پاکستان میں تعلیمی نظام کی زبوں حالی

تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی میں بے حد اہم کردار ادا کرتی ہے اور اسکی اہمیت کا اعتراف ازل سے ہر مہذب معاشرہ کرتا آیا ہے اور ابد تک کرتا رہے گا۔ ایک انسان اسوقت تک اپنے معراج کو نہیں چھوسکتا جب تک وہ تعلیم یافتہ نہ ہو اصل میں تعلیم زندگی کےلئے نہیں بلکہ خود زندگی ہے۔اکیسوی صدی میں تعلیم کی اہمیت پہلے کی نسبت زیادہ تسلیم کی جارہی ہے آج کے اس جدید دور میں تعلیم کے بغیر انسان ہر طرح سے ادھورا ہے۔ تعلیم انسان میں شعور پیدا کرتی ہے اور اپنی صلاحیتوں کو پہچاننے اور بروئے کار لانے میں بھی معاون و مدد گار ثابت ہوتی ہے۔تعلیم یافتہ لوگ ہی ایک بہتر سماج اور ترقی یافتہ ملک و قوم کی تعمیر کرتے ہیں ۔ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ قوموں کے عروج و زوال میں تعلیم کا کردار بڑی اہمیت کا حامل رہا ہے۔جس قوم نے بھی اس میدان میں عروج حاصل کیا باقی دنیا اس قوم کے سامنے سرنگوں ہوتی چلی گئیں۔ قرآن پاک کا پہلا لفظ بھی ’اقراء‘تھا اور یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب تک اہل اسلام نے اس میدان میں اپنے قدم جمائے رکھے دنیا پر حکمرانی کرتے رہے اور جیسے ہی تعلیم سے دور ہونے لگے غلامی اپنا گھیرا تنگ کرنے لگی۔ انسان کو اشرف المخلوقات ہونے کا شرف بھی علم و آگہی کی بدولت حاصل ہے دین و دنیا کی تمام تر ترقیاں اور بلندیاں علم ہی کے دم سے ہیںاسی لیے اسلام نے بھی حصول علم پر زور دیا ہے۔علم ایک ایسا بہتا دریا ہے جس سے جو جتنا چاہے سیراب ہو سکتا ہے اور اس دریا کے پانی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں تعلیم کے شعبے سے سوتیلی ماں والا سلوک کیا جاتا ہے کیونکہ پاکستان میں لوگوں کو پڑھنا لکھنا سکھانا طاقتور طبقے کے مفادات کےخلاف ہے، جان بوجھ کر عوام کو انگریزی زبان سے دور رکھا جاتا ہے کیونکہ انگریزی زبان پاکستان میں طاقتور طبقے کی زبان ہے۔اگر عوام پڑھ لکھ کر باشعور ہوجائیں گے تو طاقتور طبقے کا مستقبل خطرے میں پر جائے گا یہی وجہ ہے کہ حکمران تعلیمی شعبے کو بھی نجکاری کی آگ میں جھونکنا چاہ رہے ہیں اور تعلیم کو بھی ایک کاروبار بنایا جارہا ہے اور کاروبار کی اولین ترجیح صرف اور صرف منافع ہوتی ہے ۔ انتہائی افسوسناک بات ہے کہ پاکستان معرض وجود میں آنے کے بعد ابتک کئی ایجوکیشن کمیشن بنے اور کئی نصاب نافذ ہوئے لیکن آج تک موثر نظام تعلیم نہ دیا جاسکا اور اب بھی ملک میں کئی نظام تعلیم رائج ہیں لیکن آج تک یہ فیصلہ نہیں ہوسکا کہ قوم کو تعلیم کس میڈیم میں دینی ہے۔سرکاری سکولوں میں ناقص معیار تعلیم کے باعث لوگوں کی بڑی تعداد اپنے بچوں کو نجی سکولوں میں پڑھانے پر مجبور ہے ۔ اگر صرف لاہور شہر کی بات کی جائے تو یہاں 54 فیصد بچے کاروباری اداروں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں ، اس شہر کے 11 فیصد سرکاری پرائمری سکولوں میں صرف ایک استاد ہے جو تمام فرائض سرانجام دیتا ہے اگر لاہور شہر کی یہ حالت ہے تو پنجاب سمیت ملک کے دیگر شہروں کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔ ملک بھر میں سرکاری سکولوں کی عمارتیں خستہ حال ہیں یا پھر نہ ہونے کے برابر ہیں سہولیات اور کے فقدان اور سکول کی عمارتوں کے نہ ہونے کے باعث قوم کے معمار کئی سکولوں میں اس دور جدید میں بھی کھلے آسمان تلے ٹاٹوں پر بیٹھ کر علم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں جتنے بچے اسوقت پرائمری سکولوں میں نہیں پہنچ پا رہے انکی دس فیصد تعداد پاکستان میں ہے اس طرح تعلیم سے محروم بچوں کی تعداد کے حوالے سے پاکستان دنیا میں نائجیریا کے بعد دوسرے نمبر پر ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ کمزور معیشت کی بناءپر اور وسائل کی کمی ہونے کی وجہ سے پاکستان آج ان حالات سے دوچار ہے تو پھر وہ 30 ممالک جو کہ غربت میں ہم سے بھی آگے ہیں ہونے کیساتھ ساتھ تعلیمی میدان میں بھی ہم سے کئی گنا آگے نکل چکے ہیں اس صورتحال میں تعلیمی نظام پر نظرثانی کرکے بہتر بنانے کی بجائے حکومت اس شعبے کو ٹھیکے پر دینے کےلئے پر تول رہی ہے ایسا کرنا بلاشبہ غریبوں کے بچوں کو تعلیم سے محروم کرنے کے مترادف ہے اور تعلیم دشمن اقدام ہے اس ٹھیکہ داری نظام سے لاکھوں بچوں کا مستقبل تباہ ہوجائے گا ۔ پرائیویٹ سکولوں کے اخراجات غریب والدین کی برداشت سے باہر ہونے کے باعث وہ اپنے بچوں کو مزدوری پرلگا دیں گے جس کی وجہ سے لاکھوں بچوں کو تعلیم جیسی روشنی سے محروم ہونا پڑے گا جسکی ذمہ داری بھی حکمرانوں پر ہوگی۔کاش کہ حکمران سڑکیں بنانے اور عمارتیں کھڑی کرنے پر خرچ ہونے والے اربوں ڈالرز کی رقم میں سے کچھ حصہ شعبہ تعلیم پر لگا دیں کیونکہ قوموں کی ترقی تعلیم سے ہوتی ہے سڑکیں بنانے اور عمارتیں کھڑی کرنے سے نہیں لیکن نہ جانے کب حکمران اس بات کو سمجھیں گے۔
Sohail Ahmad Mughal
About the Author: Sohail Ahmad Mughal Read More Articles by Sohail Ahmad Mughal: 19 Articles with 11138 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.