کیا ہم 2016ء میں پولیو سے نجات حاصل کرلینگے؟

پوری دنیا میں پاکستان اور افغانستان وہ ممالک ہیں جو پولیو سے مکمل طور پر نجات حاصل نہیں کر پائے۔ گو کہ پاکستان میں پولیو کے خاتمے کی مہم 1974ء سے چلائی جا رہی ہے مگر شومئی قسمت کہ 42سال ہونے کو آئے ہم اس موذی مرض سے تا حال نبرد آزما ہیں۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں 2014ء میں سب سے ذیادہ پولیو سے متاثرہ بچوں کے معاملات سامنے آئے ۔ پاکستان کی موجودہ حکومت نے 2016ء کو پولیو کے خاتمے کا سال قرار دیا ہے مگر ہمیں ایسا ہوتا ہوا نہیں دکھائی دے رہا۔کیونکہ پولیو کے خاتمے میں آڑے آنے والے حالات اور وجوہات جہاں ناکافی غذا ، آب و ہوا، گندا ماحول، صفائی کے ناقص انتظامات، جہالت، حکومت کے غفلت، لوڈ شیڈنگ، دہشت گردی ہے وہیں ایک سب سے بڑا عنصر ہسپتالوں کی حالت زار اور کرپشن بھی ہے جو پولیو کو ختم کرنے میں آڑے آ رہی ہیں۔

پاکستان آئین کے مطابق ایک اسلامی مملکت کہلاتا ہے مگر اسکے تمام ادارے خواہ وہ پارلیمینٹ ہو، فوجی ادارے ہوں، قانون نافذ کرنے والے ادارے ہوں، انصاف فراہم کرنے والی عدلیہ اور اسکے جج ہوں، صحت عامہ کے ادارے ہوں، تعلیمی ادارے ہوں یا پھر دوسرے سرکاری ادارے ہوں وہ بے شرمی اور بے حیائی کی حد تک کرپشن میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔ اور کرپشن کا ناسو ر ایک ایسا رستا ہوا کینسر ہے جو ہمارے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیکر نہ صرف اسمیں تعفن پھیلانے کا باعث بن رہا ہے بلکہ یہ ہمارے معاشرے کے اداروں کو بری طرح برباد کررہا ہے ۔ جس معاشرے میں پولیو جیسی بیماری کو ختم کرنے والی ویکسین میں بد دیانتی کرکے کروڑوں روپے کی حرام کاری کیجاتی ہو اور ناقص اور غیر معیاری پولیو ویکسین کے ذریعے اس ملک کے معصوم بچوں کی جانوں سے کھیلا جاتا ہو بھلا ایسے سفاک درندے انسان کہلانے کے قابل کہاں اور ہم دن رات پولیو کی مہم میں کروڑوں روپے کی اشتہار بازی کرکے عوام کو دھوکہ دیکر اور انکے معصوم بچوں کی زندگیوں سے کھیل کر انتہائی شاطرانہ اور مکروہانہ چالیں چل کر اپنے ملک سے پولیو کو ختم کرنے کی بے ہودہ باتیں کرتے ہیں اور ہمیں ذرہ برابر بھی شرم نہیں آتی۔پولیو کا جان لیوا مرض جو عالمی طور پر پوری انسانیت کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے اور مغربی دنیا اس موذی مرض سے چھٹکاراہ حاصل کرنے میں کامیابیوں کی منازل طے کر چکی ہے اور ہمارے مقتدر ادارے ، حکمران اورسیاستدان جو اپنے ذاتی لالچ کیلئے بے شرمی اور بے حیائی کی غلیظ چادر اوڑھ کر اسکے نیچے پوری قوم کے معصوم بچوں کو اپاہج بنانے میں اپنا مکروہ کردار ادا کرتے ہوئے کروڑوں روپے کمانے میں مصروف ہیں۔ میں یہاں اپنے ایک دوست ممتاز بیگ کا ذکر کرنا نہیں بھولونگا جو انسانیت کیلئے درد دل رکھتے ہیں اور انہوں نے اپنی زندگی کو پولیوں کے خاتمے کیلئے وقف کیا ہوا ہے اور وہ انتہائی ایمانداری سے روٹری کلب کے ممبر ہونے کی حیثیت سے دن رات اس انتہائی مقدس فریضے کو نبھا نے میں مصروف عمل ہیں۔ میں ان سے کہا کرتا ہوں کہ مجھے آپکی محنت ، لگن اور تگ ودو میں ذرہ برابر بھی شک نہیں ہے مگر وہ مگر مچھ جو پولیو جیسے جان لیوا مرض میں بھی ہمارے بچوں کیلئے دشمن کا کردار ادا کرتے ہوئے تا حال اسے ختم کرنے میں مخلص نہیں ہیں ہم جیسے بے یارو مددگار لوگ ان درندوں کے سامنے انتہائی بے بس ہیں۔بار بار پولیو کے قطرے پلانے کے باوجود ہر سال پولیو کے مرض میں یہ معصوم بچے ضرور مبتلا پائے جاتے ہیں 2008 ء میں انتہائی غیر مناسب انتظامات اور ان غیر معیاری انتظامات کے نتیجے میں احتساب نہ ہونے کیوجہ سے پولیو سے 15 بچے متاثر ہوئے ۔ پولیو سے متاثرہ ان بچوں کے والدین کی آہیں اور سسکیاں بھی ان بے رحم اور بے حس درندوں پر اثر انداز نہیں ہوتیں اور ان ماؤں کی آہ و بقا بھی آسمان سے ٹکرا کر واپس آجاتی ہے جو اپنے معصوم لاغر اور معذور بچوں کیلئے تڑپ تڑپ کر اپنی ہی آگ میں جل رہی ہیں۔ ہمارے حکمران اور مقتدر ادارے اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ 2008ء میں برطانوی حکومت کی طرف سے پولیو ویکیسن کی خریداری کیلئے دی جانے والی 15ملین پونڈز کی امداد میں بھی ہیرا پھیری کرنے سے بعض نہ آئے اور اسکا اثر اس 80ملین پونڈز برطانوی امداد پر پڑا جو مذید انکی طرف سے ملنا باقی تھی۔برطانوی حکومت نے پاکستان کو لکھے گئے ایک خط میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ انہیں افسوس ہے کہ پولیو ویکسین کی خریدارای کیلئے دی گئی امداد کو غلط استعمال میں لایا گیا جو ہمارے لئے انتہائی شرم کی بات ہے۔ پچھلے سال اسلام آباد کے ایک ہسپتال میں ناقص انتظامات اور پولیو ویکیسین کو مناسب درجہ حرارت نہ ملنے سے تقریباً تیس کروڑ مالیت کی ویکسین کو ضائع کرنا پڑا جو قومی خزانے کیلئے ایک بہت بڑا دھچکا تھا اسکی سب سے بڑی وجہ ہسپتالوں میں کام کرنے والا عملہ اور ڈاکڑز کی مجرمانہ غفلت تھی جو درجہ حرارت کو برقرار رکھنے میں اپنے فرائض سے غافل رہے یہ ویکسین ۵ سال تک کے ساڑھے پانچ کروڑ بچوں کو دی جانی تھی جو اس سے محروم رہے۔مضر صحت اور ذائدالمعیاد اور ناقص پولیو کے قطرے پینے سے اب تک بیسیوں معصوم بچے موت کے منہ میں جا چکے ہیں اور ہر سال پولیو کے قطرے پینے کے باوجود بچے اس موذی مرض میں مبتلا ہوکر مر جاتے ہیں مگر ہمارے ارباب اختیار نے تا حال اپنی غلطیاں چھپانے اور ان پر پردہ ڈالنے کیلئے عوام کو الفاظ کے گورکھ دھندے میں پھنسایا ہوا ہے اور اسنے کرپٹ اور بد دیانت لوگوں کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے ۔ اسی طرح بد قسمتی سے ہمارے یہاں بجلی کی لوڈشیڈنگ کیوجہ سے یہ نا صرف مشکل بلکہ ناممکن ہو گیا ہے کہ پولیو ویکسین کو اسے مقرر کردہ درجہ حرارت کے مطابق رکھا جا سکے کیونکہ درجہ حرارت کو قائم رکھنے کیلئے جب پولیو ویکسین کو ریفریجریٹرز میں رکھا جاتا ہے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کیوجہ سے ریفریجریٹرز کام چھوڑ جاتے ہیں اور پولیو ویکسین خراب ہو جاتی ہے اور یہ اپنی کارکردگی کھو بیٹھتی ہے۔ پولیو ویکسین کے درجہ حرارت کو بر قرار رکھنے کیلئے جاپان نے پہلی کھیپ کے طور پر 87 سولر ریفریجریٹرز خریدنے کا عندیہ دیا ہے اسی طرح چین سے بھی اسی طرح کے سولر ریجریجریٹر خریدے جائینگے۔ اگرچہ پولیو ویکسین کو ایک عرصے کیلئے 20 سنٹی گریڈ تک رکھا جا سکتا ہے یا پھر ایک سال کیلئے 10 سنٹی گریڈ تک رکھا جا سکتا ہے مگر پولیو مہم کے دوران اسے 2سنٹی گریڈ سے لیکر 8 سنٹی گریڈ تک رکھا جانا ضروری ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جب اس ویکسین کو برآمد کیا جاتا ہے تو اسوقت اگر اسکی کولڈ چین کو بر قرار نہ رکھا جائے تو یہ خراب ہو جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بچوں کو بار بار ویکسین کے قطرے پلائے جانے کے باوجود یہ مرض ختم نہیں ہو رہا ور ہر سال کئی بچے پولیو کا شکار ہو جاتے ہیں اور انمیں سے بہت سے بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ مگر ان بات کو پس پشت ڈال کر کہ یہ غیر معیاری پولیو ویکسین بچوں کیلئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے اپنی غلطیوں پر پر دہ ڈالنے کیلئے بچوں کی زندگیوں سے کھیلا جا رہا ہے اور بچوں کو یہ غیر معیاری ویکسین دے دی جاتی ہے اور یہ غیر معیاری ویکیسین ان پر یا تو بے اثر ہوتی ہے یا پھر اگر وہ خراب ہو جائے تو اس سے انکی موت بھی واقع ہو جاتی ہے۔ سندھ اور بلوچستان سے پولیو ویکسین کے غیر معیاری ہونے کی شکایات موصول ہوتی رہی ہیں مگر اس پر کوئی توجہ نہ دی گئی جس سے ہماری حکومت اور اسکے اداروں کی نیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم پولیو کے خاتمے کیلئے کتنے مخلص ہیں۔ اگر ہم دیکھیں تو غیر معیاری ویکسین کے استعمال سے 2009-2016ء تک پنجاب میں 49، سندھ میں 131 خیبر پختونستان میں 203، فاٹا میں 433، بلوچستان میں133جبکہ گلگت بلتستان میں 2کیس سامنے آئے۔ دوسری جانب لوگ ڈر چکے ہیں اور سہمے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ پولیو کے قطرے پلانے سے کہیں انکے بچے اپاہج یا پھر زندگی کی بازی ہی نہ ہار جائیں اور یہ خوف ان پر اس حد تک ملسط ہے کہ انہوں نے پولیو ٹیموں سے تعاون کرنا چھوڑ دیا ہے اور وہ یہ قطرے پلانے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ اسکی تمام تر ذمہ داری ہمارے ان اداروں پر ہے جو پولیو کے مرض کو ختم کرنے میں اپنا غیر ذمہ دارانہ کردار ادا کرتے ہوئے عوام کو بد دل کر نے میں پیش پیش ہیں۔ تا حال ہماری حکومت نے ایسے پروگرام شروع نہیں کئے ہیں جس سے عوام الناس کو پولیو کے مرض کے بارے میں آگاہی ہو۔اسکولوں، گلیوں، بازاروں، گھروں، محلوں اور ہر اس عوامی پلیٹ فارم پر پولیو سے متعلق ورکشاپس، سیمینار اور میٹنگز، بات چیت، کانفرنس، لوگوں سے برا ہ راست رابطہ اور گفتگو ، فورمز کا انعقاد اور عوام کو اس موزی مرض کے بارے میں اس کے ہولناک اور خطرناک انجا م کے بارے میں بتانا اور مختلف بینرز، پمفلٹس، اشتہارات، بروشرز اور اخباری تشہری مہم، بچوں کیلئے ٹی وی پر پیش کئے جانے والے کارٹون پروگرامز کو ترتیب دیا جائے اور اس کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا پر بچوں اور والدین کی آگاہی کے پروگرام وہ اقدام ہیں جو ہمارے لئے مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ہمیں چاہئے کہ ہم پولیو کے مرض سے پیدا ہونے والے جان لیوان اور اپاہج کرنے والے عوامل کو عوام الناس کے دماغو ں میں اسطرح بٹھا دیں کہ وہ ا س مرض کے خاتمے کیلئے رضا کارانہ طور پر اپنے گھروں ، دفتروں، فیکٹریوں، دوکانوں اور اپنی کام کرنے کی جگہوں پر اپنی توانائیاں صرف کرتے ہوئے اس مرض کے خاتمے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں۔
 
ہمارے لئے یہ بات شرم کا باعث ہے کہ بین الاقوامی طور پر ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے ایک بار پھر ہم پر بیرونی ممالک سفر کرنے پر پابندی عائد کردی ہے۔ جب تک ہم پولیو کے خاتمے کیلئے بین الااقوامی طور پر ملنے والے فنڈات کو نہایت ایمانداری سے استعمال نہیں کرینگے اور اسمیں بد دیانتی کرکے ا س ملک کی جڑوں کی کمزور کرتے رہینگے پولیو کا خاتمہ نا ممکن ہوگا۔ ہر شہری کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ پولیو کے خاتمے کیلئے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے اسکے خاتمے کیلئے مخلصانہ طور پر اپنا حصہ ڈالتے ہوئے ملک کی آنے والی نسل کو اس موذی مرض سے بچانے کیلئے سر توڑ کوشش کرے ورنہ ہمیں مذید اپنے معصوم بچوں کو اپاہج کرنے اور انہیں موت سے ہمکنار کرنے کیلئے تیار رہنا چاہئے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Syed Anis Bukhari
About the Author: Syed Anis Bukhari Read More Articles by Syed Anis Bukhari: 136 Articles with 137242 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.