جنگلات کی کٹائی، ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ

تحریر: مبارکہ صفدر ، طالبہ جامعہ کراچی
جنگلات کسی بھی ملک میں اس کی زمین اور آب و ہوا کے لیے بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ عموما جنگلات کے تحفظ اور ان کو بڑھانے کا رجحان ہونا چاہیے مگر یہاں معاملہ یکسر الٹ ہے۔ وطن عزیز میں جنگلات کا کٹاؤ کا سلسلہ کبھی چوری اور تو کبھی ظاہرا جاری ہے۔

جنگلات کا کٹا ماحول کے آلودہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ اگر جنگلات کے بے دریغ کٹاؤ کو نہ روکا گیا تو اس دنیا میں بسنے والے تمام لوگوں کی زندگیوں کو موت کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ زمین کے درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ماہرین ماحولیاتی آلودگی سے بچاؤکے لیے زیادہ سے زیادہ درخت اور پودے لگانے پر زور دے رہے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں اس حوالے سے ہنگامی بنیادوں پر کام شروع ہو چکا ہے۔ اکثر ممالک اس مسئلے پر قابو پانے میں کسی نہ کسی حد تک کامیاب بھی ہو چکے ہیں، مگر ماحولیاتی آلودگی کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ دنیا کے تمام ممالک کو مل کر اس حوالے سے لائحہ عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کا شمار ایسے ممالک میں ہوتا ہے جہاں ماحولیاتی آلودگی نہایت خطرناک صورت اختیار کر چکی ہے۔ ہمارے ہاں ماحولیاتی آلودگی کا اہم سبب درختوں کی بے دریغ کٹائی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں جنگلات کا کل رقبہ چار عشاریہ دو دو چار ملین ہیکٹر ہے جو پاکستان کے کل رقبے کا تقریبا ًچار عشاریہ آٹھ فیصد ہے جبکہ درختوں کے اس چھوٹے رقبے کو بھی تعمیراتی کمپنیز اور ٹمبر مافیا بڑی تیزی سے کاٹ رہا ہے۔ ملک میں قدرتی جنگلات کے رقبے میں ہر سال ستائیس ہزار ہیکٹر کی کمی ہو رہی ہے جو ایک نہایت تشویشناک امر ہے کیونکہ درختوں کا کٹاؤ آلودگی میں اضافے کے ساتھ ساتھ انسانی زندگیوں اور جنگلی حیات کو بہت متاثر کررہا ہے۔

پاکستان میں صرف آزاد کشمیر میں تقریباً چالیس فیصد رقبے پرجنگلات موجود ہیں، یہاں سب سے قیمتی درخت وادی نیلم میں پائے جاتے ہیں۔ ان میں دیودار، کائل، فر، بلوط، اخروٹ، چیڑھ اور دیگر کئی اقسام کے قیمتی درخت شامل ہیں۔ آزاد کشمیر کے سالانہ بجٹ کا تقریباً ساٹھ فیصد حصہ ان ہی جنگلات سے حاصل ہوتا ہے۔ یہاں سے حاصل ہونے والے پھل، قیمتی جڑی بوٹیاں، ادویاتی پودے، شہد اور دیگر اجناس سے سالانہ کروڑوں روپے کی آمدنی ہوتی ہے۔

جنگلات ماحول کو ٹھنڈا اور خوشگوار بنانے، آکسیجن کی زیادہ مقدار فراہم کرنے اور عمارتی لکڑی حاصل کرنے کے لیے ہی ضروری نہیں بلکہ یہاں انواع و اقسام کے پرندے، جانور اور حشرات الارض بھی پرورش پاتے ہیں۔ جنگلات میں پیدا ہونے والی جڑی بوٹیاں، پھل پھول، شہد اور دیگر اشیا انسان کی بہت سی ضروریات پوری کرتی ہیں۔ ہر ملک کے کم از کم پچیس سے چالیس فیصد رقبے پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے۔ جنگلات فضاء میں کابن ڈائی اوکسائیڈ کی مقدار کو بڑھنے نہیں دیتے کیونکہ انھیں خود اس گیس کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ آکسیجن خارج کرتے ہیں جو انسانی زندگی کے لیے لازمی ہے۔ ایک عام درخت سال میں تقریباً بارہ کلو گرام کاربن ڈائی آکسائڈ جذب کرتا ہے اور چار افراد کے کنبے کے لئے سال بھر کی آکسیجن فراہم کرتا ہے۔ ایک ہیکٹر میں موجود درخت سالانہ چھ ٹن کاربن ڈائی آکسائڈ جذب کرتے ہیں۔ بھیڑ، بکری، اونٹ جیسے حیوانات اپنی غذا ان ہی جنگلات سے حاصل کرتے ہیں۔

ماحولیاتی آلودگی آج ہمارے لیے ایک ایسے سنگین اور خطرناک مسئلے کے طور پر ابھر رہی ہے کہ جس کا سدباب نہ کیا گیا تو آنے والے دنوں میں ہمارا ماحول اپنے قدرتی اور فطری پن کو کھو بیٹھے گا اور آنے والی نسلیں متعدد بیماریوں میں مبتلا ہوکر معاشرے کو ایک اذیت زدہ معاشرہ بنادے گی، جس طرح ماحولیاتی آلودگی مسلسل بڑھتی جارہی ہے اسی طرح دنیا بھر میں موسمی تبدیلی بھی تیزی سے رونما ہورہی ہے اور ماہرین موسمیاتی تبدیلیوں کو دہشت گردی سے بڑا خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ ایشیائی حکومتیں موسمیاتی تبدیلیوں کا مناسب جواب دینے میں ناکام رہی ہیں حالانکہ موحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے پیش نظر خطے کی زد پذیری اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ حکومتیں اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے اپنی سرکاری مشینری کی استعداد بڑھاتے ہوئے تمام تر وسائل بروئے کار لائیں۔

اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام کے لیے جنگلات کے کٹاؤ کو روکنا ہوگا۔ حکومت پاکستان کو بھی اس حوالے سے عملی اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اگر یہ اقدامات نہ کیے گئے اور نہ دیکھا گیا کہ جنگلات کا کٹاؤ کہاں اور کون کر رہا ہے تو یقینا ہم آنے والے دنوں میں ماحولیات آلودگی کا شکار تو ہوں گے ہی تاہم اپنے ملک کی خوبصورت بھی کھو بیٹھے گے۔
Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1024756 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.