تنخواہوں میں اضافہ اور پِٹ سیاپا!

جمہوریت چونکہ حکمِ خداوندی ہے، اس لئے اس کے علمبردار اپنے لئے جو بھی قانون بنا لیں وہ بااختیار ہیں، ویسے بھی جو شخص خود قانون ساز ہے ، اسے کسی کی کیا محتاجی ہو سکتی ہے۔ وطنِ عزیز میں جمہوریت اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ جلوہ گر ہے، اس کے تمام تر ثمرات ہم سب لوگ سمیٹ رہے ہیں، اگر حکمرانوں اور معزز ارکانِ اسمبلی کے فرموداتِ عالیہ کا باریکی سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ جمہوریت کا اصل فائدہ تو عوام کو حاصل ہو رہا ہے، انہیں الیکشن کے موقع پر اپنی اپنی پسند کے قائدین منتخب کرنے کا موقع دستیاب ہو جاتا ہے، وہ ووٹ دینے کے یادگار لمحات سے لطف اندوز ہو لیتے ہیں، انتخابی مہم کے دوران وہ جذباتی ہو کر اپنے قائد کو کاندھوں پرا ٹھانے کا فریضہ بھی نبھا دیتے ہیں۔ عوام کو اور کیا چاہیے۔ پھر پانچ برس وہ آرام کیا کریں، کیونکہ اتنے ہی عرصے کے بعد دوبارہ الیکشن کے میدان میں اترنا ہوتا ہے، یوں تب تک وہ تازہ دم ہو چکے ہوتے ہیں۔

معزز ارکانِ پارلیمنٹ ایک عرصہ سے اپنی تنخواہوں میں اضافہ کا مطالبہ کررہے تھے، کسی نے فرمایا ہماری تنخواہیں اسمبلی کے سیکریٹری کے برابربھی نہیں، کسی نے کہا ہمیں اتنی تھوڑی تنخواہ کے چیک پر دستخط ثبت کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ استحقاق کے حامل ان لوگوں نے مطالبہ کس سے کرنا ہے، دستِ سوال کس کے سامنے پھیلانا ہے، کس کے سامنے آنکھیں جھکا کر قرض مانگنا ہے (ویسے سیاست میں قرض لیتے وقت آنکھیں جھکائی نہیں جاتیں) یہ تو خود بااختیار لوگ ہیں، انہوں نے تو عوام کالانعام کے لئے خود قانون سازی کرنی ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ جب بھی کبھی مراعات و مفادات کی کہانی بنتی ہے، یہ سب اکٹھے ہو جاتے ہیں، سارے محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑ ے ہو جاتے ہیں، نہ کوئی بندہ رہتا ہے، نہ خادم اور نہ ہی بندہ نواز، نہ کرپشن کرنے والے پریشان ہیں اور نہ ہی کرپشن کے خلاف تحریکیں چلانے والے۔ 70ہزار تنخواہ ہے، معاملہ دو لاکھ تک پہنچے گا، یہ بات تنخواہ کی ہے، مراعات اس کے علاوہ ہیں اور اس سے زیادہ ہیں۔ سپیکر وغیرہ کا معاملہ ان سے بھی دگنا ہے۔

ستم ظریفی اور تضاد ملاحظہ فرمائیے کہ پندرہ بیس ہزار روپے تنخواہ لینے والے سرکاری ملازمین ہر سال مئی کی تپتی دوپہروں کو ہر شہر کی سڑکوں پر ’’پِٹ سیاپا ‘‘ کی سالانہ تقریبات منعقد کرتے ہیں، ماتمی جلوس نکلتے ہیں، حکمرانوں کی علامتی قبریں بنائی جاتی ہیں، تب جا کر ان کے منہ میں پانچ سے دس فیصد اضافے کا زیرا ڈالا جاتا ہے۔ مگر ان معزز ارکان اسمبلی میں دس فیصد بھی ایسے نہیں ہونگے جو اپنے اخرجات چلانے کے لئے تنخواہ کے محتاج ہوں۔ یہاں توکروڑوں روپے الیکشن پر لگائے جاتے ہیں، ان کے پاس بڑے گھر اور بڑی گاڑیاں ہوتی ہیں، بہت سوں کی تعلیمی اسناد جعلی اور ٹیکس چوری کی وارداتیں عام ہوتی ہیں۔ کتنے ہیں جو الیکشن کمیشن یا انکم ٹیکس میں اپنے اثاثے چھپاتے ہیں۔ پھر دوسری طرف آئیے، اگر ان معزز غریبوں کی تنخواہ میں اضافہ ہونا ہی چاہیے تو کیا یہ عمل بھی کوئی قانونی حیثیت رکھتا ہے کہ تنخواہ لینے والے سے یہ بھی پوچھا جائے کہ جناب جس نوکری کی تنخواہ لیتے ہو، کیا ڈیوٹی پر جانے کے بھی ارادے ہیں یا گھر بیٹھ کر تنخواہ لینے کی روایت پر عمل کیا جاتا ہے۔ اگر معزز ارکان میں سے بہت سے بہت دن اسمبلی میں قدم نہیں رکھتے تو وہ ٹی اے ڈی اے کس حیثیت میں وصول کرتے ہیں؟ وزیراعظم بحرانوں کے علاوہ اسمبلی کا رخ نہیں کرتے، اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اگر کسی یونیورسٹی یا کسی اور بڑے ادارے کا سربراہ کئی کئی ماہ تک اپنے آفس نہ جائے اور پوری تنخواہ مع مراعات وصول کرلے تو اس کے اوپر کے کسی ادارے کو اس کے فعل پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ یہی کام اسمبلیوں میں بھی ہورہا ہے، وزیراعظم اور وزراء سے لے کر بہت سے ارکان بہت کم اسمبلی میں جاتے ہیں، وہ کیسی تنخواہ وصول کرتے ہیں۔ اور پھر بہت سے ارکان سالہاسال سے اسمبلی کے اندر ایک لفظ تک نہیں بولتے، ان کی تنخواہ کس مد میں جاتی ہے، اس طرح کے کاموں پر کوئی شرم نہیں آتی البتہ چیک پر دستخط کرتے وقت شرم آتی ہے۔ رہی قانون کی بات توکتنے فیصد ارکان اسمبلی اس قابل ہیں کہ وہ قانون سازی جیسا مشکل اور اہم ترین کام کرسکیں۔ قوم تعلیم، علاج ، صاف پانی اور دیگر سہولتوں کو رو رہی ہے، ہمارے نمائندے اپنے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اپنے مفادات کے لئے باہم شِیر و شکر ہورہے ہیں۔ کیا اِن طاقتوراور بااختیار لوگوں کی مراعات کھلی کرپشن نہیں؟
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 427772 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.