پردیسیوں کی پنچائتیں

جناب ہمارے نزدیک پردیسیوں کی بھی کچھ اقسام ہوتی ہیں ۔ پہلی قسم کا تعلق بہت دولتمند اور اعلا تعلیمیافتہ طبقے سے ہوتا ہے ۔ یہ خواہ دنیا کے کسی بھی حصے میں مقیم ہوں %۹۹۰۹۹ کی فیملی انکے ساتھ ہوتی ہے ۔ انہیں کم از کم معاشی مسائل اور محلاتی سازشوں کا سامنا نہیں ہوتا ۔ نہ ہی انکے ہاں وطن میں بیٹھ کر کھانے والے اپنے پورے خاندان کو پالنے کا رواج ہوتا ہے ۔

دوسری قسم متوسط طبقے کے کم یا زیادہ پڑھے لکھے اور ہنرمند افراد پر مشتمل ہوتی ہے ۔ یہ سعودی عرب اور مشرق وسطی کے ساتھ ساتھ امریکا کینیڈا اور یورپ میں پائے جاتے ہیں ۔ انمیں سے کچھ تو تھوڑی بہت مشکلات کا مقابلہ کرنے کے بعد اپنی فیملی کو پاس بلا لیتے ہیں ان کو اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور ساتھ ہی پیچھے رہ جانے والے اہلخانہ کی بھی حسب توفیق کفالت میں میں اپنا کردار جاری رکھتے ہیں ۔ مگر کچھ لوگوں کی ساری زندگی آنے جانے میں گذر جاتی ہے ۔ یہ اپنی پوسٹ حالات یا کسی قانونی پیچیدگی کی وجہ سے بیوی بچوں کو پاس تو نہیں بلا پاتے مگر گاہے گاہے خود چکر لگا لیتے ہیں اور انہیں وہیں ہر طرح کے عیش و آسائش مہیا کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے اور آخر میں اولاد انہیں اس ایوارڈ سے نوازتی ہے کہ باپ تو بس کمانے میں ہی لگا رہا ہمیں وقت ہی نہیں دیا ۔

پردیسیوں کی تیسری قسم زیریں پسماندہ نیم یا ناخواندہ طبقے سے تعلق رکھتی ہے ۔ اور یہ عموما راج مزدور کاریگر ہنرمند اور محنت کش ہوتے ہیں ۔ انکی واضح اکثریت سعودی عرب اور مشرق وسطی میں قسمت آزما ہوتی ہے ۔ انکی پوسٹ یا تنخواہ ایسی ہوتی ہی نہیں کہ فیملی کو پاس بلانے یا ساتھ رکھنے کا تصور بھی کر سکیں ۔ مگر پردیس میں جان توڑمحنت کر کے اور طرح طرح کی قربانیاں دے کر یہ جو کچھ کماتے ہیں اور وطن بھجواتے ہیں وہ انکے اہلخانہ کے حالات بدلنے کے لئے کافی ہوتا ہے ۔ اکثر ہی مشاہدے میں آتا ہے کہ گھرانے کا کوئی نوجوان جب غریب الوطن ہو جاتا ہے تو باقی کے اچھے بھلے ہٹے کٹے جوان بھائی مفت کی روٹیاں توڑنے پر کمر باندھ لیتے ہیں ۔ یا اگر کوئی کام کرتے بھی ہیں تو خود کو گھر کی ذمہ داریوں سے بالکل بری سمجھنے لگتے ہیں ۔ اب ایک مسئلہ جو متوسط اور نچلے دونوں قسم کے طبقے میں مشترکہ طور پر پایا جاتا ہے کہ بیرون ملک سے پردیسی کما کما کے بھیجتے ہیں جو کہ دل کھول کے خرچ کیا جاتا ہے ساتھ ہی ایک قانونی پیچیدگی کی وجہ سے نیا مکان دوکان یا پلاٹ والد یا کسی بھائی کے نام سے خریدا جاتا ہے ۔ پھر جب والد کا انتقال ہو جاتا ہے تو اس جائیداد میں تمام اولادیں برابر کی حصہ دار بن بیٹھتی ہیں ۔ محنت سب لوگ مل کر نہیں کرتے وہ کوئی ایک کرتا ہے مگر اسکا پھل پھر سب مل کر کھاتے ہیں ۔ اور وہ لوگ جو اپنی بیوی یا بچوں کا حق مار کر اپنے شادی شدہ بہن بھائیوں کے گھر چلانے میں لگے رہتے ہیں انکی تو پچھاڑی میں جتنی بھی خواری ہو کم ہے ۔ ایسے کیس بھی دیکھنے میں آئے ہیں کہ پینتیس پینتیس سال پردیس میں دن رات محنت کرنے والوں نے پاکستان میں کوئی چھت خود اپنے نام سے نہیں بنائی کوئی سرمایہ کاری نہ کی اور جب انکی ہمت اور صحت جواب دے گئی اور وہ خالی ہاتھ واپس گئے تو دو کوڑی کےہو کے رہ گئے ۔

قارئین! اب آپ سوچ رہے ہونگے کہ ہم نے پردیسیوں کی اس مشہور زمانہ قسم کا تو ذ کر ہی نہیں کیا یعنی بےوفا پردیسی ۔ جو کہ دل توڑ جاتے ہیں روتا چھوڑ جاتے ہیں بھول جاتے ہیں بدل جاتے ہیں ۔ لیکن ابھی ہمارا یہ موضوع نہیں تھا ۔ ہمارا موضوع مختلف اقسام کے مشرقی برصغیری پردیسیوں کی سادہ لوحیوں اور انکے اپنوں کی سیان پتیوں کے ایک عمومی سے مشاہدے پر مبنی تھا ۔ اکثر ہی ایسے لوگوں کو دیکھ کر افسوس ہوتا ہے جو یہاں بہت محنت کرتے ہیں اندھا دھند کماتے ہیں مگر کچھ پس انداز نہیں کرتے اور اور انہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ اگر کسی بھی وجہ سے سب چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے پاکستان واپس جانا پڑ گیا تو تو یہاں کی اتنی بے پناہ سہولتوں اور آسائشوں کے عادی ہو کے وہاں کی مشکلات و مشقتوں میں باقی کی زندگی کیسے بسر ہو گی ۔ ہم نے ایسے کئی بےپرواہ اپنے بڑھاپے کے تحفظ کی فکر سے بےنیاز لوگوں کو نہایت ہی المناک انجام سےدوچار ہوتے ہوئے دیکھا ہے ۔

نوٹ: اس مضمون میں ذکر کئے گئے تمام کردار واقعات اور مقامات بالکل اصلی ہیں اور ان سے کوئی بھی مشابہت اتفاقی نہیں بلکہ حقیقی ہو گی ۔ جس نے جو کرنا ہے کر لے ۔ ہم کسی سے ڈرتے ورتے نہیں ہیں ۔ ہاں ((-:
Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 223 Articles with 1681599 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.