آج کی بات

چلتے چلتے مریم نے یکدم ہی سرراہ پڑے پتھر کو ٹھوکر مار کر ایک جانب کردیا ، یہ دیکھ کر عینا کی تیوری چڑھ گئی کیونکہ اس نے بارہا یہ بات نوٹ کی تھی کہ مریم راہ چلتے چلتے بہت سی چیزیں ہٹانے میں لگی رہتی، کبھی پتھر تو کبھی اینٹ ، اسے کبھی کوئی کاغذ نظر آجاتا تو کبھی کھانے کی کوئی چیز ، مگر آفرین ہے اس پر جو کبھی کوئی موقع ہاتھ سے جانے دیا ہو...

اور ان مواقع پر عینا کا جو حال ہوتا وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا . رد عمل کے طور پر سب سے پہلے تو اس کا چہرہ مارے خفت کے سرخ پڑ جاتا پھر وہ فورا اپنے اردگرد نظر دوڑاتی کہ کہیں کسی راہگیر نے مریم کی اس حرکت کو نوٹ تو نہیں کیا !

مگر مریم ان تمام باتوں سے بے نیاز اپنا کام پورا کرکے ہی آگے بڑھتی...

آخر ایک دن اس نے پوچھ ہی لیا !

مریم ! تم راہ چلتے کتنی عجیب حرکت کرتی ہو ؟ لوگ بھی کہتے ہوں گے کہ سر پھری لڑکی ہے .... یہ گھٹیا کام کرکے تمہیں کونسی خوشی حاصل ہوتی ہے؟؟؟ عینا منہ بناتے ہوئے کہہ رہی تھی .

مریم تو جیسے اسی سوال کی توقع کررہی تھی، رسان سے گویا ہوئی :

عینا! دراصل بات یہ ہے کہ انسان بہت سی چیزیں نہ چاہتے ہوئے بھی ٹھوکر کھا کر سیکھ جاتا ہے اگر تب بھی نہ سیکھے تو پھر ٹھوکروں کے رحم و کرم ہی پر اس کی تمام عمر گزر جاتی ہے....
یہ چھوٹے چھوٹے کام جو تمہاری نظر میں گھٹیا اور نیچ ہیں. مجھے میری ہی نظر میں معتبر بنا ڈالتے ہیں !
وہ کیسے ؟

عینا کو حیرت کا ایک جھٹکا لگا.

وہ اس طرح کہ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینا ایسا ہے جیسے کسی مصیبت زدہ پر مصیبت آنے سے پہلے ہی اس کو دور کردینا !

اب دیکھو کہ اگر ہمارا کوئی مسلمان بھائی بے خیالی میں پتھر سے ٹھوکر کھا کر گر پڑے تو اس کا کتنا نقصان ہو سکتا ہے . ذرا تم اندازہ لگاؤ کہ اگر کوئی ضعیف اور بزرگ شخص اس کی زد میں آجائے تو یہ معمولی سی کوتاہی اس کو کتنے بڑے نقصان سے دوچار کرسکتی ہے.

اس کی تازہ ترین مثال تو میں اپنے گھر سے دے سکتی ہوں کہ پچھلے دنوں دادا جان راستے میں ٹھوکر لگنے سے بازو کی ہڈی تڑوا بیٹھے....
اس نے رک کر اپنی بات کا رد عمل جاننا چایا. ...
وہ حق دق اس کی بات سن رہی تھی.
اور اگر کوئی کاغذ گرا دیکھ لوں تو میرے قدم زمین گویا جکڑ لیتی ہے کہ کہیں میرے قدم کسی مقدس لفظ پر ہی نہ پڑ جائیں !
یہ بات سن کر تو اسےاپنے بدن میں جھرجھری سی محسوس ہوئ.
رہا رزق ! تو ہم اسے اپنے قدموں تلے روند کر کیسے اس کی بے حرمتی کر سکتے ہیں ؟
اب تم ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتاو کہ کیا عقل کا بھی یہی تقاضا نہیں ہے !
پھر ان سب سے بھی بڑھ کر یہ کہ اپنے ہی فائدے کے ایسے کام کرنے پر بھی ہم اجر عظیم حاصل کرلیتے ہیں. جیسا کہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم ہے.
" راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینا بھی صدقہ ہے "
بے حد نرمی سے اپنی بات مکمل کرکے اس نے نظر اٹھائ تو دیکھا کہ عینا کی پیشانی پر عرق ندامت کے ننھے ننھے قطرے موتیوں کی طرح چمک ریے تھے جو واضح طور پر اس کی ذہنی تبدیلی کے غماز تھے .
اس کا دل رب کعبہ کے حضور سجدہ شکر بجا لایا.
شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے!
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے سے ہم خود ہی غافل ہیں اور الزام اغیار کو دیتے ہیں ...
Sadia Javed
About the Author: Sadia Javed Read More Articles by Sadia Javed: 24 Articles with 18565 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.