منافقت کے حق میں

منافقت ایک ایسا موضوع ہے کہ ہر کوئی اس کے خلاف بات کرتا ہے لیکن عملی زندگی میں منافقت سے بچنا اتنا ہی مشکل ہے جتناکہ بیوی کی نظر سے گرنے سے بچنا۔اگرچہ بڑے بڑے، جو کہ گھر سے باہر شیروں کی طرح دندناتے پھرتے ہیں، گھروں میں بھیگی بلی جتنی اوقات سے بھی محروم ہوتے ہیں۔ مشہور لطیفہ ہے کہ ایک طرف ان لوگوں کی قطار تھی جو رن مرید تھے اور دوسری طرف ان لوگوں کی قطار تھی جو کہ رن مرید نہ تھے۔ پہلی قطار بہت طویل تھی جبکہ دوسری قطار میں بس ایک ہی شخص کھڑا تھا ۔ جب اس سے اس قطار میں کھڑ ا ہونے کی وجہ پوچھی گئی کہ وہ رن مریدوں کی لمبی قطار میں کیوں کھڑا نہیں ہو ا تو اس بچارے نے اپنی بے بسی کا رونا اس طرح رویا کہ اس کی شریکِ حیات نے کہا تھا کہ تم ادھر کھڑے ہونا جدھر تعداد کم ہو۔

منافقت کے بغیر بچوں کی پرورش نا ممکن ہے۔ بچے جتنی ضد کرتے ہیں اور جتنی زیادہ چیزوں کی فرمائش کرتے ہیں، ان سے منافقت کے بغیر عہدہ برا ہوا ہی نہیں جا سکتا۔بچے توآسمان کا چاند اور سورج بھی مانگ لیتے ہیں اور والدین منافقت کا سہارا لیتے ہوئے انہیں چپ کرانے کے لئے کہہ دیتے ہیں :’ لا دیں گے‘۔بچوں کی بابت سب کچھ تو نہیں لیکن بہت کچھ کا معاملہ منافقانہ ہی رہا ہے اور رہے گابھی کیوں کہ وہ ایسی ایسی فرمائشیں کر دیتے ہیں جن کا پورا کرنا کسی بھی شخص کے دائرہ اختیار ہی نہیں دائرہ کمال سے بھی باہر ہوتا ہے چاہے وہ شخص کچھ بھی کیوں نہ ہو۔

سیاست تو منافقت کا دوسرا نام ہے۔ کسی بھی سیاسی مسئلے کے حل میں، منافقت کا سہارا لئے بغیر ،کوئی بھی شخص کامیاب نہیں رہ سکتا۔ ’لارا لپا ‘ سیاست کا پہلا سنہری اصول ہے جسے جتنی اچھی زبان اور پختہ انداز میں پیش کیا جا سکے اتنا ہی مناسب ہے۔سبز باغ دکھانا تو اب پرانی بات ہو چکی ہے ، ویسے بھی سبز باغ رہ بھی بہت تھوڑے گئے ہیں اور لوگوں میں سبز باغ دیکھنے کا ارمان بھی باقی نہیں رہا ۔ وہ ویسے بھی سیاست دانوں کی دکھائی ،نہ کہ بنائی ،ارم دیکھ دیکھ کے اکتا چکے ہیں ۔

اگرچہ کہا جاتا ہے دودھ کا جلا چھاچھ کو پھونک پھونک کے پیتا ہے، لیکن سادہ انسان بار باردھوکہ کھانے اور دھوکے باز دھوکہ دینے کا عادی ہوتا ہے۔ انسان ، مثالیت پسندی اور مثالیت پرستی یعنی آئیڈیالزم کا پجاری ہو تا ہے اور اسے بار بار اس کی مثالیت پرستی کی بناپر دھوکہ دیا بھی جا سکتا ہے۔ لیکن اگر وہ نہ بھی دھوکہ کھانا چاہے تو اسے منافقانہ انداز میں دھوکہ دیئے جانے سے کون بچا سکتا ہے۔

سیاست کو منافقت کی چھوٹی بہن بھی کہا جاسکتا ہے۔ پہلے منافقت آتی ہے پھر سیاست۔ ایک منافق شخص بہترین سیاستدان ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن سارے سیاست دان منافق نہیں ہوتے ۔ ہمارا نظریہ ہے کہ کسی بھی شعبے کے سارے لوگ کبھی ایک جیسے نہیں ہوتے ۔ جس طرح سارے ڈاکٹر بے رحم نہیں ہوتے ، ایسے ہی سارے ڈاکو ظالم نہیں ہوتے۔ اور نہ ہی سارے استاد پڑھانے والے ہوتے ہیں۔ہم یہ بات اس لئے نہیں کہہ رہے کہ ہم کبھی سیاست میں آنے کا ارادہ نہیں ہے بلکہ اس لئے کہہ رہے ہیں سیاست دان تو ملک و قوم کے سب سے زیادہ محترم اور معزز لوگ ہوتے ہیں۔ ملک کی اعلیٰ ترین کرسی پر سیاست دان ہی براجمان ہوتے ہیں اگر چہ، ہمارے ملک میں، کبھی کبھی فوجی جوان بھی اس کرسی کا مزا چکھنے آجاتے ہیں اور پھر پچھتاتے ہوئے جاتے ہیں کہ اس کا لطف نہ ہی اٹھاتے تو اچھا تھا۔

میاں بیوی کے تعلقات کی منافقت پر بات کرنا تو جیسے سورج کو چراغ دکھانا ہے۔ آپ اس سے پہلے ہی بہت اچھی طرح ذاتی یا عطائی مشاہدات اور تجربات سے واقفیت کی ہمالیہ حاصل کر چکے ہیں۔منافقت کے بغیر گھروں کے ادارے چلنے محال ہیں ۔ اگر منافقت کے ماسک اتار دیئے جائیں تو یورپ والا حشر یہاں بھی برپا ہو جائے۔وہ ماسک اتار کر پچھتا رہے ہیں اور یہ ماسک نہ اتار کر۔ لیکن شاید ماسک نہ اتارنا زیادہ بڑی دانائی ہے کیوں کہ ایک ماسک اتار کر کوئی دوسرا پہننا ہی پڑتا ہے۔ انسان ، آخر انسان ہے ۔ دیوتا تو ہے نہیں کہ ہر کام اپنی من مانی سے کرتا جائے۔ اکثر صورتوں میں اسے دوسروں کی ماننی پڑتی ہے۔ اور خاص طور پر گھر میں تو سرِ مو انحراف یا اختلاف کی گنجائش یا اجازت نہیں ہوتی۔

ہم بیوروکریسی کی اہمیت سے اچھی طرح واقف ہیں: ہم کبھی اس کے خلاف زبان نہیں کھولیں گے ۔ یہ ہرگز منافقت نہیں ،کیوں کہ کسی عزت دار کی عزت کرناتو کوئی منافقت نہیں ہے۔ یہ ڈپلومیسی ہو سکتی ہے۔ اس پالیسی کے بغیر دنیا میں رہا نہیں جا سکتا۔ آپ کو اگر میری بات کا یقین نہ آئے تو میں آپ کو جنگل میں لے جاتا ہوں، وہاں آپ خود دیکھ لیں گے کہ شیر جیسا ،نام نہاد، بہادرجانور بھی منافق ہی ہے اور آپ دیکھ کر حیران ہوں گے کہ کیسے منافقانہ انداز میں وہ گھات لگا کے بیٹھتا ہے اور اپنے شکار کے قریب آنے کا انتظار کرتا ہے اور اس قدر چپکے سے اس کے پیچھے جھپٹتا ہے کہ منافقت کی ساری حدود تجاوز کر جاتا ہے۔اگر کسی بیوروکریٹ کا بیٹا یا بیٹی یا بیوی سرکاری گاڑی، بنگلہ یا نوکر چاکر استعمال کرتے ہیں تو پھر کیا ہے۔ ان کے ملک پر احسانات ہی اتنے ہیں کہ اس ساری فیملی کو ملک کی سہولتوں سے فائدہ اٹھانے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ وہ بچارے کیا کریں انہیں معاشرے کے لوگ بھی تو ٹکنے نہیں دیتے۔

اگر آپ جنگل میں جانے کو تیار نہیں تو کوئی بات نہیں ، چلیں بلی ہی کو دیکھ لیں کتنی بھلی مانس بنی ، سر جھکائے پھر رہی ہوتی ہے۔ لیکن جناب اسے اس وقت مشاہدے میں لائیں جب وہ اپنے شکار کی تاک میں ہوتی ہے۔ جب وہ شکار کا تعاقب کرتی ہے اس سے تیز رفتار اور مکارجانور نہیں ملے گا۔ تمام شکاری جانور عیار ، منافق ، موقع شناس اور بزدل ہوتے ہیں۔ شیر جیسا جانور بھی انہی صفات کا مالک ہوتا ہے۔ اپنی جان بچانا ہر جانور کی جبلت ہے ، اپنا فائدہ ہر انسان کی جبلت میں ہے، اور منافقت اسی خود غرضی کا دوسرا نام ہے۔

کاروبار میں منافقت کا نہ ہونا ایسے ہی ہے جیسے ناکام ہونے کی نیت رکھنا یا اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارنا ۔دکان دار کا پہلا اور آخری گُر منافقت ہی ہے۔منافقت کے بغیر کیا گیا کام اکثر گھاٹے میں جاتا ہے۔ گھاٹے سے بچنے کے لئے تھوڑی بہت منافقت کرنا ہی پڑتی ہے۔ فرنیچر ہی لے لیں اس کے سوراخوں اور درزوں میں پوٹین بھرے بغیر کیا دیدہ زیب ، چمکدار فرنیچر دستیاب ہو سکتا ہے کبھی بھی نہیں۔ پالش چیزوں کے کتنے عیب چھپاتی ہے یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے۔

ہم خواتین کا دل وجان سے احترام کرتے ہیں ہم ان کے خلاف اکثر بات نہیں کرتے ، اگر کبھی ہو جائے تو ہم ان سے معذرت خواہ ہیں ۔ انسان سے غلطی ہو ہی جاتی ہے۔ یہ قیاسی غلطی ہے جو کہ اہلِ دانش سے اکثر ہو جاتی ہے۔ چلیں کوئی بات نہیں۔ اب عورتیں اپنے چہرے کے ڈنٹ چھپانے کے لئے جو میک اپ کرتی ہیں وہ کس زمرے میں آئے گا۔ کیا وہ جمالیات کی خدمت ہے یا منافقت کا علم سرِ عام بلند کرنے کے لئے ۔ اپنی اپنی رائے ہو سکتی ہے ۔ اور دونوں آراء بھی درست ہو سکتی ہیں ۔ اور پھر دوسری رائے بھی کسی کی نظر میں پہلی رائے سے زیادہ وزنی ہو سکتی ہے۔ کیوں کہ ہمارے ملک میں خواتیں اکثر مردوں سے زیادہ وزنی ہو چکی ہیں اور اس وزنی رائے کا دفاع کرتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ میک اپ کو منافقت نہ کہا جائے کیوں کہ سچی بات کڑوی بھی ہوتی ہے اور کبھی کبھی آگ بھی لگا دیتی ہے اور بھانبھڑ بھی مچا دیتی ہے۔ چلیں چھوڑیں یہ ذاتی معاملہ ہے۔

مہمانوازی کو ہی لے لیں۔ ہمارے خیال میں کسی کو بھی مہمان کے آنے کی خوشی نہیں ہوتی خاص طور پر جب مہمان سے کوئی نسبی ، قلبی یا جیبی تعلق نہ ہو۔ لیکن ہم کیسی منافقت سے بار بار کہتے ہیں کہ آپ کے آنے کی ہمیں بہت خوشی ہوئی اور اس مہمان کے چلے جانے کے بعد ہم کیسے خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ’ شکر ہے بلا ٹلی‘۔ مہمانوں سے یہ دوہرا سلوک کسی ایک شخص کا نہیں بلکہ آ جکل کا ایک فیشن اور رویہ بن گیا ہے۔ ہمیں صرف وہی مہمان اچھا لگتا ہے جو ہمارے لئے کچھ لے کے آئے اور جاتے ہوئے کچھ دے کے جائے۔ صرف دعائیں نہیں ۔ہم مہمانوں کے منہ پر تو کہتے ہیں کہ مہمان خدا کی رحمت ہوتے ہیں اور ان کے چلے جانے کے بعد حساب ضرور کرتے ہیں :’ کتنا خرچہ کروا گئے ہیں یہ ناہنجار لوگ ، منہ اٹھا ئے چلے آتے ہیں جیسے کوئی ان کے لئے فارغ بیٹھا ہو۔ دیکھا وہ کیسے ہنس ہنس کے باتیں کر رہی تھی۔ جب ان کے گھر جاؤ تو پھوکی صلح بھی نہیں مارتے۔ دیکھا کتنی بری لگ رہی تھی! اتنی سرخی لگائی ہوئی تھی ۔ اماں بھی کڑی بن بن بیٹھتی ہے‘۔ ایسی باتیں مہمانوں کی شان میں ایک قصیدے کی طرح ہم کتنے مزے لے کر اور دل کا غبار نکالتے ہوئے کرتے ہیں۔ کیا یہ منافقت نہیں ، بالکل ہے !!

اگر منافقت نہ ہوتی تو انسان لڑ لڑ کے مر جاتے۔ یہ تو بھلا ہو منافقت کا کہ دل کا غبار نکل جاتا ہے ،ورنہ لوگ دیواروں سے سر پھوڑ پھور کے نڈھال ہو جاتے اور بنتا پھر بھی کچھ نہ، منافقت کئے بغیر۔

بہت سارے ذہنی امراض کا علاج منافقت اپنانے سے ہوجاتا ہے۔ مریض کو کہا جاتا ہے کہ اس کے دل میں جو ہے وہ کہتا جائے۔ تا کہ ا س کا دل ہلکا ہو جائے اور اس کا کتھارسس ہو۔ اس سے اس کے ہواس بہتر ہوتے چلے جائیں گے۔اگر ساری باتین منہ پر نہیں کہی جا سکتیں تو پھر کیا ہے ،کسی کی عدم موجودگی میں تو اس کے متعلق ہر بات کہی جا سکتی ہے۔

اور پھر دل ، دل کی تو بات ہی کیا ہے، قدرت نے اگر دل اور زبان کے درمیان کچھ فاصلہ رکھا ہے تو کچھ سوچ کر ہی رکھا ہے۔ جیسے اندر اور باہر کے درمیان بہت بڑا فرق ایک عالمی سچائی ہے تو دل اور زبان کے درمیان بھی تو کوسوں کا فاصلہ حائل ہے۔ دل و زبان کو ایک ہوتے ہوتے صدیاں لگ جاتی ہیں۔ اس فاصلے کی آبرو اسی میں ہے کہ دونوں میں کچھ فرق رہ جائے ورنہ دونوں کو دو یا دور رکھنے کی ساری حکمت داؤ پے لگ جاتی ہے۔ اگر ہم گھر کے اندر عام سے کپڑ وں میں گزارہ کر سکتے ہیں تو فنکشن بھی تو انہی کپڑوں میں اٹنڈ ہو سکتے ہیں۔ لیکن کون ہی جو اس بات کا خیال یا فرق مدِ نظر نہیں رکھتا۔ ہر کوئی رکھتا ہے۔ انسانی رویہ ہے اسی طرح الفاظ دل کے اندر کچھ اور ہوتے ہیں اور باہر آتے ہوئے کچھ اور ہو جاتے ہیں ۔ یہی اچھی بات ہے اور کچھ لوگ اس اچھی بات کو ہی منافقت سمجھتے ہیں ۔

کسی چیز کو کوئی کیا سمجھتا ہے یہ اس کا مسئلہ ہے۔ کوئی ایسے بھی ہیں جو ترقی کو فحاشی بھی سمجھتے ہیں۔ اگر ترقی یافتہ ذہن جسم کو زیادہ ڈھانپنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے اور قدرت کی عطا کردہ رعنائی کو سب کے لئے عام کرتے ہیں تو اس میں کیا ہرج ہے۔ اب کوئی اس دریا دلی یا فیاضی یا سخاوتِ حسن کو بھی بے راہ روی سے تعبیر کرتا پھرے تو فراخ دل لوگ کہاں چلے جائیں۔ ساروں کو تو یورپ قبول کرنے سے رہا اور نہ ہی ساروں کا دل وہاں جانے کو کرتا ہے اور نہ ہی وہاں کوئی دیکھتا ہے اور وہاں کی گوریاں ویسے بھی اس بات میں عالمی ایواڑ یافتہ ہیں ۔ وہاں ہماری دیسی حسیناؤں کی دال کیسے گل سکتی ہے۔ اب ان کی پریشانی کو یہاں تو کچھ ہمدردی ملنی چاہیئے اور ان کے حسنِ فانی کو جاودانی بنانے کی کوششوں کی پذیرائی کو منفی انداز میں نہیں لینا چاہیئے۔اور اس فروغِ حسن کی ادا کو منافقت کی بھینٹ نہ چڑھا دیا جائے۔

مہمان بھی ،میزبان کی طرح، اگر منافقت کا سہارا نہ لے تو کہیں کا نہ رہے۔ اس کی ساری توقیر اسی بات میں پنہاں ہوتی ہے کہ اپنی بھوک اور پیاس کا اقرار نہ کرے ۔ ورنہ ساری زندگی کی بنی بنائی خاک میں مل جاتی ہے۔ میزبان لاکھ کہتا رہے ، یعنی صلح مارنے کے وقت کہ’ کچھ کھا لیں، پی لیں، کیا لے کے آئیں‘، وغیرہ۔ ہمیشہ یہی کہیں کہ’ نہیں کسی چیز کی ضرورت نہیں‘ ۔ شدید بھوک اور پیاس کی حالت میں بھی یہی کہیں کہ’ نہیں کھا پی کے آیا ہوں یا آئے ہیں‘۔ لیکن جناب یہ صرف منافقانہ باتیں، باتیں ہی رہنی چاہیئں اور جب میزبان روکنے کے باوجود کچھ یا بہت کچھ لے آئے تو پھر کھانے پینے کی چیزوں کو میزبان کی طرف سے نہیں بلکہ اپنا مقدر سمجھ کر صفایا کر دینا چاہیئے۔

ہمسائے منافقت کا ایک مسودہ ہی ہوتے ہیں۔ یہ نفسیات عالمی صداقت کی حامل ہے کہ ہمسایوں کی خوش حالی کبھی اچھی نہیں لگتی جبکہ ان کی بد حالی پر دل کڑھتا ضرور ہے۔لیکن اتنا نہیں جتنا اپنی بد حالی پر ۔ اپنی خوش حالی کی تو بات ہی کیا ہے اور اپنی بد حالی تو اﷲ کر کے کسی اور کے گھر ہی چلی جائے۔لیکن ہم ہمسایوں سے ان کی خوش حالی پر اپنے حسدیہ اور خفیہ جذبات کو واشگاف الفاظ میں بیان نہیں کر سکتے کہ اس سے ہمسائیگی پر حرف آتا ہے ۔ ہم یہ حرف نہیں لانا چاہتے۔ اس لئے ایسے مواقع پر ہم حروفِ انبساط ادا کر دیتے ہیں کیوں کہ دانشوری کا تقاضا یہی ہوتا ہے۔ وہ بھی ہمارے متعلق ایسے ہی جذبات رکھتے ہوتے ہیں۔ انسانی سوفٹ ویئر سب کا ایک جیسا ہے بس ہارڈ ویئر کے اختلافات ہیں۔ اندر سے سب کا خون بظاہر سرخ اور اصل میں سفید ہے۔ کسی خوش فہمی میں رہنا مناسب نہیں کہ اکثر خوش فہمی اصل میں غلط فہمی ہوتی ہے۔اور غلط فہمی ،کج فہمی کی ایک شکل ہوتی ہے۔ صرف معاملہ فہمی کی ضرورت ہوتی ہے اور معاملہ فہمی کا منافقت سے بہت قریبی تعلق بنتا ہے اور یہ تعلق اکثر پائیدار بھی ہوتا ہے۔

دوستی جیسا مقدس رشتہ بھی منافقت کی آنگن میں ہی کھیلتا کودتا جوان ہوتا ہے۔ جب دوست غریب ہوتا ہے تو اس سے حقیقی ہمدردی ہوتی ہے۔ جب وہ خوش حال ہونے لگتا ہے تو اس سے حسد بڑھنے لگتا ہے اور جب وہ ہم سے زیادہ امیر ہو جاتا ہے تو ہمارا رقیب بن جاتا ہے ۔ ہم اس کی خوش حالی پر ناخوش ہو جاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہماری اس پر برتری برقرار رہے اور پھر اپنے دل کو تسلی دینے کے لئے اکثر اس کی غربت کے دنوں کی کہانی دہراتے رہتے ہیں اور کسی کو بتاتے ہیں کہ پہلے وہ بہت غریب بھی ہوا کرتا تھا ۔ وہ جدی پشتی امیر نہیں ہے بس قسمت نے اس کا ساتھ دیا ہے ، چند دنوں میں ہی بن گیا ہے۔اس کی خوش حالی پر نا خوش ہونے کی منافقت ہم سے چھپائے نہیں چھپتی اگرچہ ہم بہتیری کوشش کرتے ہیں کہ ہماری منافقت کا پردہ ہمارے ہی ہاتھوں چاک ہونے سے بچا رہے۔

ڈاکٹر اور مریض کے مابین تعلق بھی منافقت کے وسیع تر ڈرامے کا ایک منظر ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا ترو تازہ، مسکراتا چہرہ جو مریض کے لئے آدھی شفا کا درجہ رکھتا ہے۔ صرف اسی صورت میں مہربان ہوتا ہے جب اس کی جیب میں فیس ڈالی جا چکی ہوتی ہے۔ اگر ڈاکٹر کو یہ پتہ چلے کہ یہ مریض فیس جمع کروائے بغیر اس کی مقدس کیبن میں گھس آیا ہے تو اس کا لہجہ فوراً ہلاکو خاں جیسا ہو جاتا ہے ۔ اس طرح فیس کے نیچے روپوش منافقت کھل کر سامنے آتی ہے جس کا عام اظہار نہیں کیا جاتا ۔

تحائف کا تبادلہ بھی کسی منافقت سے کم درجے کا عمل نہیں ۔ جب ایک شخص دوسرے کو کوئی تحفہ عنایت کرتا ہے تو دل میں ضرور رکھتا ہے کہ میں نے اسے اتنا مہنگا تحفہ دیا ہے ،کل کو اس سے اس سے زیادہ مہنگا ہی قبول کیا جائے گا۔ شادی ، بیاہ اور سالگرہ وغیرہ کا لین دین اس بات کا بین ثبوت ہے کہ لوگ اپنا اگلا پچھلا حساب پورا کر تے ہیں ورنہ فوراً زبان طعن و تشنیع سے مزین ہو جاتی ہے۔اور زبان سے ہی کسی کا گھر پورا کر دیتے ہیں۔ اب جب ہم تحائف جیسا مستحسن عمل بھی دل میں واپسی کی نیت رکھ کر ہی کرتے ہیں تو بھلا اور منافقت کسے کہا جاتا ہے۔

انتخابات کے دنوں میں پوری قوم کو منافقت کے ماسک پہن کر گزارا کرنا پڑتا ہے۔ سیاسی امیدوار بہت سے سپورٹر لے کر دروازے پر دستک دے کر ووٹوں کی صدا لگاتے ہیں تو ان بچاروں کی صدا کا جواب فوراً انکار میں دے کر ساری عمر کے لئے دشمن پیدا کرلینا کہاں کی دانش مندی ہے۔ اب ووٹ ایک ہے اور مانگنے والے نو، دس ۔ تو ووٹ کو پھاڑ پھاڑ کر تو بانٹا نہیں جا سکتا۔ کیا کیا جائے۔ ہر کسی کو پرچانے کے لئے منافقت کی آفاقی پالیسی کا سہارا لینا ہی پڑے ہے۔

مذاہب انسان کی اس جبلتی منافقت سے اچھی طرح واقف ہیں اس لئے مذاہب کسی اچھے کام کا اس وقت تک حکم صادر نہیں فرماتے جب تک وہ اس اچھے کام کے ساتھ انسان کی فطرتی ضرورت کے مطا بق اس کا افادہ یا ثواب منسلک نہیں کر دیتے۔ جب انسان اس نیک کام کو کرتا ہے تو اس کا ثواب اس کے مدِ نظر رہتا ہے۔ ہم یہ تو کہہ ہی نہیں رہے کہ آپ بھی ایسے ہی ہیں۔ نہیں نہیں بالکل نہیں ہم نے تو کہیں آپ کا ذکر ہی نہیں کیا۔آپ اس ساری بحث سے باہر ہیں ، ہم تو عام انسانوں کی بات کر رہے ہیں ، عظیم انسان اس زمرے میں نہیں آتے اس لئے آپ اس بات کا برا نہ منائیں، پلیز۔۔۔۔۔

بہن بھائیوں کے رشتے بہت مقدس ہوتے ہیں لیکن جب جائیداد کی تقسیم کا مرحلہ آتا ہے تو عام بیٹیاں بھی کنگ لیئر(King Lear) کی بیٹیوں جیسی ہو جاتی ہیں۔اور یہاں تک کہ والدین کو عدالتوں میں بھی گھسیٹ لاتی ہیں ۔ بیٹے بھی کسی سے پیچھے نہیں رہتے۔ الغرض رشتوں کا تقدس بھی منافقت پر مبنی ظاہری وطیرہ نظر آتا ہے۔ایک بار پھر منافقت کی جیت ہو تی ہے اور خلاص ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے۔

دوکاندار سے چیز کی قیمت پوچھ کے آگے چلے جائیں ، تو اس کا رویہ اور ہوتا ہے اور اگر چیز خرید کر اس کے منہ مانگے دام دے دیئے جائیں تو اس کا رویہ اور ہوتا ہے۔ ان دونوں رویوں کے درمیان کہیں خود غرضی اور خود غرضی کے نیچے کہیں منافقت بھی پوشیدہ ہوتی ہے۔ رویوں میں منافقت کا عمل دخل کلیدی ہے ۔چاہے کوئی مانے ،چاہے نہ مانے۔

انسان بیمار ہوتا ہے تو خیرات بانٹنا یاد آجاتا ہے اور جب صحت مند ہوتا ہے تو دوسروں کی جیبیں ہی نہیں گردنیں بھی کاٹتا ہے۔ یہی دو غلا پالیسی منافقت کہلاتی ہے۔اور ہونی بھی چاہیئے کیوں کہ منافقت کی جتنی بھی مخا لفت کی جائے یہ ختم نہیں ہوتی اس لئے ایک سچائی جان کر مان لینا ہی بہتر ہے۔ جو برائی انسانی جبلت میں در آئی ہے اسے کیسے جان نکالا جا سکتا ہے۔ یہ وصف بہت سے مواقع پر ہمیں نقصان سے بچاتا ہے اور ہماری کامیابی اور سرخ روئی کے رستے ہموار کرتا ہے۔ہمیں اس رویئے کو برا نہیں کہنا چاہیئے۔ چاہے ہم منافقت نہ ہی کریں لیکن اس آفاقی رویہ کی اتنی سبکی نہ کی جائے کہ جب انسان کو اس کا سہارا لینا پڑ جائے تو وہ یہ نہ کہے کہ ’ وہی ہو ناں جو میرے خلاف زہر اگلا کرتے تھے۔ دیکھ لو آج میں ہی تمہارے کام آیا ہو ۔ کہاں گئی تمھاری، سچائی، دلیری اور حق گوئی۔‘

افسر اور نوکر کے درمیان منافقت کس سے ڈھکی چھپی ہے۔ ہر افسر اپنے ما تحتوں سے منافقانہ تعریف کروا کے ہی اپنے دل کی تسلی کرتا ہے۔ اور نوکروں سے زیادہ کون جانتا ہے کہ وہ اپنے افسر کی کس طرح منافقانہ قصیدہ خوانی کرتے ہیں۔اگر افسر کی عزت نہ کی جائے تو ملازمت خطرے میں پڑ جاتی ہے اور اگر عزت کی جائے تو عزتِ نفس کا دامن تار تار ہو جاتا ہے۔ اب دو مصیبتوں میں سے پہلی کو اختیار کرنا زیادہ مناسب ہے کیوں کہ عزت تو آنے جانے والی چیز ہے جبکہ ملازمت قسمت کی طرف سے میسر آتی ہے اور قسمت بار بار مہربان نہیں ہوتی۔اس ماحول میں منافقت کا سہارا ہی بہترین ساتھی ثابت ہوتا ہے۔

منافقت جیسی عالمی سچائی کے کیڑے نکالنا مناسب نہیں لیکن دوسروں کے سامنے اس کی خوب مخالفت بھی کی جا سکتی ہے، نمبر بنائے جا سکتے ہیں اور موقع ملنے پر اس سے فائدہ بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔ مثل مشہور ہے کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ۔ بس یہی مناسب حکمت ہے جس کا اپنانا زندگی میں کامیابی کی بنیادی کلید ہے۔ تاریخ کی گواہی موجود ہے ، آپ کا تجربہ اور ہمارا تجزیہ بھی۔

ہم نے منافقت نہ کرتے ہوئے منافقت کے حق میں اپنے خیالات کا اظہار کر دیا ہے۔ اب آپ پر ہے کہ آپ اس کے خلاف جو مرضی کہیں۔ اگر آپ اس کی مخالفت بھی کریں گے جس کا کہ آپ کو پورا اختیار ہے۔لیکن ہم آپ کو پہلے ہی بتادیتے ہیں کہ ہم اس کا برا نہیں منائیں گے۔ کیوں کہ ہمیں اس بات کا پورا یقین ہے کہ ہر کسی کو اپنی بات کرنے کو پورا حق حاصل ہے تاوقتیکہ وہ بات کسی کی دل آزاری کا باعث نہ بنے۔
Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 283292 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More