ماہِ رجب اور واقعۂ معراج النبی ﷺ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیْمِ وَعَلٰی اٰلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِین۔

اسلامی سال کا ساتواں مہینہ رجب المرجب ہے۔ رجب اُن چار مہینوں میں سے ایک ہے جنہیں اﷲ تعالیٰ نے حرمت والے مہینے قرار دیا ہے: اﷲ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ مہینے ہیں، جو اﷲ کی کتاب (یعنی لوح محفوظ ) کے مطابق اُس دن سے نافذ ہیں جس دن اﷲ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ ان (بارہ مہینوں) میں سے چار حرمت والے ہیں۔ (سورۃ التوبہ ۳۶) ان چار مہینوں کی تحدید قرآن کریم میں نہیں ہے بلکہ نبی اکرم ﷺ نے ان کو بیان فرمایا ہے اوروہ یہ ہیں : ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم الحرام اور رجب المرجب۔ معلوم ہوا کہ حدیث نبوی کے بغیر قرآن کریم نہیں سمجھا جاسکتا ہے۔ ان چار مہینوں کو اشہر حرم (حرمت والے مہینے) اس لئے کہتے ہیں کہ ان میں ہر ایسے کام جو فتنہ وفساد ، قتل وغارت گری اور امن وسکون کی خرابی کا باعث ہو‘ سے منع فرمایا گیا ہے، اگرچہ لڑائی جھگڑا سال کے دیگر مہینوں میں بھی حرام ہے ، مگر اِن چار مہینوں میں لڑائی جھگڑا کرنے سے خاص طور پر منع کیا گیا ہے۔ ان چار مہینوں کی حرمت وعظمت پہلی شریعتوں میں بھی مسلّم رہی ہے حتی کہ زمانہ جاہلیت میں بھی ان چار مہینوں کا احترام کیا جاتا تھا۔

رجب کا مہینہ شروع ہونے پر حضور اکرم ﷺ اﷲ تعالیٰ سے یہ دعا مانگا کرتے تھے: ﴿اَللّٰہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبٍ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَان﴾ اے اﷲ! رجب اور شعبان کے مہینوں میں ہمیں برکت عطا فرما اور ماہ رمضان تک ہمیں پہونچا۔ (مسند احمد، بزار، طبرانی، بیہقی) لہذا ماہِ رجب کے شروع ہونے پر ہم یہ دعا یا اس مفہوم پر مشتمل دعا مانگ سکتے ہیں۔ اس دعا سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کے نزدیک رمضان کی کتنی اہمیت تھی کہ ماہ ِ رمضان کی عبادت کو حاصل کرنے کے لئے آپ ﷺ رمضان سے دو ماہ قبل دعاؤں کا سلسلہ شروع فرمادیتے تھے۔ ماہِ رجب کو بھی آپ ﷺ کی دعائے برکت حاصل ہوئی ، جس سے ماہ ِ رجب کا کسی حد تک مبارک ہونا ثابت ہوتا ہے۔

ماہ ِرجب میں کسی خاص نماز پڑھنے کا یا کسی معین دن کے روزے رکھنے کی خاص فضیلت کا کوئی ثبوت احادیث صحیحہ سے نہیں ملتاہے۔ نماز وروزہ کے اعتبار سے یہ مہینہ دیگر مہینوں کی طرح ہی ہے۔ البتہ رمضان کے پورے ماہ کے روزے رکھنا ہر بالغ مسلمان مرد وعورت پر فرض ہیں اور ماہ شعبان میں کثرت سے روزے رکھنے کی ترغیب احادیث میں موجود ہے۔ماہ رجب میں نبی اکرم ﷺ نے کوئی عمرہ ادا کیا یا نہیں؟ اس بارے میں علماء ومؤرخین کی رائے مختلف ہیں۔ البتہ دیگر مہینوں کی طرح ماہ رجب میں بھی عمرہ ادا کیا جاسکتا ہے۔ اسلاف سے بھی اس ماہ میں عمرہ ادا کرنے کے ثبوت ملتے ہیں۔ البتہ رمضان کے علاوہ کسی اور ماہ میں عمرہ ادا کرنے کی کوئی خاص فضیلت احادیث میں موجود نہیں ہے۔

واقعۂ معراج النبی ﷺ: اس واقعہ کی تاریخ اور سال کے متعلق ‘ مؤرخین اور اہل سیر کی رائے مختلف ہیں، ان میں سے ایک رائے یہ ہے کہ نبوت کے بارہویں سال ۲۷ رجب کو ۵۱ سال ۵ مہینہ کی عمر میں نبی اکرم ﷺ کو معراج ہوئی، جیساکہ علامہ قاضی محمد سلیمان سلمان منصورپوری رحمۃا ﷲ علیہ نے اپنی کتاب "مہر نبوت"میں تحریر فرمایا ہے۔اسراء کے معنی رات کو لے جانے کے ہیں۔ مسجد حرام (مکہ مکرمہ) سے مسجد اقصیٰ کا سفر جس کا تذکرہ سورۂ بنی اسرائیل ﴿سُبْحَانَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَےْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصیٰ﴾ میں کیا گیا ہے، اس کو اسراء کہتے ہیں۔ اور یہاں سے جو سفر آسمانوں کی طرف ہوا اس کا نام معراج ہے، معراج عروج سے نکلا ہے جس کے معنی چڑھنے کے ہیں ۔حدیث میں "عرج بی" یعنی مجھ کو اوپر چڑھایا گیا کا لفظ استعمال ہوا ہے ،اس لئے اس سفر کا نام معراج ہوگیا۔ اس مقدس واقعہ کو اسراء اور معراج دونوں ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس واقعہ کا ذکر سورۂ نجم کی آیات میں بھی ہے: پھر وہ قریب آیا اور جھک پڑا، یہاں تک کہ وہ دو کمانوں کے فاصلے کے برابر قریب آگیا، بلکہ اس سے بھی زیادہ نزدیک، اس طرح اﷲ کو اپنے بندے پر جو وحی نازل فرمانی تھی، وہ نازل فرمائی۔سورۃ النجم کی آیات ۱۳۔۱۸ میں وضاحت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے (اس موقع پر) بڑی بڑی نشانیاں ملاحظہ فرمائیں: اور حقیقت یہ ہے انہوں نے اس (فرشتے) کو ایک اور مرتبہ دیکھا ہے۔ اس بیر کے درخت کے پاس جس کا نام سدرۃ المنتہی ہے، اسی کے پاس جنت المأویٰ ہے، اس وقت اس بیر کے درخت پر وہ چیزیں چھائی ہوئی تھیں جو بھی اس پر چھائی ہوئی تھیں۔ (نبی کی) آنکھ نہ تو چکرائی اور نہ حد سے آگے بڑھی، سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے اپنے پرودرگار کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے بہت کچھ دیکھا ہے۔ احادیث متواترہ سے ثابت ہے، یعنی صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کی ایک بڑی تعداد سے معراج کے واقعہ سے متعلق احادیث مروی ہیں۔

انسانی تاریخ کا سب سے لمبا سفر :قرآن کریم اور احادیث متواترہ سے ثابت ہے کہ اسراء ومعراج کا تمام سفر صرف روحانی نہیں بلکہ جسمانی تھا، یعنی نبی اکرم ﷺ کا یہ سفر کوئی خواب نہیں تھا بلکہ ایک جسمانی سفر اور عینی مشاہدہ تھا۔ یہ ایک معجزہ تھا کہ مختلف مراحل سے گزرکر اتنا بڑا سفر ‘ اﷲ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے صرف رات کے ایک حصہ میں مکمل کردیا۔ اﷲ تعالیٰ جو اس پوری کائنات کا پیدا کرنے والاہے، اس کے لئے کوئی بھی کام مشکل نہیں ہے،کیونکہ وہ تو قادر مطلق ہے،جو چاہتا ہے کرتا ہے، اس کے تو ارادہ کرنے پر چیز کا وجود ہوجاتا ہے۔ معراج کا واقعہ پوری انسانی تاریخ کا ایک ایسا عظیم، مبارک اور بے نظیر معجزہ ہے جس کی مثال تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ خالق کائنات نے اپنے محبوب ﷺکو دعوت دے کر اپنا مہمان بنانے کا وہ شرف عظیم عطا فرمایا جو نہ کسی انسان کو کبھی حاصل ہوا ہے اور نہ کسی مقرب ترین فرشتے کو۔

واقعۂ معراج کا مقصد:واقعہ معراج کے مقاصد میں جو سب سے مختصر اور عظیم بات قرآن کریم (سورہ بنی اسرائیل) میں ذکر کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ہم (اﷲ تعالیٰ) نے آپ ﷺ کو اپنی کچھ نشانیاں دکھلائیں۔ اس کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد اپنے حبیب محمد ﷺ کو وہ عظیم الشان مقام ومرتبہ دینا ہے جو کسی بھی بشر حتی کہ کسی مقرب ترین فرشتہ کو نہیں ملا ہے اور نہ ملے گا۔ نیز اس کے مقاصد میں امت مسلمہ کو یہ پیغام دینا ہے کہ نماز ایسا مہتم بالشان عمل اور عظیم عبادت ہے کہ اس کی فرضیت کا اعلان زمین پر نہیں بلکہ ساتوں آسمانوں کے اوپر بلند واعلیٰ مقام پر معراج کی رات میں ہوا۔ نیز اس کا حکم حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ نبی اکرم ﷺ تک نہیں پہنچا بلکہ اﷲ تعالیٰ نے فرضیت ِ نماز کا تحفہ بذاتِ خود اپنے حبیب ﷺ کو عطا فرمایا۔ نماز اﷲ تعالی سے تعلق قائم کرنے اور اپنی ضرورتوں اور حاجتوں کو مانگنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔

واقعۂ معراج کی مختصر تفصیل:اس واقعہ کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ کے پاس سونے کا طشت لایا گیا جو حکمت اور ایمان سے پُر تھا، آپﷺ کا سینہ چاک کیا گیا، پھر اسے زمزم کے پانی سے دھویا گیا، پھر اسے حکمت اور ایمان سے بھر دیا گیا اور پھر بجلی کی رفتار سے زیادہ تیز چلنے والی ایک سواری یعنی براق لایا گیاجو لمبا سفید رنگ کا چوپایا تھا، اس کاقد گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا تھا وہ اپنا قدم وہاں رکھتا تھا جہاں تک اس کی نظر پڑتی تھی۔ اس پر سوار کرکے حضور اکرم ﷺ کو بیت المقدس لے جایا گیا اور وہاں تمام انبیاء کرام نے حضور اکرم ﷺ کی اقتداء میں نماز پڑھی۔ پھر آسمانوں کی طرف لے جایا گیا۔ پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام ، دوسرے آسمان پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام، تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام، چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام، پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام، چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ اس کے بعد البیت المعمور حضور اکرم ﷺ کے سامنے کردیا گیا جہاں روزانہ ستر ہزار فرشتے اﷲ کی عبادت کے لئے داخل ہوتے ہیں جو دوبارہ اس میں لوٹ کر نہیں آتے۔ پھر آپ ﷺکو سدرۃ المنتہی تک لے جایا گیا۔ آپ ﷺ نے دیکھا کہ اس کے پتے اتنے بڑے ہیں جیسے ہاتھی کے کان ہوں اور اس کے پھل اتنے بڑے بڑے ہیں جیسے مٹکے ہوں۔ جب سدرۃ المنتہی کو اﷲ کے حکم سے ڈھانکنے والی چیزوں نے ڈھانک لیا تو اس کا حال بدل گیا، اﷲ کی کسی بھی مخلوق میں اتنی طاقت نہیں کہ اس کے حسن کو بیان کرسکے۔ سدرۃ المنتہی کی جڑ میں چار نہریں نظر آئیں، دو باطنی نہریں اور دو ظاہری نہریں۔ حضور اکرم ﷺ کے دریافت کرنے پر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے بتایا کہ باطنی دو نہریں جنت کی نہریں ہیں اور ظاہری دو نہریں فرات اور نیل ہیں (فرات عراق اور نیل مصر میں ہے)۔

نماز کی فرضیت: اس وقت اﷲ تعالیٰ نے ان چیزوں کی وحی فرمائی جن کی وحی اس وقت فرمانا تھا اور پچاس نمازیں فرض کیں۔ واپسی پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کہنے پر حضور اکرم ﷺ چند مرتبہ اﷲ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہوئے اور نماز کی تخفیف کی درخواست کی۔ ہر مرتبہ پانچ نمازیں معاف کردی گئیں یہاں تک کہ صرف پانچ نمازیں رہ گئیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس پر بھی مزید تخفیف کی بات کہی، لیکن اس کے بعد حضور اکرم ﷺ نے کہا کہ مجھے اس سے زیادہ تخفیف کا سوال کرنے میں شرم محسوس ہوتی ہے اور میں اﷲ کے اس حکم کو تسلیم کرتا ہوں۔ اس پر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے یہ ندا دی گئی : میرے پاس بات بدلی نہیں جاتی ہے۔ یعنی میں نے اپنے فریضہ کا حکم باقی رکھا اور اپنے بندوں سے تخفیف کردی اور میں ایک نیکی کا بدلہ دس بناکر دیتا ہوں۔ غرضیکہ ادا کرنے میں پانچ ہیں اورثواب میں پچاس ہی ہیں۔

نماز کی فرضیت کے علاوہ دیگر دو انعام:اس موقعہ پر حضور اکرم ﷺ کو اﷲ تعالیٰ سے انسان کا رشتہ جوڑنے کا سب سے اہم ذریعہ یعنی نماز کی فرضیت کا تحفہ ملا اور حضور اکرم ﷺ کا اپنی امت کی فکر اور اﷲ کے فضل وکرم کی وجہ سے پانچ نماز کی ادائیگی پر پچاس نمازوں کا ثواب دیا جائے گا۔ ۱) سورۃ البقرہ کی آخری آیت (آمَنَ الرَّسُولُ سے لے کر آخر تک) عنایت فرمائی گئی۔ ۲) اس قانون کا اعلان کیا گیا کہ حضور اکرم ﷺ کے امیتوں کے شرک کے علاوہ تمام گناہوں کی معافی ممکن ہے یعنی کبیرہ گناہوں کی وجہ سے ہمیشہ عذاب میں نہیں رہیں گے بلکہ توبہ سے معاف ہوجائیں گے یا عذاب بھگت کر چھٹکارا مل جائے گا، البتہ کافر اور مشرک ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔

معراج میں دیدار الہی:زمانہ ٔ قدیم سے اختلاف چلا آرہا ہے کہ حضور اکرم ﷺ شب معراج میں دیدار خداوندی سے مشرف ہوئے یا نہیں اور اگر رؤیت ہوئی تو وہ رؤیت بصری تھی یا رؤیت قلبی تھی، البتہ ہمارے لئے اتنا مان لینا ان شاء اﷲ کافی ہے کہ یہ واقعہ برحق ہے، یہ واقعہ رات کے صرف ایک حصہ میں ہوا، نیز بیداری کی حالت میں ہوا ہے اور حضور اکرم ﷺ کا یہ ایک بڑا معجزہ ہے۔

قریش کی تکذیب اور ان پر حجت قائم ہونا:رات کے صرف ایک حصہ میں مکہ مکرمہ سے بیت المقدس جانا، انبیاء کرام کی امامت میں وہاں نماز پڑھنا،پھر وہاں سے آسمانوں تک تشریف لے جانا، انبیاء کرام سے ملاقات اور پھر اﷲ جل شانہ کی دربار میں حاضری، جنت ودوزخ کو دیکھنا، مکہ مکرمہ تک واپس آنا اور واپسی پر قریش کے ایک تجارتی قافلہ سے ملاقات ہونا جو ملک شام سے واپس آرہا تھا۔ جب حضور اکرم ﷺ نے صبح کو معراج کا واقعہ بیان کیا تو قریش تعجب کرنے لگے اور جھٹلانے لگے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے پاس گئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ اگر انہوں نے یہ بات کہی ہے تو سچ فرمایا ہے۔ اس پر قریش کے لوگ کہنے لگے کہ کیا تم اس بات کی بھی تصدیق کرتے ہو؟ انہوں نے فرمایا کہ میں تو اس سے بھی زیادہ عجیب باتوں کی تصدیق کرتا ہوں اور وہ یہ کہ آسمانوں سے آپ کے پاس خبرآتی ہے۔ اسی وجہ سے ان کا لقب صدیق پڑ گیا۔ اس کے بعد جب قریش مکہ کی جانب سے حضور اکرم ﷺ سے بیت المقدس کے احوال دریافت کئے گئے تو اﷲ تبارک وتعالیٰ نے بیت المقدس کو حضور اکرم ﷺ کے لئے روشن فرمادیا، اُس وقت آپ ﷺ حطیم میں تشریف فرما تھے۔ قریش مکہ سوال کرتے جارہے تھے اور آپ ﷺ جواب دیتے جارہے تھے۔

سفر معراج کے بعض مشاہدات:اس اہم وعظیم سفر میں آپ ﷺکو جنت ودوزخ کے مشاہدہ کے ساتھ مختلف گناہگاروں کے احوال بھی دکھائے گئے جن میں سے بعض گناہگاروں کے احوال اس جذبہ سے تحریر کررہاہوں کہ ان گناہوں سے ہم خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچنے کی ترغیب دیں۔

کچھ لوگ اپنے سینوں کو ناخنوں سے چھیل رہے تھے:حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس رات مجھے معراج کرائی گئی میں ایسے لوگوں پر گزرا جن کے ناخون تانبے کے تھے اور وہ اپنے چہروں اور سینوں کو چھیل رہے تھے۔میں نے جبرئیل علیہ السلام سے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے گوشت کھاتے ہیں( یعنی ان کی غیبت کرتے ہیں) اور ان کی بے آبروئی کرنے میں پڑے رہتے ہیں۔ (ابوداود)

سود خوروں کی بدحالی:حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس رات مجھے سیر کرائی گئی میں ایسے لوگوں پر بھی گزرا جن کے پیٹ اتنے بڑے بڑے تھے جیسے (انسانوں کے رہنے کے) گھر ہوتے ہیں ان میں سانپ تھے جو باہر سے ان کے پیٹوں میں نظر آرہے تھے۔ میں نے کہا کہ اے جبرئیل ! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا یہ سود کھانے والے ہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح)

کچھ لوگوں کے سر پتھروں سے کچلے جارہے تھے:آپ ﷺ کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے بھی ہوا جن کے سر پتھروں سے کچلے جارہے تھے، کچل جانے کے بعد پھر ویسے ہی ہوجاتے تھے جیسے پہلے تھے۔ اسی طرح یہ سلسلہ جاری تھا، ختم نہیں ہورہا تھا۔ آپ ﷺ نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ لوگ نماز میں کاہلی کرنے والے ہیں ۔ (انوار السراج فی ذکر الاسراء والمعراج ۔ شیخ مفتی عاشق الہی ؒ)

زکاۃ نہ دینے والوں کی بدحالی:آپ ﷺ کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے بھی ہوا جن کی شرمگاہوں پر آگے اور پیچھے چیتھڑے لپٹے ہوئے ہیں اور اونٹ وبیل کی طرح چرتے ہیں اور کانٹے دار و خبیث درخت اور جہنم کے پتھر کھارہے ہیں، آپ ﷺ نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مالوں کی زکاۃ ادا نہیں کرتے ہیں۔ (انوار السراج فی ذکر الاسراء والمعراج ۔ شیخ مفتی عاشق الہی ؒ)
سڑا ہوا گوشت کھانے والے لوگ:آپ ﷺ کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے بھی ہوا جن کے سامنے ایک ہانڈی میں پکا ہوا گوشت ہے اور ایک ہانڈی میں کچا اور سڑا ہوا گوشت رکھا ہے، یہ لوگ سڑا ہوا گوشت کھارہے ہیں اور پکا ہوا گوشت نہیں کھارہے ہیں، آپ ﷺ نے دریافت کیا یہ کون لوگ ہیں؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس حلال اور طیب عورت موجود ہے مگر وہ زانیہ اور فاحشہ عورت کے ساتھ شب باشی کرتے ہیں اور صبح تک اسی کے ساتھ رہتے ہیں اور وہ عورتیں ہیں جو حلال اور طیب شوہر کو چھوڑکر کسی زانی اور بدکار شخص کے ساتھ رات گزارتی ہیں۔ (انوار السراج فی ذکر الاسراء والمعراج ۔ شیخ مفتی عاشق الہی ؒ)

سدرۃ المنتہی کیا ہے؟احادیث میں سدرۃالمنتہی اور السدرۃ المنتہی دونوں طرح استعمال ہوا ہے۔ قرآن کریم میں سدرۃالمنتہی استعمال ہوا ہے۔ سدرۃ کے معنی بیر کے ہیں اور منتہی کے معنی انتہا ہونے کی جگہ کے ہیں۔ اس درخت کا یہ نام رکھنے کی وجہ صحیح مسلم میں اس طرح ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اوپر سے جو احکام نازل ہوتے ہیں وہ اسی پر منتہی ہوجاتے ہیں اور جوبندوں کے اعمال نیچے سے اوپر جاتے ہیں وہ وہاں پر ٹھہر جاتے ہیں، یعنی آنے والے احکام پہلے وہاں آتے ہیں پھر وہا ں سے نازل ہوتے ہیں اور نیچے سے جانے والے جو اعمال ہیں وہ وہاں ٹھہر جاتے ہیں پھر اوپراٹھائے جاتے ہیں۔

﴿وضاحت﴾ واقعۂ معراج النبی ﷺسے متعلق کوئی خاص عبادت ہر سال ہمارے لئے مسنون یا ضروری نہیں ہے۔ تاریخ کے اس بے مثال واقعہ کو بیان کرنے کا اہم مقصد یہ ہے کہ ہم اس عظیم الشان واقعہ کی کسی حد تک تفصیلات سے واقف ہوں اور ہم اُن گناہوں سے بچیں جن کے ارتکاب کرنے والوں کا برا انجام نبی اکرم ﷺ نے اس سفر میں اپنی آنکھوں سے دیکھا اور پھر امت کو بیان فرمایا۔
اﷲ تعالیٰ ہم سب کا خاتمہ ایمان پر فرما اور دونوں جہاں کی کامیابی وکامرانی عطا فرما۔ آمین۔
Najeeb Qasmi
About the Author: Najeeb Qasmi Read More Articles by Najeeb Qasmi: 133 Articles with 153577 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.