تعلیمات سلطان باہوؒ اور پیری مریدی

 آئے روز ذرائع ابلاغ پر کئی واقعات دیکھنے سننے کو مل رہے ہیں جن میں جعلی پیروں کے افسوسناک کرتوت اسلام کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پیری مریدی کا اسلام میں کوئی وجود بھی ہے یا یہ صرف ایک ڈھونگ ہے؟ حقیقت میں ’’پیری مریدی‘‘ کوئی نئی اصطلاح نہیں بلکہ فارسی اور اردو میں جسے پیر یا بزرگ کہتے ہیں عربی میں اسے شیخ کہا جاتا ہے۔ اورجو کوئی نیک ارادے کے ساتھ صراط مستقیم پر چلنے کیلئے صحبت صالحین اختیار کرے اسے ’’مرید ‘‘کہا جاتا ہے ۔ یہ بزرگان دین ہمیشہ گم کردہ راہ انسانوں کی تربیت کرکے انہیں صراط مستقیم پر گامزن کرتے رہے۔ ظاہری تعلیمات اور باطنی کیفیات سے قلوب و اذہان میں یاد خدا اور فکر آخرت کے دیپ روشن کرکے مخلوق خدا کو خدا آشنائی کی منزل مراد تک پہنچاتے رہے۔ یہ وہی کام ہے جو نبی کریمﷺ اور آپ کے تربیت یافتگان نے کیا۔ یہ بدعت ہے اور نہ اسلام کی ضد۔ لیکن بعض جہلا ان مقدس القابات کو دنیاداری یا فریب کاری کیلئے استعمال کریں تو حد درجہ قابل مذمت فعل ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے لوگوں کے خلاف آواز حق بلند کی جائے اور انہیں تصوف و طریقت کے چشمہ صافی کو گدلا کرنے سے روکا جائے۔یہ حقیقت ہے کہ ہر دور میں انبیاء و رسل علیھم السلام انسانوں کی راہبری کیلئے تشریف لاتے رہے ۔جب انسانیت عالم شباب کو پہنچی تو آقائے نامدار، مرشد قلب و نظر محمد رسول اﷲﷺکا ظہور قدسی ہوا۔ آپﷺخاتم النبین کے یکتا لقب سے متصف ہوئے اور آپ کا فیضان ابد الآباد تک کیلئے جاری و ساری رہیگا۔قرآنی آیات کی روشنی میں آپ ﷺ کے فیضان نبوت کے دو پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں ۔ ایک کتاب و حکمت کی تعلیم اور دوسرا تزکیہ نفس و تطہیر باطن۔جن لوگوں کوظاہری تعلیمات میں سے وافر حصہ ملاوہ مفسر قرآن، محدث، فقیہ، سیرت نگار اور متکلم وغیرہ کے القاب سے نوازے گئے۔ اور جن ہستیوں کو علم لدنی اور فیوضات باطنی نصیب ہوئے وہ ولایت کے مناصب جلیلہ پر فائز ہوئے ۔ برصغیر کی سرزمین کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں پر اسلام کی ترویج و اشاعت عرب اور وسط ایشیا سے آنے والے صوفیائے کرام کی اعلی اخلاقی اقدار اور روحانی تصرفات سے ہوئی۔ ا ن صوفیائے کرام میں سلطان العارفین، برھان الواصلین، سلطان الفقر حضرت سلطان باہو رحمۃاﷲ علیہ ایک نمایاں حیثیت اور اعلی مقام رکھتے ہیں۔ آ پ کے آباء و اجداد عرب سے ہجرت کرکے ہمدان اور پھرخراسان آئے۔اور بعد ازاں چھٹی صدی ہجری میں تاتاریوں کے بغداد اور خراسان پر حملوں کے دور ان ہندوستان منتقل ہوگئے۔ سلطان باہو ؒ کی ولادت مغل دور حکومت میں شورکوٹ کے علاقے میں ہوئی۔ اس دور میں سرکاری زبان فارسی تھی جبکہ علاقائی سطح پر پنجابی بولی جاتی تھی۔ آپ نے ان دونوں زبانوں کو ما فی الضمیر کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ آپ ؒنے اپنی پوری زندگی دین اسلام کی خدمت اور تصوف کے اعمال واشغال کی ترویج و اشاعت میں گزار دی۔ عام فہم اور دلنشین انداز میں آپ نے ایسا پرمغز کلام فرمایا جو ہردور کے انسانوں کیلئے اصلاح احوال، اخلاقی بالیدگی اور روحانی کمالات کا موئثرذریعہ رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کامل مسلمان بننے کیلئے کامل انسان بننا از حد ضروری ہے۔ حضرت سلطان باہو ؒ کا مخاطَب بلا تفریق مذہب و ملت ایک انسان ہے۔ آپ کے نزدیک انسان کامل وہ ہے جو دنیا کی بے ثباتی کا یقین رکھ کے رضائے الہی کے تحت اور عشق رسولﷺ میں ڈوب کر زندگی گزارتا ہے۔ حضرت سلطان باہوؒ کی تعلیمات میں انسان کامل کے مرتبے تک پہنچنے کیلئے مرشدکامل سے بیعت اور قلبی وابستگی از حد ضروری ہے۔ آپؒ کی تعلیمات کی روشنی میں مرشد کا مقام یہ ہوتا ہے کہ وہ سالک اور مرید کی تربیت کر کے اسے انسان کامل بننے کے راستے کی راہنمائی کرتا ہے۔ اگر کوئی نام نہاد پیر یا مرشد ، محرم اسرار و رموز الہی نہ ہو تو اس سے وابستگی اختیار کرنا فضول ہے۔ آپ فرماتے ہیں۔

پیر ملے تے پیڑ نہ جاوے، نال اس پیر کی دھرنا ہو۔۔۔۔مرشد ملیاں رشد نہ من نوں، اوہ مرشد کی کرنا ہو
جس ہادی تھیں نہیں ہدایت، اوہ ہادی کی پھڑنا ہو۔۔۔۔سردتیاں حق حاصل ہووے، موتوں مول نہ ڈرنا ہو
تعلیمات باہوؒ کی روشنی میں سالک جب تک کسی شیخ کامل کی صحبت اختیار کرکے فنا فی الشیخ کی منازل تک نہ پہنچے اس وقت تک فنافی الرسول اور فنا فی ا ﷲ کے رتبے کو نہیں پا سکتا۔ جس وقت تک حضوری قلب اورقرب الہی نصیب نہ ہو اس وقت تک فقط اعما ل ظاہریہ سے کمالات باطنی کا حصول خواب و خیال کی حیثیت ہے۔ آپ فرماتے ہیں

باجھ حضوری نہیں منظوری ، پڑھن بانگ صلاتاں ہو۔۔۔۔۔روزے، نفل، نماز گزارن جاگن ساریاں راتاں ہو
باجھوں قلب حضور نہ ہووے، کڈھن سے زکاتاں ہو۔۔۔۔۔ باجھ فنا رب حاصل ناہیں، نہ تاثیر جماتاں ہو
آپ کے نزدیک کمالِ انسانیت کی انتہا یہ ہے کہ اسے نبی پاکﷺ کی بارگاہ کی حضوری اورشفاعت کی دولت لازوال نصیب ہوجائے۔ آپ فرماتے ہیں
بے بسم اﷲ، اسم اﷲ دا، ایہہ بھی گھہنا بھارا ہو۔۔۔۔نال شفاعت سرور عالم، چھٹسی عالم سارا ہو
حدوں ودّھ درود نبیﷺ نوں، جیندا ایڈ پسارا ہو۔۔۔۔میں قربان تنہاں تھیں باہو، ملیا نبی سوہارا ہو

سلطان الفقر کی نظروں میں پیری مریدی کوئی کاروبار ہے اور نہ حصول جاہ کا ذریعہ بلکہ یہ تو سرتاپااطاعت الہی اور اطاعت رسول سے عبارت ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ان برگزیدہ ہستیوں نے لکھو کھہا گم کردہ راہ انسانوں کواپنی حقیقی منزل کا پتہ بتایا۔ کچھ تو وہ بھی ہیں کہ جو چور، ڈاکواور دہریے تھے مگرا ن نفوس قدسیہ کے فیض صحبت سے مرتبہ ولایت پر فائز ہو گئے۔ہر دور میں کچھ جعلساز ذاتی مفادات اور حصول شہرت کیلئے اصل کی نقل تیار کرتے رہتے ہیں۔ اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ان کی ان حرکتوں کی وجہ سے اصل کا ہی انکار کردیا جائے۔ یہاں تک کہ اس جعلسازی کے فن میں لوگوں نے خدائے پاک اور انبیاء و رسل کو بھی نہیں چھوڑا۔ کوئی جعلی نبی بن بیٹھا اوراور کسی نے خودساختہ خدائی کا دعوی کردیا۔ کیا ان جعلسازوں کی وجہ سے حقیقی خدائے بزرگ و برتر اور سچے رسولوں کا انکار کردیا جائے ؟ نعوذ باﷲ من ذلک۔ یقینا نہیں۔اسی طرح شعبدہ بازوں اور جعلی پیروں کی وجہ سے حقیقی تصوف اسلامی اور اصحاب طریقت پر قدغن لگانا بھی قرین انصاف نہیں۔
Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 218957 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More