پنجاب میں محکمہ صحت کی زبوں حالی

وزیر صحت پنجاب اور خادمِ اعلیٰ پنجاب اگر عربی کی اِس مشہور ضرب المثل کو پیش ِ نظر رکھیں کہ ’ مَنْ حَسُنَ ظَنُّہٗ طَابَ عَیْشُہ‘ تو بات آگے بڑھائی جائے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ جس کا گمان نیک ہو گیا ، اُس کی زندگی اچھی ہو گئی۔ بد گمانی کو اﷲ اور اُس کے رسول ﷺ نے بھی سخت ناپسند فرمایا ہے۔

ایک معتبر اطلاع کے مطابق ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال شیخوپورہ کے ڈائیلسز یونٹ میں زیرِ علاج مریضوں میں سے گزشتہ ایک ماہ میں 17 مریض ہیپاٹائٹس سی کا شکار ہوگئے ہیں۔ کچھ دیر پیشتر جب رینل فیلیر یعنی گُردوں کے ناکارہ پن کا خوفناک مرض لے کر اِن مریضوں نے اِس یونٹ میں پہلا قدم رکھا تھا تو وہ اپنے میڈیکل ریکارڈ کے مطابق کسی بھی طرح کیChronic Liver Diseaseسے پاک تھے۔گردوں کی حد تک موت سے نبرد آزما یہ سخت مگر جرأت مند لوگ گردوں کے ناکارہ پن کی وجہ سے تو اذیّت میں تھے ہی، اب وہ جگر کو بھی بربادی کا بھی پیغام دے چکے ہیں۔ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال شیخوپورہ کا کسی بھی دَور میں کوئی پُرسانِ حال نہ رہا ہے اورآج بھی حالات زیادہ مختلف نہ ہیں۔ اِس روح فرسا خبر پر اِس سے زیادہ کچھ نہیں کہا جارہا کہ مریضوں کو بلڈ ٹرانسفیوژن کا عمل جاری رہتا ہے، جس وجہ سے بعض لوگ ہیپاٹائٹس سی کا شکار ہو جاتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا انتقالِ خون کا عمل اِتنا سادہ یا آسان ہے کہ گردہ فیل مریضوں کو جگر کے مریضوں کا خون دیا جارہا ہے؟اصل حقیقت یہ ہے کہ ہیپاٹائٹس سی سے پاک اِن مریضوں کو نہایت لاپرواہی اور بے دردی سے اُن مریضوں کے ساتھ گڈمڈ کر دیا گیا ہے جو پہلے سے ہیپاٹائٹس سی میں مبتلا تھے اور اب اِس مجرمانہ غفلت کے جواز تلاش کیے جارہے ہیں۔ اِس طرح کا کوئی جرم اگر دُنیا کے کسی مہذب ملک میں ہوتا تو ایک قیامت بپا ہوجاتی لیکن یہاں کے نام نہاد مسلم معاشرہ میں ، جہاں خونِ انسان کی ارزانی کی داستانیں پہلے ہی ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں، کسی کے کان پر جُوں تک بھی نہیں رینگے گی۔احتساب اور حساب کتاب کے جس اِدارے کے علم میں یہ خبر آتی گئی ، وہ اپنا کام مکمل کرکے بے بس مریضوں کا ’کام‘ کرتے گئے۔محکمہ صحت شیخوپورہ اور بالخصوص ڈی ایچ کیو ہسپتال شیخوپورہ پر مریضوں کے اعتماد کے فقدان کا یہ عالم ہے کہ شیخوپورہ میں کوئی اچھا پرائیویٹ ہسپتال نہ ہونے کے باوجود جو چند ’’دکان داریاں‘‘ ہیں ، وہ ہمہ وقت مریضوں سے لبریز نظر آتی ہیں۔ ڈاکٹرز کی توجہ، سوائے ایک یا دو کے ، ذاتی کاروبارپر ہے اور ہسپتال سے اُن کی دلچسپی مریضوں کو ذاتی کلینک کا راستہ بتانے کے سِوا نہیں ہوتی۔اِس خبر پر راقم کو اِس ہسپتال سے اپنا ایک ناخوشگوار تجربہ بھی یاد آگیاجب اِس خیال سے راقم کو وہاں منتقل کیا گیا کہ شاید کوئی ہارٹ پرابلم ہے ۔ ہسپتال کے آئی سی یو میں چوبیس گھنٹے ہارٹ اٹیک کی ساری ادویات دی گئیں لیکن وہاں کے 24 گھنٹوں کے قیام میں ایسی کوئی معزز ہستی نظر نہیں آئی جسے ڈاکٹر کہا جائے۔یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ وہاں کوئی جونیئر ڈاکٹر بھی تشریف نہیں لایا۔ تاہم جب پی آئی سی میں ٹیسٹ وغیرہ کیے گئے تو پتہ چلا کہ راقم کو سرے سے دل کی کوئی بیماری نہ ہے اور نہ ہی کبھی ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔

سرکاری اداروں میں انسانیت کی تذلیل اور سرکاری ہسپتالوں میں انسانی جانوں سے لاپرواہی کوئی راز ہے نہ بھید۔اربابِ اختیار کی اپنی دلچسپیاں ہیں ۔ سیاست پوری قوت سے صحت کے اِداروں میں در آئی ہے۔ ڈاکٹرز، سیاست دانوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے ہیں اور عوام الناس ، ڈاکٹرز کے ہاتھوں۔ یہ صورتِ حال کسی بھی طرح قابلِ اطمنان نہیں ہوسکتی ۔ اگر اِس طرح کے واقعات اورلاپروائیاں کسی بڑی تحریک کی شکل اختیار کر گئیں یا خوش بختی سے کوئی مطالبہ احتساب پر منتج ہوتا ہے تو پھر یہ تاریخ کاایسا حصّہ بن جائے گا کہ لوگ اِس کی مثال دیا کریں گے۔ خونِ مسلم کی ارزانی کا تو پہلے ہی یہ عالم ہے کہ سڑکیں اور پارکس ہر لمحہ لہو رنگ نظر آتے ہیں، اب انسانی جانوں کی بے قدری آخر ہمیں کہاں لے جاکر چھوڑے گی؟

کیا قوم امید رکھے کہ کوئی وزیر صحت ، کوئی احتسابی ادارہ یا کوئی خادمِ اعلیٰ کسی ذمہ دار سے اِس امر کی بازپرس کرے گاکہ سرکاری ہسپتالوں میں آخر ہو کیا رہا ہے؟

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Asghar Ali Javed
About the Author: Asghar Ali Javed Read More Articles by Asghar Ali Javed: 19 Articles with 22642 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.