ایک کہانی ایک سبق

اﷲ تعالیٰ نے مجھے نئی زندگی دی ہے ہو سکتا ہے کہ یہ بات کسی اور کے لئے اہمیت کا باعث نہ ہو ۔ میری موت سے میری فیملی ، میرے والدین اور میرے بھائی ڈسٹرب ہوتے ، لیکن آہستہ آہستہ سب اﷲ کا حکم سمجھ کر صبر کر لیتے ۔ زندگی کے معاملات معمول پر آ جاتے۔ اس لیے میں اپنی کہانی نہیں لکھ رہابلکہ وہ کہانی لکھ رہا ہوں جو میں نے کافی عرصہ پہلے پڑھی تھی اور مجھے بہت پسند آئی تھی ۔میں نے اس سے سبق سیکھا خود پر اپلائی کیا، میں سمجھتا ہوں کہ اس نیک عمل کا انعام کے طور پراﷲ تعالیٰ نے مجھے نئی زندگی دی ہے۔ میں اپنے ربّ کے ساتھ ساتھ اُس شخص کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جس نے یہ کہانی لکھی ہے ، اُس پبلیشرز کا بھی جس نے اسے شائع کیا۔ میری ڈکشنری کے مطابق کسی کو اچھا مشورہ دینا ، کسی کی اصلاح کرنا ، کسی کو دیکھ کر مسکرانابھی صدقہ ہے اور اسی سوچ کو لے کر میں یہ کہانی دوبارہ لکھ رہا ہوں۔ ممکن ہے یہ کہانی میرے علاوہ بھی کسی کو متاثر کرے، اس کی زندگی میں بھی انقلاب نہ سہی لیکن بہتری آ جائے۔

ایک بچہ پیدا ہوا تو چند سال بعد اُس کی والدہ فوت ہو چکی تھی۔ کچھ عرصہ بعد اُس کی باپ نے دوسری شادی کر لی ، سوتیلی ماں بچے کو پسند نہیں کرتی تھی۔ وہ بھی سوتیلی ماں کو پسند نہیں کرتا تھا۔ اُس کی باپ کو علم ہوا تو اُس نے کوشش کی کہ وہ دوسری بیوی کے ظلم سے بچے کو دور رکھے لیکن جب وہ سکول جانے کی عمر میں تھا تو باپ کا انتقال ہو گیا ۔ اب وہ بالکل تنہا تھا اُس کا کوئی دوست ، عزیز نہیں تھا۔ جس سے وہ دل کی بات شیئر کیا کرتا ۔ اُس کے باپ کے انتقال کے بعد اُس کی ماں بغیر وجہ کے اُسے مارتی پیٹتی رہتی ، بچہ سمجھ چکا تھا کہ اُس کی سوتیلی ماں چاہتی ہے کہ وہ گھر چھوڑ دے تاکہ اُس کی سوتیلی ماں اور اُس کا بیٹا تنہا اُس کے باپ کی جائیداد کے وارث بنیں۔ اکثر اوقات وہ بھوکا سوجاتا تھا، وہ اپنے کپڑے خود دھوتا، گھر کے تمام کام کرتا ، اس کی علاوہ گھر کی صفائی ، سوتیلے بھائی کو پڑھانا ، اُس کے ساتھ کھیلنا اُس کی ذمہ داری بنا دی گئی تھی۔ یہ واحد وقت ہوتا جب اُسے کھیلنے کی اجازت تھی، ایک دن اُس کی سوتیلی ماں نے کہا کہ اُس کے پاس اُس کی خوراک اور پڑھائی کیلئے پیسے نہیں ہیں لہذا خود کماؤ!

اُس نے اس بات پر عمل کیا اور پارٹ ٹائم ملازمت شروع کر دی لیکن اس کے باوجود بھی اُس کی ماں راضی نہ تھی ، وہ طعنے ، گالیاں مسلسل جاری رکھتی تھی۔ ایک دن سکول جانے سے پہلے اُس ماں نے اُسے بیحد ماراوجہ یہ تھی کہ و ہ گھر کی صفائی کرنا بھول گیا تھا کیونکہ گذشتہ رات وہ ملازمت پر کام کی زیادتی کی وجہ سے تھکا ہوا تھاجس بناء پر اُس میں صفائی کرنے کی سکت نہ تھی ۔ سوتیلی ماں کے مارنے کی وجہ سے اُس دن وہ بہت دل شکستہ ہوا ، اُس نے فیصلہ کیا کہ وہ خودکشی کر لے۔ وہ سکول جانے کیلئے گھر سے نکلا ، تمام دن وہ سوچتا رہا کہ سکول کے بعد وہ سیدھا ریلوے لائن جائے گا اور اپنے آپ کو ختم کرنے کیلئے اپنا سر ریل گاڑی کے نیچے دے دیگا۔ اُس نے سوچا کہ اس کی موت سے کسی کو کوئی پرواہ نہیں ، سکول سے چھٹی ہونے تک وہ اپنے آپ کو مار ڈالنے کا تہیہ کر چکا تھا ۔ اچانک اُس کے ہم جماعتوں میں سے ایک نے اُس کی طرف مسکرا کر دیکھا ، جواباً وہ بھی مسکرایا، اس جوابی مسکراہٹ نے دوسرے ساتھی کو حوصلہ دیا ، اُس نے پوچھا کہ آپ کی طبیعت ٹھیک ہے کیونکہ وہ صبح سے نوٹ کر رہا تھا کہ کوئی مسئلہ ضرور ہے ۔ اُس کی بات سن کر لڑکے نے آہستگی سے کہا کہ وہ ٹھیک ہے لیکن ہم جماعت مطمئن نہ ہو سکا۔ اُس نے پوچھا کہ کیا تم نے کھانا کھایا ہے ، انکار کی صورت میں ہم جماعت اُسے اپنے گھر لے گیاجو اسکول سے زیادہ دور نہ تھا۔ تمام راستے لڑکا خاموش رہا ، اور مسلسل سوچتا رہا کہ وہاں سے فارغ ہو کر واپسی پر وہ خود کو ختم کر لے گا۔ اُس کے ہم جماعت نے اُس کا تعارف اپنی ماں سے یہ کہہ کر کروایا کہ وہ اس کا بہترین دوست ہے اور یہ الفاظ اُس کے لئے خوشگوار انکشاف تھاکیونکہ اُس کے خیال سے وہ لوگ محض ہم جماعت تھے۔ لڑکے نے اپنے ہم جماعت سے پوچھا کہ اُس نے اپنی ماں سے تعارف بہترین دوست کہہ کر کیوں کروایا؟ ہم جماعت نے جواب دیا کہ میں تمہیں بہت پسند کرتا ہوں اور تمہاری سوتیلی ماں کے تمہارے ساتھ رویے سے بھی واقف ہو۔ میں تمہاری ہمت کو سلام کرتا ہوں ، میں تمہاری محنت کی قدر کرتا ہوں جو تم زندگی کی گاڑی چلانے کیلئے کر رہے ہو۔ اس دوسرے انکشاف کے بعد وہ حیران ہو گیا ۔ لڑکے نے اِن خیالات کے لیے اپنے ہم جماعت کا شکریہ ادا کیا ، کلاس فیلو کی ماں نے بھی اُسے غیر معمولی محبت دی۔ اُسے بتایا کہ اُس کا بیٹا گھر میں اکثر اُس کا ذکر کرتا تھا۔ وہ دوستی کی پیشکش کرنا چاہتا تھا لیکن اپنی شرمیلی طبیعت اور مسترد ہونے جانے کا خوف تھا۔ شام تک وہ وہیں ٹھہرا ، دونوں کے درمیان گہری دوستی ہو گئی ، ہم جماعت نے لڑکے کو آفر کی کہ وہ جب چاہے اُسے کے گھر آ سکتا ہے۔ ہم جماعت اور اُس کی ماں کی محبت دیکھ کر وہ اپنا دُکھ بھول گیااور ہم جماعت کے گھر سے باہر نکلتے وقت اُس کی زندگی بدل چکی تھی۔ لڑکے نے اپنی منفی سوچ کو برا بھلا کہا اور سوچ کی تبدیلی کے ساتھ زندہ رہنے کا فیصلہ کیا ، وہ ہفتہ میں کئی مرتبہ اپنے ہم جماعت کے گھر جاتا ، ہر بار اُسے محبت سے خوش آمدید کہا جاتا۔ زندگی گزرتی رہی اور لڑکے نے اپنے ہم جماعت اور اُس کی ماں کو کبھی نہ بتایا کہ اُس دن وہ کس ارادے سے گھر سے نکلا تھا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ دونوں کی دوستی مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئی۔ اُس کے اپنے گھر میں کچھ بھی نہ بدلا تھا ، وہ جب بھی پریشان ہوتا تو اپنی دوست کے گھر چلا جاتا۔ دونوں نے سکول کے بعد کالج اور پھر یونیورسٹی کا امتحان اکٹھے پاس کیا ۔

اچانک ایک دن اُس کی سوتیلی ماں انتقال کر گئی جس کے بعد اُس کا سوتیلا بھائی اپنے ماموں کے ساتھ شہر چلا گیااور اُس کے دوست کا گھرانہ بھی کسی دوسرے شہر منتقل ہو رہا تھا۔ چنانچہ اُس نے بھی اُن کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا کیونکہ اب وہ ہی اُس کا نیا گھرانہ تھا اور وہ اس گھر کیلئے کچھ کر گزرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ اُس کے دل میں اس گھرانے کی بہت عزت اور چاہت تھی۔ وہ اپنے آپ کو اس گھرانے کا فرد تصو ر کرتا تھا۔ اُس کے دوست کی ماں نے کبھی بھی اپنے بیٹے اور اُس میں کبھی فرق نہ کیا تھا۔ زندگی اپنی رفتار سے چلتی رہی اور دونوں دوستوں کی شادیاں ہو چکی تھی اور اُن کی بیویاں بھی آپس میں بہت اچھی سہیلیاں بن چکی تھیں۔لیکن ابھی تک اُس نے اپنے اُس دن کے منصوبہ سے آگاہ نہیں کیا تھا۔ ایک دن اُسے معلوم ہوا کہ اُس کے دوست کو فوراً گردہ کے تبدیلی کی ضرورت ہے۔ گھر والوں نے کسی ایسے شخص کی تلاش شروع کی جس کا گردہ مطابقت رکھتا ہو اور وہ گردہ دینے پر راضی بھی ہو ۔ اُنہوں نے بہت زیادہ کوشش کی لیکن اُنہیں ایسا شخص نہ مل سکا، تما م اخبارا ت میں اشتہارات بھی دیئے گئے مگر مقدر نے ساتھ نہ دیا۔ ایک دن متعلقہ ڈاکٹر کو ایک نامعلوم شخص کی طرف سے ٹیلی فون کال موصول ہوئی کہ اگر گردے کی تبدیلی کے کامیاب آپریشن تک اُس کا نام خفیہ رکھا جائے تو وہ اپنا گردہ عطیہ کرنے کے لئے تیار ہے۔ ڈاکٹر نے وعدہ کر لیا اور اُس گھرانے کو بھی خوشخبری سنا دی۔ چنانچہ آپریشن کے بعد اُس عورت کے بیٹے نے اُس شخص کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی جس نے اُس کی ماں کی زندگی بچائی تھی اور جب اُس نے اپنے دوست کو ہی بستر پر لیٹے ہوئے پایا تو حیران رہ گیا وہ اُس سے پوچھنے لگا کہ اُس نے ایسا کیوں کیا؟ جس پر لڑکے نے جواب دیا کہ اُس نے کسی پر کوئی احسان نہ کیا ہے بلکہ اُس کی زندگی اس گھرانے کی مقروض ہے۔ وہ آج جو کچھ بھی ہے وہ اپنے دوست اور اُس کی ماں کی وجہ سے ہے اور پھر اُس نے اُس دن کے منصوبہ سے پردہ اُٹھایا کہ درحقیقت وہ اس دن خود کو ختم کرنا چاہ رہا تھا کیونکہ اُس کو لگتا تھا کہ کوئی بھی اُس سے پیار نہیں کرتا ، مگر یہ اُس دوست اور اُس کی ماں کی مہربانی ہے کہ جس کی وجہ سے اُس نے خودکشی نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

اس لئے دوسروں کو حوصلہ دینا ، اُن کے احساس کا خیال رکھنا ، اُن کی بات توجہ سے سننا اُن کی زندگی میں انقلاب لے آتا ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگ دوسروں کی خدمت یا مدد کرنے میں شرم محسوس کرتے ہیں یا پھر ڈرتے ہیں کہ وہ مسترد ہو جائیں گے یا ان کو بیوقوف سمجھا جائے گا لیکن اگر آپ اپنی زندگی کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو خدمت خلق میں حصہ ڈالیے ۔ جب آپ کسی کو مصیبت میں گرفتار دیکھیں تو محض مسترد ہوجانے کے ڈر سے قریب سے نہ گزر جائیں کہ بعد میں پچھتاوا محسوس کریں ۔ اپنی گاڑی، موٹر سائیکل روکیں اور مدد کی پیشکش کریں اگر آپ کو انکار بھی کر دیا جاتا ہے تو کم از کم پچھتاوا تو نہیں ہو گا ۔ دوسروں کی اس انداز میں خدمت کریں جیسے ضرورت پڑنے پر آپ خود لینا پسند کرتے ہیں۔ ہم ہمیشہ یہی سوچتے ہیں کہ ہمارے ملک اور معاشرے اور ہمارے خاندان نے ہمیں کیا دیا لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہم نے اس معاشرے ، ملک اور خاندان کو کیا دیا ہے ؟ ہم میں سے اکثر کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ساتھ والے گھر میں کون رہائش پذیر ہے؟ ہمیں جیسا ہونا چاہئے تھا ، ہم اس کے برعکس ہیں ۔ ہم دوسروں کی مدد کرنے کی بجائے اُن کے لئے پریشانیاں کھڑی کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔ ہم تقریبات کے لئے سڑکیں روک لیتے ہیں۔ گلیوں میں کوڑا پھینک دیتے ہیں ، اپنی گاڑی دھو کر گندہ پانی گلی میں بہا دیتے ہیں۔ موٹر سائیکلوں کے سائلنسر نکال کر سڑکوں پر آلودگی اور شور میں اضافہ کرتے ہیں۔ گھر میں اونچی آواز میں موسیقی سنتے ہیں ، بوڑھوں اور خواتین کو راستہ دینے ، اُن کے لئے نشست خالی کرنے کی بجائے اُن کا راستہ روکتے ہیں۔ عوامی جگہوں پر سگریٹ نوشی کرتے ہیں ، خواتین کی گاڑیاں خراب دیکھ کر انہیں گھورتے ہیں ، ان پر آواز کستے ہیں ۔ ایمبولینس اور ایمرجنسی میں گاڑیوں کو راستہ نہیں دیتے ، ٹھیک ہے ہم آزاد ہیں ، ہم جو چاہے کریں لیکن یہ دوسروں کی قیمت پر نہیں ہونا چاہئے۔ اگر آپ کے بیٹے یا بیٹی کی شادی ہے تو پورا علاقہ کیوں مصیبت میں گرفتار ہے ۔ اس قسم کے سوالات ہمیں خود سے اُس وقت کرنے چاہئیں جب ہم معاشرے کو بے آرامی میں مبتلا کرنے والا کوئی کام کرنے لگیں۔ دوسروں کو تکلیف پہنچا کر آپ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے اگر آپ سکون اور اطمینا ن سے بھرپور زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو جو کچھ آپ کے پاس ہے اُس میں سے چند فیصد خدمت خلق میں خرچ کریں۔ اگر آپ ریٹائر ہیں ، آپ کسی کو کچھ نہیں دے سکتے لیکن کسی کے بچے کو پڑھا تو سکتے ہیں۔ ماحول بہتر کرنے کیلئے درخت لگا سکتے ہیں۔ کسی بچے کے سکول جانے میں مدد کر سکتے ہیں ، کسی کو بلڈ دے سکتے ہیں، ہمارے ربّ کو اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں کہ ہم کس ماڈل کی گاڑی اور کتنے بڑے گھر میں رہتے ہیں۔ لیکن ہمارا ربّ ہم سے سوال ضرورکرے گا کہ ہم نے دوسروں کیلئے کیا کیا؟ اصل کام تو ہمیں اُن لوگوں کیلئے کرنا ہے جو بدلے میں ہمارے لیے کچھ نہ کر سکتے ہوں۔ یاد رکھیں ! کسی کو دیا ہوا ضائع نہیں جاتا ، ہم وہ وصول کرتے ہیں ، اﷲ تعالیٰ اجر دیتا ہے۔

چند دن پہلے اﷲ تعالیٰ نے مجھے ایک مصیبت سے بچایا ہے ۔ میں نے مصیبت سے بچ جانے کا تجزیہ کیا ہے ۔ میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ کہانی پڑھ کر میرا رویہ بدلا تھا ، پھر میرا عمل بدلا ۔ آج مجھے زندگی نئی ملی ہے اگر میں یہ آپ تک نہ پہنچاتا تو میں پچھتاوے میں رہتا ۔ میں آ پ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ عمل کر کے یقینا خسارے میں نہ رہیں گے۔
Amir Shahzad Awan
About the Author: Amir Shahzad Awan Read More Articles by Amir Shahzad Awan: 2 Articles with 2821 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.