آج کی ایسٹ انڈیا کمپنی

یہ حقیقت ہے کہ جو قوم اپنی تاریخ کو بھلا دیتی ہے ۔جغرافیہ بھی اس قوم کو فراموش کر دیتا ہے۔مگر اس سے ایک بڑی اور تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ جو اپنے جغرافیے کے تحفظ کا بیڑا نہیں اٹھاتے اور محض تاریخی مقبروں کے مجاور بن کر بیٹھ جاتے ہیں تاریخ اپنے خوبصورت اوراق میں انہیں کبھی جگہ نہیں دیتی۔کیا کوئی بھی قوم قوانین قدرت کو بدل سکتی ہے؟یا پھر کوئی ملک خلاف فطرت زندگی گزار سکتا ہے؟تو جناب یقینا اس کا جواب نفی میں ہوگا۔اگر ہم آج کے حکمرانوں کا اپنے ماضی کے حکمرانوں سے تقابلی جائزہ لیں تو کچھ خاص فرق نظر نہیں آئے گا۔اگر آج کے حکمران کو اپنی عیش وعشرت کے لیے سامراج کی چوکھٹ اچھی لگتی ہے تو ہمارا ماضی بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ۔جس کی ایک جھلک آپ کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی صورت میں نظر آئے گی۔آج ہم جن مغل بادشاہوں کی فتوحات کے ترانے گاتے نہیں تھکتے اور پھر اس حکومت کو کچھ نادان دوست اسلامی حکومت سے بھی تشبیہ دے دیتے ہیں ۔حالانکہ مغل حکومت صرف بادشاہت تھی اور کچھ بھی نہیں ۔وہ جتنے زیادہ جنگجو تھے اتنے ہی ناعاقبت اندیش بھی۔جس کی ایک واضح مثال انگریزوں سے دوستی اور پھر ایسٹ انڈیا کمپنی کے قیام کی صورت میں عیاں ہے۔اگر ایسٹ انڈیا کمپنی کے قیام کا سرسری سا جائزہ لیا جائے تو اس کے اغراض و مقاصد صرف اور صرف برصغیر پاک وہند پر قبضہ کرنا تھا ۔دراصل ایسٹ انڈیا کمپنی تجارتی اور فوجی طاقت کا دوسرا نام تھا۔ایسٹ انڈیا کمپنی کا اصل نام ــ،،گورنر اور لندن کے تاجروں کی کمپنی برائے تجارت تھا۔یہ 1600ء میں لندن میں وجود میں آئی ۔اسکا برصغیر سے تجارت کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا ۔برصغیر اس اجازت نامے میں درج نا تھا۔ جس کے تحت اس کمپنی کو ایسٹ انڈینز سے تجارت کرنے کا چارٹر ملا تھا۔مگر سازگار حالات اور ہمارے اسوقت کے حکمرانوں کے ذہنی اور فکری تساہل نے برصغیر کو انکے قدموں کی دھول بنا دیا۔یہ کمپنی چائے ،نمک ،کاٹن سے لیکر افیون تک کی تجارت کرتی تھی۔اس کا واحد منشور پیسہ کمانا تھا۔ان کے نزدیک جائز اور ناجائز ذرائع آمدن میں قطعا ً کوئی فرق نہیں تھا۔کالی مرچ کی تجارت پر ہالینڈ کی کمپنی کا کنٹرول تھا۔برطانوی تاجر ڈچ کمپنی سے سخت مقابلہ میں تھے۔برطانوی کمپنی نے؛ سورت ،،کے مقام پر اپنے تجارتی بحری جہاز کھڑے کرنے شروع کر دیئے۔اس وقت یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔کہ بہت تھوڑے عرصے میں پورے برصغیر پر حکومت قائم کر لیں گے۔اس ادارے کے چوبیس ڈائریکٹراور ایک گورنر تھا جو لندن میں بیٹھے تھے ۔ڈچ اور پرتگالی کمپنیوں سے دشمنی نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو ایک فوج بنانے کا جواز دیا۔برصغیر کی بدقسمتی کا آغاز ایک معصوم طریقے سے شروع ہوا۔1612ء میں تھامس مور، بادشاہ جہانگیر سے ملا۔جہانگیر نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ ایک تجارتی معاہدہ کیا۔یہ دستاویز پڑھنے کے قابل ہے۔جہانگیر کی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے وہ اپنی حکومت کو اتنے بڑے طوفان کے سامنے کھڑا کر بیٹھا۔کمپنی اور برطانیہ کے تمام تاجروں کو برصغیر کی ہر بندرگاہ کو استعمال کرنے کی غیر مشروط اجازت دے دی گئی۔انکو پورے برصغیر میں کسی بھی مقام پر رہنے کی آزادی دی گئی۔یہ بھی لکھا گیاکہ اس کمپنی کے دشمن (پرتگال)یاکسی اور طاقت کو انہیں نقصان نہیں پہنچانے دیا جائے گا۔کمپنی کے تاجر پورے برصغیر میں کسی بھی مقام پر خریدوفروخت کرنے کے لیے آزاد ہونگے۔آخری شرمناک نکتہ یہ بھی تھا کہ اس دوستی اور محبت کے عوض ادارے کے جہاز بادشاہ کے محل کے لیے جو بھی نوادرا ت اور امیرانہ تحفے لائینگے،انکو ہسی خوشی قبول کیا جائے گا۔ہاں ایک اقور اہم شرط یہ بھی تھی کہ یہ تمام مراعات صرف اور صرف ایسٹ انڈیا کمپنی کو حاصل ہونگی اس کے علاوہ یہ حق کسی کوحاصل نہیں ہوگا۔اس معاہدے میں برصغیر کے عام آدمی کے خون چوسنے کی ہر شرط موجود تھی۔اسکے عوض بادشاہ کے لیے صرف راحت اور فرحت کا سامان مہیا کرنا لازم تھا۔یہی وجہ تھی کہ دیکھتے ہی دیکھتے ایسٹ انڈیا کمپنی برصغیر کے مختلف شہروں میں بہت قلیل مدت میں 23فیکٹریاں قائم کرنے میں کامیاب ہو گئی۔یہ کمپنی اس حد تک کامیاب ہوئی کہ اس کمپنی میں ملازم افراد فوج کا کردار ادا کرنے لگے اور یہ کمپنی ،جنگی سازوسامان بنانے سے لے کر جنگی حکمت عملی طے کرنے تک سب اختیارات استعمال کرنے لگی۔جس کے نتیجے میں اس کمپنی کے ذرئعے برصغیر انگریزوں کے قبضے میں چلا گیا اور یہ سب مغل بادشاہوں کی ناعاقبت اندیشی کی مرحون منت ہوا۔گو کہ کچھ مسلمان سپہ سالاروں نے اس کمپنی کے بڑھتے ہوئے اثر کو بھانپ لیا مگر قسمت نے ان کا ساتھ نا دیا۔ان میں ٹیپو سلطان اور نواب سراج الدولہ قابل ذکر ہیں۔اس کے بعد شاہ عالم ثانی نے بھی ایسٹ انڈیا کمپنی سے پنجہ آزمائی کی مگر شکست سے دوچار ہونا پڑا۔جس کے نتیجے میں ان کی آنکھیں نکال لی گئیں اور اسے مکمل طور پر رسوا کر کے رکھ دیا۔اس طرح انگریز وں نے پورے ہندوستان پر قبضہ کر لیا۔جس کے نتیجے میں ایک طویل عرصہ غلامی ہمارا مقدر رہی ۔

اگر آج کے دور کی بات کی جائے تو آج بھی ہم بلواسطہ یا بلاواسطہ انگریز کے غلام ہیں گو کہ 1947ء میں بظاہر ہم آزاد ہو گئے تھے مگر چونکہ ہم ایک عرصہ سے غلامی کا طوق اپنے گلے میں لے کر گھوم رہے تھے۔ تو یہ کیسے ممکن تھا کہ ہم کلی طور پر آزاد زندگی گزار سکتے۔اور پھر تقسیم ہند کے نام پر جو یہاں کے لوگوں کے ساتھ کھیل کھیلا گیا وہ ہم سب کو معلوم ہے۔اسی انگریز نے ہم میں سے موجود اپنے ایجنٹوں کو خوب نوازا۔ بزرگ بتاتے ہیں کہ اسوقت جو کوئی ان کے خلاف بغاوت کرنے کی سوچتا اسکے حوالے سے ہم میں موجود لوگ ان کو مخبری کر دیتے جس پر اس مخبری کرنے والے کو انعامات سے نوازا جاتا۔جس میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ اسوقت اسے کہا جاتا کہ اپنے گھوڑے کو بھگاؤ ،جہاں گھوڑا رک جاتا وہاں تک اسکی زمین کی حد مقرر کر دی جاتی۔آج ان میں سے اکثروبیشتر ہم پر راج کر رہے ہیں ۔جن میں کچھ جاگیرداروں کی صورت میں اورکچھ حکمران بن کر۔ورنہ اگر یہ لوگ ملک و قوم سے مخلص ہوتے تو کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ آج کا پاکستان ایک ترقی یافتہ ملک ہوتا۔لوگ اسی گورے کی چوکھٹ کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے ہی ملک میں پھل پھول رہے ہوتے۔مگر اس سے ان کو کیا فرق پڑتا ہے کہ ملک میں تعلیم ہے کہ نہیں ان کے بچے آج بھی انگلستان میں پڑھ رہے ہیں اور جو پڑھ جاتے ہیں پھر ہم ان کے لیڈر بننے کا انتظار کرتے ہیں خواہ ہمیں ان کی تقریر اردو میں انہیں یاد ہی کیوں نا کروانی پڑے۔اگر صحت کا نظام ٹھیک نہیں تو کیا ہوا یہ اپنا علاج لندن سے کروا سکتے ہیں خواہ پیٹ میں گیس ہی کیوں نا ہو۔اگر میں یہ کہوں تو یہ کہنا غلط نہیں ہو گا ملک میں کرپشن، بیروزگاری، لاقانونیت، اقرباء پروری،رشوت خوری،ناانصافی،غربت جیسے خواہ کتنے ہی مسائل کیوں نا ہوں اس سے ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔کیونکہ ان کا عوام سے کیا تعلق ہے ؟یہ آج بھی انگریز کی ایسٹ انڈیا کمپنی کا کردار ادا کر رہے ہیں ۔جو کماتی تو یہاں پر ہے مگر فوائد اپنے اسی محسن انگریز کو پہنچا رہی ہے۔اور اگر میری یہ بات افسانہ معلوم ہو رہی ہو تو حال ہی میں پانامہ لیکس کے انکشافات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔جس میں خواہ وہ سیاستدان ہو یا پھر بیوروکریٹ یا پھر جج صاحبان سب حضرات نے حسب توفیق اس ملک کی دولت سے خوب ہاتھ صاف کیے ہیں۔اور ملک کا سرمایہ اپنے دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر اپنے حقیقی آقاؤں کے پاس بطور امانت رکھا ہوا ہے۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک ترقی کرے تو ہمیں اپنی صفوں میں چھپے ایسے تمام عناصر کو بے نقاب کرنا ہو گا جو آج بھی ایسٹ انڈیا کمپنی جیسا کردار ادا کر رہے ہیں۔
 
Muhammad Zulfiqar
About the Author: Muhammad Zulfiqar Read More Articles by Muhammad Zulfiqar: 20 Articles with 15564 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.