حافظ شیرازی کی شاعری اور اردو زبان

ابوزر برقی کتب خانہ
مئی ٢٠١٦

نام: شمس الدین محمد
نام والد: بہاؤ الدین
پیدائش: شیراز‘ ایران
سن پیدائش: ١٣٢٠یا ١٣٢٥
حافظ قرآن تھے؛ اسی حوالہ سے حافظ‘ شیراز کے حوالہ شیرازی‘ تو گویا اس طرح حافظ شیرازی معروف ہوئے۔ باپ کو سن سن کر‘ قرآن مجید حفظ ہو گیا۔ ان ہی سے سن کر سعدی‘ رومی‘ نظامی اور عطار جیسے بڑے شعرا کا کلام یاد ہو گیا۔ بلاشبہ‘ وہ غضب کا حافظہ رکھتے تھے۔ اکیس سال کی عمر میں‘ ایک خاتون سے عشق بھی ہوا۔ اکیس سال کی عمر میں‘ عطار سے ملاقات ہوئی اوران کی شاگردی اختیار کی۔ درباری بھی رہے‘ جس سے شہرت میسر آئی۔ ملکی ناگواری حالات کے تحت اصفحان کی مہاجرت اختیار کی۔ باون سال کی عمر میں شاہی دعوت پر واپسی اختیار کی۔ ان کی شاعری‘ پانچ سو غزلوں‘ بیالیس رباعیات اور کچھ قصائد پر مبنی ہے۔
١٣٨٨ یا ١٣٨٩ میں‘ انہتر سال عمر پا کر انتقال کیا۔

حافظ شیرازی کی شاعری اور اردو زبان

اردو اور فارسی انتہائی قریب کی زبانیں ہیں۔ ان دونوں کے مابین‘ حیرت ناک لسانیاتی مماثلتں موجود ہیں۔ درج ذیل سطور میں حافظ شیرازی کی شاعری کے تناظر میں‘ اردو کا لسانیاتی مطالعہ کی ناچیز سی سعی کی گئی ہے۔ یقین ہے احباب کو خوش آئے گی۔

حافظ کی شاعری ورفتگی کی بہترین مثال ہے۔ اس ورفتگی کی بنیادی وجہ خوب صورت مرکبات کی تشکیل اور ان کا برمحل استعمال ہے۔ ان کی شاعری میں مختلف نوعیت کے استعمال ہونے والے یہ مرکبات اردو والوں کے لیے نئے اور ناقابل فہم بھی نہیں ہیں۔ باطور نمونہ چند ایک مرکبات ملاحظہ فرمائیں۔

اضافتی مرکبات

آفتِ اَیّام‘ آیئن پادشاہی‘ بحرِ عشق‘ برقِ عصیاں‘ تیغ اجل‘ جرمِ ستارہ‘ چشم خماری‘ دولتِ بیدار‘ راہِ گنج‘ رسم بدعہدی‘ راہِ دل‘ زخم نہاں‘ سنگِ خارہ‘ شادی یارِ‘ شطرنج رنداں‘ طریق ادب عزم صلح‘ غمزہ خطا‘قصرِ دل‘ گناہِ طالع‘ مرغ دل‘ مرغ بہشتی‘ مجال شاہ‘ مجال آہ‘ منزل آسائش

عطفی مرکبات
آب و رنگ و خال و خط‘ جان و دِل‘ دانہ و آب‘ دشمن و دوست‘ راه و رسم‘ رسم و راہ‘ شیخ و زاہد‘ قرار و خواب‘ مال وجاہ‘ مرغ و ماہی‘ موج و گردابی‘ نالہ و فریاد‘ یار و اغیار

اندیشہ ء آمرزش‘ ترانہ ء چنگ‘ چشمہء خرابات‘ خرقہ ء مے‘ طریقہء رِندی‘ گوشہ ء میخانہ
پروائے ثواب‘ دعائے پیر مغاں‘ کوئے نیک نامی

صفتی مرکب
شـب: تاریک و بیم
شـب تاریک و بیم موج و گردابی چنین هایل
عنبر افشاں: عنبر افشاں بتماشائے ریاحیں آمد
ریاحیں: عنبر افشاں
ریاحیں ریحان وغیرہ
ای قصرِ دل افروز کہ منزل گہہ اُنسی
قصرِ: دل افروز
خوابم بشداز دیدہ درین فکر جگر سوز
فکر: جگر سوز

تشبیہی مرکب
ہر دیدہ جائے جلوہء آں ماہ پارہ نیست
آں: ماہ پارہ ۔۔۔۔۔ وہ: ماہ پارہ

کچھ غزلیں ایسی ہیں جن کے ہر شعر کا پہلا لفظ اردو والوں کے اجنبی نہیں۔ ذرا اس غزل کو دیکھیں۔

دل می رود ز دستم صاحبدلاں خدا را
دردا کہ راز پنہاں خواہد شد آشکارا

دل‘ دردا‘ کشتی‘ باشد‘ با دوستاں‘ در‘ گر‘ حافظ‘ اے
اس میں ایک لفظ باشد الگ سے ہے ورنہ ہر لفظ اردو والوں کے استعمال میں ہے۔

ان کی بیشتر غزلوں کے قوافی‘ اردو میں مستعمل الفاظ ہی نہیں‘ باطور قوافی بھی استعمال میں آتے رہے ہیں۔ حافظ کی فقط دو غزلوں کے قوافی ملاحظہ ہوں:

1
‫بحریست بحرِ عشق کہ بہیچش کنارہ نیست
آن جا جُز اینکہ جاں بسپارند چارہ نیست

کنارہ‘ چارہ‘ استخارہ‘ کارہ‘ ستارہ‘ پارہ‘ آشکارہ‘ خارہ
2
زاہد ظاہر پرست از حال ما آگاہ نیست
در حق ما ہر چہ گوید جائے ہیچ اکراہ نیست

آگاہ‘ اکراہ‘ گمراہ‘ شاہ‘ آہ‘ ںآگاہ‘ اللہ‘ درگاہ‘ کوتاہ‘ راہ‘ گاہ جاہ

بعض غزلوں کے ردیف اردو والوں کے لیے اپنے سے ہیں۔ مثلا ایک غزل کا ردیف آمد ہے۔ لفظ آمد اردو میں عام استعمال کا لفظ ہے۔

حافظ کی شاعری کی زبان‘ عرصہ دراز کی فارسی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے‘ کہ اس کا تکیہءکلام اور طرز تکلم کی کئی ایک مثالیں‘ آج بھی اردو والوں کے لیے نئی نہیں ہیں۔ یہ مانوس ہی نہیں‘ آج بھی رائج ہے۔
اردو میں بلانے کے لیے اے مستعمل ہے۔ مثلا
اے لڑکے
فارسی میں بھی اے بلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ مثلا
اے شاہد قدسی
اے شاہد قدسی کہ کشد بندِ نقابت
پنجابی میں بلانے کے لیے وے مستعمل ہے۔ مثلا
وے نور جمالا
فارسی میں بھی وے بلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جیسے
وے مرغ بہشتی
وے مرغ بہشتی کہ دہد دانہ و آبت
یہ صیغہءمخاطب‘ شاید پنجابی ہی سے‘ فارسی میں منتقل ہوا ہے۔

کجا
کجا فارسی لفظ ہے‘ لیکن پنجابی میں فارسی معنوں اور پنجابی طور کے ساتھ عمومی استعمال کا لفظ ہے۔ مثلا

فارسی:
چراغ مرده کـجا شمـع آفـتاب کـجا
صـلاح کار کـجا و مـن خراب کـجا

پنجابی:
گوشت روٹی کجا دال روٹی کجا
کجا پہکھ ننگ کجا تخت سکندری
کجا پہکھ ننگ کجا بادشاہی
اردو میں لفظ کہاں استعمال میں آتا ہے

حافظ کے ہاں مستعمل سابقے لاحقے اور ان سے ترکیب پانے والے الفاظ‘ اردو میں عام استعمال کے ہیں۔ مثلا

سابقے
بد
همـه کارم ز خود کامی به بدنامی کشید آخر
نا
ہر چہ ہست از قامت ناساز بی اندام ماست
ز عشـق ناتـمام ما جمال یار مستغنی اسـت
بے
تنہا جہاں بگیرد و بےمنت سپاہی

لاحقے

یہ لفظ اردو میں عام استعمال کے ہیں: مے آلود‘ ظاہر پرست‘ میخانہ‘ خانقاہ‘ عذر خواہ‘ تکیہ گاہ‘ سبک بار‘ سـعادت مـند
مزید اردو کے لاحقوں سے بننے والے الفاظ: گردآلود بت پرست‘ کتب خانہ‘ خانقاہ‘ خیر خیر‘ عید گاہ‘ گراں بار‘ عقیدت مند

آلود‘ بار‘ پرست‘ خانہ‘ خواہ‘ قاہ‘ گاہ‘ مـند

حافظ بخود نپوشد ایں خرقہ ء مے آلود
زاہد ظاہر پرست از حال ما آگاہ نیست
منم کہ گوشہ ء میخانہ خانقاہ من ست
نوائے من بسحر آہ عذر خواہ من ست
فراز مسند خورشید تکیہ گاہ من ست
کـجا دانـند حال ما سبک باران ساحـل‌ها
جوانان سـعادت مـند پـند پیر دانا را

حافظ کے ہاں استعمال ہونے والی تلمیحات‘ اردو والوں کے لیے غیرمانوس نہیں ہیں۔ مثلا

جائیکہ برقِ عصیاں بر آدم صفی زد
بر اہرمن نتابد انوار اسم اعظم
ز پادشاہ و گدا ٖفارغم بحمداللہ
گفت برخیز کہ آں خسرو شیریں آمد
در حشمت سلیمان ہر کس کہ شک نماید
گفتم خوش آں ہوائے کز باغ خلد خیزد
الا یا ایها الـساقی ادر کاسا و ناولـها
حضوری گر همی‌خواهی از او غایب مشو حافظ
مـتی ما تلق من تهوی دع الدنیا و اهملـها

حافظ کے ہاں ضدین کا استعمال‘ اردو والوں سے مختلف نہیں۔ دو ایک مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔

ساقیا مے بدہ و غم مخور از دشمن و دوست
ز پادشاہ و گدا ٖفارغم بحمداللہ
سـماع وعـظ کـجا نغمـه رباب کجا
چراغ مرده کـجا شمـع آفـتاب کـجا

متعلق الفاظ کا استعمال بھی اردو والوں سے مختلف نہیں۔

در طریقت ہر چہ پیش سالک آید خیر اوست
کایں ہمہ زخم نہاں ہست و مجال آہ نیست

حافظ کے ہاں‘ شاعری کے مختلف انداز اختیار کے گیے ہیں۔ ان میں سوالا جوابا یا مکالماتی انداز بھی اختیار کیا گیا ہے۔ یہ انداز اردو والوں کے لیے الگ سے نہیں ہے۔ حافظ کی ایک پوری غزل اس انداز میں ملتی ہے۔

مطلع کے دونوں مصرعوں میں‘ پہلے سوال پھر جواب
گفتم غم تو دارم گفتا غمت سر آید
گفتم کہ ماه من شو، گفتا اگر برآید

باقی غزل میں ایک مصرعے میں سوال دوسرے مصرعے میں جواب
گفتم ز مہرواں رسم وفا بیاموز
گفتا ز ماہ رعیاں ایں کار کمتر آید

ہم مرتبہ لفظوں کا بھی بلاتکلف کر جاتے ہیں۔ مثلا
جاناں گناہِ طالع و جرمِ ستارہ نیست

مصرعے کے مصرعے اردو والوں کے لیے‘ مانوس سے ہیں۔ تفہیم میں دقت پیش نہیں آتی۔ مثلا

سـماع وعـظ کـجا نغمـه رباب کجا
چراغ مرده کـجا شمـع آفـتاب کـجا
نالہ فریاد رسِ عاشق مسکیں آمد
اے در رُخ تو پیدا انوارِ پادشاہی
صد چشمہ آب حیواں از قطرہ سیاہی
در کارِ خیر حاجتِ ہیچ اِستخارہ نیست

آخری مصرعے میں‘ لفظ نیست اردو میں مستعمل نہیں لیکن لفظ نیستی بامعنی کاہلی سستی استعمال میں ہے۔ نیست کو نہیں میں بدل دیں۔
در کارِ خیر حاجتِ ہیچ اِستخارہ نہیں

اردو اور فارسی کی حیرت انگیز ماثلتوں کو دیکھ کر‘ اس تذبذب میں پڑ جاتا ہوں‘ کہ اردو فارسی سے یا فارسی اردو سے متاثر ہے۔ یہ الگ سے کام ہے‘ کہ دونوں کا ماضی کیا تھا۔ اس حقیقت کا کھوج لگانے کے لیے‘ سنجیدہ اور غیرجانب دار سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔

مقصود حسنی
About the Author: مقصود حسنی Read More Articles by مقصود حسنی: 184 Articles with 192575 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.