باندرہ بہرام نگر بستی کا کوئی بھی گھر بیماری سے محفوظ نہیں !

بہرام نگر کے ایک طرف ریلوے اسٹیشن ہے لیکن تین طرف سے یہ بستی بڑے نالوں سے گھری ہوئی ہے اور یہ نالے ہمہ وقت گندگیوں سے بھرے رہتے ہیں
باندرہ ( مشرق ) میں ریلوے اسٹیشن سے بالکل لگ کر ایک قدیم بستی آباد ہے جسے لوگ بہرام نگر کے نام سے جانتے ہیں یہ مسلم اکثریتی علاقہ روز اول سے ہی ان تمام سرکاری اور نیم سرکاری سہولیات و مراعات سے یکسر محروم ہے جسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جب ملک کو پروانہ ٔ آزادی دیا جارہا تھا تو یہ خطہ اس وقت شاید فہرست میں موجود ہی نہیں تھا ۔سماجی ، معاشرتی اور اقتصادی سطح پر ایسی کون سی مشکلات و پریشانیاں ہیں جن کو یہاں مرکزیت حاصل نہ ہو ۔ اگر آپ اس علاقے میں گھوم پھر کر جائزہ لیں گے تویہ احساس غالب ہوگا کہ یہ خطہ ایسا ہے جہاں نہ کوئی کارپوریٹر ہے نہ ایم ایل اے اور نہ ہی کوئی ممبر آف پارلیمنٹ ، ہاں بس الیکشن کے دوران کچھ سرگرمیاں ضرور بڑھ جاتی ہیں اور تبھی کچھ لیڈروں اور امیدواروں کی صورت آشنائی بھی ہو جاتی ہے ۔۔لیکن اس کے بعد پھر وہی جانا پہچانا سناٹا ۔۔طویل ترین سناٹا ، بس باقی رہ جاتے ہیں مسائل کے انبار ، غلاظت ، بیماریوں کے ڈھیر ، گندگی اور تعفن ۔گذشتہ دنوں اس بستی کے ایک جائزے کے دوران وہاں کے عوامی خدمت گار نور محمد بڑے صاحب ( بڑے لفظ سے آپ کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں دراصل وہ اپنے گھر میں عمر کے لحاظ سے بڑے ہیں ، ورنہ بہرام نگر جہاں اتنے ڈھیروں مسائل ہوں کون بھلا اپنے بڑے ہونے کا دعوی ٰ کرسکتا ہے ) سے ملاقات ہوئی نور صاحب ہمیشہ فلاحی و رفاہی کاموں میں جٹے رہتے ہیں ،خود نقصان اٹھاکر دوسروں کے فائدے پر یقین رکھنے والے افراد آج بھی ہر جگہ ملتے ہیں لیکن ان کی تعداد کھانے میں نمک جیسی ہوگئی ہے ، ان کی ایک انتہائی مختصر لیکن مخلص ٹیم جو چند افراد پر مشتمل ہے جن میں زاہد شیکل گر اور الیاس شیخ وغیرہ نمایاں ہیں اور لوگوں کی کچھ نہ کچھ پریشانیاں بانٹتے رہتے ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ تعجب ہے جس مذہب میں طہارت و صفائی کا اس قدر اہتمام موجود ہے اس کے ماننے والوں میں اسی قدر قول و فعل کا تضاد پایا جاتا ہے ان کے مطابق رات ہوتے ہی بہرام کی گلیوں اور نکڑوں پر غلاظت کا ڈھیر لگا دیا جاتا ہے اس طرح لوگوں کے گھر تو صاف ہوجاتے ہیں لیکن ان کے ہی آنے جانے کے راستے گندگیوں سے بھر جاتے ہیں ، یہاں کی تنگ و تاریک گلیاں جہاں پہلے ہی ہوا اورروشنی کا گذر مشکل سے ہوپاتا ہے کچروں سے پٹ جاتی ہیں اور لوگوں کا چلنا پھرنا دشوار ہو جاتا ہے ، رات کو تو چھوڑیئے دن میں ہی ان ڈھیروںپر چوہوں اور کتوں کا حملہ شروع ہوجاتا ہے اور پھر وہی چوہے گھروں میں بھی داخل ہوجاتے ہیں ۔

بہرام نگرکے ایک طرف ریلوے اسٹیشن ہے لیکن تین طرف سے یہ بستی بڑے بڑے نالوں سے گھری ہوئی ہے اور یہ نالے ہمہ وقت گندگیوں سے بھرے رہتے ہیں اس کے علاوہ گلیوں کے اندر بہنے والی نالیاں بھی ہمیشہ خطرے کے نشان سے اوپر ہی رہتی ہیں اور اپنے اس عمل میں وہ اتنے سچے ہیں کہ آپ کبھی بھی وہاں کا دورہ کریں وہ نالے اور نالیاں کبھی جھوٹے ثابت نہیں ہوں گے ۔ صبح کے وقت جب پانی آتا ہے تو نکاسی نہ ہونے کے سبب ڈھیروں پانی جمع ہو جاتا ہے اور غلاظت و تعفن سے بھرا یہ پانی دن بھر انہی گلیوں میں موجود رہتا ہے جس سے تیز بدبو اور تعفن اٹھتا ہے جس کے سبب پورے علاقے میں مچھروں اور مکھیوں کا راج قائم ہو جاتا ہے اور طرح طرح کی بیماریاں پھیلتی ہیں جس سے بڑے بوڑھے سبھی لیکن خاص طو رپر بچے زیادہ متاثر ہوتے ہیں ، یہی سبب ہے کہ ڈاکٹروں کے یہاں صبح و شام بھیڑ لگی رہتی ہے ۔صبح کے وقت چھوٹے چھوٹے بچے اسکول جاتے وقت بے حد پریشان ہوتے ہیں اور مجبوراً انہیں غلیظ اور تعفن زدہ پانی میں سے ہی گذرنا پڑتا ہے بسا اوقات ان کے جوتے او ر موزے بھی خراب ہو جاتے ہیں جس کے سبب وہ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں اسی طرح نماز کیلئے مسجد جانے والے افراد بھی سخت اذیت سے دوچار ہوتے ہیں ۔نور محمد بڑے کہتے ہیں کہ علاقے میں پھیلی غلاظت اور اس کے سبب پیدا ہونے والی بیماریاں اور تعلیمی پسماندگی یہاں کا اہم ترین مسئلہ ہے جس کا سد باب ضروری ہے ، یہاں کے حالات دیکھ کر کوئی بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ انسانوں کی جگہ نہیں ہے جہاں بستی کا کوئی گھر بیماری سے محفوظ نہیں ۔حالانکہ یہ بستی بھی ڈیولپمنٹ پلان میں شامل ہے ، کچھ کام ہوکر ٹھپ پڑگیا ہے اور تقریبا ً چار دہائیاں گذرنے کو ہیںلیکن کوئی خاطر خواہ کامیابی ابھی تک نہیں مل سکی ہے اور پلان کا نصف حصہ بھی مکمل نہیں ہوسکا ہے ۔

مسلم علاقوں کی تعمیر و تزئین کے تعلق سے یہ بات عام ہوگئی ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ حکومت اور سرکاری حکام تعصب و تنگ نظری کا رویہ اپنا تے ہیں جس کے سبب وہ ترقیات سے محروم رہ جاتے ہیں اور برادران وطن کے سامنے انتہائی پسماندہ و کمتر نظر آتے ہیں دوسری طرف ہمارے خود غرض اور موقع پرست لیڈران اسی نکتے کو اجاگر کرکے ووٹ حاصل کرتے ہیں اور ایوان میں پہنچ کر خوب خوب مزے لوٹتے ہیں ۔موجودہ صورتحال کے تناظر میں حکومت کی لاپروائی اور تعصب و تنگ نظری سے انکار تو نہیں کیا جاسکتا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہم بھی اپنے حصے کا کام نہیں کرتے اور اپنے اوپر بے حسی جیسی بیماری کو مسلط کرچکے ہیں ، نالیاں ہمارے ہی آس پاس ہیں ہم چاہیں تو بڑی حد تک انہیں صاف ستھرا رکھ سکتے ہیں اپنے علاقوں میں صفائی ابھیان چلاکر لوگوں کی توجہ اس جانب مبذول کرسکتے ہیں ، بچوں میں علم کی اہمیت اور ضرورت کااحساس جگا سکتے ہیں اور ایک تحریک کی صورت میں انہیں علم کی طرف راغب کرسکتے ہیں ۔ہمیں چاہیئے کہ اس علاقے سے منتخب لیڈران کی توجہ بار بار ان مسائل کی طرف مبذول کریں اور انہیں مجبور کردیں کہ وہ ان فلاحی کاموں کیلئے اپنی ذمہ داری نبھائیں ، ورنہ اگلے انتخاب میں انہیں یکسر مسترد کردیں ۔جمعہ کے دن مسجدوں کے خطیب بھی اکثر صفائی اور پاکیزگی کے تعلق سے مختلف احادیث کوڈ کرتے ہیں جن میں صفائی کو نصف ایمان تک قرار دیا گیا ہے لیکن ہم ہیں کہ کانوں پر جوں کیا مکھیاں بھی رینگنے لگیں تب بھی ہم پر کچھ فرق نہیں پڑتا ۔کیا ہم اپنی اس کیفیت کو بدلنے کیلئے تیار ہیں ۔
vaseel khan
About the Author: vaseel khan Read More Articles by vaseel khan: 126 Articles with 94742 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.