ڈائری کا ایک پرانا ورق!

پرسوں رات میں نے ایک عجیب خواب دیکھا-اس خواب کی کیفیت میں ابھی تک گرفتار ہوں- یہ کیفیت ایک جادوئی لمس ہے یا پھرایک سحر آفرین نشاط ہے جومیرے وجود پر چھایا ہوا ہے-

وہ ایک اور ہی دنیا تھی ، جہاں میری روح جسم کی قید سے آذاد ہو کر پرواز کرگئ تھی-مہکتے اور جھومتے پھولوں سے لدے چمنستان تھے-صاف ستھری کشادہ سڑکیں اور گلیاں شہری ذندگی کو رواں دواں رکھے ہوئے تھیں- لوگ باگ اپنے اپنے کا موں میں اطمینان سے مصروف تھے-ہر طرف خوشحالی کا دور دورہ تھا- میں حیران تھی کہ یہ کیسا ملکِ بے مثال ہے جہاں زندگی اپنے حسن سے آپ شرماتی ہے-

میں کسی شناسا چہرے کی تلاش میں ِادھر اُدھر گھومنےلگی- ایک قریبی پارک میں ایک بزرگ نظر آئے-ان کی شفقت آمیز نگاہوں سے ہمت پا کردریافت کیا کہ یہاں کی سکھ بھری ذندگی کا راز کیا ہے-

بزرگ نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور گویا ہوئے- "ہم نے یہ سب کچھ بڑی محنت اور بے مثال حوصلے اور صبر استقامت سےحاصل کیا ہے-پہلے ہم لوگ ایک بکھری ہوئی اور تعصّبات میں گھری ہوئ قوم کی طرح تھے- بےروزگاری ، بڑھتی ہوئی آبادی اور جہالت نے ہماری جڑوں کو کھوکھلا کر رکھا تھا-سرحدوں کےپار دشمن ہم پر دانت تیز کرنے میں مصروف تھے اور ہم آپس میں ہی دست و گریباں تھے"- میں نے بے یقینی سے بزرگ کو دیکھا اور جلدی سے دوبارہ پوچھا-" محترم پھر آپ نے اپنے آپ کو کیسے سنوارا؟" وہ بولے: "محنت سے--!"
"محنت سے--؟" مجھے اور بھی جاننے کا اشتیاق ہوا

" ہاں! جب حالات بہت دگرگوں ہو گئے اور ایسا لگنے لگا کہ ہماری آپس کی نفرتوں اور کج رویوں کا آتش فشاں پھٹنے لگا ہے تو ایسے میں کچھ درد مند پڑھے لکھے حضرات ملک بھر سے اکھٹے ہوئے -ان حضرات کی کوئ سیاسی وابستگی نہ تھی- وہ اپنے ملک کے ساتھ مخلص تھے-ان میں قائدانہ صلاحیتں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئ تھیں- سرمایہ اکھٹا کیا گیا اور بے روز گار نوجوانوں کی ایک ٹاسک فورس بنائ گئ- اپنی مدد آپ کے تحت ملک میں جہالت کے خلاف ایک محاذ پرپا کر دیا گیا- عوام میں مسائل کو حل کرنے کی تحریک پیدا ہو گئ- کئ سال کی شبانہ روز محنت کے بعد وہ قوم کو اپنا ہم قدم بنانے میں کامیاب ہو گئے-بہرحال سارے مسائل تو حل نہیں ہوئے لیکن قوم ایک ایسی ڈگر پر جاتی ہو ئ لگ رہی ہے جو کہ تابناک مستقبل کا پتہ دے رہی ہےِ-

میں نے ایک بار پھر اپنے ماحول پر نظر ڈالی- من موہنے مناظر میری نگاہوں کے سامنے رقصاں تھے- فضا میں پھیلی ہوئ خوشبو میرے حوا س کو معطر کر رہی تھی- ننّھے بچوں کی قلقاریاں اور پرندوں کی چہچہا ہٹ ماحول میں نغمگی بکھیر رہی تھی- میں نے پھر سے بزرگ سے بصد احترام پوچھا-
"محترم کیا آپ اپنے ملک کا نام بتانا پسند کریں گے؟"
انہوں نے ایک زیرِ لب تبسم کے ساتھ فرمایا -"پاکستان!"
"کیا--؟"
مسرت سے میرے حلق سے ایک زوردار چیخ نکلی اور پھر وہی ہوا جو اکژ ہوتا ہے-میری آنکھ کھل گئی تھی-

Atiya Adil
About the Author: Atiya Adil Read More Articles by Atiya Adil: 19 Articles with 23953 views Pursing just a passion of reading and writing ... View More