موت ۔۔۔ختم ہوجانے والا سفر (حصہ سوئم)

حکایات ِ رومی میں ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں ایک آدمی لرزاں و ترساں حاضر ہوا، مارے ہیبت کے اس کے منہ سے آواز نہیں نکل رہی تھی۔ چہر ہ دھلے ہوئے کپڑے کی طرح سفید ہو گیا تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کی یہ کیفیت ملاحظہ فرمائی تو پوچھا اے خدا کے بندے ۔۔۔! کیا بات ہے۔۔۔؟؟؟ تو اتنا گھبرایا ہوا اور مضطرب کیوں ہے۔۔۔؟؟؟ اس نے عرض کیا کہ : "یا حضرت مجھے عزرائیل علیہ السلام نظر آیا اس نے مجھ پر ایسی غضب آلود نظر ڈالی کہ میرے ہوش و حواس گم ہو گئے، رواں رواں تھرا گیا۔ اب بار بار عزرائیل علیہ السلام کی وہ صورت آنکھوں کے سامنے آتی ہے ، اس لئے مجھے کسی گھڑی بھی چین نہیں آرہا"۔اس نے التجا کی کہ آپ ہو اکو حکم دیں کہ وہ مجھے یہاں سے ہزاروں میل دور ملکِ ہندوستان میں چھوڑ آئے ۔ ممکن ہے اس تدبیر سے میرا خوف کچھ دُور ہو جائے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اُسی وقت ہوا کو حکم دیا کہ اس شخص کو فوراََ ہندوستان کی سر زمین میں پہنچا دے۔ جو نہی اس شخص نے قدم زمین پر رکھا، وہاں "عزرائیل علیہ السلام کو منتظر پایا۔" آپ نے اﷲ کے حکم سے اس کی رُوح قبض کر لی ۔ دوسرے دن حضرت سلیمان علیہ السلام نے بوقت ِ ملاقات حضرت عزرائیل علیہ السلام سے دریافت کیا آپ نے ایک آدمی کو اس طرح غور سے کیوں دیکھا تھا ، کیا تمہارا ارادہ اس کی روح قبض کرنا تھا یا پھر اس بیچارے کو غریب الوطنی میں لاوارث کرنا تھا۔عزرائیل علیہ السلام نے جوا ب دیا کہ میں نے جب اس شخص کو یہاں دیکھا تو حیرا ن ہو ا کیونکہ اس شخص کی روح مجھے ہندوستان میں قبض کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور یہ شخص ہزاروں میل دُور یہاں موجود تھا۔ حکم الہٰی سے میں ہندوستان پہنچا تو میں نے اس کو وہا ں موجود پایا۔اسی طرح حکایات سعدی میں ایک واقعہ تحریرکیا گیا ہے کہ ایک لنگڑے آدمی نے بیٹھے بیٹھے ایک بہت سی ٹانگوں والا کیڑا مار دیا، ایک خوش طبع آدمی پاس سے گزرا ۔ اس نے یہ حال دیکھا تو کہا کہ سبحان اﷲ ہزار پیروں والا کیڑا جب اس کی موت آئی تو ایک لنگڑے لُولے کے سامنے سے بھاگ کر بچ نہ سکا۔ سچ ہے کہ جب موت آجاتی ہے تو موت سے بھاگنے والے کے پاؤں باندھ دیتی ہے، جب دشمن سر پر آپہنچتا ہے تو کمان دار کی کمان کھینچی نہیں جاتی ۔ اسی طرح کرکٹ کے میدان میں جب سارے کھلاڑی میدان میں کھیل رہے ہوتے ہیں تو سب کھیل میں انتہا درجے کے مگن ہوتے ہیں ، چھکے اور چوکے لگنے پر خوشی کا سماں اس قدر چھا یا ہوتا ہے کہ کھلاڑیوں کے ساتھ تماشائی بھی پر کیف کیفیت میں مگن ہوتے ہیں مگر ماحول اس وقت یکدم تبدیل ہو جاتا ہے جب کھلاڑی سنچری سکور کرنے سے چند قدم کے فاصلے پر ہی ہوتا ہے،اور اچانک یارک بال ڈلتی ہے اور ٹانگوں سے ہوتے ہوئے وکٹوں کو اُڑاتے دور جا پھینکتی ہے اسی لمحے پورے ماحول کی کیفیت بدل جاتی ہے مگر اس وقت کوئی بھی اس کھلاڑی کو نہیں بچا سکتا ماسوائے انپائر کی جانب سے ہونے والے نو بال کے اشارے سے۔۔۔ مگر سفر ِ زندگی میں نہ تو کوئی امپائر ہے اور نہ ہی نو بال کا کوئی چانس ۔۔۔ہاں۔۔۔!!!بال بھی ڈلتی ہے اور وہ بھی یارک بال جو عین وکٹوں کو اُڑا کر دور لے جاتی ہے ساتھ ہی ادھر ایک اور بات کہ کھلاڑی میدان سے خود چل کر باہر آتا ہے مگر زندگی کے میدان سے باہر آجانے کی صورت میں چار بندے اپنے کاندھوں پر اُٹھا کر لے جاکر پورے عزت و احترام اور اپنے مذہبی طریقہ کار سے اس دنیا سے اس کا پتہ ایسے کاٹ دیتے ہیں جیسے خزاں میں درختوں سے جڑے پتے ۔۔۔ انسان کی مثال اس دنیا میں کرایے کے مکان کی طرح ہے جیسے کرایے کے مکان میں وہ رہ رہا ہوتا ہے تومالک مکان کی مرضی کے خلاف ایک پودا تک اس گھر میں نہیں لگا سکتا بھلا وہ کیوں۔۔۔؟؟؟ وہ اس لیے کہ اس کو نہیں معلوم کہ اس نے کتنا عرصہ اس مکان میں رہنا ہے اور یہ مکان اس کی عارضی پنا ہ گاہ ہے تو کیونکر وہ اس مکان کے لیے اپنی مصروفیات صرف کرے جبکہ اس مکان میں اس نے صدا تو نہیں رہنا۔۔۔تو پھر کیوں دنیا کہ عارضی مکان کے لیے سب جائز و ناجائز اکھٹا کرنے میں مگن ہے۔۔۔؟؟؟انسان لاکھ تدبیر کرے۔ تقدیر اسے وہیں لے جاتی ہے جہاں اس کا نصیب ہو اور وہ خود تقدیر کے عزائم پورا کرنے کے لیے اسباب فراہم کرتا ہے۔موت اور رزق دونوں انسان کے ساتھ اس کے سائے کی طرح چپٹے ہوئے ہر وقت اس کے پیچھے رہتے ہیں مگر انسان ہے کہ رزق کے پیچھے بھاگتے بھاگتے اپنا پیچھا کرتی موت کو بھولنا تو در کنار اس کا تصور تک کرناگوارا نہیں کرتا ۔ جبکہ انسان کی حقیقت تو یہ ہے کہ اس کے اعضاء جسمانی جب تک بالکل ٹھیک کام کر رہے ہوں تو اس کے اندر انا پرستی کا بھوت گُھسا رہتا ہے مگر جیسے ہی سر میں ہلکا سا درد شروع ہوتا ہے تو بے چارہ درد سے آہ و پکار کرنے بیٹھ جاتا ہے، جسم کے اندر موجود نظام انہضام کا بھی اگر مشاہدہ کر لیا جائے تو قدرت کے انمول خزانے کی سمجھ آجاتی ہے کہ انسان کے جسم کے اندر رب ِ کریم نے کس قدر نشانیاں پوشیدہ رکھی ہیں۔ (جاری ۔۔۔۔حصہ چہارم)
Muhammad Jawad Khan
About the Author: Muhammad Jawad Khan Read More Articles by Muhammad Jawad Khan: 113 Articles with 182023 views Poet, Writer, Composer, Sportsman. .. View More