حق بنتا تھا جو انہوں نے ادا کیا، یہ دوسری بات بقول میر تقی میرؔ ؂
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھ اس بیماریٔ دل نے آخر کام تمام کیا

مقابلہ کانٹے کا تھا، یہودی لابی نے صادق خان کے خلاف ہر ہر حربہ استعمال کیا،گولڈ اسمتھ کو برطانوی وزیر اعظم کی اشیر بادبھی حاصل تھی۔ صادق خان کا مسلمان ہونا تو یہودی لابی کے لیے ایک بڑا مسئلہ تھا ہی اس کے علاوہ ان پر بے شمار قسم کے الزامات لگائے گئے، شدت پسندوں کا ساتھ دینے کا الزام لگایاگیا، لندن کے لوگوں کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی ہر ممکن سعی کی گئی ان سب کے با وجود گولڈ اسمتھ کا کام تمام ہوگیا اور انہیں عبرت ناک شکست سے دوچار ہونا پڑا۔بقول نواب محمد یار خان امیرؔ ، بعض لوگ اس شعر کو میرتقی میرؔ یا امیر مینائی کا کہتے ہیں ، لیکن یہ شعر ہے امیرؔ کا ؂
شکست و فتح میاں اتفاق ہے لیکن
مقابلہ تو دلِ نا تواں نے خوب کیا

صادق خان نے 13لاکھ10 ہزارووٹ حاصل کیے ،ان کے حق میں ووٹوں کا تناسب 43فیصد رہا جب کہ زک گولڈ اسمتھ کو 9لاکھ 94ہزار ووٹ ملے،ووٹوں کا تناسب 31فیصد رہا۔ صادق خان کی کامیابی نے ثابت کر دکھا یا کہ لندن کے شہری خواہ کسی بھی مذہب، زبان، قوم، نسل، قبلے سے تعلق رکھتے ہوں انہوں نے لندن کے میئر کے انتخاب میں تمام قسم کے تعصبات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عوام کی فلاح و بہبود اور لندن شہر کی ترقی کو بنیاد بنا کر اپنے لیے میئر کا انتخاب کیا۔ صادق خان کی کامیابی یقینا یہودیوں کے لیے شدید دَھچکااور مسلمانوں کے لیے سرور و انبساط کا باعث ہے اور ہونا بھی چاہیے ۔ لندن کے عوام کا یہ عمل اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ مغرب میں ابھی ایسی اقوام موجود ہیں جو مسلمانوں کو بعض وجوہات کے باعث دیگر پر فوقیت دیتی ہیں، پورے مغرب میں ایک مثبت پیغام اس فتح سے گیا ہے، یہاں تک کہ امریکی صدارتی امیدوارڈونلڈ ٹرمپ جو مسلمانوں کے لیے اچھا ذہن ، مثبت سوچ نہیں رکھتے تھے ، صادق خان کی فتح نے ان پر بھی مثبت اثرات مرتب کیے اور انہوں نے صادق خان کو امریکہ کے دورے کی دعوت دی یہ دوسری بات کہ صادق خان نے یہ پیش کش ٹھکرا دی ہے۔ اس کی وجہ ٹرمپ کا وہ کردار ہے جو دوران انتخابی مہم مسلمانوں کے حوالے سے سامنے آیا ہے۔

اپنے کالم کا اختتام صادق خان کے ایک خوبصور ت عمل پر کرنا چاہتا ہوں ۔ یہ بات روزنامہ جنگ کے کالم نگار اشتیاق بیگ نے اپنے کالم بعنوان ’میئر لندن پر عائد بھاری ذمہ داریاں‘ (25مئی2016)میں برطانوی جریدے ’’انڈی پینڈنٹ ‘ کی رپورٹ کے حوالے سے قلم بند کیا ہے۔ اشتیاق بیگ لکھتے ہیں کہ انڈی پینڈنٹ کی اس رپورٹ نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں کو چھو لیا ہے۔ رپورٹ میں بتا یا گیا ہے کہــ’’ 2009ء میں جب صادق خان کو برطانوی ملکہ کی خصو کونسل کے رکن کی حیثیت سے چنا گیا تو بکنگھم پیلس سے صادق خان کو ایک فون کال موصول ہوئی جس میں ا’ن سے کہا گیا کہ آپ ملکہ برطانیہ کے سامنے بائبل پر حلف لیں گے لیکن صادق خان نے قرآن پاک پر حلف لینے پر اصرار کیا اور کہا کہ ’’میں صرف قرآن پاک پر ہی حلف لیتا ہوں کیونکہ میں مسلمان ہوں‘‘۔ شاہی محل کی انتظامیہ نے انہیں کہا کہ ہمارے پاس قرآن پاک نہیں ہے، اگر آپ قرآن پر حلف لینا چاہتے ہیں تو اپنے ساتھ قرآن لے آئیے‘‘۔ چنانچہ صادق خان حلف برداری تقریب میں اپنے ساتھ قرآن پاک لے کر گئے اور قرآن پر ہی انہوں نے حلف لیا۔ تقریب حلف برداری کے اختتام پر صادق خان نے قرآن پاک شاہی محل کی انتظامیہ کو ہدیہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’وہ چاہتے ہیں کہ میرے بعد اگر کوئی دوسرا مسلمان شاہی محل میں حلف اٹھانے آئے تو بائبل کے بجائے قرآن پر حلف اٹھائے‘‘۔ صادق خان کا یہ عمل انہیں ایک بے باک اور نڈر مسلمان ثابت کرتا ہے، وہ اپنے آپ کو مسلمان ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں اور مغربی دنیا میں مغربی ذہن کے پروردہ مسلمان دشمنوں کے درمیان خود کو مسلمان کہنے پر ناز کرتے ہیں۔البتہ صادق خان کے میئر کا حلف اٹھانے کی تقریب لندن کے ایک چرچ میں منعقد ہوئی ، انہوں نے میئر کا حلف اٹھانے کے بعد برطانیہ کے شری سوامی نرائن مندر کا دورہ بھی کیا ۔ ان اقدامات سے وہ لندن کی مختلف کمیونیٹیز کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ وہ صرف مسلمانوں کے ہی میئر نہیں بلکہ پورے لندن کے میئر ہیں۔
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1273681 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More