یوم مئی اور پاکستان کے حقیقی مزدور

 اس سال دنیا بھر میں 130واں یوم مئی (مزدوروں کا دن) منایا جائے گا ۔لو بھئی، ایک اور چھٹی کا دن آ گیا ۔یہ چھٹی آج کے حقیقی مزدوروں سے زیادہ ان مراعات یافتہ مزدوروں کیلئے ہے جن کو چھٹی بھی ملتی ہے اور اُس دن کی تنخواہ بھی ملتی ہے پاکستان میں مراعات یافتہ مزدورں کے لئے خوشی کا دن ،جبکہ 130سال قبل یکم مئی 1886،تاریخ کے اوراق میں ایک شام غم کی حیثیت رکھتی ہے جب حقوق کے حصول کے خاطر کئی مزدورں کواپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا تھا،جب مزدور لیڈروں کوبلا جواز پھانسی پر چڑھا دیا گیاتھا ،مطالبہ صرف آٹھ گھنٹے کام کرنے کے اوقات کار کا تھا۔ جب بد کار ، ہٹ دھرم سرمایہ داروں نے اس جائز مطالبے کو نہ مانا بلکہ مظاہرین پر اندھا دھند فائرنگ بھی کرا دی اس کے باوجود اسوقت کے مزدور لیڈروں نے یہ پیغام دیا کہ "تم ہمیں جسمانی طور پر ختم تو کر سکتے ہو لیکن ہماری آواز کو دبانہیں سکتے ،اور حیثیت حال یہ ہے کہ ہم تاریخ سے سیکھنا نہیں چاہتے۔

اگر آپ پاکستان میں حقیقی مزدورں کی حیثیت کا تجزیہ کریں تو موجودہ حالات کسی طور پربھی1886کی جد و جہد سے قبل کے حالات سے کم نہیں ہیں،فرق صرف یہ کہ پاکستان میں مزدور طبقے کو منظم سازش کے تحت کچلا گیا تقسیم در تقسیم کی پالیسی کے تحت مزدوروں کو تقسیم کردیا گیا ہے، فی الحال میں مزدوروں کے تقسیم کردہ ایک طبقے کو "حقیقی مزدور"اور دوسرے طبقے کو "مراعات یافتہ مزدور"کہونگا، مراعات یافتہ مزدور یعنی وہ جو سیاسی و لسانی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں، اور انکا مزدور لیڈر اور ان کا گروہ اداروں پر قابض ہوجاتا ہے اپنے اثرو رسوخ کی بنیاد پر یہ گروہ اپنے ذاتی اور پارٹیز کے حقوق کے لئے کوشاں ہو جاتے ہیں اوریہ ہی مزدور لیڈرز کرپشن کر کے اداروں کا بٹا بیٹھا دیتے ہیں اس کے باوجود ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یوم مئی اسی طبقے کے لئے مقرر ہے،میڈیا کی جانب سے یا حکومتی دعوتیں انہی لیڈروں کو ملتی ہیں جلسے جلوسوں کے اخراجات و انتظامات بھی انھی کے سپر د کئے جاتے ہیں کیونکہ پاکستان میں ان مراعات یافتہ مزدور لیڈروں کو ہی معتبر سمجھا جاتا ہے۔یکم مئی کی رات الیکٹرنک میڈیا کے کسی بھی چینل کو دیکھ لیں اسی کلاس کے لیڈرز مزدوروں کا رونا روتے اور اپنی طے شدہ تقاریر میں الگ الگ نقطہ نظر کا پر چار کرتے نظر آئینگے، لیکن جب ہم ایک نظر ان اداروں پر ڈالیں گے جہاں انکی لیڈری چلتی تو حقیقت برہنہ ہو جائے گی کہ پاکستان میں مزدوروں کے حالات بد سے بد تر کیوں ہو رہے ہیں اور ایک منظم سازش کے تحت مزدوروں کی تحریک کوکیوں نہیں پنپے دیا جا رہا ہے ۔

دوسری جانب حقیقی مزدور وہ ہیں جنہیں اس دن کی نہ تو روزی ملتی اور نہ ہی چھٹی کسی بھی صنعتی علاقہ کا دورہ یکم مئی کو کر لیا جائے توتمام فیکٹریاں چلتی ہوئی ملیں گی۔ کھیت مزدور،بانڈڈ مزدور،ریٹرھی والا،خوانچہ فروش،ڈیلی ویجز مزدور،گودی کا مزدور، کان کن غرض یہ کہ کروڑوں مزدور یکم مئی کو بھی زندگی روزآنہ کے معمولات کے مطابق گزار رہے ہوتے ہیں اُنھیں تو اس بات کا بھی علم نہیں ہوتا کہ آج ہمارا یعنی مزدوروں کا عالمی دن ہے۔ پاکستان میں تقریباً 6 کروڑ سے زائد لیبر فورس ہے ماہرین کے مطابق اسکا صرف ایک فیصد حصہ ٹریڈ یونین حقوق رکھتا ہے اور اجتماعی سودے کاری کی سہولت جن مزدوروں کو حاصل ہے انکی تعداد اس سے بھی کم ہے ۔ پاکستان میں ہر سیاسی پارٹیوں کے لیبرز ونگ موجود ہیں بلکہ یہ پارٹیاں مزدورں کی طرز زندگی کو بہتر بناے کا دعوی تو کرتیں ہیں لیکن افسوس عام طور پر مشاہدے کے نتائج اس کے بر عکس ہوتے ہیں مزدوروں کی طرز زندگی تو بہتر نہیں ہوتی ہاں پارٹی سے تعلق رکھنے والے مزدور لیڈر کی طرز زندگی ضرور بہتر ہو جاتی ہے بلکہ لیڈر کی کلاس ہی بدل جاتی ہے ۔نجی اداروں میں آجر اور اجیر کے درمیان وہی سرمایادارآنہ ذہنیت اب بھی موجود ہے جو 130 برس پہلے تھی ۔نجی اداروں میں مزدوروں کی سیفٹی ایک لحمے کی بھی نہیں ہے اُس پہ ستم یہ کہ تمام سرکاری اداروں کو نجی تحویل میں دیا جارہا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی جو کبھی مزدوروں کی پارٹی کہلاتی تھی اب وہ بھی مزدوروں کی پارٹی نہیں رہی۔ مسلم لیگ سیاسی ضرورتوں کو مد نظر رکھ کر اور سرمایہ دارآنہ ذہنیت کی مانند بھرے پیالے سے کچھ چھلکا کر مزدور کی جھولی میں بھیک کی صورت میں ڈال دیتی ہے اور اُسے انسانی ہمدردی کا نام دیتی ہے، باقی ماندہ پارٹیاں بھی مزدوروں کے حق میں آواز اُٹھاتی نظر نہیں آتیں ہیں پاکستان میں مزدور جدو جہد کو ہمیشہ سے کچلا گیا ہے آج پاکستان میں صورتحال یہ ہے کہ طبقاتی تقسیم کے باعث مزدور جدو جہد سکڑ کر صرف ایک فیصد رہ گئی ہے۔ واپڈا،مشین ٹول فیکٹری،پورٹ قاسم،پاکستان اسٹیل،پی آئی اے پاکستان کے اہم ادارے ہیں ان اداروں میں جب بھی مزدور ں نے اپنے حقوق کی بات کی تو اسے کچل دیا گیا جس میں اہم کردار اجتماعی سودے کار یو نینیں خود ادا کرتیں ہیں ۔اس منظم سازش کے تجزیے کے بعد ہم یہ ہی نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ شگاگو کی کم وبیش 1200فیکٹریوں کے مزدوروں کی خون آشام تحریک کی طرز پر ایک تحریک کی اشد ضرورت پاکستان میں بھی ہے ۔
ہم تمام مزدوروں کو اس یکم مئی 2016کے موقع پر یہ بتانا چاہتے ہیں کہ انکے حالات مزید خراب ہوں گے بلکہ جو مزدور آج تمام حقوق لے رہے ہیں وہ بھی آنے والے صرف چند سالوں میں حقوق نہ ملنے والے مزدوروں کی صف میں کھڑے ہونگے کیوں کہ جن کو مزدوروں کے استحصال سے فائدہ ہورہا ہے وہ تو یہی رویہ اپنائے رکھیں گے پاکستان میں حقوق کے بغیر جینے کا مقدر حقیقی مزدوروں کے لئے لکھ دیا گیا ہے کیونکہ ہم نے تاریخ کو فراموش کر دیا ہے

 ۔زبان،قوم،مذہب،برادری،نسل،قبیلہ،علاقہ،سیاسی،بنیادوں پر تقسیم یا نیلے کالر،سفید کالر کی بنیاد پرتقسیم اور سب سے بڑھ کر ریگولر،ڈیلی ویجز،کنٹریکٹ،پبلک سیکٹر،نجی سیکٹر،فیکٹری،ریٹرھی والے،بھٹہ مزدور کی بنیاد پر تقسیم کا تسلسل اگر اگلے سال تک ایسے ہی رہا تو حالات کیونکراچھے ہوں گے ۔ اگر مزدور اپنے حالات بدلنا چاہتے ہیں تو مزدور کی بنیاد پر ہر قسم کی تقسیم کو جھڑک کر ایک ہونا ہوگا ۔ اور شگاگو کے مزدوروں کی جدو جہد کا تصور اپنے اندر روشن کر نا ہو گا اسی میں ہی مزدوروں کی نجات ہے اور یہی حقوق حاصل کرنے کا نسخہ کیمیا ہے ۔ یہ اﷲ کی مصلحت ہے کہ اُس نے گزرے ہوئے کل میں آنے والے پل کیلئے پیغام رکھ چھوڑا ہے یہی شکاگو کے مزدوروں اور انکی یاد میں یوم مئی کا پیغام ہے۔
Sheikh Muhammad Hashim
About the Author: Sheikh Muhammad Hashim Read More Articles by Sheikh Muhammad Hashim: 77 Articles with 91097 views Ex Deputy Manager Of Pakistan Steel Mill & social activist
.. View More