گلوبل وارمنگ

گزشتہ دنوں شوشل میڈیا پر دوست وغیرہ ایک دوسرے کو ارتھ ڈے وش میں مصروف نظر آئیں ۔ تو میں نے بھی سوچا کہ کیوں نہ کہ اسی مناسبت سے کچھ بات ہوجائے۔ کیوں نہ اپریل کے مہینے میں ہی شدید پڑتی ہوئی گرمی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کیا جائے۔ چونکہ موقع بھی ہے اور دستور بھی۔ موجودہ دور میں لفظ گلوبل وارمنگ بہت سننے میں آرہا ہے ۔ گلوبل وارمنگ ہے کیا؟

کرہ ہوائی میں کاربن ڈائی اکسائڈ کی بڑھتی ہوئی مقدار کے سبب عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہورہا ہے ۔ اس اوسطہ درجہ حرارت میں بتدریج اضافے کا نام گلوبل وارمنگ ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ کیوں ہورہا ہے ۔ وہ وجوہات آخر کیا ہیں؟ جو گلوبل وارمنگ کا سبب بن رہے ہیں؟

ہماری زمین کے ماحول میں کچھ ایسی گیسز پائی جاتی ہیں۔ جو نیم مستقل مگر دیرپا ہوتی ہیں کہ گیسز قدرتی طور پر نہیں بلکہ زمین پر ہونے والے مختلف قسم کے عوامل کے نتیجے میں اب وہوا کا حصہ بنتے ہیں۔ ان میں خاص کر کاربن ڈائی اکسائیڈ، میتھین اور کلورو فلورو کاربن ہیں جن کے اب و ہوا میں شامل ہونے کی وجہ سے زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے ہوا میں ان کیسز کی ذمہ دار ہم انسان ہی ہیں۔

ایک طرف ہم حیاتیاتی ایندھن کے بے تاحاشہ جلارہے ہیں درختوں کی اندھا دھن کٹائی کرتے ہیں اور صنفی انقلاب میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے چکر میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا وافر مقدار میں حروج کررہے ہیں اور پھر دوسری طرف ارتھ ڈے زور و شور سے منانے میں مصروف ہیں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا ماحول میں بلا کسی روک ٹوک اضافہ اسی تبدیلیوں کا باعث بن رہا ہے جنہیں بدلنا ممکن ہی نہیں۔

اس کے علاوہ ہمارے روزمرہ کے استعمال کی اشیاء اے سی ریفریجریٹر وغیرہ سے خارج ہونے والی گیس کلورو فلورو کاربن زمین کے کرہ سے اوزون کی تہہ کو تباہ کرنے کا باعث بن رہی ہے۔ جو کہ سورج کے شعاعوں کو اپنے اندر جذب کرتے ہیں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ گلوبل وارمنگ سے دنیا کے اکثر ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے ۔ ان میں موسم گرما میں گرمی میں شدت میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ پاکستان میں چونکہ گلوبل وارمنگ کا باعث بننے والی گیسز کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ لیکن چونکہ علاوہ ٹیکنالوجی کے باعث زیادہ متاثر ہے۔ پاکستان میں آئے دن پہاڑوں میں خاص کر سلسلہ کوہ ہمالیہ میں گلیشرز سے پاکستان کے دریاؤں میں پانی کی سطح میں اضافے کا خطرہ ہے ۔ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے پاکستان کے بنجر علاقوں میں زرعی پیداوار بھی متاثر ہورہی ہے۔ اب و ہوا میں تبدیلی کے باعث آئے روز جنگلا ت میں پودوں اور درختوں کو نقصان پہنچ رہا ہے اور خشک سالی اور لینڈ سلائنڈنگ جیسی قدرتی افات میں اضافہ ہورہاہے۔

زمین پر بیسوی صدی میں 0.6 سینٹی میٹر درجہ حرارت کا اضافہ ہوا ہے جو کہ دو عشروں سے عالمی ایشو بنا ہوا ہے ۔ زمین کا مسلسل بڑھتا ہوا درجہ حرارت نے اور موسمیاتی تبدیلیوں نے سائنسدانوں کو بھی پریشان کردیا ہے۔ گلوبل وارمنگ پر قابو پانے کے غرض سے ماضی میں بھی مختلف ملکوں کے سائنسدان سرجوڑ کے منصوبے بناتے رہے ہیں۔ چاہے وہ مصنوعی بادلوں کا منصوبہ ہو یا پھر طیاروں کے ذریعے سلفر کے ذرات کا اسپرے۔ ہر سال تمام ملکوں کے سائنسدان ایک بار ضرور گلوبل وارمنگ پر غور کرنے کے لئے ایک جگہ جمع ہوتے ہیں

لیکن ان اجلاسوں کے اب تک کوئی خاطرخواہ نتائج سامنے نہیں آئے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ طاقت ور ممالک اپنی صنعتیں اور سرگرمیاں محدود کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ۔ چونکہ اس طرح ان کے صنعتی ترقی متاثر ہوگی۔ سائنسدانوں نے برسوں پہلے بایو فیول متعارف کروایا تھا اس سے بھی گلوبل وارمنگ پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ اس کرہ ارض پرقدرتی وسائل کروڑوں برسوں سے مخفی حالت میں پڑے ہوئے ہیں۔ چند صدیوں قبل انہیں بھی باہر نکال کر استعمال کیا گیا ۔ صنعتی انقلاب کے ساتھ ہی ان وسائل کا بے دریغ استعمال آلودگی کا باعث بن رہا ہے۔ سرمایہ داری نظام میں منافع کمانے کی خاطر انسانی زندگیوں کو داؤ پر لگادیا جاتا ہے۔ پیریس میں ہونے والے ایک کانفرنس میں پولینڈ نے تعاون سے محض اس لئے انکار کیا کیونکہ اس کے ملک کی صنعت کادارومدار کوئلے کے استعما ل پر ہے۔

چونکہ آکسیجن تمام خاندانوں کیلئے ضروری ہے مگر جنگلات کا کٹاؤ اور صفایا اس کی کمی کا باعث بن رہا ہے ۔ آکسیجن کے تین ایٹموں کے ملنے سے اوزون گیس بنتی ہے ۔ یہ گیس ہماری بیرونی فضا میں زمین سے 12 کلومیٹر سے 48 کلومیٹر تک اکٹھی ہوتی ہے ۔ اوزون کا یہ جالہ ہمارے سیارے کو سورج کے مصر شعاعوں سے بچاتا ہے اور اب صورت حال یہ ہے کہ فضائی آلودگی میں مسلسل اضافے کے باعث اس بالے میں دراڑ بن پڑ رہی ہیں اور سورج کے ہر مضر شعاعیں انسانوں کے خطرے کا باعث بن رہی ہیں۔

ان شعاعوں سے مختلف بیماریاں پھیل رہی ہیں ، جیسے کہ مختلف جلدی امراض ، یہاں یہ بات بھی بیان کرنا ضروری ہے کہ جنگیں بھی گلوبل وارمنگ کا باعث بن رہی ہیں دوسری عالمی جنگ ہیروشیما اور ناگاساکی کی تباہی پر ختم ہوئی۔ ایٹمی اسلحہ کے بے دریغ استعمال سے ایٹمی تابکاری سے آلودگی کو ا س حد تک بڑھا یا گیا کہ برسوں بعد بھی ان شہروں میں اپاہیج بچے پیدا ہوتے رہے۔

ان سب کے باوجود پوری دنیا ایٹمی ہتھیاروں کی اضافے میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے دوڑ میں لگی ہوئی ہے۔ بجلی کی پیداوار کیلئے تیل اور قدرتی گیس کو جلایا جاتا ہے اسی طرح تیل صاف کرنے والی ریفائنریوں میں فاضل مواد آلودگی کا باعث بنتا ہے۔ سمندری جہاز سمندروں کو آلودہ کررہے ہیں جس سے انسانوں کے ساتھ سمندر کے اندر موجود جانداروں کی جان کو خطرات درپیش ہیں۔ جہاں سمندری جہاز سمندر آلودہ کررہے ہیں وہی ہوائی جہاز فضا میں آلودگی کا باعث بن رہے ہیں اور خشکی پر چلنے والی گاڑیاں اپنی دھواں اور شور سے آلودگی پیداکررہی ہیں۔

مختلف سائنسدان ماضی میں گلوبل وارمنگ کے اثرات کے بارے میں اپنی تحقیق کی بنیاد پر متعدد بار پیشن گوئیاں کرچکے ہیں مزید بھی پیشن گوئیوں کا سلسلہ جاری ہے۔

ماہرین کے مطابق آئندہ برسوں میں سطح سمندر بلند ہونے سے کئی ساحلی شہر دنیا کے نقشے سے ہی مٹ جائیں گے۔ اب و ہوا میں تبدیلی کے باعث کئی طوفانی بارشیں ہوں گی اور سیلاب معمول بن جائے گا۔ چونکہ حالیہ کچھ سالوں سے مختلف ملکوں میں مختلف نوعیت کے سیلاب آچکے ہیں جن سے بے تحاشہ جانی اور مالی نقصان بھی ہوا ہے ۔ ماہرین کے مطابق جو خطے ابھی سرسبز و شاداب ہیں وہ خشک سالی اور قحط کے لپیٹ میں آجائیں گے۔

درجہ حرارت بڑھنے پر جانوروں کی کئی اقسام اپنا قدرتی سکس چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ ان کی ختم ہونے کا خطرہ بھی لاحق ہوسکتا ہے۔ ایسے صورت حال میں انسان کا بھی متاثر ہونا اک ظاہری سی بات ہے۔ کرہ ارض اک ایسا حیاتیاتی خاتمہ دیکھے گا جو اس نے ہزاروں سال پہلے اس وقت دیکھا تھا جب کرہ ارض سے ڈائناساروں کا خاتمہ ہوگیا تھا۔

اگر گلوبل وارمنگ پر قابو نہ پایا گیا تو کرہ ارض پر رہنے والی ہر مخلوق کی زندگی اجیرن ہوجائے گی۔ گزشتہ بیس برسوں میں صرف یورپ میں لو لگنے سے ایک لاکھ اڑتیس لوگ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ موسموں کی تبدیلی سے پہاڑوں پر گلیشیر پھگلتے ہیں اور پھر سیلاب کا باعث بنتے ہیں اور کئی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں پچھلے چند برسوں میں دو ارب سے زائد لوگ متاثر ہوئے۔

گلوبل وارمنگ میں آکسیجن کی کمی، کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس میں اضافہ ، پانی میں تیزابیت ، سمندر کی سطح کا بلند ہونا ، سمندر کے درجہ حرارت کابڑھنا ، پہاڑوں پر برف کا پھگلنا قابل ذکر عوامل ہیں ان کے اثرات خشکی پر زیادہ ہیں۔

دوسرے نمبرپر فضائی الودگی ہے ۔ موسموں کی شدت، قحط سال، باد سموم، طوفانی بارشیں ، سیلاب اور برف باری ، انسانی زندگی کیلئے قدرتی افات ہیں ۔ قدرت کے قائم کردہ اس کرہ ارض پر ہر چیز اک توازن سے بنائی گئی ہے جب کسی چیز کا توازن بگڑتا ہے تو کرہ ارض پر تباہی کا باعث بنتا ہے اس وقت ایٹمی اسلحہ اس قدر اکٹھا ہوچکا ہے کہ اسے چھوٹے سے کرے کو کئی بار تباہ کیا جا سکتا ہے۔

ایٹمی پلانٹ غیرمحفوظ ہیں ، اس کی جیتی جاگتی مثال روس میں چرنوبل اور جاپان میں نوکوشما پلانٹ سے خارج ہونے والی تابکاری، شعاؤں نے جو تباہی مچائی تھی ، اس کے اثرات آج بھی محسوس کئے جاسکتے ہیں۔ عالمی طاقتوں کو چاہیے کہ وہ ان خطرات کا ادراک کریں اور کرہ ارض کو محفوظ سکن بنانے کے لئے مل کر تگ و دو کریں۔

Zara Nasir
About the Author: Zara Nasir Read More Articles by Zara Nasir: 5 Articles with 7328 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.