ماں: یہ کامیابیاں ، یہ عزت یہ نام تم سے ہے

انٹرویو دینے کے لیے گھر سے نکلا، موسم سرد تھا ، مطلع بالکل صاف تھا۔البتہ ٹریفک جام تھا۔ کافی دیر کے بعد مقررہ دفتر پہنچا، انٹرویو تو ہوگیا، انہوں نے کہا کہ آپ کو بعد میں اطلاع دیدی جائے گی۔مجھے اب سخت بھوک لگ رہی تھی۔ لیکن جیب میں اتنی رقم نہ تھی کہ باہر سے کچھ کھا پی لیتا۔ اس لیے خاموشی سے بس اسٹاپ کی طرف چل پڑا۔بس اسٹاپ تک پہنچتے پہنچتے موسم تبدیل ہونا شروع ہوگیا اور بادل چھا گئے۔ابھی بس اسٹاپ پر کھڑا ہی ہوا تھا کہ موسلا دھار بارش شروع ہوگئی۔بچنے کی کوئی جگہ نہیں تھی، مجبوراً ٹھنڈ میں کھڑا بارش میں بھیگتا رہا۔ بارش کی وجہ سے ہر طرف پانی اور کیچڑ ہوگئی، جب کہ گاڑیاں بھی بند ہوگئیں۔ ناچار پیدل ہی گھر کی جانب چلا۔

سہہ پہر کو چلا تھا اور بارش میں بھیگتا، ٹھنڈ سے کانپتا رات کو گھر پہنچا۔ بھائی نے دروازہ کھولا اور دیکھتے ہی کہا ’’ بڑا شوق ہے نا تمہیں بارشوں میں بھیگنے کا، پتا بھی ہے کہ بارش ہوسکتی تھی لیکن کوئی چھتری یا برساتی لے جانے کی ضرورت محسوس نہیں کی‘‘۔ اندر داخل ہوا تو والد صاحب یوں گویا ہوئے’’ میاں صاحبزادے ! آگئے آوارہ گردی کرکے، تمہیں تو بارش ہو یا آندھی طوفان بس گھر سے باہر رہنے اور آوارہ گردی میں ہی مزہ آتا ہے، اب بارش میں بھیگنے کا مزہ چکھو‘‘۔ میری حالت سخت خراب تھی، ایک تو بارش، پھر ٹھنڈ اوپر سے صبح ناشتہ کرکے بھی نہیں گیا تھا اور اس وقت رات کے ساڑھے آٹھ بج رہے تھے، اس پر مستزاد بھائی اور والد صاحب کی جل کٹی باتوں نے مزید دل دُکھا دیا، میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں رو دوں۔

اتنے میں ماں ایک تولیہ لیکر بھاگتی ہوئی آئی، میرا سر پونچھا اورکھڑکی سے آسمان کی جانب دیکھتے ہوئے کہا’’ یہ بارش تھوڑی دیر رک نہیں سکتی تھی کہ میرا لعل گھر پہنچ جاتا، پھر بڑے مان اور پیار سے پوچھا ! بیٹا تونے سے صبح سے کچھ کھایا بھی ہے یا ابھی تک بھوکا ہے؟

ماں کی محبت اور شفقت کے حوالے سے یہ ایک چھوٹی سی کہانی ہم نے یہاں آپ لوگوں کے سامنے رکھی ہے۔ یہ چھوٹی سی کہانی ماں کی محبت، شفقت، اس کی رحمت اور اولاد کے لیے اس کی تڑپ کی عکاسی کرتی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اولاد سے سب سے زیادہ محبت ماں ہی کرتی ہے۔ ماں کے دل میں اﷲ تعالیٰ نے اولاد کے لیے محبت، شفقت اور رحم کا جذبہ رکھ دیا ہیاگر یہ اﷲ رب العزت ماں کے دل میں اولاد کے لیے یہ جذبات نہ رکھتے تو دنیا میں نسل انسانی کا پھیلاؤ ممکن نہیں ہوتا۔

اور پھر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھیے کہ ایک بچہ رو رہا ہے، وہ بول نہیں سکتا، صرف رو یا ہنس سکتا ہے ، عام لوگوں کے لیے بچے کا رونا محض رونا ہے، لیکن واحد ہستی ماں کی ہوتی ہے جو سمجھتی ہے کہ اس وقت بچہ بھوک کی وجہ سے رو رہا ہے، غلاظت( بول و براز) کی وجہ سے بے چین ہے یا اسے کوئی تکلیف محسوس ہورہی ہے۔ماں ہی وہ واحد ہستی ہے جو بچے کی غوں غاں اور لایعنی آوازوں سے اندازہ لگاتی ہے کہ بچہ کیا کہنا چاہتا ہے۔ذرا غور کیجیے کہ ماں چاہے پڑھی لکھی ہو یا ان پڑھ لیکن وہ بچے کی ساری ان کہی باتیں سمجھ لیتی ہے جب کہ باپ چاہے پی ایچ ڈی ، ماہر نفسیات یا ماہر تعلیم بھی ہو پھر بھی وہ اپنی ہی اولاد کی ان کہی باتوں اور لایعنی آوازں کا اندازہ لگانے میں دقت محسوس کرتا ہے۔

اولاد چاہے بوڑھی ہی ہوجائے لیکن ماں کے نزدیک وہ وہی بچہ ہوتا ہے جو کل تک اس کی گود میں ہمکتا ، ہنستا کھیلتا دودھ کے لیے مچلتا رہتا تھا۔ماں کی اسی محبت ، اولاد کے لیے اس کی قربانیوں کے باعث ہی اسے باپ سے زیادہ رتبہ عطا کیا گیا ہے۔۔ ایک متفق علیہ حدیث ہے ، حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا تو عرض کیا: "اے اﷲ کے رسول! لوگوں میں سے میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟" آپ نے فرمایا: تمہاری ماں" اس نے پوچھا: "پھر کون؟" آپ نے فرمایا: "تمہاری ماں اس نے کہا: "پھر کون؟" آپ نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے پوچھا: "پھر کون؟" آپ نے فرمایا: تمہارا باپ۔ (متفق علیہ)

اس حدیثِ مبارکہ سے یہ معلوم ہوا کہ ماں کا رتبہ باپ سے کم از کم تین درجے زیادہ ہے۔ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ پیارے نبی ؐ نے فرمایا’’ جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔‘‘یعنی اولاد کو یہ بتایا گیا ہے کہ اگر جنت کا حصول مطلوب ہے تو والدین کی خدمت کرو بالخصوص ماں کی۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماں کو بلند رتبہ کیوں عطا کیا گیا ؟ جواب بہت آسان اور واضح ہے کہ یہ ماں ہی کی ہستی ہے جو اولاد کو نو ماہ اپنی کوکھ میں پالتی ہے، اپنا خونِ جگر پلاتی ہے، پوری دنیا بچے کو دنیا میں آنے کے بعد دیکھتی ہے لیکن ماں واحد ہستی ہے جو بچے کو اپنی کوکھ میں محسوس کرتی ہے، اس کی ایک ایک حرکت، ایک ایک ادا سے واقف ہوتی ہے۔پھر تکلیفیں اٹھا کر وہ ایک زندگی تخلیق کرتی ہے۔بات یہاں ختم نہیں ہوجاتی بلکہ اس کے بعد بھی کم از کم پندرہ سال تک وہ اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اپنی اولاد کے لیے نچھاور کردیتی ہے، کبھی غور کیا ہے کہ رات کے سناٹے میں جب پورا گھر خوابِ خرگوش کے مزے لے رہا ہوتا ہے، یہ ماں ہوتی ہے جو ایک آنکھ کھول کر سوتی ہے، بچہ اپنے بستر ہر کروٹ لیتا ہے اور ماں کی آنکھ کھل جاتی ہے کہ کہیں میرا بچہ بستر سر گر نہ جائے، ساری رات ایک کروٹ پر گزار دیتی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو میرے کروٹ بدلنے سے میرا بچہ دب جائے۔ بچہ رات کو کسی بھی وجہ سے جاگ جائے، سب سے پہلے ماں ہی اٹھ کر اسے خاموش کراتی ہے، اگر وہ بھوکا ہے تو اس کی بھوک مٹانے کا اانتظام کرتی ہے، اگر اس نے کپڑے خراب کردیے ہیں تو آدھی رات کو بھی اس کی صفائی کا اہتما م کرتی ہے۔

کیا دنیا کی کوئی اور ہستی اس طرح اولاد کے لیے اپنی زندگی تج سکتی ہے؟ ایک سوال اور بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا اولاد ماں باپ بالخصوص ماں کے حقوق ادا کرسکتی ہے؟ بہت پہلے ایک کہانی پڑھی تھا، اب یہ تو یاد نہیں کہ حکایت ِ سعدی یا رومی میں یا کسی اور جگہ لیکن ماں کی محبت اور اس کے حق کے حوالے سے بہت سبق آموز ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ’’ ایک شخص نے اپنی بوڑھی اور معذور ماں کو اپنے کاندھے پر سوار کرکے حج کرایا، جب وہ حج کے تمام اراکین ادا کرکے فارغ ہوگیا، تو اس نے گمان کیا کہ میں نے اپنی ماں کا حق ادا کردیا ہے۔ اسی رات وہ سویا تو اسے خواب میں بزرگ یہ کہتے ہیں کہ ’’ یاد کر تو بہت چھوٹا تھا، تیر ماں بہت غریب تھی، گھر میں ایک ہی بستر تھا ، جاڑے کی ایک سرد ترین رات میں تونے اس بستر پر پیشاب کرکے اسے گیلا کردیا۔ تیر ی ماں اس سرد ترین رات میں خود تو ٹھنڈے فرش پر سوتی رہی لیکن تجھے اپنے سینے پر سلائے رکھا کہ کہیں تجھے ٹھنڈ نہ لگ جائے۔ ارے نادان تو نے اپنی ماں کی اس ایک رات کا ہی حق ادا نہیں کیا اور تُو سمجھتا ہے کہ ماں کا حق ادا کردیا۔‘‘

ماں کی محبت اور اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ شاعر مشرق علامہ اقبال کی والدہ محترمہ کا جب انتقال ہوا تو انہوں نے اس موقع پر درد و غم میں ڈوبے ہوئے اشعار کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کیا تھا۔
کس کو اب ہوگا وطن میں آہ ! میرا انتظار؟
کون میرا خط نہ آنے سے رہے گا بے قرار؟
خاکِ مرقد پر تر ی لے کر یہ فریاد آؤں گا
اب دعائے نیم شب میں کس کو میں یاد آؤں گا
آسمان تری لحد پر شبنم افشانی کرے!
سبزہ ٔ نو رستہ ا س گھر کی نگہبانی کرے

ایک طرف اولاد کے لیے ماں کی یہ انمول محبت ہے ، دوسری جانب اولاد کا رویہ والدین کے ساتھ کیا ہے ؟ یہ بھی دیکھنے کے قابل ہے۔ جس اولاد کو ماں باپ ساری عمر علم و حکمت اور اپنے تجربے کی باتیں بتا کر دنیا میں رہنے کے قابل بناتے ہیں، وہی اولاد جوان ہوکر سب سے پہلے ماں باپ کو ہی کم عقل اور جدید دور کے تقاضوں سے نا آشنا سمجھتی ہے۔ماں باپ اولاد کے لیے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ تیاگ دیتے ہیں ، اس کے آرام کے لیے اپنا آرام ختم کردیتے ہیں، اس کی تکلیف کو ختم کرنے کے لیے خود تکلیفیں اٹھاتے ہیں، وہی اولاد جب ماں باپ کو سنبھالنے کا وقت آتا ہے تو ان سے کنارہ کشی اختیار کرتی ہے، ان سے دور بھاگتی ہے۔ وہ ماں جو بچپن میں اپنی اولاد کی ایک ایک حرکت ، ایک ایک ادا پر واری قربان جاتی تھی، بڑھاپے میں اولاد کی ایک نظر کے لیے ترستی ہے۔ماں باپ ساری زندگی اولاد کو ایک ساتھ رکھنے کے لیے تگ و دو کرتے ہیں اور جب اولاد جوان ہوتی ہے تو وہ ماں باپ کو ہی اولڈ ہاؤس میں جمع کرادیتی ہے۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اولاد ایسا کیوں کرتی ہے؟ اس کا جواب بھی بالکل واضح اور سیدھا سادہ ہے۔ مغرب کی اندھی تقلید اور میڈیا کے اثرات کے باعث اب اولاد ماں باپ کو بوجھ سمجھنے لگی ہے۔ کیوں کہ مغربی معاشرے نے اجتماعیت کے بجائے انفرادیت اور ماں باپ بہن بھائیوں سے محبت کے بجائے اپنی ذات سے محبت اور خود غرضی کا پرچار کیا جاتا ہے۔ یہی چیز ہمارے معاشرے میں بھی در آئی ہے۔ اس سوچ کو پروان چڑھانے میں میڈیا کا سب سے بڑا ہاتھ ہے۔ میڈیا سے مراد صرف ٹی وی چینلز نہیں ہیں بلکہ اس میں ادب کا بھی ہاتھ ہے۔ایسے افسانے، کہانیاں تخلیق کی گئیں جن میں ماں باپ کو اولاد کی خوشیوں کا دشمن اور اس کے اوپر بوجھ اور اس کی خوشیوں کی راہ میں رکاوٹ دکھایا گیا۔ ٹی وی پر ایسے ڈرامے چلائے گئے، اشتہارات میں ماں کا مضحکہ اڑایا جارہا ہے۔ ان تمام عوامل کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں بھی بزرگوں کی عزت و توقیر میں کمی ہوتی جارہی ہے اور اولاد بوڑھے ماں باپ کی خدمت کرنے اور ان کو سنبھالنے کے بجائے ان کو بوجھ سمجھتے ہوئے ان سے دور ہوتی جارہی ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ سال میں ماں یا باپ کا ایک دن منانے کے بجائے پورا سال ان کی خدمت کی جائے، ان کی ضروریات کا خیال رکھا جائے۔ بوڑھے ماں باپ ہمارے مال و دولت یا گھر کے نہیں بلکہ صرف محبت اور شفقت کی نظر کے طلب گار ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ کچھ وقت گزارا جائے، ان کی باتیں سنی جائیں تاکہ ان کے دل کا بوجھ ہلکا ہو، وہ خود کو تنہا نہ محسوس کریں۔ انہیں لگے کہ کوئی ان کی اہمیت کو محسوس کرتا ہے، کسی کو ان کی کمی محسوس ہوتی ہے، کوئی ان کی باتیں سننا چاہتا ہے۔ انہیں یہ احساس دلائیں کہ وہ عضو معطل نہیں بلکہ اب بھی آ پ کے رہنما ہیں، آپ کو اب بھی ان کے مشورے اور ان کے سہارے کی ضرورت ہے۔ یہ احساس ان کے اندر مایوسی اور ڈپریشن کو ختم کرکے ان کے اندر جینے کی امنگ پیدا کردیتا ہے۔اور جب تک آپ کے بوڑھے والدین سلامت ہیں ان کے لیے صبح شام یہ دعا پڑھتے رہیں۔
ربِّ ارْحَمْھُمَاکَمَا ربَّیٰنِیْ صَغِیْراً۔ ( سورہ بنی اسرائیل آیت ۲۴)

یہ کامیابیاں عزت یہ نام تم سے ہے
خدا نے جو بھی دیا ہے مقام تم سے ہ ے
تمھارے دم سے ہیں میرے لہو میں کھلتے گلاب
میرے وجود کا سار ا نظا م تم سے ہے
کہاں بساط جہاں اور میں کمسن و نادان
یہ میری جیت کا سب اہتمام تم سے ہے
جہاں جہاں ہے میری دشمنی سبب میں ہوں
جہاں جہاں ہے میر ا احترام تم سے ہے . . . !
(سید وصی شاہ)
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1443064 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More