پانی کا بحران ،کس طرح دور ہو ؟

سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے خشک سالی سے متاثرہ ریاستوں میں خشک سالی سے نمٹنے کیلئے کہا ہے یہ بھی کہا کہ حکومت ہند پانی جیسے سنگین مسائل سے چشم پوشی اختیار نہیں کر سکتی ہے اور نا راہ فرار ،اس لئے حکومت کو چاہئے کہ وہ ان ریاستوں میں پانی کے بحران کے لئے فوراً جنگی پیمانے پر سخت قدم اٹھائے تاکہ عوام کو راحت مل سکے۔ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں ان ریاستوں میں چلائی جانے والی مختلف اسکیموں ، فوڈ سیکورٹی ایکٹ اور مڈڈے میل کے لئے حلف نامہ داخل کرنے کی بھی ہدایت دی۔عام آدمی پارٹی کے سابق سینئر لیڈر یوگیندر یادو کے مفاد عامہ کی عرضی پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے یہ حکم صادر کیا ہے۔ مسٹر یادو نے اپنی تنظیم سوراج ابھیان کے تحت مفاد عامہ کی یہ عرضی عدالت عظمی میں دائر کی تھی۔انہوں نے اپنی عرضی میں عدالت عظمی سے خشک سالی سے متاثرہ ریاستوں میں فلاحی اسکیموں کے نفاذ میں مرکزی حکومت کو خصوصی احکامات جاری کرنے کی اپیل کی تھی۔ مسٹر یادو نے اپنی عرضی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی زیر قیادت قومی جمہوری اتحاد حکومت پر ان ریاستوں کی عوام کے لئے اقتصادی اصلاحات میں ناکام ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔دوسری طرف مہاراشٹر میں آئی پی ایل کرکٹ کھیل کو دوسری ریاست میں شفٹ کرنے کے لئے ہائی کورٹ نے حکم جاری کیا ہے ۔چونکہ پچ اور فلڈ کے منٹننس میں کافی پانی خرچ ہوتا ہے ،اس لئے ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ انسان کی جان بچانا زیادہ ضروری ہے نا کہ کھیل ،چونکہ لاتور میں دفعہ 144نافذ ہے اور جگہ جگہ تالاب و کنویں پر پولیس کا پہرا بٹھادیا گیا ہے ،اور اگر پانی کا ٹینکر وہاں جاتا ہے تو وہ بھی سخت سیکورٹی نگرانی میں تاکہ پانی کو لوٹ نا لیا جائے ۔اس طرح کے حالات سے یہ واضح ہے کہ انسان کی جان بچانا زیادہ ضروری ہے ۔اس لئے ہائی کورٹ نے سخت نوٹس لیتے ہوئے بی سی سی آئی کو پھٹکار لگائی ہے ۔ملک کی۹ ریاستوں میں پانی کا بحران شدید تر ہو گیا ہے ۔اس لئے حکومت کے لئے یہ سب سے بڑا چیلنج ہے کہ وہ کس طرح پانی کے بحران کو دور کرنے میں کامیاب ہوتی ہے ۔چونکہ ابھی سے موسم گرماں نے اپنے سخت تیور دیکھانے شروع کر دئے ہیں اور گرمی کی شدت تقریبا ۵ سے ۶ ماہ تو رہتی ہی ہے ۔اس لئے حکومت کو اس مسئلہ پر سنجیدگی سے جنگی پیمانے پر غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے لئے مختلف طرح سے پانی کو جمع کیا جا سکتا ہے ۔مثلاً بعض جگہ ندی اور تالاب ہیں جن میں کافی مقدار میں سال بھر پانی بھرا رہتا ہے وہاں سے حکومت کو چاہئے کہ باضابطہ وہاں پانی صاف کرنے کی مشین لگا کر پائپ یا ٹینکر کے ذریعے مختلف اسٹیٹ میں پہنچایا جائے ۔اگر حکومت چاہے تو اس پر معمولی قیمت بھی لے تاکہ اس میں لگنے والے وقت اور لیبر کی قیمت مل جائے اور حکومت پر مزید بار نا آئے ۔حالانکہ یہ حکومت کا کام ہے اس کے لئے وہ عوام سے ٹیکس تو لیتی ہی ہے ۔جس طرح بڑی مقدار میں سات سمندر پار سے پٹرول ،تیل اور گیس کی سپلائی کی جاتی ہے اسی طرح اپنے ہی ملک سے مختلف شہروں ،ریاستوں میں پانی پہنچایا جا سکتا ہے ۔لیکن حقیقت یہ ہے کچھ بنیادی ضروریات ایسے ہیں جس پر حکومت نے کبھی سوچا ہی نہیں اس میں پانی بھی سر فہرست ہے ۔حالانکہ شہری علاقوں میں پائپ لائن کے ذریعے لوگوں کے گھروں میں پانی سپلائی کی جاتی ہے لیکن وہیں قصبات اور چھوٹے سے لیکر گاؤں میں پانی سپلائی کا کوئی سسٹم ہے ہی نہیں وہاں لوگ اپنے اپنے گھروں میں ہینڈ پائپ لگاتے ہیں یا کنویں سے پانی نکالتے ہیں ،اس لئے حکومت اس ذمہ داری بری الذمہ رہتی ہے ۔لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ملک کی تمام ریاستوں کی حکومت سمیت مرکزی حکومت بھی اس جانب سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور عوام کو پانی جیسی انمول بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرے ۔یہ مسئلہ حل طلب ہے اس سے راہ فرار اختیار کرنے کا مطلب ہے انسانی جانوں کا اتلاف ،چونکہ پانی کے بغیر کوئی اس روئے زمین پر زندہ نہیں رہ سکتا ہے ۔آج حکومت ہند کے مختلف اسکیموں کی وجہ سے پانی کا سطح جس تیزی سے نیچے جا رہا ہے وہ تشویناک حد تک پہنچ چکا ہے ۔اس میں حکومت کا ہی عمل دخل ہے۔اس لئے اس مسئلہ کو حکومت ہی حل کریگی ۔خود دہلی جیسے شہر میں زیر زمین میٹرو ریل کی وجہ سے پانی کا سطح آب انتہائی حد تک نیچے پہنچ چکا ہے اب یہاں بھی وہ بھی جمنا کے کنارے پانی نکالنے کے لئے ستر اسی فٹ پائپ ڈالنے کی ضرورت پڑتی ہے ۔یہ سب میٹرو ریل کی وجہ سے ہو رہا ہے ۔اس لئے حکومت اس مسلہ سے چشم پوشی اختیار نہیں کر سکتی ہے بلکہ اس کے متبادل کے طور پر وہ طریقے اختیار کرنے پڑیں گے جو خلیجی ممالک اختیار کرتے ہیں ۔سعودی عرب دنیا کا واحد ملک ہے جو سمندر کے پانی کو پینے کے لائق بناتا ہے جو بہت مہنگی پڑتی ہے ۔لیکن ہمارے ملک میں ابھی بھی بہت ساری ندیاں اور تالاب موجود ہیں جہاں سال بھر پانی بھرا رہتا ہے ۔
Falah Uddin Falahi
About the Author: Falah Uddin Falahi Read More Articles by Falah Uddin Falahi: 135 Articles with 101814 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.