مستقبل پر نظر اور ہماری زندگی

مشہور قول ہے کہ:"عقل مند آدمی مستقبل کی اس طرح حفاظت کرتا ہے جیسے وہ حال ہو"یہ دنیا دانش مندوں کے لیے ہے، نادانوں کے لیے یہاں اس کے سوا کوئی انجام نہیں کہ وہ بے سوچے سمجھے ایک اقدام کریں اور جب اس کا برا انجام سامنے آئے تو اس کے خلاف احتجاج کرنے بیٹھ جائیں۔نادان آدمی کی نظر حال پر ہوتی ہے، عقل مند آدمی کی نظر مستقبل پر، نادان آدمی اپنے آج کے حالات میں ایک ناپسندیدہ چیز دیکھتا ہے۔ وہ اس سے لڑنے کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے، عقل مند آدمی دور اندیشی سے کام لیتا ہے، وہ سوچتا ہے کہ ہماری آج کی لڑائی کا انجام کل کس انداز میں نکلے گا نادان آج کو دیکھ کر اقدام کرتا ہے۔ عقل مند وہ ہے جو مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے۔ہر اقدام اپنے نتیجہ کے اعتبار سے مستقبل کا واقعہ ہے۔ اقدام آج کیا جاتا ہے، مگر اس کانتیجہ ہمیشہ آئندہ نکلتا ہے۔ اس لیے یہی درست بات ہے کہ عملی اقدام کو آئندہ کے معیار سے جانچا جائے۔ آج کی کاروائی کے ٹھیک یا بے ٹھیک ہونے کا فیصلہ اس اعتبار سے کیا جائے کہ کاروائی جب اپنے انجام پر پہنچے گی تو اس کا حاصل کس صورت میں ہمارے سامنے آئے گا۔آج کاصحیح مصرف آج کو قربان کرنانہیں بلکہ آج کو استعمال کرتا ہے، جو لوگ اس حکمت کو جائیں وہی اس دنیا میں بڑی کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ایک مغربی مفکر کا قول ہے کہ:اچھا سپائی جنگ کے پہلے ہی دن لڑ کر مر نہیں جاتا، بلکہ وہ زندہ رہتا ہے تاکہ اگلے دن وہ دشمن سے لڑ سکے۔A good soldier lives to fight for the second dayیہ قول صرف معروف قسم کی بڑی بڑی جنگوں کے لیے نہیں ہے۔ وہ روزانہ پیش آنے والے عام مقابلوں کے لیے بھی ہے۔ اگر کسی کے ساتھ آپ کی اَن بَن ہو جائے اور آپ فوراََ ہی اس سے آخری لڑائی لڑنے کے لیے کھڑے ہو جائیں تو آپ ایک برے سپاہی ہیں۔آپ اپنی زندگی میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکتے۔اس اصول کی بہترین مثال اسلام کی تاریخ ہے۔ پیغمبر نبی ﷺ نے اپنے پیغمبرانہ مدت کا نصف سے زیادہ حصہ مکہ میں گزارا۔ یہاں آپ کے مخالفین نے ہر قسم کا ظلم کیا۔ مگر آپ نے ان سے ٹکراؤ نہیں کیا۔ آپ یک طرفہ طور پر صبر کرتے رہے۔ مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد جب پھر انھوں نے ظلم کیا تو آپ نے اپنی فو ج کو منظم کر کے ان سے جنگ کی، اس کے بعد دوبارہ آپ حدیبیہ کے موقع پر جنگ سے رگ گے۔ اس کے بعد جلد ہی وہ وقت آیا کہ دشمن نے کسی لڑائی کے بغیر ہتھیار رکھ کر اپنی شکست مان لی اور یہ وہ لمحہ تھا کہ جب آپ ﷺ نے تمام دشمنان اسلام کی عام معافی کا اعلان کیا، اس لیے ہمیشہ کوئی بھی سخت فیصلہ جذبات کی گھڑیوں میں نہ کیا جائے بلکہ ہمت و حوصلہ کے ساتھ اس کی پلاننگ کر کے اپنے امور کو طے کیا جائے ۔اس لیے اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ ریس کورس میں دوڑکے دوران اکثر وہی جیتتے ہیں جو شروع کے راؤنڈز میں اپنی پوری طاقت نہیں لگاتے بلکہ اپنی ساری طاقت آخری راؤنڈ کے لیے بچا کر رکھتے ہیں اور کبھی آپ نے اپنی زندگی کا مشاہدہ کیا ہے کہ آج آپ کی زمین یا باغات میں جو پھل دار درخت لگے ہوئے ہیں یہ کس نے لگا ئے تھے اور آج آپ انکا پھل کھا رہے ہیں ، ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا ہے کہاس پھل دار درخت کا پھل انسان اپنی زندگی میں بہت مشکل سے کھاتا ہے جو اس نے اپنے ہاتھوں سے لگایا ہوتا ہے۔ اب اگر ہم اس سوچ میں  بیٹھ جائیں کہ جی یہ ہم اپنی زندگی میں اس سے مستنفید نہیں ہونگے تو پھر کیا ضرورت ہے کہ ہم درخت لگائیں مگر لو گ کثرت کے ساتھ درخت لگاتے ہیں۔۔۔ اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کرو گو کہ ہم کو اپنے آنے والے کسی بھی لمحے کا اندازہ نہیں کہ کس میدان میں حضرت عزرائیل علیہ السلام ہماری موت کا پروانہ لے کر ہمارے پاس آجائیں ۔۔۔
 

Muhammad Jawad Khan
About the Author: Muhammad Jawad Khan Read More Articles by Muhammad Jawad Khan: 113 Articles with 182225 views Poet, Writer, Composer, Sportsman. .. View More