وادی ناران کاغان کا ایک یادگار سفر

پاکستان انتہائی متنوع مناظر میں ایک دلکش منظر وادی ناران کاغان ہے۔ یہ وادی میدانی علاقو ں کے قریب ترین ہے یہاں پنہچناقدرےآسان ہے ۔ بہترین سفری اور رہائشی سہولتوں کی وجہ سے ہر سال موسم گرما میں سیاحوں کا میلہ لگا رہتا ہے۔ یہاں سیاحت کا بہترین وقت جون سے اکتوبر کا ہے تاہم مئی میں بھی جا یا جا سکتا ہے۔ وادی کا غان میں دلکش جھیلں، شور مچانی آبشاریں ، میٹھے پانی کے چشمیے۔ سرسبز چراگائیں، گلئشئرز اور دریا کہنار سیاحوں کو پنے طرف مدعو کرتاہے۔

ہم نے اپنے سفر کا آغاز بلیو ایریا اسلام آباد سے کیا ہم براستہ ٹیکسلا، ہری پور(وہاں سے ہم نے ایک دوست کو ساتھ لینیا تھا۔)پھر ہم سفر پر نکل پڑے ابیٹ آباد سے پہلے ایک ہوٹل میں ناشتا کیا ۔ دیستی قسم کے لطف اندوز ہوئے ہمارا گروپ بارہ لوگوں پر مشتمل تھا۔ ناشے پر عدنان عالم نے خواہش ظاہر کی کہ یہاں ناشتے کے مناظر اپنے محفوظ کر نا چاہیے بد قسمتی سے کیمرے گاڑی میں تھے میں اس کی بات نہ مانی اوروہاں کے دلکش لمحات قید نہ کر سگے۔ جس کا مجھے ابھی تک دکھ ہے آپ اس طرح کی غلطی سے اجتناب کیجئے گا۔

اس کے بعد ہم لو گاڑی میں سوار ہو گئے ابیٹ آباد شہر میں پہنچے وہاں سے میر پور گاؤں سے ہماری ہر دلعزیز شحصیت آفسر کوں ساتھ لینا تھا۔ خان لالہ نے ہماری پر تپاک استقبال کیا اور ہمارے لیے چائے پانی سے تواضع کی وہاں سے کچھ سامان لینا تھا وہ لیا اور اپنے سفر کی طرف گامزن ہو گئے مانسہرہ کے بانی پاسے مانسہرہ کو بائی پاس کرتے ہوئے آگئے سفر پر روانہ ہو ئے دریا کہنار کے ساتھ کا سفر شروگ ہو گیا دریا کہنار نے ہماری ساری تھکاوٹ دور کر دی۔ ہم رکنا ہاہتے دریا کے ساتھ پر اپنے گروپ لیڈر کا انتظار کر رہے تھے جب ہم نے ان کی طرف دیکھا تو بڑے مزے کے ساتھ آنکھیں بند کر کے کسی سوچ میں مگن تھے۔ ہم سے نے کہاں کہ یہاں رکنا چاہیے تو انہوں نے بھی یک دم آنکھیں کھولی اور کہا کہ یہاں رکنے کو کون روک ستکا ہے۔ ہم خوش ہر گئےاور ڈرائیور نے جلدی سے گاڑی سائیڈ پر لگائی اور ہم اترے ہم یہاں سے گرمی میں ستائے ہوئے گئے تھے تو ہم نے سیدھا جا کے اپنےپاؤں دریا میں ڈال دیئے اور اتنا ٹھنڈا پانی کہ ہم پاؤں باہر نکالنے پر مجبور ہو گئےیا شاہد یہ بات دریا کے شایاں شان نہ تھی پھر دوبارہ ہمت نہی کی اور دریاسے دل ہی دل میں ہم نے معافی مانگی۔ اس کے بعد ہم نے وہاں جی بھر کے فوٹو گرافی کی گروپ فوٹوں کے لیے ہم نے ایک مولانا صاحب کی خدمات حاصل کی اس نے ہماری بات بڑی خوش اسلوبی سے مان لی۔

اس کے بعد سفر پر چلا بالاکوٹ جا کے روکے بازر میں فوٹو گرافی کی اور وہاں سچھ کچھ سامان خریدا اگر کچھ لینا ہے تہ اچھی جگہ ہے خریداری کی بالاکوٹ اس وادی کا سب سے بڑی شہر ہے اس کے درمیان سے دریا کہنار گزرتا ہے یہاں کافی اچھی ہوٹلز اور سیے کے لیے سواری بھی آسانی سے مل سکتی ہے ایک دو دن گزار کے اس شہر کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہو جا سکتا ہے۔ تار وں اور گھروں کے لائٹوں کے حسین مناظر رات کو دلکش بنادیتے ہیں۔

بالاکوٹ سے آگے بلندی کی جانب تقربیا ٢٤ کلومیٹر کی مسافت پر ایک پر کش جگہ کیوائی آتا ہے جب تک ہم وہاں پہچنےتو بھوک حد سے زیادہ ہو چکی تھی وہاں آرام اور کھانے کے روکے دیر کہنار کہ کنارے ایک خوبصورت پارک ہے وہاں بریانی سے لطف اندوز ہوئے زاہد صاحب ہمارے گروپ لیڈر تھے انہوں نے اسپیشل بریانی تیار کرائی بریانی کے مزے لیے ۔آم ٹھنڈ کرنے کے لیے دریا کہنار میں پتھر رکھ کے رکھے لیکن پانی کا زور چھوٹے موٹے پتھروں کی کب سنتاہے۔ ان کو اپنے ساتھ لے جانے لگا۔ وہ تو ہمارے ایک ساتھی نیا ز صاحب کی نظر پر تئی تو انہوں نے جا کے جلدی ے پکٹر لیے ورنہ کئوائی میں آم کھانے سے محروم رہے جاتے۔

کیوائی سے مزید بلندی کی جانب ایک راستہ شوگران آتا ہے شوگران تک آسانی سے جایا سکتا ہے لیکن آگے سری پائے جانے کے لیے جیپ کا استعمال کرنا پڑتا ہے وہاں سے آسانی سے جیپ مل سکتی ہے۔
شوگران کا راستہ کچھی پکی سڑک پر مشتمل ہے اور جنگلات کے درمیاں بل کھاتے ہوئے گزرتا ہے یہ ایک بہت ہی دلکش وادی ہےیہاں با کثرت رہائشی سہولتیں ہے یہاں کا خوبصورت ترین مقام سری پائے جو شوگران سے ٤ کلو میٹر کے فاضلے پر ہے ہم نے راستہ پیدل اور کچھ جیپ پر کیا اور ہمارے ایک ساتھ نے یہ راستہ گھوڑا پر کیا وہاں معمولی معاوضہ پر گھوڑے دستیاب ہے وہاں گھوڑی سواری کا بھی اپنا مزہ ہے۔ وہاں تصویریں اور کولڈ ڈرنک کے مزے لیے وہاں سے کولڈ ڈرنک ، پانی اور چپس جیسے کھانے کے چزیں مل سکتی ہے۔یہاں سے راستہ مکٹرا کے جانب جاتا ہے لیکن ہم نے اپنا سفر ناران کے طرف موڑ لیا ۔
کیوائی سے کاغان کا سفر ٤٠ کلو میٹر ہے اس پوری وادی کا نام کاغان ہے۔لیکن یہ شہر اس نام سے منسوب ہے وہاں ہم نے کچھ زیادہ دیر قیام نہی کیا بازار سے ہوتے آگے گزر گئے۔کاغان سے ناران کا سفر ٢٤ کلو میٹر کی مسافت پرہے یہ اس وادی کا سب سے خوبصورت ترین مقام ہے نارن میں داخلے ہو تے ہو ئے گلشئرز آپکا استقبال کر تاہے یہ سیاحوں کا اصل مقام ہے جہاں سے آگئے زیادہ تر سفر جیپ پر ہی ممکن ہے یہاں بسنگ پوائنٹ بھی لیکن شکار کے لیے لائسنس لینا نہ بھولیں جو بڑی آسانی سے تھوڑے سے پیسوں میںبن جاتا ہے۔ہم نارنا پہنچ کر جیپ کر کے جھیل سیف الملوک جانے کی تیاری کی ہمارے چچا آفسر خان ہمارے ساتھ نہی گئے انہوں نے ہمارے لیے رات کے قیام کا انتظام کر تا تھا جیب کرایہ پر لی اور چل پڑے یہ جھیل سطح سمندر سے ١٠٥٠٠ کی بلندی پر ہے۔ اس راستے پر بے شمار سر سبز پہاڑ اور چھوٹے موٹے گلیشئرز ہے۔جو اس سفر کو دوبلا کر تے ہیں آدھا راستہ طے کیا تھا کہ راستہ بلاک تھا بارش شروع ہو گئی اور تیز ہو ا چلنے لگی اور ہم لوگوں نے گرمیوں والے کپڑے پہنے ہو ئے تھے تو ہمارا سردی سے بُرا حا ل تھا۔ سب نے پروگرام بنایا کہ واپس جاتے ہیں میں جیپ سے اترا تو سب نے پوچھا کہ کہاچلے میں کہاں جھیل پر پیدل تو سب نے روکا میں نے کہا جس نے آنا ہے آئے ورنہ میں تو جاؤں گا اتنے میں نیاز صاحب اور ستی صاحب میرے ساتھ چل پڑے جھیل پر جاتے ہی بارش تھم گئی لین اس تک ہمارے کپڑے گیلے ہو گئے تھے گھوڑی دیر بعد دھوپ نکل آئی تو ہمارے باقی ساتھی بھی وہاں آگئے وہاں کافی ٹائم گزارہ جھیل سیف الملوک واقی ایک خوبصورت جھیل ہے جتنی تعریف سنی تھی اس سے کئی زیادہ دلکش تھی۔ مقامی لوگوں کے مطابق شہزادہ سیف الملوک اور پری بدرالجمال کی محبت بھری داستان بھی یہاں ہی پروان چڑھی اور چاند کی چاندنی راتوں میں پریاں نہانے آتی ہے۔دلنیشن رنگوں بھری داستان اس جھیل کی وجہ شہرت بنی۔ اس کےبعد واپسی کا سفرلیا واپسی آکر چائے سے لطف اندوز ہوئے۔ رات کے کھانے کی تیاری میں لگ تئے عامسر ستی اقبال صاحب اور حلیم نے مزدار کھانا تیار کیا اور ہم لوگوں نے باربی کیو کی اور کچھ دیر آرام کرنے کے بعد ناران بازار دیکھنے کا پروگرام بنایا رات کو یں نے باری باری سب سے پو چھا کے اب چلیں تو کر کسی نے دھیمے دل سےآواز نکالی کے جیستے تمہاری مرضی تو جواب سے نمایاں تھا کہ کو ئی بھی سردی کی وجہ جانے کو تیار نہی تھاہر کوئی بس میرا دل رکھنے کے لیے کہ رہاتھا اور سچ پو چھیں جانا میں بھی نہی چاہتاتھا۔ ہم سبے گرمیوں میں رضائیوں کے مزے لیتے گہری اور میٹھی نیند میں وادی کی گہرے رنگوں میں گم ہو گئے۔ صبح زاہد صاحب کی آواز نے مجھے جگا دیا کہ کافی پیو گئے مجھے کافی بالک پسند نہی تھی۔لیکن ان کے اسرار پر انکار نہ ہو سگا وہ دن اور آج تک مجھے وہ کامی کبھی نہی بھولی اور اسی کافی کی تلاش میں ہر جگہ سے پے لے لیتا ہوں لیکن اُس جیاس مزہ پھر نہ مل سگا۔باقی دوست ناشے کی تیاری میں لگ گئے اور کچھ بازار چلے گئے ناشے سے فری ہو کے ناران بازار چلے گئے پھر غار دیکھی جو شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جاتی ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ اس میں شہزادہ اور پری نے دیو کے ڈر ے یہاں پناہ لے لی اور آج تک یہاں ہے بہرحال ہم دوستوں نے تو بہت کوشش کی شاہد ہم کو مل جائے پر ایسا ممکن نہ ہوا آپ بھی اسی احمقانہ مزے بھری شرارت سے لطف اندوز ہو سکتے ہیے آگے بنڈی کنڈی کی طرح چل پرے ایک گلیشئرز کے پاس رکے وہاں گومنے رلے اور بوتلیں ٹھنڈی کرنے کے لیے گلئشئرز کا سہارا لیا کچھ دوست اوپر کی طرف چل پرے ہم وہ ہی رکے اور کولڈ ڈرنک کے مزے لیے جب وہ واپس آئے تو جلدی سے گاڑی میں بیٹھے اور چل پرے اور آگئے جا کہ وہ کہتے ہیں کہ کولڈ ڈرنگ تو وہاں ہی رہے گئی ہم نے انہی نہی بتایا اور آج تک ان کا مذاق بنایا ہوا ہے کہ آپ کی کولڈ ڈرنک تو وہاں پری ہے۔ بٹہ کنڈہ سے لالہ زار گئے لالہ زار ادبیون، درویشوں، اور شاعروں کا دیس لگا جیسے نیا سے الگ تھلگ پر سکون مقام مگر بد قسمتی بارش کا موسم بنا تو واپس آنا پر یہاں پر جانا ممکن ہے وہاں گھوڑے میں معمومی رقم پہ آپکی لالہ زار کی سیر کراسکتے ہیں جیسے بارش شروع ہوئی وہا ں سے سب عائب ہونا شروع آج تک وہ منظر میری آنکھوں سے اوجھل نہی ہو سگا۔ واپسی چلا پڑے شوگران کے قریب ایک جگہ راجواں وہاں رات قیام کی وہاں کافی اچھا ہوٹل مناسب ریٹ پر مل گیا آپ کا بھی جانا ہو تو ناران اور کاغان سے ہٹ کر لے تو مناسب کرایہ پر کمرہ مل سکتا ہے۔ واپسی کا سفربوجھل دل کے ساتھ شروع کیا ایک مشہور کہاوت ہے کی مسافر سفر ے اختتیام پر اور سیاح سفعر کے شروع پر خوش ہوتا ہے ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسی کچھ کیفیت تھی واپسی پر بالاکوٹ سے نک سڑک کنارے کھنا پکایا اور اسے کے بعد اسلام آباد کے چل پڑے۔

اس سفر میں میرے ساتھ چچا آفسر خان ، محمد اقبال، زاہد اقبال اعوان(گروپ لیڈر) عام ستی صاحب، عبدالعلیم خان، عدنا عالم، محمد زبیر، عدنان ظریف ، کامران خان ، محمد نیاز، خالد محموداور میں افتخار احمد اعوان۔ میں زاہد اقبال اور خان لالہ کا سپیشل شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس سفر ہمارے راہنمائی کی اور ہمارے ساتھ تعاون کیا۔

وادی ناران کاغان کا ایک یادگار سفر
IFTIKHAR AHMED AWAN
About the Author: IFTIKHAR AHMED AWAN Read More Articles by IFTIKHAR AHMED AWAN: 2 Articles with 5148 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.