کھوکھلی بنیادیں!!

آپ پیدائیشی عظیم پیدا ہوے ہیں لیکن آپ محض اپنی سوچ کی بنا پر محدود ہیں۔ جس نے اپنی سوچ کو باعمل بنا لیا وہ اس دنیا پر حکمرانی کے لیے نکل پڑا۔ مگر سوچ کے باعمل ہونے کا تعلق اس کی بنیاد کے مضبوط ہونے سے بھی ہے۔ ایک ایسا انسان جسکی تعلیم کا آغاز ایک ایسے ادارے سے ہوا ہو جہاں rattalization کی بجائے creativity کا سبق دیا جاتا ہو، جہاں اسے اپنے خیالات کے اظہار کے لیے مکمل آزادی فراہم ہو، جہاں صحیح غلط، جائیز ناجائیز کی حقیقت پر مبنی تعلیم دی جاتی ہواور سوچ کو نکھارنے کے مواقع فراہم کیے جاتے ہوں، ایک icebergکی مانند ہوتا ہے جو بظاہر سمندر کی سطح پر بہت چھوٹا نظر آتا ہے مگراس کی بنیاد اس قدر گہری اور مضبوط ہوتی ہے کہ یہ کسی بھی دیو ہیکل بہری جہاز کو چیر دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ در حقیقت ایک انسان کی بنیاد کو مضبوط بنانے والا اس کے بچپن کا استاد ہوتا ہے۔

ہمارے ملک میں دیکھا جائے تو 26 Education systems موجود ہیں جو 26 قسموں کی مختلف سوچ رکھنے والے طلباء پیدا کر رہے ہیں ۔ یہاں ایک غریب کا بچہ گورنمنٹ سکول میں تعلیم حاصل کرتا ہے جبکہ سرداروں، وڈیروں اور جاگیرداروں کے بچوں کے لیے ایچیسن جیسے تعلیمی ادارے موجود ہیں۔ اب ایک گورنمنٹ سکول سے پڑھنے والا بچہ ایچیسن کے بچے سے بھلا کیا مقابلہ کر سکے گا۔ مقابلہ تو دور کی بات وڈیروں اور جاگیرداروں کے بچوں کو تو سکھایا ہی یہ جاتا ہے کہ باقی عوام تو کیڑے مکوڑے ہیں لہازا تم نے ان کو روندتے ہوے ان پر حکمرانی کرنی ہے۔ ان کے سکولوں میں مختلف تقاریب میں ان کی حوصلہ افزائی کے لیے بڑی بڑی شخصیات کو مدعو کیا جاتا ہے جبکہ ایک گورنمنٹ سکول میں تو استاد کی حاضری ہی بڑی بات ہوتی ہے!

ستم ظریفی دیکھیں کہ اس ملک کے تقریباّّ ہر گلی محلے میں موجود ایک عام عادمی کے بچے کی بنیاد تعمیر کرنے والا پرائیویٹ سکول کا استاد محض میٹرک ہا ایف۔ اے پاس ہوتا ہے جسے اس کا ادارہ بمشکل 5000روپے ماہانہ ادا کرتا ہے ۔ یہ وہ شخص ہے جو غربت سے تنگ ، حالات کا مارا روزگار زندگی چلانے کے لیے استاد کا بھیس پہنتا ہے۔ یہ نام نہاد استاد ان بچوں کو ABC رٹنے کے علاوہ اور کچھ نہیں سکھاتا۔ ان سکولوں میں بچوں سے پیسے بٹور کر ان کے مستقبل سے کھیلنے کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔

ہمارے ہاں خصوصاََ Backward علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلباء کی بنیادیں اس قدر کھوکھلی ہوتی ہیں کہ وہ زندگی کے ہر معاملے میں کنفیوز رہتے ہیں اور خود اعتمادی کا مادہ ان میں نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ رہی سہی کثر ان بچوں کے والدین پوری کر دیتے ہیں جب وہ پہلے سے ہی ان پر ڈاکٹر یا انجینئیر کا ٹیگ لگا دیتے ہیں۔ اگر ان کا بچہ میڈیکل یا انجینئیرنگ یونیورسٹیز میں داخلہ لینے میں ناکام ہو جاتا ہے تو وہ اپنے والدین، خاندان اور معاشرے کی نظر میں مجرم ثابت ہوتا ہے جو زندگی بھر تعنوں کی سزا بھگتتا ہے۔ اس صورتِ حال میں اکثر بچے Depression جیسے خوفناک مرض میں مبطلع ہو جاتے ہیں جو انہیں جیتے جی مار دیتا ہے۔

آج کے اس دور میں جہاں ہر دوسرا انسان خصوصاّّ ہماری نوجوان نسل ذہنی دباؤ اور پریشانی کا شکار ہے وہاں ہم علاج کے لیے کسی سائیکالوجسٹ کے پاس جانے سے بھی گھبراتے ہیں ۔ آپ کسی سائیکالوجسٹ کے پاس جائیں ، اسے اعتماد میں لے کر اس سے اپنا مسئلہ بیان کریں ۔ وہ باتوں باتوں میں ہی آپکا مسئلہ سمجھ جائے گا اور پھر اسی طرح کچھ سیشبز میں آپکا برین واش کرے گا،یوں آپ کے دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے گا اور دماغ مضبوطاور آپ دوبارہ نارمل زندگی گزارنے لگتے ہیں۔ تاہم ہمارے معاشرے میں اس علاج سے متعلق آگاہی کی اشد ضرورت ہے۔

اب یہی کام ایک استاد کا بھی ہوتا ہے ۔ ایک اچھا استاد ایک سائیکالوجسٹ بھی ہوتا ہے جو اپنے شاگرد کی پریشانیوں کو سمجھ کر اسے ان پریشانیوں کا حل تجویز کرتا ہے۔ ہمارے ملک میں جہاں غربت، بیروز گاری، کرپشن جیسے مسائل سے ہر شخص پریشان دکھائی دیتا ہے وہاں طلباء میں بھی شدیدمایوسی پھیلی ہوئی ہے ۔ اس صورتحال میں اساتذہ ہی ہیں جو ان میں پراعتمادی اور امید کی لہر پیدا کرسکتے ہیں۔ طلباء کی ذہن سازی میں استاد کا کردار بہت اہم ہو تا ہے ، وہ محض اپنی باتوں سے انہیں Motivateبھی کر سکتا ہے اورDemotivateبھی۔ کسی بچے کا مستقبل اس کو ملنے والی بنیادی تعلیم اور والدین اور اساتذہ کی جانب سے دی جانے والی تربیت اور حوصلے پر منحصر کرتا ہے۔

والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو ان کے بہتر مستقبل کے لیے ان کے خیالات اور سوچ کے مطابق شعبہ منتخب کرنے کی کھلی اجازت دیں ۔

کیونکہ ــ"ہم خیال اگر ہمسفر ہوجائیں تو منزلیں آسان ہو جاتی ہیں"۔ اسی طرح اگرکسی کا شوق اسکی زندگی کے ساتھ ہمیشہ کے لیے منسلک ہو جائے تو کامیابی اسکے قدم چومتی ہے۔

اس سلسلے میں حکومت کی ذمہ داری یہ ہے کہ تمام سرکار ی و نجی سکولز اور کالجز کے اساتذہ کی اس طرح ٹریننگ کروائے کہ وہ طلباء کی ان کے مستقبل کے حوالے سے بالوقت صحیح راہنمائی فراہم کر سکیں اور ساتھ ہی ساتھ ان میں موٹیویشن اور Determination کا جذبہ بھی پیدا کر سکیں۔ اس کے علاوہ ان تمام اداروں میں طلباء کے لیے کیریر گائیڈنس کے حوالے سے ایسی ورک شاپس کا انعقادبھی ہوناچاہیے جن میں سائیکالوجسٹس اور ایجوکیشن ایکسپرٹس طلباء کے ساتھ گفتگو کریں اور ان کو ان کی سوچ اور انٹرسٹ کے مطابق تعلیمی شعبوں کے مطعلق آگاہ کریں ۔ اس ایک قدم سے سینکڑوں زندگیاں سنور سکتی ہیں اور ہم قابل ڈاکٹر، انجینئیر، وکلاء ، صحافی، سیاستدان اور اساتذہ پیدا کر سکتے ہیں۔ ہمیں اپنے بچوں کی بنیادوں کو مضبوط بنانا ہوگا۔
Muzammil Gulzar
About the Author: Muzammil Gulzar Read More Articles by Muzammil Gulzar: 2 Articles with 1245 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.