امام اعظم ابو حنیفہ رضی اﷲ عنہ ۔۔۔۔ فکر و فن کے آئینے

رحمت عالم نور مجسم ﷺ کی نورانی صفات و کمالات جلیلہ کی شبیہہ روشن ،رہنمائے دین و ملت ،سراج امت ،چراغ شرع و طریقت ، شمع دین و ہدایت ،آفتاب اقلیم فقاہت، پیکر زہد و تقویٰ و سخاوت ،مجسمہ جرأت و شجاعت ،حضرت سیدنا نعمان بن ثابت المعروف امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کا شمار عالم اسلام کی ان مبارک ہستیوں میں ہوتا ہے جن کا نام و کارنامے رہتی دنیا تک آفتاب کی مانند روشن و درخشاں رہیں گے ۔

امام المجتہدین سیدنا نعمان بن ثابت رضی اﷲ عنہ 80ھ میں اس دنیائے آب و گل میں رونق افروز ہوئے ۔چونکہ آپ ایک تاجر گھر انے میں پیدا ہوئے ۔اس وجہ سے شروع شروع میں آپ کی توجہ اپنے آبائی کام کی جانب رہی ،لیکن خاندانی وجاہت وعزت ایسی تھی کہ بے علم بھی نہ رہے بلکہ کچھ نہ کچھ سیکھتے رہے۔

رب تعالیٰ عزوجل نے آپ کو جس اہم کام کی غرض سے پیدا فرمایا تھا ،اس کے آثار آپ کی روشن پیشانی سے صاف عیاں تھے ۔جو کہ ایک موقع پر حضرت امام شعبی کوفی رحمۃ اﷲ علیہ نے بھانپ لئے ۔چنانچہ ایک مرتبہ حضرت امام اعظم رحمۃ اﷲ علیہ بازار تشریف لے جا رہے تھے ،راستے میں حضرت امام شعبی رحمۃ اﷲ علیہ کا گھر تھا ،جب آپ ان کے گھر کے سامنے سے گزرے تو انہوں نے یہ جان کر کہ کوئی نوجوان طالب علم ہے ،اپنے پاس بلالیا اور دریافت فرمایا کہاں جا رہے ہو؟ آپ نے ایک سودا گر کا نام لیا ،امام شعبی رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ میرا مطلب یہ ہے کہ تم پڑھتے کس سے ہو؟ آپ نے افسوس کے ساتھ نفی میں جواب دیا تو حضرت امام شعبی رحمۃ اﷲ علیہ پکار اٹھے کہ مجھے تمہارے اندر قابلیت کے جواہر نظر آرہے ہیں ،تم علماء کی صحبت میں بیٹھا کرو!

حضرت امام شعبی رحمۃ اﷲ علیہ وہ بزرگ ہیں جنہوں نے بہت سے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم سے حدیثیں روایت کیں ۔ایک روایت میں ہے کہ آپ نے پانچ سو صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی زیارت کی تھی ۔حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما نے ایک دن آپ کو ’’مغازی‘‘ کا درس دیتے دیکھا تو فرمایا کہ واﷲ! یہ شخص اس فن کو مجھ سے اچھا جانتا ہے ۔

الغرض امام شعبی رحمۃ اﷲ علیہ کی اس نصیحت نے حضرت امام اعظم رحمۃ اﷲ علیہ کے سینے میں سلگتی چنگاری کو شعلہ بنا دیا ۔دل پر بڑا اثر ہوا اور تحصیل علم کے شوق نے فوراً ہی دل میں گھر کر لیا ۔گھر واپس آئے ،آتے ہی والدہ ماجدہ سے اس کا ذکر کیا آپ کی والدہ چونکہ پہلے ہی علم کی دلدادہ تھیں آپ کے اس خیال کو سن کر بہت خوش ہوئیں اور اجازت دے دی ۔

حضرت امام اعظم رحمۃ اﷲ علیہ جو کہ بچپن ہی سے نہایت ذہین تھے اور ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کر چکے تھے ۔اب جید علماء و فقہاء کی صحبت و مجالس میں شریک ہونے لگے اور پوری طرح تحصیل علم پر متوجہ ہو گئے ۔آپ نے کوفہ میں کوئی بھی عالم و محدث ایسا نہ چھوڑا کہ جس کے سامنے زانوئے تلمذ طے نہ کئے ہوں ۔

آپ کو ’’علم فقہ‘‘سے زیادہ رغبت تھی اور یہی رغبت حضرت امام حماد رحمۃ اﷲ علیہ کے مکتب تک جانے کا سبب بنی ۔ حضرت امام حماد رحمۃ اﷲ علیہ کوفہ کے مشہور امام اور استاذ وقت تھے ۔ حضرت انس رضی اﷲ عنہ جو کہ رسول اﷲ ﷺ کے خادم خاص اور منظور نظر تھے ،سے حدیث سنی تھی اور بڑے بڑے تابعین کے فیض سے مستفید ہوئے تھے۔ اس وقت کو فہ میں ان ہی کا مدرسہ مرجع خاص و عام تھا ۔حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے جو فقہ کا سلسلہ چلا آتا تھا اس کا مداران ہی پر رہ گیا تھا۔

حضرت امام اعظم رحمۃ اﷲ علیہ حضرت امام حماد رحمۃ اﷲ علیہ کے حلقہ درس میں پابندی سے شریک ہونے لگے اور دو سال تک پوری توجہ سے خوب اکتساب علم کیا ۔ اس مختصر عرصہ میں غیر معمولی ذہانت طبع کے باعث تمام حلقہ درس میں ایک خاص مقام حاصل کر لیا اور استاذ محترم و طلباء کی توجہ کا مرکز بن گئے۔

ایک مرتبہ آپ کے استاذ حضرت امام حماد رحمۃ اﷲ علیہ کو کہیں جانے کا اتفاق ہوا۔تو ان کی جگہ آپ نے تقریباً ساٹھ استفتاء پر فتاویٰ جاری کئے اور ان کی ایک نقل اپنے پاس رکھتے رہے ۔جب حضرت حماد رحمۃ اﷲ علیہ واپس تشریف لائے تو آپ نے وہ یاد داشتیں پیش کیں تو حضرت امام حماد رحمۃ اﷲ علیہ نے بیس کی اصلاح کی اور چالیس مسائل کے جوابات سے اتفاق کیا اور فرمایا تمہارے جواب درست ہیں اور بہت خوش ہوئے ۔

آپ علم فقہ پر عبور حاصل کر لینے کے بعد علم حدیث کی جانب خاص طور سے متوجہ ہوئے اور کوفہ کے تمام محدثین سے استفادہ کیا ۔جن میں حضرت امام شعبی ،سلمہ بن کہیل ،محارب بن ورثاء ،ابو اسحاق سبعی،عون بن عبد اﷲ ، سماک بن حرب ،عمرو بن مرہ، منصور بن المعمر، اعمش،ابراہیم بن محمد ،عدی بن ثابت الانصاری، عطاء بن السائب ،موسیٰ بن ابی عائشہ ،علقمہ بن مرثد وغیرہم رحمۃ اﷲ علیہم اجمعین قابل ذکر ہیں ۔

یہاں سے فراغت کے بعد آپ نے حرمین طیبین کا رخ کیا اور مکہ معظمہ پہنچے ۔جس زمانے میں آپ مکہ مکرمہ پہنچے ،درس و تدریس کا نہایت زور تھا ،متعدد اساتذہ جو فن حدیث میں کمال رکھتے تھے اور اکثر صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی خدمت سے مستفید ہوئے الگ الگ درسگاہیں قائم کی تھیں ،ان میں حضرت عطاء اور حضرت عکرمہ رحمۃ اﷲ علیہ کے حلقہ درس سب سے زیادہ وسیع و مستند تھے ۔حضرت امام اعظم رضی اﷲ عنہ نے دیگر حضرات کے علاوہ ان دونوں حضرات سے بھی علم حدیث حاصل کیا اور پھر مدینہ منورہ کا رخ کیا ۔یہاں دیگر علماء کے علاوہ حضرت امام باقر رضی اﷲ عنہ کی خدمت و صحبت میں رہے اور اکتساب فیض کیا ۔

صاحب ردالمختار لکھتے ہیں کہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اﷲ عنہ فن حدیث میں امام تھے کیونکہ آپ نے چار ہزار اساتذہ سے حدیث پڑھی ۔

حضرت امام شافعی رحمۃ اﷲ علیہ آپ کے بلند مقام علمی کے متعلق فرماتے ہیں کہ ’’تمام لوگ فقہ میں امام اعظم رحمۃ اﷲ علیہ کے پروردہ ہیں ،تمام فقہاء امام ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کی عیال ہیں ۔‘‘

حضرت امام مالک رحمۃ اﷲ علیہ سے کسی نے دریافت کیا کہ کیاآپ نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کو دیکھا تھا ؟ آپ نے فرمایا:’’ہاں! اور ایک ستون کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے انہیں ایسا شخص پایا کہ اگر وہ اس ستون کو سونے کا ثابت کرنا چاہتے تو اپنے علم کے زور پر وہ ایسا کر سکتے تھے ۔‘‘

سیدنا امام اعظم رحمۃ اﷲ علیہ کے زہد و تقویٰ اور عبادت و ریاضت سے متعلق متعدد اقوال منقول ہیں ۔حضرت امام عاصم رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ کثرت نماز کی وجہ سے لوگ آپ کو مسیح کہنے لگے تھے ۔

آپ نماز عشاء پڑھ کر عبادت میں مشغول رہتے اور اکثر رات رات بھر نہ سوتے ۔ایک روایت میں ہے کہ آپ نے چالیس برس عشا ء کے وضو سے نماز فجر ادا کی۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آپ رمضان المبارک میں اکسٹھ قرآن پاک ختم فرمایا کرتے تھے ۔ حضرت عبد اﷲ بن مبارک رحمۃ اﷲ علیہ سے مروی ہے کہ جب وہ کوفے پہنچے تو انہوں نے لوگوں سے دریافت کیا کہ اس شہر میں سب سے زیادہ پار ساکون ہے ؟ تو ہر کوئی ایک ہی جواب دیتا کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ سے بڑھ کر متقی کوئی نہیں۔

حضرت اما م رازی رحمۃ اﷲ علیہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ امام اعظم رحمۃ اﷲ علیہ کہیں تشریف لے جا رہے تھے راستے میں آپ کے قدم کی ٹھوکر سے کیچڑاڑ کر قریبی مکان کی دیوار پر لگ گیا ۔ آپ رک کر سوچنے لگے کہ اگر کیچڑ ہٹایا جائے تو یہ دیوار تو صاف ہو جائے گی مگر دیوار کے ذرات بھی ساتھ آجائیں گے اور اگرکیچڑ رہنے دیا جائے تو صاحب خانہ جو کہ ایک یہودی ہے جوآپ کا مقروض بھی تھاناراض ہو گا ،جب اُس نے آپ کو دیکھا توسمجھا کہ آپ قرض کا تقاضا کرنے آئے ہیں ،شرمندہ ہوا ۔ سیدنا امام اعظم رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ میں اپنا قرض معاف کرتا ہوں اگر تم میرا یہ قصور معاف کر دو۔ جس کی بدولت تمہاری دیوار آلودہ ہو گئی ۔آپ کا یہ ارشاد سنتے ہی یہودی بے ساختہ پکار اٹھا کہ دیوار کی آلودگی بعد میں پہلے مجھے اپنے دین میں شامل فرما کر میرے دل کی آلودگی دور کر کے دل کی صفائی فرمادیجئے۔یہ تھا امام اعظم رحمۃ اﷲ علیہ کا تقویٰ۔

آپ مسائل فقہ میں خاص مہارت رکھتے تھے جو مسئلہ کسی سے حل نہ ہو پاتا آپ آنِ واحد میں حل فرمادیتے ۔چنانچہ ایک مرتبہ کسی نے اپنی بیوی سے ناراض ہو کر قسم کھالی کہ جب تک تو نہیں بولے گی میں تجھ سے کبھی نہیں بولوں گا۔عورت بھی تند مزاج تھی ۔اس وقت تو غصہ میں کچھ نہ سوجھا مگر بعد میں دونوں کو افسوس ہوا۔شوہر نے علماء و فقہاء سے رجوع کیا تو وہ بڑے متحیر ہوئے ۔حضرت سفیان ثوری رحمۃ اﷲ علیہ نے فتویٰ دیا کہ تم میں سے جو کوئی بھی بولے گا اس کی قسم ٹوٹ جائے گی اور کفارہ دینا ہو گا ،اس کے بغیر چارہ نہیں ۔وہ شخص سب جگہوں سے مایوس ہو کر حضرت امام اعظم رحمۃ اﷲ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا جا کر شوق سے اپنی بیوی سے باتیں کرو، کسی کی بھی قسم نہ ٹوٹے گی ۔وہ شخص فتویٰ لے کر حضرت سفیان ثوری رحمۃ اﷲ علیہ کے پاس پہنچا تو وہ طیش میں آکر سیدنا امام اعظم رحمۃ اﷲ علیہ کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور کہا کہ آپ لوگوں کو غلط مسائل بتا دیا کرتے ہیں ۔آپ نے فرمایا کیسے؟حضرت سفیان ثوری رحمۃ اﷲ علیہ نے اس شخص سے کہا اپنا مسئلہ دوبارہ بیان کرو! بیان کرنے کے بعد امام اعظم رحمۃ اﷲ عنہ نے فرمایا: کہ مرد کے قسم کھانے کے بعد جب عورت نے یہ قسم کھالی کہ میں بھی تجھ سے کلام نہ کروں گی جب تک تو مجھ سے نہ بولے تو یہ عورت کا مرد سے کلام ہی تو ہوا اب مرد کی قسم پوری ہو گئی اس لئے وہ اپنی بیوی سے بولے اور پھر اس کی بیوی اس سے بولے تو دونوں کی قسمیں ساقط ہو جائیں گی۔

اسی طرح ایک شخص تھکاہارا جب گھر لوٹا تو اپنی بیوی سے پانی لانے کے لئے کہا ۔بیوی کے پانی لانے میں ذرا تاخیر ہو گئی ،جب وہ پانی لائی تو شوہر نے غصہ میں کہا کہ خبردار! اگر تو یہ پانی مجھے پلائے تو تجھے تین طلاق !اگر واپس ڈالے ،گرائے یا کسی کو دے تو بھی تجھے تین طلاق! غرض ہر طرح قید لگا دی اور بعد میں احساس ہوا کہ یہ کیا کہہ دیا ۔الغرض جید علماء و فقہاء سے استفتاء کیا تو سب نے کہا کہ طلاقیں ہو جائیں گی ۔مسئلہ سیدنا امام اعظم رضی اﷲ عنہ کی خدمت میں پہنچا تو آپ نے فرمایا کہ اس عورت کو ایک کپڑا دے دیا جائے جسے وہ پانی میں ڈبوڈبو کر دھوپ میں خشک کرتی جائے اور اس طرح وہ طلاقوں سے بچ جائے گی۔

ایک مرتبہ کسی گھر میں چور داخل ہوا اور چوری کر کے جب جانے لگا تو صاحب خانہ نے دیکھ لیا ۔چور نے جب یہ جانا کہ صاحب خانہ نے اسے پہچان لیا تو شمشیر کے زور پر صاحب خانہ سے یہ حلف لے لیا کہ اگر تم نے میرے چور ہونے کا کسی کو تذکرہ کیا تو تمہاری بیوی کو تین طلاقیں ہو جائیں گی ۔اس شخص نے اس وقت تو حلف اٹھالیا مگر بعد میں کافی پریشان ہوا کہ چور اس کے سامنے ہے اور کسی کو بتا نہیں سکتا ۔آخر کار حضرت امام اعظم رحمۃ اﷲ علیہ سے رجوع کیا آپ نے فرمایا کہ شہر کے تمام بد نام لوگوں کی دعوت کر دی جائے اور جہاں دعوت ہو وہاں دروازے پر مسجد کے امام و مؤذن کو کھڑا کر دیا جائے ۔ جب یہ لوگ دعوت کھا کر جانے لگیں تو امام و مؤذن ایک ایک کے بارے میں اس شخص سے دریافت کرتے جائیں کہ کیا یہ تمہارا چور ہے ؟جو چور نہ ہوتو یہ شخص جواب دیتا جائے اور جب چور آئے تو یہ خاموش ہو جائے ۔چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور آپ کی اس حکمت سے چور پکڑا گیا۔ ایسے ہی لا تعداد واقعات ہیں جن سے اہل علم آج بھی مستفیض ہوتے اور آپ کی ذہانت و تبحر علم کی داد دیتے ہیں ۔سیدنا امام اعظم رحمہ اﷲ علیہ جب بارگاہ رسالت مآب ﷺمیں حاضر ہوئے تو سلام عرض کیا:السلام علیک یا سید المرسلین
تو روضہ اطہر سے جوا ب عطا ہوا:
وعلیک السلام یا امام المسلمین

ایک مرتبہ حضور تاجدار مدینہ ،سرور قلب و سینہ ،رحمت عالم ﷺ نے خواب میں تشریف لاکر ارشاد فرمایاکہ :’’اے ابو حنیفہ ! تمہیں اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ تم ہماری سنت کو زندہ کرو۔‘‘

سیدنا امام اعظم کی کنیت ’’ابو حنیفہ ‘‘ کے متعلق متعدد روایات ملتی ہیں ۔کسی نے کہا کہ آپ کی ایک صاحبزادی کا نام حنیفہ تھا اس لئے ان کی نسبت سے آپ کی کنیت ’’ابو حنیفہ ‘‘،مشہور ہوئی ۔ بعض نے کہا کہ آپ کی اولاد میں صرف ایک صاحبزادے حضرت حماد رحمۃ اﷲ علیہ تھے ۔ان کے علاوہ اور کوئی لڑکا یا لڑکی نہ تھی ۔آپ کی کنیت ’’ابو حنیفہ ‘‘وصفی معنی کے اعتبار سے ہے کہ قرآن پاک میں ہے : فاتبعو املۃ ابراہیم حنیفا۔چونکہ آپ بھی بیحد عابد و زاہد تھے ، اس لئے ابو حنیفہ کی کنیت سے مشہور ہوئے ۔ایک روایت کے مطابق عراقی زبان میں حنیفہ دوات کو کہتے ہیں اور چونکہ آپ کے پاس مسائل و فتاویٰ تحریر کرنے کے لئے ہر وقت دوات رہتی تھی ۔اس لئے آپ کی کنیت ’’ابو حنیفہ ‘‘مشہور ہو گئی ،آپ کی کنیت کی نسبت سے آپ کے معتقد ’’حنفی‘‘ کہلاتے ہیں ۔

آپ کی فکر انگیز تعلیمات گزشتہ چودہ سو سالوں سے کروڑوں عربوں مسلمانوں کو دین اسلام کا مطیع کئے ہوئے ہیں ۔ہر دور کے ائمہ و فقہاء نے آپ کے علم و تقویٰ اور ذات اقدس کو نہایت احترام و استحسان کی نگاہ سے دیکھا اور آپ کی تعلیمات کی روشنی میں جدید دور کے مسائل کے حل اخذ کئے ۔

فقہ حنفی پر دنیا کے تقریباً ہر گوشے میں ہر دور میں کام ہوا ہے اور ہو رہا ہے مگر برصغیر پاک و ہند میں جو دو بڑے کام ہوئے ،وہ سب میں ممتاز ہے ۔ایک تو ’’فتاویٰ عالمگیریہ‘‘اور دوسرا ’’الفتاویٰ الرضویہ۔‘‘

’’فتاویٰ عالمگیریہ ‘‘جو کہ دس جلدوں پر مشتمل ہے ،جسے شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر نے اپنے زمانے کے چالیس جید علماء کی مدد سے مرتب کیا ۔جب کہ ’’ الفتاویٰ الرضویہ۔‘‘ جو کہ بارہ ضخیم جلدوں پر پھیلی ہوئی ہے ۔جسے حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ نے تن تنہا تصنیف فرمایا۔ آپ نے اس کے علاوہ بھی سینکڑوں کتابیں فقہ حنفی پر لکھی ہیں ۔

الغرض سیدنا امام اعظم رحمۃ اﷲ علیہ کا فیضان جاری و ساری ہے آپ کاوصال بغداد شریف کے ایک قید خانہ میں ہوا ۔جو اس بات کا مظہر ہے کہ آپ نے خلیفہ ابو جعفر منصور کے عہدہ قضا کو ٹھکرا دیا اور زندان کو گلے لگا لیا ۔آپ نے قید خانے میں بھی درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا ۔چنانچہ آپ کے شاگرد حضرت امام محمد رحمۃ اﷲ علیہ نے قید خانے ہی میں تعلیم حاصل کی اور جید فقیہ بن کر اُبھر ے ۔

146ھ میں منصور خلیفہ نے آپ کو قید کیا اور ماہ رجب 150ھ کی شب سجدہ کی حالت میں آپ کی روح پرواز کر گئی ۔آپ کے تلامذہ کا سلسلہ بہت طویل ہے جن میں آپ کے صاحبزادے حضرت حماد بن نعمان ،امام ابو یوسف امام محمد ،اسد بن عمیر اور خارجہ بن مصعب رحمۃ اﷲ علیہم جیسی جلیل القدر ہستیاں نمایاں ہیں ۔

عالم اسلام میں ہر دور و زمانہ کے تقریباً بڑے بڑے علماء کرام و مشائخ عظام آپ ہی کے پیرو کار تھے ۔جن میں حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری ،حضرت خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی ،حضرت لعل شہباز قلندر، حضرت مجدد الف ثانی ،حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی ،حضرت حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی ،حضرت امام فضل حق خیر آبادی ،حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی ،خواجہ محکم الدین سیرانی ،بدرالمشائخ حضرت پیر سائیں محمد اسلم اویسی ،حضرت زندہ پیر گھمگول شریف، حضرت سلیمان تونسوی، حضرت خواجہ نور محمد مہاروی، حضرت بابا فرید الدین گنج شکر، حضرت سلطان باہو، حضرت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری ،حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی ، حضرت شاہ رکن عالم حضرت بلھے شاہ،اور مفتی اعظم مصطفےٰ رضا خاں رحمۃ اﷲ علیہم اجمعین جیسی عظیم شخصیات نمایا ں ہیں ۔لہٰذا ہم یہ کہنے میں عار محسوس نہیں کرتے کہ اکثر عالم اسلام ہمیشہ امام اعظم رحمۃ اﷲ علیہ کا پیرو کار رہا اور آج بھی دنیا کے ہر خطے میں آپ کے پیرو کار پائے جاتے ہیں۔
Peer Muhammad Tabasum Bashir Owaisi
About the Author: Peer Muhammad Tabasum Bashir Owaisi Read More Articles by Peer Muhammad Tabasum Bashir Owaisi: 85 Articles with 164757 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.