ڈیجیٹل دور اور ہم

اس وقت ہم جس دور میں زندہ ہیں اسے ڈیجیٹل دور کہتے ہیں۔ جہاں ہر طرف نئی نئی ایجادات ہو رہی ہیں، اور بنی نوع انسا ن نے ان ایجادات کو استعمال کر کے دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔ انٹر نیٹ ایک ایسی چیز ہے جس کے ذریعے ہم پوری دنیا سے رابطے میں رہ سکتے ہیں، کچھ بھی دیکھ سکتے ہیں ، پڑھ سکتے ہیں، جان سکتے ہیں، اورمفید معلومات کا تبادلہ کر سکتے ہیں، ہر گزرتے دن کے ساتھ انٹر نیٹ کے صارفین میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال نے لوگوں کی زندگیوں میں بھی آسانیاں بھر دی ہیں اورغریب اور محروم طبقات کی رسائی ان چیزوں تک ممکن بنائی جو پہلے ان کی پہنچ سے بہت دور تھیں۔ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔ اس وقت پوری دنیا میں معذور افراد کی تعداد ایک ارب سے زائد ہے، جن میں سے 80فیصد کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہے، ہمارے معاشرے میں عموماً ایسے افراد کو ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے لیکن انٹرنیٹ نے ان کی زندگیوں کوبدل کے رکھ دیا ہے۔ یہ معذور افراد انٹرنیٹ کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کو استعمال میں لاکر اپنی زندگیوں کو بہتر بنا رہے ہیں۔ خواتین گھر بیٹھے انٹر نیٹ کے ذریعے آن لائن کام کر کے اپنی معاشی ضروریات پو ری کر رہی ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ مفید چیز ابھی بہت سارے لوگوں کی پہنچ سے دور ہے۔ ابھی بھی6ارب سے زائد لوگ تیز تر انٹر نیٹ جیسی سہولت ستے محروم ہیں۔ انٹر نیٹ سے محروم افراد کے لحاظ سے ہمارا پڑوسی ملک بھارت پہلے نمبر پر ہے، چائنہ دوسرے، انڈونیشیا تیسرے، پاکستان چوتھے اور بنگلہ دیش پانچویں نمبر پر ہے۔

دنیا میں انٹر نیٹ اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے حوالے سے ورلڈ بنک نے "World Development Report 2016: Digital Divindends"کے نام سے ایک رپورٹ شائع کی۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت پوری دنیا کی آبادی سات ارب چالیس کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ جس میں سیصرف ایک ارب لوگ ہی تیز ترین انٹر نیٹ جیسی سہولت سیلطف اندوز ہو رہے ہیں جو کہ دنیا کی مجموعی آبادی کا صرف 13فیصد ہیں۔ جبکہ چار ارب لوگ انٹر نیٹ جیسی سہولت سے بھی محروم ہیں یعنی ساٹھ فیصد کے لگ بھگ لوگوں کو انٹر نیٹدستیاب ہی نہیں ہے یا ان کی اس تک رسائی ممکن نہیں ہے۔ دو ارب لوگوں کے پاس موبائل فونز دستیاب نہیں ہیں جبکہ چالیس کروڑ لوگ ایسی جگہوں پہ رہتے ہیں، جہاں موبائل کے سگنل بھی دستیاب نہیں ہیں۔ دنیا کے بیس فیصد غریب ترین گھرانوں کی رسائی بنیادی سہولیات جیسے صاف پانی اور واش روم تک ممکن نہیں جبکہ موبائل فون ان کی پہنچ میں ہیں اور تحقیق کے مطابق ہر دس میں سے سات کے پاس موبائل فون موجود ہے۔ گو کہ پوری دنیا میں انٹر نیٹ، موبائل فونز اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے تاہم اس سے حاصل ہونے والے فوائد توقعات سے کہیں کم ہیں اور آج بھی تقریباً دنیا کی آبادی کا60فیصد ان تمام سہولیات سے محروم ہیں۔ اور دنیا میں تیزی کے ساتھ پھیلتی ہوئی جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کا رخ دنیا کے امیر لوگوں کی طرف ہوتا جا رہا ہے۔

اگر ہم پاکستان کی بات کریں تواس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت سولہ کروڑ سے زائد لوگ آف لائن ہیں، یعنی ان کی رسائی انٹر نیٹ تک نہیں ہے۔ پاکستان کی کل آبادی کا صرف سترہ فیصد حصہ ہی انٹر نیٹ کو استعمال کر پارہا ہے، کیسا استعمال کر رہا ہے یہ تو آپ جانتے ہی ہیں، اور باقی کے تراسی فیصد لوگ ابھی تک اس جدید اور مفید سہولت سے محروم ہیں، جس کی بنیادی وجہ پاکستان میں ٹیلی کمیونیکشن سیکٹر پر لاگو کردہ بے تحاشہ ٹیکس ہیں، جس کی وجہ سے یہ لوگوں کی پہنچ سے دور تر دور ہوتی جا رہی ہے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے، ویسے تو اور بھی بہت ساری چیزیں ہیں جن سے ہم ابھی تک محروم ہیں۔ سب سے بڑی اور بنیادی چیز تو حقوق ہیں ہم ابھی تک اپنے بنیادی حقوق سے بھی محروم ہیں، تعلیم حاصل کرنا ہمارا بنیادی حق ہے، ریاست اس حق کو تسلیم کرتی ہے اور مانتی ہے کہ سکول جانے والی عمر کے تمام بچوں کو بنیادی تعلیم کی مفت اور لازمی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے ڈھائی کروڑ بچے تعلیم جیسی سہولت سے محروم ہیں۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ پینے کا صاف پانی ہمارا بنیادی حق ہے، ہماری آبادی کی اکثریت کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں اور ہمارا شمار ان ملکوں میں کیا جانے لگا ہے جہاں پینے کے صاف پانی کی قلت کا مسئلہ بھیانک سے بھیانک تر ہوتا جا رہا ہے۔ صاف ستھرا ماحول ہمارا بنیادی حق ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہہمارا شمار دنیا کے آلودہ ترین ملکوں میں ہونے لگا ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے فضائی آلودگی کے حوالے سے دنیا کے بیس آلودہ ترین شہروں سے متعلق رپورٹ جاری کی، جس میں پشاور کو فضائی آلودگی کے حوالے سے دنیا کا دوسرا، راولپنڈی کوچوتھاا اور کراچی کو چودھواں بد ترین شہر قرار دیا ہے۔ آزادی ہمارا حق ہے ، تمام شہری آزاد ہیں اور آزادی کے ساتھ اپنی زندگی گزار سکتے ہیں، عالمی اداروں کی رپورٹ کے مطابق پاکستان انسانی غلامی کے اعتبار سے دنیا کے بد ترین ممالک میں شامل ہے۔ جہاں خواتین اور بچوں کو جبری مشقت پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں کام کرنے والے بچوں کی تعداد تقریباً ایک کروڑ سے زائد ہے، جن میں سے تقریباً چالیس لاکھ بچوں کی عمریں پانچ سال سے لیکر چودہ سال تک کی ہیں، ان بچوں کو سکولوں میں ہونا چاہئے تھا لیکن افسوس کی بات ہے کہ یہ بچے ہمارے خوبصورت مکانوں کی تعمیر کے لئے بھٹوں پہ اینٹیں بنا نے پر مجبور ہیں، ہمارے لئے خوراک کا بندوبست کرنے کے لئے کھیتوں میں جتے ہوئے ہیں، ہمارے گھروں میں ہمارے گندے برتن صاف کر رہے ہیں، ہماری گاڑیوں کو چمکانے ، ہمارے نرم پاؤں کے نیچے بچھنے والے قالین بننے پر مجبور ہیں۔

پوری دنیا اس وقت جس رفتار سے ترقی کی منازل طے کر رہی ہے ہم اسی رفتار سے پیچھے کی جانب رواں دواں ہیں، کیونکہ ہمیں اپنے ملک کے مستقبل کی کوئی فکر ہی نہیں ہے، اگر فکر ہوتی تو قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں لوگ اپنی اپنی ذات کو بچانے کی بجائے اس بات پر غور کرتے کہ کیوں اتنے سارے بچے سکولوں سے باہر ہیں، ان کی تعلیم کا بندوبست کیسے کیا جائے۔ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو کیسے موثر طریقے سے استعمال کیا جائے۔ ہم نہ صرف قومی دولت کا ضیاع کر رہے ہیں بلکہ قوم کے قیمتی وقت کو بھی ضائع کر رہے ہیں۔ آج ہم اپنی ذاتی لڑائیوں سے باہر نکل کر ان بچوں کی فکر کرتے۔ اپنی صفائیاں پیش کرنے اور دوسروں کی پگڑی اچھالنے کی بجائے ، ان بچوں کے لئے ملک کے تمام علاقوں میں جلسے منعقد کرتے، سیاست کو بالائے طاق رکھ کرتعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرتے، لوگوں کو ساتھ ملاتے اور بچوں کوسکولوں میں داخل کرواتے ، اور جو بچے سکولوں میں زیر تعلیم ہیں ان کو بہترین تعلیمی سہولیات کی فراہمی ہماری اولین ترجیح ہوتی۔ دنیا میں تیزی سے رائج ہونے والی جدید ٹیکنالوجی کو ملک کے تمام شہریوں کی دسترس میں لانے کا بندوبست کرتے اور ہر شعبہ زندگی میں اس کو رائج کرتے۔ اپنے اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کی بجائے ملک کے مستقبل کی کوئی فکر کرتے۔ اب ایسے میں یہ ذمہ داری بھی ملک کے عام شہریوں کی ہے کہ وہ ایسے بچوں کی نشاندہی کریں جو سکول نہیں جاتے اور ان کو قریبی سکول میں داخل کروانے کا کوئی بندوبست کریں اور ملک کے مستقبل کو محفوظ بنائیں۔

aamer malik
About the Author: aamer malik Read More Articles by aamer malik: 7 Articles with 5305 views Working in social and development sector.. View More