نوجوانوں طلبہ کی قدرزمانےمیں کیوں نہیں؟انجمن طلبہ اسلام کا کردار

اسلام علیکم و رحمتہ الله و برکاتہ رفیقو! میں چاہتا ہوں کہ آج اس موضوع پرآپ سے باتیں کروں۔ بحیثیت مسلم و پاکستانی قوم ہماری حالت قابل رشک نہیں۔ ہمارا تعلیمی معیار، اداروں کی حالت، نظام تعلیم و تربیت قابل رحم حالت میں ہے۔ اس پر ستم یہ کہ غیر مسلم قوتیں اسی نکتہ پر کام کررہی ہیں کہ نوجواں مسلم کی سوچ و فکر کے زاویے کبھی درست سمت اختیار نہ کر پائیں۔ میڈیا کا طوفانِ باطل حق کے متوالوں کو اپنی گندی جولانیوں کا شیدا بنانا چاہتا ہے۔ تھنک ٹینک برسوں کی حکمت عملی بناکر مسلم نوجوان کو دیمک زدہ بنانے کی درپے ہیں۔ تحقیق کے میدانوں سے شاہین بچوں کو نکال باہر کرنے کا منصوبہ خطرناک حد تک کامیاب ہوچکا ہے۔ اسی بناء پر ہم ان کے در پر کاسہ گدائی لیے نظر آتے ہیں۔ مغربی تہذیب و تمدن کو اس طرح پیش کیا کہ آج ہمارے طالبعلم اپنی آفاقی تہذیب کو چھوڑ کر اسی تہذیب کے پیکر بن چکے ہیں۔ اور اپنے مذہب، اپنی اقدار و روایات پر شرمندہ شرمندہ نظر آتے ہیں۔ مسلم طلبہ کو علم سے دور کرنے کے لیے اغیار بلکہ اپنے ناہنجار، ناعاقبت اندیش لوگوں نے کتاب سے دور کردیا۔ وہ نوجوان جس نے ملت کی تقدیر بدلنا تھی اس کے ہاتھوں میں ہتھیار دے دیے جو اپنے ہی ملک و مفاد پر ضرب لگا رہا ہے۔ اپنی منزل سے بے خبر ناچ گانے، بیہودہ محافل (فنکشنز)، مخلوط تعلیم کی آڑ میں بے حیائی و فحاشی میں مگن ہوکر ملت کے ستارے کو روشنی سے محروم کررہا ہے۔توحید کے حسن، سنت نبوی کے رنگ، قرآن کے انقلاب سے محروم طلباء امت کے زوال کی خوں رنگ حالت کی عکاسی کررہے ہیں۔ اس کی فکر پر جمود، سوچ پر قنوطیت وجود پر عیش وعشرت، نگہ پرستی کا راج ہے۔

گلا گھونٹ دیا تیرا اہل مکتب نے
کہاں سے آئے گی صدا لا الٰہ الا اللہ

صفہ سے دیا جانے والا درس انقلاب، بدر و حُنین کی فضاؤں سے ملنے والا پیغام، سب کچھ بھول گیا اور علم کے نام پر عشق مجازی کے افسانے اس کی منزل کو دور کرگئے۔سائنس کی وہ ترقی جس کی بنیاد جابر بن حیان، ابو یعقوب الکندی، اور ابن الہیثم جیسے مسلم سائنسدانوں نے رکھی تھی، امت مسلمہ کی پہنچ سے دور ہماری حالت زار پر ماتم کررہی ہے۔ اور منتظر ہے کہ اس قوم کا کوئی فرد، گروہ یا طلباء پھر سے اسے ترقی بخشیں اور اپنی قوت و صلاحیت سے سائنسی میدان میں آگے بڑھ جانے پر صرف کریں، مگر ہنوز ہمارا یہ طالب العلم طبقہ نفس شیطان کی راہوں پرناچ رہا ہے۔ نوجوانوں کےجوعقائد، خیالات ہیں آپ اس سے وقف ہیں اور جو ہمارے نوجوان لیڈروں نے سختی سے منضبط اجتماعی سرگرمیوں اوراسٹیج پر پیش کئے جانے والے پروگراموں،جیسے تقریبات اور ڈسپلے کے ساتھ بڑی ریلیوں کا استعمال ایک قومی برادری کو گمراہ کرنے کیلئے نہیں کیاگیا۔بلکہ نوجوان نسل کو تربیت دینےاوردنیا میں اپنی طلبہ برادری پر ہونے والی ذیادتیوں پرآوازکوبلندکرنے کیلیے پروگرام کیے جاتےہیں

جو قافلہ عزم و یقین سے نکلے گا
جہاں سے چاہے گا رستہ وہیں سے نکلے گا
وطن کی ریت ہے ذرا ایڑیاں رگڑنے دو
مجھے یقین ہے پانی یہیں سے نکلے گا
تواس نقطہ نظرسےدیکھاجائےکہ نوجوانوں کےسامنےاہم فریضےبہت سارےہیں تومجھےکہناپڑےگاکہ عموماً نوجوانوں کےاورخصوصاً دنیا کے نوجوانوں کی ایسی ہی تمام دوسری تنظیموں کےان فریضوں کو صرف ایک فقرے میں سمویا جاسکتاہے:علم حاصل کرنا

لیکن تعلیمی اداروں میں جگہ جگہ چیک پوسٹیں، بیریرز اور خاردار تاریں عام دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ان انتظامات کا بظاہر مقصد تو تعلیمی اداروں کو دہشت گردوں سے محفوظ بنانا ہے مگر درحقیقت اس کا مقصد طلبہ کی طرف سے ہونے والی ممکنہ مزاحمت کو روکنا ہے کیونکہ ان حکمرانوں کے پاس طلبہ کو دینے کے لئے کچھ نہیں ہے۔ کئی اداروں میں تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ایک ہاسٹل کے طالبعلم کا دوسرے ہاسٹل میں داخلہ ممنوع ہے۔ دہشت گرد جہاں چاہیں آجا سکتے ہیں مگر ایک ادارے کے طالبعلم کا دوسرے ادارے میں جانا منع ہے۔ ظاہر ہے اس کا مقصد ان نوجوانوں کو ایک دوسرے سے کاٹ کر اور تقسیم کر کے رکھنا ہے کہ کہیں یہ اکٹھے ہو کران حکمرانوں کے خلاف بغاوت نہ کر دیں۔ مگر یہ ان حکمرانوں کی بھول ہے کہ ان اونچی اونچی دیواروں، خاردار تاروں اور مسلح جتھوں سے ان نوجوانوں میں پلنے والی نفرت اور بغاوت کو اظہار سے روک لیں گے۔

پچھلے عرصہ میں ایسے بہت سے واقعات اور چھوٹی بڑی تحریکیں پاکستان کے قریباً تمام بڑے تعلیمی اداروں میں دیکھنے کو ملی ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی ہو یا جامعہ کراچی، پشاور یونیورسٹی ہو یا قائد اعظم یونیورسٹی ہر جگہ اس جبر کے خلاف طلبہ اپنی نفرت کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ پچھلے ایک سال کے عرصہ میں پنجاب یونیورسٹی میں متعدد بار ہمیں طلبہ جمعیت کی غنڈہ گردی کا جواب دیتے نظر آتے ہیں اور ان غنڈہ گردوں کو یونیورسٹی سے بھاگنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ اسی طرح کراچی یونیورسٹی میں مذہبی غنڈوں نے طالبات کو کرکٹ کھیلنے پر تشدد کا نشانہ بنایا جس کے خلاف پوری یونیورسٹی میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور جواباً یونیورسٹی کی طالبات نے سرعام اکٹھے ہو کر احتجاجی کرکٹ کھیلی اور جمعیت کو اس عمل کو برداشت کرنا پڑا۔ اسی طرح پشاور یونیورسٹی میں بھی فیسوں میں اضافے کے خلاف تحریک دیکھنے کو ملتی ہے۔ قائداعظم یونیورسٹی میں فیسوں میں دن بدن بڑھتے ہوئے اضافے اور وائس چانسلر کے طلبہ کے بارے توہین آمیز بیان کے بعد طالب علموں کی جانب سے شدید رد عمل دیکھنے کو ملا جس کے بعد مزید احتجاج کے ڈر سے یونیورسٹی کو بند کر دیا گیا۔ اسی طرح گومل یونیورسٹی میں فیسوں میں اضافے اور ہاسٹلوں میں ناکافی سہولیات کی وجہ سے انتظامیہ کے خلاف شدید احتجاج کیا گیا۔ جس کے بعد یونیورسٹی بند کر دی جاتی ہے۔ یہ واقعات دن بدن بڑھتے جارہے ہیں۔ جو نوجوانوں کے عمومی حالات اور ان کے شعور میں ہونے والی تیز تبدیلیوں کی غمازی کرتے ہیں۔

ایسے میں جس چیز کی زیادہ شدت سے کمی محسوس کی جا رہی ہے وہ انجمن طلبہ اسلام کا پلیٹ فارمزہے جہاں سے طلبہ اپنے مسائل کے حل کی آواز بلند کر سکیں اور اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کر سکیں۔ انجمن طلبہ اسلام ہی وہ ادارہ ہوتا ہے جہاں سے طلبہ اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھاتے اور جدوجہد کرتے ہیں مگر پاکستان میں 1984ء سے طلبہ یونین پر پابندی ہے اور یہ پابندی ضیا آمریت کے دوران سوچے سمجھے منصوبے کے تحت لگائی گئی تاکہ طلبہ کی تحریکوں کو روکا جا سکے اور اس کے بعد جعتی طلبہ تنظیموں کو ریاستی سرپرستی میں تعلیمی اداروں پر مسلط کر دیا گیا۔ جس میں اسلامی جمعیت طلبہ اور مسلم سٹودنٹس فیڈریشن قابل ذکر ہیں۔ نظریات سے عاری ان تنظیموں کا مقصد تعلیمی اداروں میں خوف و ہراس پھیلانے کے سوا اور کچھ بھی نہیں تھا۔ تعلیمی اداروں میں اسلحہ کلچر کا فروغ، منشیات کا استعمال اور حتیٰ کہ ڈاکے اور چوریاں تک ان کا معمول تھا۔ اس عمل نے ماضی میں ہونے والی طلبہ سیاست کے کردار کو یکسر مسخ کر دیا اور طلبہ سیاست کے مثبت پہلوؤں کو مجروح کرتے ہوئے سیاست کو محض غنڈہ گردی اور آوارہ گردی بنا دیا گیا۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت طلبہ کو سیاست سے متنفر کیا گیا اور پھر سیاست طلبہ کے لئے ایک شجر ممنوعہ بنا دی گئی۔ آج کسی طالب علم سے طلبہ سیاست پر بات کی جائے تو وہ اس کو غنڈہ گردی اور نفرت ہی سمجھتا ہے۔ مگر طلبہ مسائل کا حل ابھی بھی سٹوڈنٹس یونین کی بحالی کی جدوجہد کے ساتھ منسلک ہے۔ یہی وہ ادارے ہیں جن میں منظم ہو کر وہ اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کر سکتے ہیں جو کہ ان کا جمہوری حق بھی ہے۔ جس طرح ہندوستان کے طلبہ حال ہی میں ایک شاندار جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں۔ جواہرلال نہرو یونیورسٹی کے طلبہ کی تحریک اپنے اندر پاکستان کے طلبہ کے لئے بہت سے اسباق رکھتی ہے۔

ایک طویل عرصہ سے طلبہ سیاست پر پابندی کی وجہ سے جہاں طلبہ ماضی کی شاندار سیاسی روایات سے ناواقف ہیں تو دوسری طرف روز بروز بڑھنے والے مسائل مہنگائی، بیروزگاری، ہاسٹل اور ٹرانسپورٹ کے مسائل، ڈسپلن کے نام پر ہونے والا جبر، یہ سب ان کے شعور میں تیز ترین تبدیلیاں پیدا کر رہا ہے۔ آج نوجوانوں کی جانب سے عمومی سیاست سے بیزاری اور نفرت کا اظہار اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ان سیاسی نوراکشتیوں سے تنگ آ چکے ہیں کیونکہ کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس دھوکوں کے سوا نوجوانوں کو دینے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ لیکن انجمن طلبہ اسلام ایک سیاسی جماعت طلبہ کی جماعت ہے اور یہ تعلیم کے حصول، کردار کی پاکیزگی و عظمت، اسلام دشمن عناصر کی سازشوں کے خاتمے، اخلاقی و روحانی عظمت کے حصول، اسلامی ثقافت کے اصولوں کی ترویج اور تحقیق کے میدانوں میں مسلمانوں کا وافر حصہ ڈالنے کے لیے ”روحانی طلبہ جماعت“ جس میں آپ سب شامل ہوجائیں

Attique Aslam Rana
About the Author: Attique Aslam Rana Read More Articles by Attique Aslam Rana: 13 Articles with 18559 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.