موسمیاتی تغیر اور اس کے اثرات

کرہ ارض قدرت کے بے شمارنعمتوں اور خوبصورتیوں پر منحصر ہونے کے باوجود نوع انسان کو اس بات کاذرا بھی احساس نہیں کہ ان نعمتوں اورخوبصورتیوں کو خود اپنے ہاتھوں سے تباہی کے دہانے پہنچا ررہا ہے۔ صنعتی ترقی کے بعد انسان نے انگنت ترقی کے منازل عبور کرنا شروع کئے جس سے انسانی زندگی میں بے دریغ سہولیات اور آسانیاں پیدا ہوئی مگر ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی مشکلات اور خطرات نے بھی پیچھا چھوڑنے کا نام نہیں لیا۔ آبادی میں بے پناہ اضافہ اور قدرت کے عطا کردہ انعامات میں دن بہ دن کمی نے نئی نسل کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔اگر چہ دنیا کو دہشت گردی امن امان جیسے سنگین خطرات لاحق ہے اور ان خطرات سے نمٹنے کے لئے ساری دنیا ہر لحاظ سے تگ ودو کر رہی ہیں۔مگر اس کے علاوہ موسمیاتی تغیرات جیسی بڑی خدشات حیات انسانی کو درپیش ہے ۔جس کیطرف کوئی ٹھوس قدم اٹھا تے نظر نہیں آتا۔ بڑھتی ہوئی ٹیکنالوجیز ،کارخانے ، مشینری اور انرجی کے لئے استعمال ہونے والے کوئلوں سے فضائی آلودگی میں ہوش روبا اضافہ دیکھنے میں آیاہے۔جو کہ فضا میں گرین ہاوس گیسوں کے بے تحاشا اضافے کا سبب بنتا ہے جس سے زمین کی درجہ حرارت دن بہ دن بڑھتی چلی جا رہی ہے ۔ بڑھتی ہوئی مضر گیسوں اور فضا ئی آلودگی کی وجہ سے Ozone layerجو کی سورج کی طرف سے آنے والی ultraviolet radiation (UV) کو جذب کرتی ہے کو نقصان پہنچاتی ہے نتیجتا زمین پر مضیرگیسوں کا اثر بڑھتی جا رہی ہے جو کہ موسمیاتی تبدیلی کی بنیادی وجہ بنتی ہے۔ زمین کے درجہ حرارت میں مسلسل اضافے سے گلیشرز کے پگلنے کا سلسلہ بھی تیز ہوتا جا رہا ہے۔دوسری طرف نارتھ پول میں گرمی کی بڑھتی ہوئی شدت اورگلیشرزکے پگلنے کی اصل وجہ وہاں پر موجود arctic ocean پر سورج کے کرنوں کا لگاتار پڑنابتایا جاتاہے ۔ جس سے زمین دن بدن گرم ہوتی جارہی ہے ان وجوہات کی بنا پر سطح زمین پر گرم ہوائیں بھی چلتی ہے۔جو کہ انسانی صیحت کے لئے مضیر ثابت ہوسکتا ہے ۔اس کی مثال کچھ سالوں پہلے یورب میں چلنی والی بھیانک گرمی کی لہریں ہے جس سے تقریبا35ہزار لوگوں کے جانیں لی تھی۔ اسی دوران ایشیاء میں بھی کئی جہگوں پر درجہ حرارت ۵۰ ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ چکی تھی۔ اگر چہ برف اور گلیشر ز کے پگلنے اور جمنے کا عمل سالوں سال چلتی رہتی ہے مگر موجودہ دور میں درجہ حرارت میں اضافے سے نہ صرف بارشیوں کا سلسلہ بڑھنے لگا ہے بلکہ پہاڑوں سے برف اور گلیشرز بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پگلنا شروع ہو رہا ہے اور یہ پانی سیلاب اور لینڈسلائیڈنگ کی شکل میں آتا ہے ۔ اگر ہم ما ضی سے موازنہ کریں تو صورت حال کچھ عجیب سامحسوس ہوتا ہے کئی سالوں پہلے زمین ٹھنڈ ہونے کی وجہ سے دنیا کے ہر کونے میں موجود پہاڑوں پر برف کی چٹانیں بنے ہوئے ہوتے تھے اور ان کے پگلنے کا خدشہ کم ہوتاتھا جس سے زمین پر رونما ہونے والے تباہ کاریوں کا سلسلہ بہت کم ہوتا تھااورجو مضیر بیماریاں آج کے دور میں جنم لے رہے ہیں ان کانام و نشان تک نہ ہوتا تھا۔دن بہ دن موسمیاتی تغیر اور زمین کی درجہ حرارت میں اضافے سے برف اور گلیشرزناپید ہوتا جا رہا ہے ۔ ماہرین یہ گلیشرز آئندہ 30 سالوں میں خو فناک حد تک پگل جانے کا خدشہ اظاہر کرتے رہے ہیں۔مگر ان تباہ کاریوں اور موسمیاتی تغیرکے اثرات سے نمٹنے کے لئے چند ملکون کے علاوہ ساری دنیا اس مسئلے پر یکجا ہوتے دکھائی نہیں دے رہا۔ جو کہ حیران کن امر ہے۔یہ حقیقت عیاں ہے کہ پرانے طرز کی مشینں ، اور کارخانے زہر یلی دھواں اور فضا ئی آلودگی کا سبب بنتی ہے ۔ یہاں تک کہ پاکستان سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں کوئلے سے بجلی پیدا کی جاتی ہے ان کوئلوں کو جلانے سے گرین ہاوس گیس خارج ہوتی ہے ۔ مگر پھر بھی حکومت ان حقائق کے بارے میں سنجیدہ دکھائی نہیں دے رہا۔ہوناتو یہ چاہیے تھا کہ ان خطرات سے بچنے کے لئے نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ عالمی فورمز پر بھی آواز بلند کرنے کے ساتھ ساتھ عملی اقدام بھی اٹھائے جائے ۔ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے دس سال سب سے زیادہ گرم رہنے والے سالوں میں شمار کیا گیا ہے۔ ان سالوں میں سے خصوصاسال 2005 انتہا ئی گرم سال بتایا جاتاہے۔اس موسمیاتی تغیر کی وجہ سے زمین سے گلیشرز ناپید ہو رہی ہے۔ اگر ہم دنیا کے بڑے بڑے گلیشرز کا ذکر کریں تو ان کی حالات خوفناک حد تک تبدیل ہو رہے ہیں۔جن میں کولمبیا کے گلیشرز جوکہ اپنے اختتامی مراحل میں ہے ، سوئیزرلینڈ ، ارجنٹینیا اور ساوتھ امریکہ کے بڑے بڑے گلیشرز شامل ہے جن کو دنیابھر سے لوگ نظارہ کرنے آتے تھے مگر آج منظر کچھ اور ہے ۔ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے بالائی علاقوں میں بے موسم بارشوں نے ہر سال تباہی مچا تی ہے۔پچھلے سال بھارت میں ہونے والے 37 انچ بارش نے ایشیا میں بارش کی حدیں توڑ دی تھی۔ اور پاکستان میں بھی یہ سلسلہ بڑھتی جا رہی ہے جس کہ وجہ سے سیلاب اور قدرتی آفات کا سلسلہ بڑھتی جارہی ہے۔اگرچہ ہمالیہ کے پہاڑوں پر اب بھی بڑے بڑے گلیشرز موجود ہیں جو وہاں کے عوام کے لئے باعث رحمت بنی ہوئی ہے ۔کیونکہ وہاں کے عوام ان گلیشرز کے پانی نہ صرف پینے کے لئے استعمال کرتے ہیں بلکہ فصلوں اور کھیتوں کو سیراب کرنے کے لئے بھی ا ستعمال کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ ندیوں جھیلوں میں بھی یہی پانی آتا ہے۔مگر ان گلیشرز کے پگلنے اور بہت زیادہ بارش ہونے کے سبب گلگت بلتستان میں پچھلے چند سالوں سے سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ اور دریاوں میں طغیانی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔اگر اسی طرح موسمیاتی تبدیلی بر قرار رہی تو ان میں سا ل بہ سال اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ مستقبل میں پانی کے گمبیرمسائل سے بھی دوچار ہو سکتے ہیں۔اگرچہ سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ اور بارش کے زائد ہونے کا خدشہ ساری دنیا کو درپیش ہے مگر وطن عزیز جیسے ترقی پذیر ملکوں میں ایسی تباہی پیش آنا بڑے امتحان سے کم نہیں ۔ حال ہی میں گلگت بلتستان میں آنے والے سیلاب کی تباہ کاریوں نے فصلیں اور زمینیں تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ کئی جانیں بھی لی تھی۔ کئی شاہراہوں پر آنے والی لینڈ سلائیڈنگ نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا تھا۔ ماضی قریب میں ملک کے دوسرے علاقوں میں آنے والے قدرتی آفات جن میں2005 کا زلزلہ اور 2010 ؁ میں آنے والے سیلاب کی تباہ کاریاں سر فہرست ہے نے ملک کو بڑے نقصان سے دوچار کر دی تھی ۔لہذاان سب تباہ کاریوں سے بچنے کے لئے حکومت وقت کو چاہئے کہ جدید طرز پر انتظامات کریں تاکہ مستقبل میں کسی بھی متوقع نقصانات میں کمی لایا جا سکے ۔اور ان کو قابو میں لاتے ہوئے مالی و انسانی وسائل کو لاحق خطرات پر عملی پیش بندی ترتیب دے سکے۔ یہی زندہ قوموں کی نشانی ہے۔
Shakeel Ahmad Balti
About the Author: Shakeel Ahmad Balti Read More Articles by Shakeel Ahmad Balti: 9 Articles with 6064 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.