میری سر گذستِ حیِات۔ اپنی زبانی

خود نوشت نگاری کا فن بے حد مشکل اور صبر ۤآزا کام ہے ، خود نوشت لکھنا کانٹوں پر چلنے کے مترادف ہے ۔ میں نے اپنی خود نوشت ایک خاکے کی صورت میں 'اپنی تلاش' کے عنوان سے بہت پہلے لکھ تھا ، ذیل میں اسی خاکے کا نچوپیش ہے۔ زندگی کے بے شمار پہلو تاحال قلم بند نہیں ہوسکے، ارادہ ہے انہیں رفتہ رفتہ قلم و طاس پر ،منتقل کروں۔ یہ مختصر سے تصویر ہے جسے ہماری ویب کے ناظرین کے لیے پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں
سوچتا ہوں کہا ں سے شروع کروں، زندگی کی تریسٹھویں(۶۷) بہار دیکھ رہا ہوں، سچ بات تو یہ ہے کہ اب بہت ہوچکا، بہت کچھ کھا لیا، بہت کچھ دیکھ لیا، بہت کچھ پڑھ لیا ، بہت کچھ لکھ بھی لیا اور چھپ بھی گیا۔ اب ہمارا بھی چل چلاؤ ہے، نہیں معلوم کب ہوا کا تیز جھونکا چلے اور چراغ گل ہوجائے۔ویسے بھی جب سے ہماری انجوپلاسٹی ہوئی اور ایک انسٹینٹ دل شریف میں ڈلا تب سے ہمارے دل نے ہمیں یہ احساس دلانا شروع کردیا ہے کہ وہ ہمارے جسم میں موجود ہے، دھک دھک کر رہا ہے ، اسے اختیار ہے کہ وہ جب چاہے اپنی دھک دھک بند کر سکتا ہے۔ویسے اختیار کا مالک تو ہمارا پیدا کرنے والا ہے، اس کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتاخواہ ہمارا دل ہمیں کتنا ہی ڈرائے ،دھمکائے ہوگا وہی جو اﷲ چاہے گا۔غالبؔ نے اپنی آپ بیتی میں اِسی بات کو اس طرح کہا کہ ’’جب داڑھی مونچھ میں بال سفید آگئے، تیسرے دن چیونٹی کے انڈے گالوں پر نظر آنے لگے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ ہوا کہ آگے کے دو دانت ٹوٹ گئے، ناچار مِسّی بھی چھوڑ دی اور داڑھی بھی‘‘۔ تو جناب ہماری داڑھی و مونچھ میں بھی چاندی نمایاں ہو چکی ہے، گالوں پرچیونٹی
کے انڈے بھی نظر آنے لگے ہیں البتہ ابھی دانت ٹوٹنے کی نوبت نہیں آئی۔

آپ بیتی قلم بندکرنا بڑا کٹھن کام ہے حالانکہ لکھنے والا ، خاص طور پر جو خاکہ نگاری بھی کرتا ہوپہلے ہی اپنے بارے میں بہت کچھ لکھ چکا ہوتا ہے۔آپ بیتی یا اپنے خاکے میں ایک مشکل یہ بھی ہوتی ہے کہ بندہ اپنی ذات سے متعلق اچھی باتیں لکھے تو اپنے منہ میاں مٹھو والی مثال صادق آتی ہے،اچھا بھی نہیں لگتا، برائی لکھے، کیڑے نکالے تو کیسے،ہم نے دوسروں کے خاکے لکھے ہیں، ہر صورت میں خاکہ اڑانے سے احتراز کیا ہے، تو پھر اپنے بارے میں بھی ایمانداری سے ہی کام لیں گے۔ البتہ جوشؔ کی ’یادوں کی بارات‘ والی صاف گوئی کے ہم قائل نہیں حالانکہ ہے تو وہ بھی صاف گوئی۔معاشرتی اقدار کا تقاضہ ہے کہ کچھ پردہ ضروری ہے۔ ہمار مذہب بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔ مشتاق احمد یوسفی کا کہنا ہے کہ’ آپ بیتی میں ایک مصیبت یہ ہے کہ آدمی اپنی بڑائی آپ کرے تو خود ستائی کہلائے اور ازراہ کسر نفسی یا جھوٹ موٹ اپنی برائی خود کرنے بیٹھ جائے تو یہ احتمال کہ لوگ جھٹ یقین کر لیں گے‘۔ اسی بات کو پنڈت جواہر لعل نہرو نے اپنی آپ بیتی ’’میری کہانی‘‘میں ایبرا ہم کاؤلے کے حوالے سے لکھا ’’اپنے حالات آپ لکھنا بڑا مشکل اور نازک معاملہ ہے۔ اگر انسان اپنی برائی کرے تو اپنا دل دکھتا ہے اور تعریف کرے تو پڑھنے والوں کو برا لگتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ خاکہ ہویا آپ بیتی لکھنے والے کو سچائی اور ایمانداری کا دامن تھامے رہنا چاہیے ،اس کابنیا دی مقصد باطن میں چھپے موتیوں کی تلاش ہونا چاہیے۔ تہذیب و شائستگی کے دائرے میں رہتے ہوئے ہمیں اپنی تلاش اور اپنے باطن میں چھپے رازوں کو افشاکرنے کی سعئی کرنا چاہیے۔

میرے پرکھوں کی سرزمین راجستھان تھی، اس حوالے سے میں بنیادی طور پر راجستھانی یا راجپوت ہوں ، راجپوتانہ نے بھی بڑی بڑی شخصیتیں پیدا کی ہیں، میرابائی، مہدی حسن اور ریشماں کو مشتاق احمد یوسفی نے راجستھان کے تین طرفہ تحفے قرار دیا ہے جن کے وہ قائل اور گھائل ہیں حالانکہ وہ خود بھی راجپو ت ہی ہیں۔بعد میں ہمارے بزرگوں نے ہندوستان کے ضلع مظفرنگر (یوپی )کے قصبہ حسین پور کو آباد کیا۔ مظفر نگر ایک ایسی مردم خیز سرزمین ہے جس نے علمائے دین، صوفیا ئے کرام اور فقہا ئے اسلام کو جنم دیا، اہل علم ودانش کی ایک بڑی جماعت پیدا کی ،ان شخصیات میں بعض احباب کے نام فخر سے لیے جاسکتے ہیں۔ حضرت شاہ ولی اﷲ، مولانا اشرف علی تھانوی ؒ، شہید ملت خان لیا قت علی خان ، مولانا شبیر احمد عثمانی، زاہدحسین ، اولین گورنر اسٹیٹ بنک آف پاکستان ،جسٹس (ر)نا صر اسلم زاہد، محمد ابصار حسین قرنی، مفتی و محدث مولانا عبدلمالک ، مولانا عبد الخالق کاندھلہ والے، شیخ محمد ابراہیم آزادؔ، ڈاکٹر اسرار احمدمرحوم، ڈاکٹرالطاف حسین قریشی ، مبشر احمد واحدی ، شاعر مزدور احسان دانش ، تابشؔ صمدانی ، شوکت تھانوی، صاحبزادہ عاشق کیرانوی کا وطن بھی مظفر نگر تھا۔اس اعتبار سے مجھے ایسی متبرک سر زمین سے نسبت حاصل ہے جس کی کوکھ نے عظیم ہستیوں کو جنم دیا۔ میرے خاندان میں اکثر احباب تدریس اور شاعری سے شغف رکھتے ہیں،صاحب دیوان شاعر بھی ہیں اور بے دیوان شاعر بھی، میَں شعرگھڑ لیتا ہوں، شاعر ی میرے خمیر میں تو ہے لیکن تاحال باقاعدہ شاعری نہیں کی اپنے موضوع پر لکھنے سے فرصت ہی نہیں ملی،البتہ موقعہ محل یا ضرورت کے لیے شعر کہہ لیتا ہوں، جیسے مظفر نگر کے حوالے سے
یہ شعر ؂
مظفر نگر تری مٹی کی عظمت کو سلام
کیسے کیسے گوہر نایاب پیدا کیے تونے

میرے پردادا شیخ محمد ابراہیم آزادؔ صاحب کا دیوان ۱۹۲۳ء میں آگرہ سے’’ثنائے محبوب خالق: دیوان آزاد‘‘ کے نام سے شائع ہواتھا ، ۷۵ سال بعد اس دیوان کا دوسرا ایڈیشن ۲۰۰۶ء میں کراچی سے شائع ہوا، آزادؔ صاحب وکیل تھے، بیکانیر میں جج اورچیف جج بھی رہے، نثر بھی لکھی، تصوف ان کا خاص موضوع تھا، ان کے متعدد مضامین’’پیامِ اتحاد ‘‘ میں شائع ہوئے۔ دادا شیخ خلیل صمدانی صاحبِ دیوان شاعر تھے ، ان کے بیٹے تابشؔ صمدانی کئی نعتیہ مجموعوں کے خالق ہیں۔ میرے خاندان میں ادب سے تعلق کا یہ سلسلہ اﷲ کے فضل سے کئی پشتوں سے جاری ہے۔کئی احباب شعر و ادب کا ذوق رکھتے ہیں۔ جنابِ آزادؔ استاذ الشعراء افتخارالملک سید وحید الدین احمد بیخودؔ دہلوی کے شاگرد تھے۔ ادب سے وابستگی میرے خاندان کا طرۂ امتیاز رہا ہے۔

اس تمہید کے بعداب میری مختصر سی سر گذستِ حیِات سنیے اور خود میری ہی زبانی۔ میری زندگی کا سب سے اہم اور منفردواقعہ خود میری پیدائش ہے۔ جی ہاں یہی سچ ہے ، تو سنیئے یہ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ میرے والدین کی شادی قیام پاکستان سے پانچ ماہ قبل مارچ ۱۹۴۷ء میں ہوئی تھی، میرے وجود کا خمیر ہندوستان میں معرض وجود میں آچکا تھا، اسے ابھی دو ماہ ہی ہوئے تھے کہ میرے والدین کو پاکستان ہجرت کا قصد کرنا پڑا،’ ’لے کر رہیں گے پاکستان بٹ کر رہے گا ہندوستان ‘‘کی صدائیں میرے کانوں میں براہِ راست تو نہیں البتہ اپنی ماں کے کانوں سے ہوتی ہوئی مجھ تک ضرور پہنچیں۔اس کا احساس میں آج بھی محسوس کر سکتا ہوں، کیوں کہ میں اُس وقت شکم مادر میں رہتے ہوئے ہجرت کی بہاروں کا لطف لے رہا تھا۔مجھے بروز پیر ۲۵ مارچ ۱۹۴۸ء کو یعنی قیام ِپاکستان کے سات ماہ بعد اس دنیا میں آنا تھا اور آیا۔پنجاب کے ایک دیہات نما شہر ’میلسی ‘میں اپنے ماموں جناب محبوب احمد سبزواری کے گھر پیدا ہوا،اس کی وجہ یہ ہوئی کہ پاکستان کے قیام کا اعلا ن ہو ا تو میری والدہ اپنے میکے مشرقی پنجاب کے شہر فرید کوٹ میں تھیں، والد صاحب بیکانیر میں تھے،چنانچہ والدہ نے اپنے بھائیوں کے ہمراہ پاکستان ہجرت کی اور پنجاب کی سرزمین ان کی مستقر ٹھری جب کہ والد صاحب نے کراچی کو اپنا مسکن بنایا ؂
میلسی ہے ایک شہر ، پانچ دریاؤں کی سرزمین پر
میں ہوں رئیسؔ اُسی آسماں کا ایک ستارہ

یہ وہ زمانہ تھاجب عام طور پر بچوں کی پیدائش گھروں میں ہوا کرتی تھی، محلوں میں بعض عورتیں بچوں کی پیدائش میں مدد گار کا کردار ادا کیا کرتی تھیں، اُنھیں عرف عام میں ’دائی‘ کہا جاتاہے۔ ’دائی‘ کوئی کوالیفائیڈ نرس نہیں ہوتی تھی۔ اپنے تجربے کی بنیاد پر زن ِحاملہ کا سہارا ہوا کرتی تھی۔ میری امی اور میَں بھی ایک دائی جس کا نام’ اَنسری‘تھاکے رحم و کرم پر تھے۔ میں اپنے والدین کی پہلی اولاد تھا۔اپنے دادا کا پہلا پوتا، اپنی پھوپھیوں اور چچاؤں کا پہلا بھتیجا، یہی وجہ تھی کہ میری آمد پر میرے چاہنے والوں نے کان لگا ئے ہوئے تھے کہ کیا خبرآتی ہے اب تو سائنس اتنی ترقی کرچکی ہے کہ وقت سے پہلے ہی اطلاع آجاتی ہے کہ دنیا میں آنے والاابنِ آدم ہوگا یا وہ بنتِ حوا ہو گی۔ اچانک یہ اطلاع ملے کے نومولود بابا آدم کے قبیلے سے تعلق رکھتا ہے تو خوشی دوبالا ہوجاتی ہے۔ دنیا میں میری آمد متوقع ہی تھی کہ ’دائی ‘ نے اعلان کر دیا کہ اس دنیا میں آنے وا لے رئیسِ اعظم ہیں وہ سر کے بل نہیں بلکہ پیروں کے بل اس دنیا میں آئیں گے۔زچگی کی اصطلا ح میں اِسے بچے کا الٹا پیدا ہونا کہا جاتا ہے۔ دائی کی اس دیدہ دلیری نے گھر کے ماحول کو یک سر بدل کے رکھ دیا، خوشی کا ماحول افسرد گی میں بدل گیا، موقع واردات پر موجود چہرے کملا گئے، فضاء غمگین ہوگئی،اس خبر نے کراچی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا جہاں پر میرے والد صاحب اپنے پہلے بیٹے کے باپ بننے کی خبر سننے کے لیے بے تاب تھے، میرے دادا کو اپنے دادا بننے کی خبر کا انتظار تھا اور میری پھوپھیاں اور چچااپنے بھتیجے کا اس دنیا میں آنے کا انتظار بے تابی سے کررہے تھے، وہ بھی اس خبر سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ اب مجھے ہی نہیں بلکہ میری ماں کی زندگی کو بھی خطرہ تھا۔ گویا میَں نے دنیا میں آنے سے پہلے ہی یہ کارنامہ انجام دیا کہ اپنی ماں کی زندگی کو داؤپر لگا دیا۔رہا معاملہ الٹے اور سیدھے کا ،تو بات یہ تھی کہ میَں نے یہ گوارہ نہیں کیا کہ میَں جوں ہی اس دنیا میں آؤں دائی صاحبہ میری گردن دبوچ لیں، میَں تو اُس سے اپنی قدم بوسی کرانا چاہتا تھا،ایساہی ہوا، میَں دنیا
میں چلتا ہوا ہی آیا،گویا الٹا پیدا ہوا، اپنا اپنا طریقہ واردات ہے۔ بچے کا الٹا پیدا ہونا بھی کیا چیز ہوتا ہے۔

ایک اور دلچسپ واقعہ آپ کے گوش گزار کرتا ہوں، میَں جوان ہوگیا تھا، کالج میں پڑھا کرتا تھا،اُس وقت ہم آگرہ تاج کالونی میں رہا کرتے تھے، چھٹی کادن تھا ، صبح ہو چکی تھی لیکن میَں ابھی سو رہا تھا، ابا جان نے سوتے سے اٹھایا کہنے لگے چلو ایک صاحب پڑوس سے آئے ہیں میرے دوست ہیں ان کی کمر میں چُک آگئی ہے تم اُن کی کمر پر اپنے سیدھے پیر کی ایڑی رکھ دو، پہلے تو میَں سمجھا ہی نہیں،میَں نے آنکھیں ملتے ہوئے ساتھ ہی ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ کیا ہوا ہے ؟پاپا( والد صاحب کو ہم پاپا کہا کرتے تھے)، انہوں نے وہی جملہ پھر دہرایا، میَں نے انتہائی ادب سے کہا کہ میں کوئی پہلوان، ہڈی جوڑ نے والایا مالشیہ ہوں، کہنے لگے ،نہیں بھئی، بات یہ ہے کہ کیونکہ تم الٹے پیدا ہوئے تھے اس لیے تمہارے پیر کی ایڑی میں یہ تاثیر ہے کہ اگر کسی کی کمر میں چُک آ جائے تو تمہارے اس عمل سے اس کی تکلیف دور ہوجائے گی۔ ابا جان کا حکم تھا،مجال نہیں تھی کہ چوں چرا کی جاتی، خاموشی سے آنکھیں ملتا ہوا ڈرائنگ روم میں گیا وہ صاحب فرش پراوندھے منہ پڑے تھے،میَں نے جاکر ویسا ہی کیا جیساابا جان نے کہا۔بعد میں بھی اس قسم کے واقعات میرے ساتھ ہوئے۔ جس طرح دنیا میں بے شمار قسم کی فضولیات اور تواہمات ہیں، یہ بھی انھی میں سے ایک ہے۔

چار سال کی عمر سے پہلے کی باتوں کا مجھے ہوش نہیں ہے۔ ایک خواب کا سا خیال ہے کہ میَں اپنے دادا کے ساتھ بہار کالونی کی جامع مسجد میں نماز پڑھنے گیا تھا، ایک دن دادا نماز پڑھنے میں مصروف تھے میَں مسجد کی چھوٹی سے دیوار پر چڑھ کر بیٹھ گیااور بلند آواز سے اُس زمانے کا ایک مشہور گانا ’’اے میرے دل کہیں اور چل اس دنیا سے دل بھر گیا‘‘ گانے لگا، دادا کو میری یہ حرکت بری نہیں لگی بلکہ انہوں نے گھر آکر خوش ہو ہو کر سب کو میری اس حرکت کے بارے میں بتا یا، اس زمانے کا ایک اور واقعہ جو میری نظروں کے سامنے کبھی کبھی آجاتا ہے وہ میرے دادا کا اس دنیا سے رخصت ہونا ہے، مجھے یاد پڑتا ہے کہ ان کا انتقال ہوا تو انھیں بہار کالونی والے گھر ہی میں پلنگ کھڑے کرکے ان پر چادریں ڈال کر غسل دینے کی جگہ بنائی گئی تھی ،میَں بار بار اس جگہ آجایا کرتا لوگ مجھے وہاں سے بھگا دیا کرتے۔ کچھ بڑا ہوا توبہار کالونی والے گھر سے آگرہ تاج کالونی والے جھونپڑی نما گھر منتقل ہونا یاد ہے، ایک چھوٹا سا کمرہ جس کی چھت ایس بسٹاس کی شیٹوں کی تھی، صحن کی چار دیواری سرکنڈوں کی، بارش میں چھت درمیان سے ٹپکا کرتی اور ہم اپنے پلنگ کبھی اِدھر کبھی اُدھر کرلیا کرتے ۔ غسل خانہ علیحدہ ،لازمی اثاث البیت Toilet) (قدیم طرز کا جس کے دروازے پر ٹاٹ کا پردہ پڑا ہوا ، رفتہ رفتہ گھر پکا ہوتا گیا لیکن تمام کمروں کی چھت ایس بسٹاس ہی کی تھیں، سردیوں میں سرد،گرمیوں میں گرم اوربرسات میں اﷲ کی رحمت اندر آیا کرتی لیکن گھراپنا تھا، یہی خیال ہم سب کو خوش و خرم رکھا کرتا، اسی گھر اوراسی ماحول میں ہم سات بہن بھائی پروان چڑھے اور بڑے ہوئے۔

بچپن میں خاموش طبع تھا،مجال ہے کہ کسی کے سامنے کوئی بات کرلوں، مجھے گونگے شاہ کا خطاب بھی ملا ہوا تھا۔میٹرک کے بعد جوہر کھلے ، اسٹیج پر بولنا ، مجمعے کے سامنے تقریر کرنا ، پروگراموں کی کمپیر نگ کرنا، تقریری مقابلوں میں حصہ لینا عام سی بات ہوگئی۔پڑھائی میں مشکل سے پاس ہونے والا،کھلنڈرا قسم کاتھا، عام طور پر احباب کا خیال یہی تھا کہ یہ مشکل سے میٹرک کر لے تواسے کسی ٹیکنیکل کام میں لگا دیا جائے ، ہوا بھی ایسا ہی ،ابھی انٹر ہی کیا تھا یار لوگوں نے پاکستان مشین ٹول فیکٹری میں اپرنٹس شپ میں بھرتی کرادیا،اس کا قصہ کچھ اس طرح ہے ،۱۹۶۸ء کی بات ہے میں انٹر کر چکا تھا، میرا تعلیمی ریکارڈ بہت نمایاں نہیں تھا ، بس نارمل تھا۔ ڈاکٹر یا انجینئر بننے کے کوئی آثار نہیں تھے۔ فیصلہ ہواکہ میں کوئی ٹیکنیکل لائن اختیار کروں، ساتھ ہی اپنی پڑھائی بھی جاری رکھوں۔چنانچہ میں نے عبداﷲ ہارون کالج میں شام کی شفٹ میں داخلہ لے لیا ۔ہمارے رشتہ کے ما موں لئیق احمد مرحوم پاکستان مشین ٹول فیکٹری میں ملازم تھے، انہوں نے مجھے فیکٹر ی میں شروع ہونے والی اپرنٹس شپ (Apprenticeship)میں بھر تی کرادیا۔ یہ خالصتاً ٹیکنیکل کام تھا۔ شروع کے دو ماہ لوہے کے ٹکڑوں کوبنچ (Bench) پر فِٹ کر نے کے بعد لوہے کی فائل کے ذریعہ مخصو ص طریقے سے گھسنا ہو تا تھا ۔ دو ماہ کے بعد کارکردگی کی بنیاد پر کوئی مشین مین بن جاتا ، کوئی خراد مشین(Lathe Machine) کا کاریگر تو کوئی بنچ فٹر ہی رہتا، مرَپِٹ کر میں نے دو ماہ گزارلیے اس کے بعد مجھ میں یہ ہمت نہیں تھی کہ میں اسے جاری رکھ سکتا ،چنانچہ میَں تو دوماہ بعد ہی بھاگ کھڑا ہو ا،یہ نرم و نازک ہاتھ تو قلم چلانے کے لیے تھے، ان سے لوہا کس طرح گھسا جا سکتا تھا۔ اس قدر سخت محنت کا کام میرے بس کی بات نہیں تھی۔ مجھے تو قلم چلانا تھا اور تعلیم کے میدان میں رہنا تھا خراد مشین کا’’خرادیہ‘‘ کیسے بن سکتا تھا۔

حساب کتاب سے مجھے شروع ہی سے الجھن تھی،یہی وجہ ہے کہ میٹرک میں حساب کا پرچہ مشکل سے پاس کیا تھا۔مرزا غالبؔ کا بھی حساب سے جی گھبراتا تھا ، ان کا کہنا تھا کہ’ انہیں جوڑ لگا نا نہیں آتا‘۔میٹرک پیلے اسکول سے پاس کیا،وہ دور پیلے اسکولوں ہی کا تھا،اُس وقت تعلیم کو لوگوں نے تجارت نہیں بنا یا تھا۔سرکاری اسکولوں اور کالجوں کا بڑا نام تھا، لوگ فخر سے کہا کرتے تھے کہ ہم نے کوتوال بلڈنگ، جیکب لائن، وسطانیہ، لیاری کواٹر، این جے وی میں پڑھا، ڈیجیرین ہونا بڑا اعزاز تھا، عبدالقدیر خان جیسے نامور لوگ ڈیجیرین ہیں۔میرا سرکاری اسکول کراچی میں پی اے ایف ماری پور اب اِسے’ بیس مسر ور ‘کہتے ہیں کہ کیمپ نمبر ۲ میں تھا۔ میرے گھر سے خاصا دور تھا،پیدل جانا مشکل ہو ا کرتا تھا، لفٹ لے لیا کرتے یا پھر سرکاری بسیں ہمارا مقدر ہوا کرتی تھیں۔اسکول کا ماحول صاف ستھرا نیم فوجیانہ تھا،اکثر اساتذہ کیمپس ہی میں رہا کرتے تھے، سول ادارے ہوتے ہوئے بھی فوجی ڈسیپلن تھا۔۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ ہوئی تو میں نویں جماعت میں تھا، ایوب خان کی تاریخی تقریر’’دشمن نے کس قوم کو للکارا ہے‘‘ ہم نے اپنے اسکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب کے آفس کے ریڈیو پر سنی تھی۔ کیمپس میں کرکٹ گراؤنڈبہت عمدہ تھے، کرکٹر امتیاز احمد کو اسی جگہ کھیلتے دیکھا تھا، اسکول کے دوست فوجیوں کی اولادیں ہی تھیں، یقینا ان میں سے اکثریت نے فوجی ملازمت اختیار کی ہوگی۔بہت کم سے ملاقات ہوسکی۔ چند نام ہی ذہن میں ہیں ریاض، اختر، افتخار،اظہر، شمیم،ظفراﷲ نیازی جس نے ایک مرتبہ میری خاصی بٹائی کی تھی، طالبات بھی کلاس میں تھیں لیکن ان میں سے کسی کانام ذہن میں نہیں۔اساتذہ سب ہی محنتی، قابل اوراچھا پڑھانے والے تھے، جی چاہتا ہے کہ ان سب کے بارے میں کچھ نہ کچھ لکھوں پر طوالت ایسا کرنے سے روک رہی ہے،ان سب کے لیے محبت بھرا سلام عقیدت جو نام اب ذہن میں ہیں ان میں محمداحمد قریشی صاحب ، کلیم صاحب، محمد ظہیر صاحب ، امیر الہدیٰ صاحب،محمد احمد صدیقی (علیگ )،افسر صاحب، افسر صاحب ڈی ای او(DEO) بھی ہوئے ،فیض احمد شاہ مرحوم ، سلیم صاحب، زرین صاحب، اکرام صاحب مرحوم ان کا جوانی میں ہی انتقال ہوگیا تھا ،مسیز مرتضیٰ اور مسیز شمیم شامل تھیں۔ظہیر صاحب اور امیر الہدیٰ صاحب ایجو یشن سپروائیزر ہوگئے تھے۔

ایف ایس سی سندھ مسلم کالج سے کیا،یہاں پروفیسر کوہاٹی پرنسپل ہوا کرتے تھے، لحیم شحیم، صحت مند اور با رُعب انسان تھے، ان کے سامنے کوئی پرندہ پر نہیں مارسکتا تھا، جوں ہی ان کی گاڑی کالج گیٹ کے سامنے آکر رکا کرتی نیچے سے اوپر تک سناٹا چھا جا یاکرتا ، کالج کے اساتذہ میں پروفیسر اویس احمد ادیب، پروفیسر اسحاق اور پروفیسر چودھری صاحب اردو کے استاد ہوا کرتے تھے،پروفیسر سید لطف اﷲ صاحب تاریخ اسلام پڑھا یاکرتے تھے، یہ بعد میں میرے ساتھی اور دوست بھی ہوئے، بی اے عبد ا ﷲ ہارون کالج سے کیا، یہاں ہمارے پرنسپل فیض احمد فیضؔ صاحب تھے۔ فیض صاحب پر میرا خاکہ ’فیضؔ
میرا پرنسپل‘ میری خاکوں کی کتاب’جھولی میں ہیرے اور موتی‘ میں شامل ہے۔ دھیمے لہجے کے ساتھ ساتھ دھیمہ پن ان کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو تھا۔

گریجویشن کے بعد اکنامکس میں ماسٹر کرنے جامعہ کراچی کی دہلیز پر قدم رکھا ، اکنامکس میں ماسٹر کر کے بنکر بننے کا خواب دیکھ رہے تھے لیکن اکنامکس کے بجائے لائبریری سائنس کے شعبے میں داخل کرلیے گئے۔ شادی ہوئی، تین بچے بھی ہوگئے پر ہم نے اپنی پڑھنے اور لکھنے کی ڈگر نہ بدلی، شادی کے۱۰ سال بعد ایک ایم اے علمِ سیاسیات میں اور کر ڈالا،ہماراخیال تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد اگرعملی سیاست میں حصہ لینے کی ضرورت ہوئی تو سیاست کے یہ رموز کام آئیں گے لیکن نوبت ہی نہیں آئی، سیاست دانوں کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر صبح و شام کانوں کو ہاتھ لگا تے ہیں،اب تو سیاست نام ہے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کا، پیسے بنانے کا، کرپشن کرنے کا اور جان سے مار ڈالنے کا، ٹی وی پر جو روز سیاسی دنگل سجا ہوتاہے وہی کافی ہے عبرت والوں کے لیے۔

پڑھائی کا بھوت بدستو رہمارے سر پر سوار رہا، کہتے ہیں چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے،ہم مسلسل اس چکر میں رہے کہ کسی طرح پی ایچ ڈی کرنے کا موقع مل جائے، نہ معلوم کیوں جیسے جیسے ہمارے مضامین اور کتابیں منظر عام پر آرہی تھیں پی ایچ ڈی کرنے کی ہوس بڑھتی ہی جارہی تھی، یہاں آکر دوستوں نے ہری جھنڈی دکھا دی، وہ دوست جواس پوزیشن میں تھے کہ ہمارا ہاتھ تھام لیتے ، تیرنا تو ہم نے خود ہی تھا، بس ڈوبتے کو تنکے کے سہارے والی بات تھی ، انہوں نے ایسی کنی کاٹی کے خود تو تیر کر ساحل پر جالگے، ہم رہ گئے وہیں پرکھڑے کے کھڑے، پرہمارے باطن میں جو دیا روشن ہوا تھا اس کی روشنی ماند نہیں پڑی،ہم نے بھی ہمت نہیں ہاری، ایک جانب عمر کے ماہ و سال ہمیں تیزی سے بڑھاپے کی جانب رواں دواں کیے ہوئے تھے دوسری طرف خواہش تھی کہ اس میں ذرہ برابر کمی نہیں آرہی تھی بلکہ روزبہ روز جوان ہی ہورہی تھی، با لآخِر ۲۰۰۳ء نے دستک دی، میرا ہمدرد یونیورسٹی میں جانا ہواہی کرتا تھا،بیت الحکمہ(ہمدرد لائبریری) کے ڈائریکٹرپروفیسر حکیم نعیم الدین زبیری جوہمدرد انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانس اسٹڈیزاینڈ ریسرچ کے ڈائریکٹر اور جامعہ ہمدرد کے ’لائف پروفیسر‘ بھی تھے،میری ان سے مراسم کی نوعیت قدیمی تھی، عمر کے فرق کے باوجود دوستانہ مراسم تھے۔ ایک دن ان سے تحقیق پر گفتگو ہوئی ، میَں نے ایک موضوع کا اظہار کیا کہ اس موضوع پر کام کیا جاسکتا ہے،ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ پی ایچ ڈی سے نیچے بات نہیں ہوگی یعنی ایم فل نہیں کروں گا، انہوں نے میری بات سے اتفاق کیا اور مجھے اس موضوع پر synopsisتیار کرنے کو کہا، میَں تو تیار ہی بیٹھا تھا اور ٹاپک بھی اپنی پسند کا، پھر کیا تھا، رات دن لگا کرایک خاکہ تیار کیا اوران کے پاس لے گیا۔ انہوں نے معمولی سی کانٹ چھانٹ کی اور پی ایچ ڈی کا پہلا پتھر رکھ دیا گیا، داخلے سے پہلے ہی کام بھی شروع ہوگیا، جب بھاری بھر کم سپر وائیز رہنمائی کے لیے تیارہو تو پھر کیا چاہیے تھا، ہم نے کام شروع کردیا۔

جون۲۰۰۳ء میں کام شروع کر دیا گیا، میَں نے فیصلہ کیا کہ دو سال میں کام مکمل کر لونگا، یہی ہوا، میَں رات رات بھر کام میں لگا رہتا،مجھے مواد کے حصول میں مشکل پیش نہیں آئی، میری ذاتی لائبریری میں اس موضوع پر وافر مواد موجود تھا، 2006 ء میں تھیسس جمع کرا دیا، تھیسس تو مکمل ہوگیا لیکن جاتے جاتے مجھے ایک ایسا تحفہ دے گیا جو میری باقی ماندہ زندگی میں میرے ساتھ رہے گا وہ ہے میرے کمر کے مہروں کی تکلیف ، مسلسل اور زیادہ کمپیوٹر پر کام کرنے کے نتیجے میں میَں ریڑھ کی ہڈی کے مہروں کا مریض بن چکا تھا ۔ مارچ ۲۰۰۹ء میں میَں ریٹائر بھی ہوا اور مجھے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔

لباس انسان کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ میَں نے کالج میں ملازمت کے دوران کبھی شلوار قمیض نہیں پہنی، ہمیشہ پینٹ شرٹ، سوٹ یا سفاری سوٹ پہناکرتا، یہ نہیں کہ شلوار قمیض میں کوئی برائی ہے بس یہ میرا مزاج تھا،میرے گھر کا لباس کرتا شلوار ہی ہے، پینٹ شرٹ کے نیچے چپل پہنے ہوئے لوگ اچھے نہیں لگتے، کھانے میں ہرشے کھالیتا ہوں، لیکن چاول اور کالی مسور کی دال جسے کھڑی مسور کی دال بھی کہا جاتا ہے ،ہری مرچ اور پودینے کی چٹنی، اچار اور سلاد کے ساتھ پسندیدہ ڈش ہے، سبزیوں میں بینگن سخت نا پسند ہیں، پھلوں میں کینو پسندیدہ ہیں، مٹھائی میں کچھ بھی پسند نہیں، بس جو سامنے آجائے چکھ لیتا ہوں، کھانے کے دوران چپَ چپَ کی آواز نکالنے والوں کا گلا کاٹنے کو جی چاہتا ہے، چائے پیتا ہو ا وہ شخص بھی اچھا نہیں لگتا جو سڑپ سڑپ کر کے چائے پیے،کھانا کھانے کے دوران اس بات کا خیال نہ رکھنے والے کہ ان کے منہ کے اطراف خصو صاً داڑھی یا مونچھوں پر کچھ لگ گیا ہے،ایسے لوگ سامنے والے کا کھانا بد مزہ کردیتے ہیں ۔بچپن میں ہم نے ایک اصطلاح ایجاد کی تھی وہ یہ کہ جب ہم سب مل کر کھانا کھارہے ہوتے اور کسی کے منہ پر کچھ لگ جاتا تو اس وقت کہا جاتا ’شاخ پے اُلو‘، یہ جملہ سن کر ہر شخص اپنا اپنا منہ صاف کرنے لگ جاتا۔جس کسی کے منہ پر کچھ لگاہوتا وہ خود بہ خود صاف ہو جاتا، اس طرح بات بھی بن جاتی کسی کو برا بھی نہیں لگتا تھا۔کسی کی دل آزاری مجھے اچھی نہیں لگتی،کوشش ہوتی ہے کہ میرے عمل سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔بر داشت اور درگزر کا مادہ مجھ میں بدرجہ اتم پایا جاتا ہے، میں اپنی زندگی میں ا پنوں اور غیروں کی چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی ، کڑوی کسیلی حتیٰ کہ تیر و نشتر اپنے اندر خاموشی سے محفوظ رکھتا رہا ہوں،مجھے اپنی حیثیت و مقام کا ہمیشہ احساس رہایہی وجہ ہے کہ میَں ساری زندگی زبان بندکیے رہا، اپنے لبوں کو سیے اور منہ کو تالا لگائے رہا، میرے صبر کو بارہا آزمایا گیا،میری خاموشی کو توڑنے کے لیے ہزار حربے استعمال کیے گئے، پر میَں نے چپ کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا، اس کا نقصان بھی ہوا لیکن فوائد زیادہ حاصل ہوئے، معدہ خراب نہیں ہوا، بد ہضمی نہیں ہوئی، جگر، گردے، پھیپڑے سب کچھ ہی ٹھیک رہابس ایک دل نے آخر میں آکر گڑ بڑ کردی۔

قدرتی حسن اور نزاکت کا قدر دان ہوں، میک اپ زدہ کو دیکھ کر دل خراب ہونے لگتا ہے۔ ضرورت سے زیادہ موٹاپے سے اﷲ بچائے۔

خواتین پردے میں بھلی لگتی ہیں،سعودی عرب میں خواتین کو عبایاپہننا لازمی ہے ، وہ اس میں اچھی بھی لگتی ہیں۔ زیادہ آزادی خرابی کا با عث ہوتی
ہے۔ہمارے ملک میں بہت سی برائیاں اسی وجہ سے ہیں۔ پہلی بار سعودی عرب گیا، عمرہ کیا اور کئی ماہ وہاں گزارے اس لیے کہ میرے دونوں بیٹے ایک جدہ میں دوسرا جیذان میں تھا ۔ خواتین کے عبایا سے متاثر ہوکر یہ قطعہ کہا ؂
حسُن و جمال تھا کیا خوب
عبَا و قباَ تھا کیا خوب
اوڑھ لی ہو جیسے چادر نور کی
چودھویں کی رات تھی کیا خوب

شہروں میں اپنے کراچی کی کیا بات ہے، کبھی یہ روشنیوں کا شہر ہواکرتا تھا، اب تو سیاست نے اس شہر کا حلیہ ہی بگاڑ کے رکھ دیا ہے، لاہور بھی کم اچھا نہیں، اب تو مجھے سرگودھا بھی اچھا لگنے لگا ہے۔اسلام آباد میں مصنوعیت اور دکھاوانمایاں ہے۔ پاکستان سے باہر سعودی عرب کی کیا بات ہے، مکہ دل کا سکون ہے تومدینہ راحتِ جان ، جی چاہتا ہے کہ دن مکّہ میں گزرے تو رات مدینے میں وہ بھی روضہ رسول صلی اﷲ علیہ و سلم کے سا منے یہ سب نصیب کی بات ہے جسے چاہا در پہ بلا لیا ، جسے جاہا اپنا بنا لیا، یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے ، یہ بڑے نصیب کی بات ہے۔

بات سعودی عرب کی چلی تو جناب میَں۲۹ مئی ۲۰۱۱ء کو سعودی عرب پہنچا اورپانچ ماہ(جون تااکتوبر۲۰۱۱ء) یہاں رہنے کی سعادت نصیب ہوئی،خانہ کعبہ کو پہلی بار اپنی آنکھوں سے دیکھاکعبہ پر پڑنے والی پہلی نظر کو کبھی بھلایا نہیں جاسکتا، کس قدر حسین منظر تھا،کیا خوبصورتی تھی، نور ہی نور، میَں اس کے بعد بے شمار مرتبہ خانہ کعبہ گیا، بہت بہت دیر سامنے رہا ، کئی فرض نمازیں اس طرح ادا کیں کہ میرے اور خانہ کعبہ کے بیچ کچھ نہیں ہوتا تھا اور فاصلہ مشکل سے دو گز، یعنی اول صف میں، کعبہ شریف کو بالکل قریب سے دیکھا، چھوا،چمٹا،لپٹا،التجائیں کیں، حرم کی چوکھٹ کو پکٹر کر روتا رہا ،گِریَہ و زاری کرتا رہا، اﷲ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتا رہا،حرم کی چوکھٹ کے بالکل نیچے کھڑے ہوکر مسلسل آنکھیں ٹھنڈی کرنے کی سعادت نصیب ہوئی، حجرِاسود کے کئی بوسے لینے کی سعادت ملی، لیکن پہلی نظر کا منظر بھلائے نہیں بھولتا، جب بھی کعبہ شریف کا خیال آتا ہے وہی پہلی نظر کا منظر نظروں کے سامنے گھوم جاتا
ہے، رہی بات مانگنے اور دعا کی، تو اپنی اس کیفیت کو اشعار میں میَں نے اس طرح بیان کیا ہے ؂
مانگنے تو بہت کچھ گیا تھا ، پر ہوا عجب حال
تھے اشک جاری ، اندر تھا ایک تلاطم بر پا
سوچتا ہی رہا کروں پیش اپنی سیاہ کاریاں
نہ دل نے دیا ساتھ نہ زباں پہ ہی کچھ آسکا

میَں نے پہلا عمرہ اپنی شریکِ حیات شہناز، بیٹے عدیل اور نبیل، اپنی چھوٹی بہو ثمرا نبیل کے ہمرہ جمعہ ۳ جون۲۰۱۱ء یکم رجب ۱۳۳۲ھ کوکیا، میری انجوپلاسٹی کو ابھی ڈیڑھ ماہ ہی ہوا تھا ، مجھ میں اتنی طاقت اور حوصلہ نہیں تھا کہ طواف کے سات پھیرے اور صفا و مروا کے ساتھ چکراز خود چل کرکرسکتا ،ان دنوں حرم شریف میں رش بھی زیادہ تھا، چنانچہ وہیل چیٔر لے لی گئی ، خانہ کعبہ کے سات طواف عدیل نے وہیل چیٔر چلائی اور صفا و مروا کے درمیان سات پھیروں میں چھوٹے بیٹے نبیل نے مجھے کھینچا، دونوں بیٹوں کو اپنے عمرہ کا ثواب تو ملا ہی، ساتھ ہی میری ویل چیٔرچلانے کا ثواب بھی حاصل ہوا ہوگا۔ اس دوران میَں دیگر دعاؤں کے ساتھ یہ بھی دعا کرتا رہا کہ پروردگار جب تو نے مجھے یہ سعادت عطا کی کہ اپنے گھر بلالیا تو مجھے یہ بھی توفیق عطا فرما کہ آئندہ میں خود چل کر یہ سعادت حاصل کرسکوں، اﷲ نے میری یہ دعا قبول فرمائی اور میَں نے بعد میں کئی عمرے اور متعدد طواف خود چل کر کیے۔ زیادہ قیام جدہ میں بڑے بیٹے عدیل کے پاس تھا، شروع میں تو عدیل اپنے ساتھ حرم شریف لے جاتا رہا لیکن پھر ہم دونوں نے سوچا کہ ہمیں از خود ہی ہمت کرنی چاہیے اور ایسا ہی ہوا، دونوں میاں بیوی جدہ سے مکہ جانے لگے، کعبہ شریف کے خوب خوب پھیرے لیے، مقام ملتزم، مقامِ ابراہیم ،میزابِ رحمت پر دعائیں کیں،حَطِیم میں نمازیں ادا کیں، صفا و مروہ کے چکر کیے ، حجر اسود کے خوب خوب بوسے نصیب ہوئے، آب زم زم جتنا پی سکتے تھے پیا۔ کعبہ شریف کی قربت کا خوب خوب موقع ملا ، حسرت پوری کی، انسان اور اﷲ کا معاملہ ایسا ہے کہ دل ہی نہیں بھر تا،ہم طواف کرکے گھر پہنچتے اور آئندہ جانے کی باتیں شروع کردیا کرتے ۔ مدینے میں بھی حاضری ہوئی،مدینے کی ٹھنڈک کا کیا کہنا، سعادت اور نصیب کی بات ہے۔اپنی اس کیفیت کو میَں نے اس طرح
بیان کیا ہے ؂
کچھ ایسی تصویر بس گئی ہے دل میں کعبہ شریف کی
آنکھوں میں ہر دم رہتی ہے تصویر کعبہ شریف کی
پیاس بجھی ہے ، نہ بجھے گی یہ تو ہے مجھے معلوم
پھر بھی اک چاہت سی لگی رہتی ہے کعبہ شریف کی
ایک باراور جاؤں ، پھرجاؤں اور جاکرواپس نہ آؤں
بس یہی اک تدبیر سی لگی رہتی ہے کعبہ شریف کی

حر م کے میدان میں باب الفتح کے سامنے، باہر کی جانب ،پہاڑ کے دامن میں قائم اپنے پیارے نبی کی پیدائش گاہ ( مَو لِدُ النبِی) صلی اﷲ علیہ و سلم کو دیکھا، اس گھر کی تعمیر نو کر کے یہاں اب ایک عوامی کتب خانہ (مکتبہ مکہ المکرمہ)قائم کردیا گیا ہے۔ یہ جگہ مولدِ نبی کے نام سے ہی جانی جاتی ہے،’ الکردی خاندان‘ کے ’ماجد کرد‘ سے ’’مجیدیہ لائبریری‘‘ جو ان کی ذاتی لائبریری تھی خریدی گئی، یہ لائبریری نایاب اور قیمتی کتب پر مشتمل ہے۔ کتابیں سلیقے سے دیدہ زیب الماریوں میں ترتیب وار رکھی ہیں۔ کتب خانے کے مدیرکا کمرہ(آفس) وہی جگہ ہے جہاں پرہمارے نبی حضرت محمدصلی اﷲ علیہ و سلم کی دنیا میں آمد ہوئی، یہ بات مجھے مدیر مکتبہ (لائبریرین) یَسلم بن عبدالواحد بن یَسلم بَاصَفَارنے ہی بتائی، الحمد اﷲ مجھے اس کمرے میں بیٹھنے اور کچھ وقت گزارنے کی سعادت نصیب ہوئی ، یسلم صاحب سے جب میَں نے اپنا تعارف کرایا تو انہوں نے مجھے خصوصی توجہ دی، اپنے آفس میں لے گئے، قہوا پلایا، کتب خانے میں موجود قدیم اور نادر کتب کے بارے میں بھی معلومات فراہم کیں۔ یَسلم بن عبدالواحد بن یَسلم بَاصَفَار اہل بیت میں سے ہیں، جامع مسجدامام البخاری کے امام وخطیب بھی ہیں ۔ جدہ میں ا ماں حوا کے مقبرہ پر بھی حاضری کا موقع ملا، قدیم قبرستان کو مقبرہ حوا کا نام دیا گیا ہے اس میں اور بھی بے شمار قبریں ہیں، قبروں پر نمبر بھی ڈلے ہوئے ہیں لیکن اماں حوا کی قبر کا کوئی مخصوص نشان نہیں، نہ ہی یہاں کے ملازمین کے علم میں ہے کہ اماں حوا کی قبر کون سی ہے۔سعودی عرب میں قبروں کے نشانات کہیں بھی نہیں، جنت المعلیٰ، جنت البقیع اور دیگر قبرستانوں میں کسی بھی قبر پر کوئی نشان نہیں ملتا ۔

فیفاء میں میرا چھوٹا بیٹا نبیل فیفاء جنرل اسپتا ل میں ڈاکٹر تھا، محسوس ہوتا تھا کہ پاکستان کے علاقے مری، ایوبیہ، نتھیا گلی، بارہ گلی میں آگئے ہیں، اسپتال بھی پہاڑ کی چوٹی پر ، اس کا گھر بھی پہاڑ کی چوٹی پر، ہم گھر سے باہر نکلتے یا ٹیکسی سے اتر کر گھر میں جاتے تو ہماری چال اے آر وائی(ARY) کے ڈرامے ’’بلبلے ‘‘ والی’ مومو‘ کی طرح ہوا کرتی تھی، پہاڑی علاقوں کا موسم عام طورپر سر د ہی ہو ا کرتا ہے، فیفاء کا موسم بھی سرد، خوش گوار اور صحت افزا تھا،بارش کا ہونا معمول تھا، اکثر بارش کے ساتھ اُولے بھی گرا کرتے، یہاں ائیر کنڈیشن کی ضرورت نہیں ہوتی، اسے میَں نے دیہات لکھا ہے، اس کی وجہ یہ کہ یہاں کے مکینوں کی اکثریت وہ لوگ ہیں جن کا لباس سعودیوں سے مختلف ہے، ہمارے دیہاتیوں کی طرح یہ دھوتی(فوطہ) پہنتے ہیں، وہ بھی رنگ برنگی، آدھی پنڈلیاں کھلی ہوئی ،اوپر قمیض اس پرکوٹ، دونوں بے رنگے اور بے ڈھنگے ، دھوتی کو کمر پر خوب اڑسا ہوا کہ یہاں موٹی تہہ بن جاتی ہے،کمر پر ایک چوڑی بیلٹ بندھی ہوتی ہے، عام طور پر عمرہ یا حج کے دوران جو بیلٹ استعمال ہوتی ہے یہ اُسی طرح کی بیلٹ (عصال )ہوتی ہے، اس بیلٹ کے بالکل سامنے ناف پر ایک خنجر یا چاقو(سکِن) جس کا دستہ اوپر کی جانب واضح نظر آرہا ہوتا ہے لگائے رکھتے ہیں، سر پر ٹوپی کے بجائے رسی لپٹی ہوئی ہوتی ہے، اس میں درخت کی چھوٹی چھوٹی ٹہنیاں جس میں پتے اورپھول لگے ہوتے ہیں لگائے رکھتے ہیں۔یہ لباس بوڑھے اور جوان دونوں کا ہوتا ہے ۔ ’گات ‘ کھانا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔

دوست بنا نے کا قائل ہوں، دوستی بگاڑنے کا قائل نہیں ، میَں نے زندگی میں اپنے دوستوں کو ممکن حد تک کانچ کے گلاسوں کی طرح سنبھال سنبھال کر رکھا ہے ، جس کسی سے تعلقِ دوستی قائم ہوگیا اس سے ناتاجوڑے رکھا، بے شمار دوستوں کی ناپسند باتوں اور عادتوں کو محض اس وجہ سے درگزر کیاکہ تعلق دوستی جڑا رہے۔دوستی کے بارے میں میرا فلسفہ یہ ہے کہ ’’دوستی قربانی چاہتی ہے‘‘۔ دوستوں کی کڑوی کسیلی باتیں ، کسی حد تک نا پسندیدہ باتوں کو اس وجہ سے درگزر کیا جائے کہ دوستی کا بندھن قائم رہے۔ کچھ دوست اپنے مزاج میں انتہائی کڑوے، کسیلے، بد مزاج بھی ہیں ان کی بدمزاجی اورتیزابیت کو
برداشت کیے رہا ، ان سے دوستی قائم ہے۔ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مجھے اپنی اس سوچ کے خلاف فیصلہ کرنا پڑا، اس لیے کہ میں مجبور کردیا گیا کہ میں بعض احباب سے رسم تعلق منقطع کرلوں اور میں نے بادلِ نہ خاستہ ایسا کیا۔سینما میں فلم دیکھنے کا شوق کبھی نہیں رہا، شادی کے بعد بیگم کے ساتھ صرف ایک بار سینما میں فلم دیکھنے گیا،کلاسیکل میوزک پسند ہے، غزلیں سننا اچھا لگتا ہے، مہدی حسن، گلشن آرا سید،منی بیگم،تصور خانم،اقبال بانوکی گائی ہوئی غزلیں روح کو تسکین پہچاتی ہیں۔ تاش تو کھیل لیا کرتا ہوں لیکن برج،پچیسی، شطرنج کھیلنا ہی نہیں آتی اور نہ ہی کبھی کھیلی۔ گھر کے کاموں میں بیوی کی مدد کر کے خوشی محسوس کرتا ہوں، جھاڑو دینا اچھا نہیں لگتا، برتن دھولیتا ہوں، صفائی بھی کرلیتا ہوں، اپنی کتابوں کی صفائی ستھرائی از خود کرتا ہوں۔ جب بیٹی گھر پر تھی تو وہ کام کرنے نہیں دیا کرتی تھی اب بہوؤیں موجود ہوں تو کام کرنا ممکن نہیں، جب دونوں گھر پر نہ ہوں تو آزادی سے بیوی کا ہاتھ بٹادیاکرتا ہوں۔بیوی پر رُعب نہیں جماتا، کوشش کرتا ہوں آواز دھیمی رہے اور بات بنی رہے۔ آہستہ چلتا ہوں، قدم چھوٹے اُٹھاتا ہوں ، اکثر بیوی کے ساتھ چلتے ہوئے بیوی کو ٹوکنا پڑتا ہے کہ وہ بھی آہستہ چلے۔ہنستا ہوں قہقہا نہیں لگا تا، ہنستے ہوئے آواز بلند نہیں ہوتی، وقت کی پابندی کی کوشش کرتا ہوں، کیا ہوا وعدہ پورا نہ کرسکوں تو کئی دن پریشان رہتا ہوں۔محبت کس نے نہیں کی، میَں نے بھی کی ،بہت ہی حسین چیز سے جس کا نام ہے لکھنا اور پڑھنا، محبت ہے کتابوں سے ، کھاریوں سے اور کتابوں سے محبت کرنے والوں سے۔

قلم کاروں میں شوکت صدیقی، اشفاق احمد، شاعرو ں میں میرؔ،غالبؔ، اقبالؔ، فیضؔ ،فرازؔ،پروین شاکر، سنجیدہ لکھاریوں میں ممتاز مفتی، خاکہ نگاروں میں حالیؔ، رشید احمد صدیقی، مولوی عبدالحق، فرحت اﷲ بیگ، ڈاکٹر اسلم فرخی، ڈاکٹر سلیم اختر، مبین مرزا، انور سدید، پروفیسر صابر لودھی ، مزاح نگاروں میں مشتاق احمد یوسفی ،ابن انشاء ،ڈاکٹر یونس بٹ ،کالم نگاروں میں زاہدہ حنا ، الطاف حسن قریشی، سیاست دانوں میں قائد اعظم محمد علی جناح، ذوالفقار علی بھٹو،سائنسدانوں میں ڈاکٹر عبد القدیر خان ،ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی ،اداکاروں میں شمیم آ را، دلیپ کمار، گلوکاروں میں مہدی حسن،نور جہاں، گلشن آرا سید، ایسے اداکار ہیں جنھیں پڑھ کر، دیکھ کریا سن کر طبیعت پر خوش گوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں میں عبد الستار ایدھی، حکیم محمد سعید،ڈاکٹر محمود حسین، ڈاکٹر عبد المعید، ڈاکٹر طاہر تونسوی ،سے متاثر ہوں۔

لکھنا اور چھپنا بھی ایک طرح کا نشہ ہوتا ہے، جس طرح سگریٹ، پان، شراب نوشی، افیون،بھنگ،ہیروئن اورگھات کے عادی اپنی جان لاکھ چھڑائیں ان کے لیے مشکل ہو جا تا ہے اس سے آزاد ہونا اسی طرح لکھنا اور پھر چھپنا بھی ایسا ہی نشہ ہے جس کو لگ جاتا ہے اس سے آزاد نہیں ہوپاتا۔ میَں بعض لکھاریوں کی طرح ہر چیز ایک ہی نشست میں لکھنے کا عادی نہیں بلکہ لکھنے کے معاملے میں قدرِے مختلف واقع ہوا ہوں، ایک وقت میں کئی کئی مضامین بشمول کتاب کا لکھنا جاری رکھتا ہوں، جب لکھنے کے لیے قلم کاغذ استعمال ہوتا تھا،اس وقت کئی کئی فا ئلیں کھلی ہوا کرتی تھیں، جب سے کمپیو ٹر سیکھ لیا اور انگریزی اور اردو لکھنا شروع کرد ی، تو قلم ہاتھ سے جاتا رہا، اب ایک فولڈر میں کئی کئی موضوعات کی فائلیں بنی ہوتی ہیں۔ گویا اب کمپیوٹر ہی قلم ہے اور کمپیوٹر ہی کاغذ، کسی بھی ایک موضوع پر میَں زیادہ دیر تک نہیں لکھ سکتا، طبیعت جلد اکتا جاتی ہے۔ بعض لکھاری ایک مضمون شروع کرتے ہیں اور اسے ختم کرکے ہی دم لیتے ہیں، اپنا اپنا طریقہ واردات ہے۔لکھنا کب شروع کیا یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا، جامعہ کراچی میں ایم اے(۷۱ء۔۱۹۷۲ء) کرنے کے دوران باقاعدہ لکھنے کی جانب رغبت ہوئی، ۱۹۷۵ء میں میری پہلی کتاب شائع ہوئی ، یہ میرا ایم اے کا مقالہ تھا، ۱۹۷۷ء میں کتب خانوں کی تاریخ پر دوسری کتاب شائع ہوئی، پہلامضمون اسلامی کتب خانوں کے بارے میں تھا جو کراچی کے ایک ماہ نامہ ’’ترجمان‘‘ میں جنوری ۱۹۷۸میں شائع ہوا۔ سوانحی مضامین لکھنے کی ابتدا بھی۱۹۷۸ سے ہوئی، پہلا سوانحی مضمون خلیفہ چہارم حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہا پر تھا جو ماہ نامہ ’ترجمان‘ کی اگست ۱۹۷۸ کی اشاعت میں شامل ہوا۔سوانحی مضامین سے میَں خاکوں اور رپوتاژ کی جانب آیا۔ پہلی رپوتاژ اپنی بیٹی’ سحر‘کے انتقال پر ۱۹۸۰ء میں لکھی جو ’ادب و کتب خانہ‘ میں شائع ہوئی،یہ میری کتاب ’یادوں کی مالا‘ میں بھی شامل ہے۔ اِسی سال اپنے جد امجد شیخ محمد ابرہیم آزادؔ پر میرا مضمون قصور سے شائع ہونے والے رسالے ’انوارالصوفیہ‘ میں شائع ہوا،۱۹۷۸ء ہی میں لائبریری سائنس کے موضوع پر پہلا مضمون ’پاکستان لائبریری بلیٹن‘ میں شائع ہوا، میری کتابوں کی تعداد۳۳ ہوچکی ہے جب کہ ۳۰۰ سے زیادہ مضامین شائع ہوچکے ہیں۔ عطا ء الحق قاسمی نے اپنے ایک کالم ’’پچاس سالہ قلمی سفر‘‘ میں لکھا تھا کہ ’’ایک لکھنے
والے کی اصلی عمر وہی ہوتی ہے جو اس کی لکھنے پڑھنے میں گزرتی ہے‘‘، میری اولین کاوش ۱۹۷۵ء میں منظر عام پر آئی تھی، اس طرح میراقلمی سفر ۴۰سالوں پر محیط ہے، اب آپ کو میری عمر کا بھی اندازہ ہو گیاہوگا۔

جمعہ ۷ دسمبر ۱۹۵۱ء کی بات ہے، میری چھوٹی خالہ ذکیہ خاتون کے ہاں شام پانچ بجے کراچی سے سیکڑوں میل دور اندرون سندھ ’تھاروشاہ‘ میں پہلی لڑکی کی ولادت ہوئی، نام ’شہناز‘ رکھا گیا، میرے والد صاحب نے پانچ بج کر پانچ منٹ پر ریڈیو پر اعلان کردیا، اس وقت ٹی وی تو تھا نہیں وگر نہ جیو پر اعلان ہوتا کہ ’یہ لڑکی میری ہوئی‘،اس وقت میری عمرپونے تین سال تھی،میَں حیرت و یاس کی مورت بنا اپنے ابا کی بات کو غور سے سن رہا تھا ، میری قسمت کا فیصلہ بغیر مال دیکھے کس بے باکی اور دھڑلے سے کر رہے تھے، کہتے ہیں کبھی زبان سے نکلی کوئی خواہش اﷲ تعالیٰ سن لیتا ہے، شاید یہ بھی قبولیت کی گھڑی تھی،اﷲ نے میرے اباکی یہ خواہش سن لی،فرشتوں نے پکے رجسٹر میں ہمارے نام لکھ کر مہر ثبت کر دی ، میَں نے بھی بڑے ہوکر اپنے والدین کے فیصلے کو خوش دلی سے قبول کیا اس دوران نظریں اِدھر اُدھر بہکی بھی خاص طور پر جامعہ کراچی کی چکا چوند روشنی نے متاثر بھی کیا لیکن اﷲ نے ثابت قدم رکھا ،۲۸ سال بعد ۱۹۷۵ء میں میَں اور شہناز شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ چوتھی دھائی آدھی گزر چکی ہے بندھن قائم ہے، کب تک قائم رہتا ہے ، یہ خدا کو معلوم، مختلف جہات سے مکمل شریک سفرہیں ،مزاج شناس، ہم نوا اور ہم قدم بھی، ہم مکہ، مدینہ، جدہ ، فیفا (جیذان) کے پھیرے ساتھ ساتھ کرچکے ہیں۔اﷲ نے
دوبیٹوں عدیل اور نبیل ، بیٹی فاہینہ سے نوازا، پوتے صائم عدیل اور ارسل نبیل، نواسہ ارحم اور نواسیاں نیہا اور کشف میری کل کائینات ہے۔

کتابوں سے محبت اور انھیں سلیقہ سے رکھنے کی عادت شروع ہی سے ہے، ذاتی لائبریری کئی ہزار کتب پر مشتمل تھی۔ بڑھتی عمر اور اپنے ہی جیسوں کو جو کتابوں کو جمع کرنے کے شوقین تھے دنیا سے چلے جانے کے بعد ان کی لائبریری کا کیا انجام ہوا ۔ میں اس سے خوف زدہ رہنے لگا تھا۔ چنانچہ فیصلہ کیا کہ اپنی زندگی میں اپنی لائبریری کسی بہتر لائبریری میں محفوظ کرجاؤں۔ چنانچہ چند سو کتابیں گلبرگ میں قائم ناصر عارف حسین میموریل لائبریری و ریسرچ سینٹر کو ، کچھ کتابیں ڈاکٹر یوسف میمن لائبریری میر پور خاص اور باقی تمام کتابیں وفاقی جامعہ اردو کی لائبریری ’ڈاکٹر مولوی عبد الحق میموریل لائبریری‘ گلشن اقبال کیمپس کو عطیہ کردیں۔ ماب میرے ذاتی ذخیرہ میں وہی کتابیں ہیں جن موضوعات پر میں لکھ رہا ہوں جیسے شخصیات، خاکہ نگاری، کچھ شعراء کے کلام باقی رہ گئے ہیں۔

سرگودھا یونیورسٹی میں گزارے ہوئے میرے روز و شب یاد گار اور میری زندگی کا سرمایا ہیں۔سر کاری عہدہ ملازمت ختم کر چکا تھا، ڈاکٹر محمد فاضل صاحب جامعہ سرگودھا کے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس کے چیٔر مین تھے جن سے میرے مراسم کی نوعیت برادرانہ تھی، انھوں نے ازراہ عنایت میرا تقرر بحیثیت ایسو سی ایٹ پروفیسر کے اپنے شعبہ میں کرادیا، یہ ان کی عنا یت اور مجھ سے محبت تھی، میں نے بھی سرگودھا جانے کا فیصلہ کرلیا۔مئی ۲۰۱۰ء سے فروری ۲۰۱۱ء میں جامعہ سرگودھا میں تدریس کے فرائض انجام دیتا رہا۔

بیماریوں کے حوالے سے اپنی زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو محسوس یہی ہوتا ہے کہ میری پوری زندگی بیماریوں سے لڑتے جھگڑتے ہی گزری لیکن یہ بھی نہیں کہ ان بیماریوں نے مجھے کچھ کرنے نہیں دیا ، میَں نے اپنی ز ندگی بھر پور انداز سے گزاری، بیماریاں آتی رہیں اور علاج کے بعد میَں نارمل لائف
شروع کردیا کرتا تھا ؂
عمر توبیماریوں سے کھیلتے ہی گزری اپنی رئیسؔ
ایک دل ہی بچا تھا سو وہ بھی کرلے کسر پوری

دل کی تکلیف کیوں ہوئی؟ میَں تو عام زندگی میں بہت محتاط رہا تھا، خوش خوراک بھی نہیں ہوں، مرغن کھانے بھی نہیں کھائے، پھر میرے دل کو یہ کیا ہوا، کیوں اس نے اس عمر میں مجھے پریشان کیا، یہ راز اﷲ کے سوا کسی کو نہیں معلوم، بیماری بھی اﷲ کی طرف سے آیا کرتی ہیں، لگتا یہی ہے کہ مجھ سے ہی کوتاہی ہوئی اور میَں ہی اس کی صحیح دیکھ بھال نہ کرسکا ، بہ قول سیماب اکبر آبادی ؂
دل کی بساط کیا تھی نگاہ جمال میں
اک آئینہ تھا ٹوٹ گیا دیکھ بھال میں

میَں اعتدال پسند واقع ہوا ہوں، کبھی اپنی بساط سے بڑھ کر کوئی خواہش نہیں کی، ہمیشہ چادر کو دیکھ کر پیر پھیلا ئے ہیں، سادہ زندگی بسر کی ہے، فلیٹ خریدنے کی استعداد تھی سوفلیٹ ہی میں رہا، گاڑی کبھی بہت اچھی نہیں رکھی مہران پر اکتفا کرتا رہا، جب تک صحت اچھی تھی موٹر سائیکل استعمال کرتا رہا،زندگی کا زیادہ سفر موٹر سائیکل پر ہی بسر ہوا، میری شریک سفر بھی قناعت پسند اور میری ہم خیال ہیں،انھوں نے ہمیشہ میری خوشیوں کا خیال رکھا، میری سوچ اور خواہش کو ترجیح دی، میرے بچوں نے بھی مجھ سے کبھی ایسی فرمائش نہیں کی جو میرے بس میں نہیں تھی ،میرے بیٹے عدیل اور نبیل میری سوچ کے مطابق میرے ہم قدم رہے، تعلیم حاصل کی اور ا پنے پیروں پر کھڑے ہوگئے۔میری دونوں بہوؤیں مہوش اور ڈاکٹر ثمرا سادگی پسند ہیں ، کم کو زیا دہ جانتی ہیں، میری بیٹی فاہینہ بھی صابر اور قناعت پسند ہے،تھوڑے کو بہت جانتی ہے، شادی عاصم مشکور سے ہوئی، خوش و خرم ہیں، عاصم ایک خود دار اور محنت کرکے
آگے بڑھنے والوں میں سے ہے، میری نواسی نیہا، نواسہ ارحم اسکول جانے لگے ہیں۔ میرا پوتا صائم میری جان ہے، اسے دیکھ کر میری روح خوش ہوتی ہے،اﷲ تعالیٰ ان سب کی عمر دراز کرے۔

زندگی میں جِنّاَت کے حوالے سے بھی تجربات ہوئے، جِن انسانی روپ میں مجھ سے مخاطب بھی ہوئے، ڈانٹ ڈپٹ بھی کی لیکن نقصان نہیں پہنچایا۔ جِنّاَت کی موجودگی ٍسے ا نکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اچھے بھی ہوتے ہیں اور انسانوں کو پریشان کرنے والے بھی، ہماری امی پر ایک جِن صاحب آگئے تھے، کافی پریشانی ہوئی،اس کی تفصیل میَں نے امی کے خاکے میں تفصیل سے بیان کی ہے۔ یہاں ایک اور واقعہ بیان کروں گا ۔میرے ایک دوست کی بیوی (وہ بھی پروفیسر ہے ) اس مشکل سے دو چار ہوئی۔پروفیسرنی صاحبہ کی بعض حرکات ایسی تھیں جن سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ معاملہ جِنّاَت کے اثر وغیرہ کا ہے۔ اسے کسی عامل کے بارے میں معلوم ہوا ،سردیوں کا زمانہ تھا میرے دوست نے کہا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں مجھے کسی نے ایک عامل کے بارے میں بتا یا ہے جو ڈیفنس کے پاس کسی کچی بستی میں رہتا ہے اس کے پاس بیگم کو لے جانا ہے اچھا ہے ایک سے دوہوں گے ، نہ معلوم کیا صورت ہو، میں تیار ہو گیا، اس کی طبیعت واقعی خراب تھی ، میں اس کے ساتھ ہو لیا، مغرب کے بعد وہ عامل مریضوں کو دیکھا کرتا تھا، ہم بعد نماز مغرب وہاں پہنچ گئے۔کچھ لوگ پہلے سے موجود تھے ان کو فارغ کر نے کے بعد اس عامل نے پروفیسرنی صاحبہ کو اپنے دائیں جانب بٹھا دیا، اس کے برابر میرا دوست بیٹھا تھا ، عامل نے تفصیل معلوم کی اور عمل شروع کردیا، خاتون کا رنگ بدلنا شروع ہوگیا ،بڑی بڑی آنکھیں باہر کی جانب، ہم سب کوگھور گھو ر کر دیکھنے لگی، عامل نے یہ محسوس کیا کہ جِن آسانی سے نہیں جائے گا چنانچہ اس نے اپنے کارندوں کو کوئلے دہکانے کے لیے کہا ، کمرے کی لائٹ مدھم کردیں ، عامل بہت زیادہ موٹے دانے والی تسبیح لے کر کھڑا ہو گیا اور تسبیح پڑھنے لگا ، اتنے میں کوئلے دھک گئے، عامل نے دھکتے کوئلوں کو ایک مخصوص بر تن میں ڈال کر پروفیسرنی صاحبہ کی ناک کے نیچے کیا اور ان پر چھوٹی سرخ مرچیں جن پر اس نے تسبیح پڑھنے کے بعد پھونک ماری تھی کوئلوں پر ڈال دیں، مرچوں کی دھونی سے ہم سب کا برا حال لیکن وہ خاتون جیسے کچھ ہو ہی نہیں رہا ، اس عامل نے ایک ہاتھ سے اس کے سر کے بال پکڑے دوسرے ہاتھ سے مرچوں کی دھونی اس کی ناک میں زبر دست طریقے سے دی ، کافی دیر کے بعد اس پر کچھ اثر ہوا ، عامل اس سے مخاطب ہوا ، پوچھا کہ ’بتا تو کون ہے‘؟ مردانہ آواز میں جواب دیا کہ’ میں جن ہوں‘، تعداد کیا ہے، اکیلا ہوں، اس عورت کو چھوڑدے ، کہنے لگا کہ یہ میری بیوی ہے میں نہیں جاؤں گا وغیرہ وغیرہ ،عامل نے یہ عمل دہرایا ، مرچوں کی دھونی نے اس کمرے میں بیٹھے تمام لوگوں کا برا حال کر دیا تھالیکن وہ عورت اطمینان سے تھی، آخر کار عامل نے ’جن‘ کو جانے پر مجبور کر دیا ، اس نے جانے کا وعدہ تو کرلیا لیکن فوری طور پر نہیں گیا ، ہم یہ سمجھے کہ وہ چلا گیا، واپسی کاسفر شروع ہوا، میرا دوست پہلے ہی بیمار تھا اس صورت حال کے بعد اسے سردی اور بخار ہوگیا، ڈیفنس سے گلشن اقبال تک کا سفر خاصا طویل تھا، میرے دوست کے لیے گاڑی چلانا ممکن نہیں تھا، اس نے مجھ سے گاڑی چلانے کے لیے کہا ، یہ کوئی خاص بات نہیں تھی، وہ جب اگلی سیٹ پر بیٹھنے لگا اور بیوی کو پیچھے سیٹ پر بٹھا نے کے لیے دروازہ کھولا تو اس کی بیوی نے مر دانہ آواز میں کہا ’’ ہٹو میں آگے بیٹھوں گا‘‘،میں گاڑی اسٹارٹ کرچکا تھا، میں نے جب یہ جملہ سنا تو میرے ہوش گم ہو گئے میں سمجھ گیا کہ ابھی وہ یعنی ’جِن ‘ اس عورت میں موجودہے، اب کیا ہوسکتا تھا، میرا دوست پیچھے بیٹھ گیا، اس کے ساتھ اس کی کوئی۱۲ سال کی بیٹی بھی پچھلی سیٹ پر تھی، اﷲ کا نام لے کر ہم روانہ ہوئے، وہ عورت نظر نیچی کیے خاموش بیٹھی تھی، گاڑی میں مکمل خاموشی تھی، میں گاڑی چلانے کے ساتھ ساتھ راز داری کے ساتھ اس عورت پر نظر رکھے ہوئے تھا، میں بھی یہ چاہتا تھا کہ خاموشی ٹوٹے، اسی لمحے میرے دوست نے اس کی خیریت پوچھی، شاید وہ بھی چاہتا تھا کہ خوف کا ماحول خوش گوار ماحول میں بدل جائے ، اس کے بولتے ہی وہ عورت مردانہ آواز میں چلائی ’’خاموش بیٹھا رہے‘‘ ، اس کے بعدوہ میری جانب مخاطب ہوئی ، کہنے لگی’’ تو خاموشی سے گاڑی چلا‘‘، میں نے اپنے دوست سے کچھ کہا ، اس کے جواب میں وہ عورت مردانہ آواز میں مجھ پر برس پڑی، بولی ،’’ خاموش نہیں رہے گا، ابھی گاڑی سے نیچے پھینک دوں گا‘‘، اس کے اس جملے نے میرے ہوش گم کردیے،میں اس خوف میں مبتلا ہو گیا کہ اگر اس نے چلتی گا ڑی سے دھکا دے دیا تو کیا ہو گا، میرے بدن کا ایک ایک رُواں کھڑا تھا، بدن کپکپا نے لگا، وہ یہ جملہ کہہ کر خاموش ہوگئی، میں بدستور گاڑی چلاتا رہا، جس قدر قرآنی آیات یاد تھیں وہ تمام مسلسل پڑھتا رہا اور دعا کر تا رہا کہ کسی بھی طرح منزل آجائے، جب ہم شہید ملت روڈ کے پل پر پہنچے تووہ پھر مجھ سے مخاطب ہوئی ، کہنے لگی’’ پان کھلااورسگریٹ پلا‘‘، میں نے جواب دیا کہ میں دونوں چیزیں نہیں استعمال کرتا اپنے میاں سے کہووہ کھلائے گا، اب تو جناب وہ زور سے دھاڑی کہنے لگی ’سگریٹ کی دکان پر گاڑی روک ، سنا نہیں تونے، میں نے کہا کہ اچھا دکان آجائے تو روکتا ہوں لیکن میں نے گاڑی کی اسپیڈ کم نہیں کی، وہ بھی اس کے بعد خاموش ہورہی، گھر آگیا ، خدا کا شکر ادا کیا، چابی اپنے دوست کے حوالے کی اور اپنے گھر کی راہ لی۔میرے دوست نے بتا یا کہ وہ رات بھر سوتی رہی، صبح اٹھی تو اسے ان تمام باتوں کا علم نہیں تھا کہ اس نے رات میں دو مردوں کو کس قدرخوف میں مبتلا کیا، اس نے بتا یا کہ اس عمل کے بعد اس کی بیوی ٹھیک ہوگئی۔یہ میری زندگی کا نہ بھو لنے والا واقعہ ہے،جب کبھی مجھے اس کا خیال آجاتاہے ’ جِن‘ سے ہو
نے والی گفتگو تازہ ہو جاتی ہے۔ اس واقعہ سے جِنّاَت پر میرا ایمان مزید پختہ ہو گیا ۔

خطوط نویسی کو ادبی صنف میں ایک اہم مقام حاصل رہا ہے۔ کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کے عام ہونے سے قبل تک خطوط ہی ایک دوسرے کی خیریت معلوم کرنے او رمعلومات کے تبادلے کا اہم ذریعہ تھے، برقی ڈاک (E-Mail)نے خطوط نویسی کو تہس نہس کردیا۔ ماضی میں لکھاریوں نے خطوط کے ذریعہ اپنے ادبی جوہر دکھائے، کتابی شکل میں شائع ہونے والے خطوط ادبی تاریخ میں امر ہوچکے ہیں۔ غالب علامہ اقبال، شبلی نعمانی ،ابن انشا کے خطوط ادب میں خاص مقام رکھتے ہیں۔میَں نے جب سے لکھنے کی دنیا میں قدم رکھا ، اس بات کی عملی کوشش کی کہ میرے نام لکھی گئی ہر ہر تحریر خواہ کتنی ہی مختصر کیوں نہ ہو محفوظ کرلوں اور میَں نے ایسا ہی کیا،میرے علمی ذخیرہ میں ایک ہزار کے قریب خطوط محفوظ ہیں، یہ خطوط و تحریریں تمام طرح کے احباب کی ہیں جن سے میرا خط کتابت کا تعلق رہا۔بعض اہم شخصیات جن کے خطوط میرے نام آئے اور وہ میرے پاس محفوظ ہیں۔ان تمام خطوط کی فائلیں اپنے ذخیرہ کتب کے ساتھ وفاقی جامعہ اردو کراچی کے کتب کانے میں محفوظ ہیں۔

اپنی تلاش کی یہ کوشش کس حد تک کامیاب رہی اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا، کوشش کی ہے کہ اپنی زندگی کی کہانی کو اختصار سے قلم بند کر سکوں تاہم بعض موضوعات طویل ہوگئے انہیں مختصرکر نے سے بات مکمل طو پر واضح نہ ہوپاتی،بہت سی باتیں ذہن سے محو ہو چکی ہیں۔آخر میں اپنی روداد حیات کو سیماب اکبر آباد کے اس شعر پر ختم کرتا ہوں ؂
مری روداد‘ رودادِ جہاں معلوم ہوتی ہے
جو سنتا ہے اُسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے
 
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1277424 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More