تشخص

بھیا ! آج لانگ ڈرائیو پر چلتے ہیں . صباء بھابھی کا بھی جی چاہ رہا ہے .....
بھیا نے تصدیق طلب نظروں سے بیگم کی طرف دیکھا تو وہ بھی مسکرادیں.
بھابی تیار ہونے کمرے میں آئیں تو وہ بھی پیچھے ہی چلی آئی ، بھابی نے حسب معمول وضو کیا پھر گاؤن پہننے لگیں اور ساتھ ہی ایک گاؤن اس کی طرف بڑھادیا. ..
لو گڑیا! آج تم بھی میرا ساتھ دو ، دونوں بہنیں ایک جیسے حلیےمیں جائیں گی ،ٹھیک ہے ناں !
یہ اس کےلئیےکسی اچنبھے سے کم نہیں تھا.اس نے گھبرا کر بھابھی کو دیکھا اور پھر ایک نظر اپنے حلیے پر ڈالی تو دوسری نظر گاؤن پر!
بھابھی کی مان بھری خواہش کو رد کرنے کی ہمت اس لمحے نہ جانے کہاں کھو گئی تھی !
اس کے ہاتھ میکانکی انداز میں گاؤن کی طرف بڑھے،
اور اگلے ہی لمحے وہ خود کو مکمل ڈھانپ چکی تھی.بھابھی نے بھی اس کی کافی مدد کی تھی...
تیار ہوکر وہ دونوں باہر آئیں تو لاونج میں بھیا کو منتظر پایا. سفید شلوار قمیض میں ملبوس ، ٹخنوں سے اونچے پائنچے ، چہرے پر گھنی سیاہ ڈاڑھی ، سر پر عمامہ باندھے، آج وہ اسے اسقدر معتبر سے کیوں لگ رہے تھے ؟
حالانکہ وہ تو اسی حلیے میں ہوا کرتے ہمیشہ ہی سے !
سر جھٹک کر وہ اپنی اس کیفیت سے آزاد ہوئی اور بھابھی کے ساتھ چلتی ہوئی کار پورچ میں آئی....
ڈرائیو کے دوران اسے حیرت ہوئی کہ وہ گاؤن میں خود کو قید محسوس کرنے کی بجائے پرسکون محسوس کررہی تھی.بھابی اس کی بدلتی کیفیات کو گہری نظروں سے جانچ رہی تھیں.
اس نے دیکھا کہ ڈرائیونگ کے دوران بھیا کے ہونٹ مسلسل ہل رہے تھے.وہ حسب عادت ذکر میں مشغول تھے.
سفر کے دوران بھابھی اس کا دھیان بٹانے کے لئیے اس کی کالج کی مصروفیات پوچھتی رہیں مگر وہ ہوں ہاں میں ہی جواب دے سکی.
اس کا ذہن عجب کشمکش کا شکار تھا.
کچھ دیر وہ اپنی اس کیفیت پر قابو پانے کی کوشش کرتی رہی مگر بےسود !
آخر کار پوچھ ہی بیٹھی. ...
بھابھی ! مجھے ہمیشہ ہی سے یہ کنفیوژن رہی ہے کہ مذہب اور دین کا تعلق تو عبادت سے ہوتا ہے ، لباس اور ظاہری حلیے کا دین سے آخر کیا تعلق ہے ؟ ارے گڑیا ! تم اتنی بڑی کب سے ہوگئیں کہ اتنی گہری باتیں کرنے لگیں ؟
بھابھی نے پیار سے گھرکا تو وہ جھینپ کر رہ گئی !
دیکھو ! ہر شخص کا ظاہر ہی عموما اس کے باطن کا آئینہ دار ہوتا ہے ، کیونکہ باطن تو بذات خود ایک چھپی ہوئ چیز ہے. دنیا کے تمام تر معاملات ظاہر ہی کی بنیاد پر حل کیے جاتے ہیں.
اس سلسلے میں ،میں تم سے کچھ سوالات کروں گی جن کے جوابات کی روشنی میں ہم تمہارے سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کریں گے .
اگر پاکستان آرمی کے کچھ جوان دشمن ملک کی وردی پہن کر پاک آرمی میں گھس جائیں جو کہ ان کی اپنی فوج ہے اور دشمن سمجھ کر ماردئیے جائیں حالانکہ ان کی تمام تر وفاداریاں ان کے اپنے ملک کےلئیے تھیں تو تم ہی بتاؤ کہ اس حادثے میں قصور وار کون ہوگا ؟
گڑیا جو انہماک سے یہ بات سن رہی تھی ، جھٹ سے بولی :
وہ خود ہی اپنی موت کے ذمہ دار ہونگے ، کیونکہ انہوں نے اپنی صورت دشمنوں جیسی بنا کر اپنی موت کو خود دعوت دی !
بھابھی ،جو اس سے اسی جواب کی توقع کررہی تھیں، کہنے لگیں کہ بظاہر یہ صرف لباس کی تبدیلی ہے پھر اپنی بات کو آگے بڑھایا ...
اچھا اب ایک اور بات بتاؤ کہ اگر کوئ شخص کسی ملک میں رہتا ہو مگر وہاں کے قوانین سے ناواقفیت کی بناء پر قانون شکنی کا مرتکب ہو جائے تو اس کو سزا ملنی چاہئیے یا نہیں ؟
جی ضرور ملنی چاہئیے کیونکہ اس طرح تو ہر شخص لاعلمی کی آڑ لے کر قوانین کو کالعدم کر دے گا .
ہممم. یہ بات بھی تم جانتی ہو کہ دنیا میں معزز پیشے اپنا ایک الگ تشخص رکھتے ہیں جس پر وہ فخر محسوس کرتے ہیں اور کسی قیمت پر بھی اس کو چھوڑنے کےلئیے تیار نہیں ہوتے ، مثلا ججز ، وکلاء حضرات ، پروفیسرز اور دیگر .
بدلتے موسم ، موافق و نامواقف حالات بھی ان کو ان کے مخصوص لباس اور حلیے سے نہیں ہٹا سکتے. کیونکہ یہی ان کی پہچان ہے...
اب یہ بات سمجھنے کی ہے کہ اسلام جو کائنات کا ارفع و اعلی دین ہے ، ہماری زندگی کے کسی مخصوص و محدود پہلو کے ساتھ منسلک چیز نہیں ہے بلکہ ہمارے لئیے ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ، ہمارا ایسا ساتھی جو ہمیں اس دنیا میں آنکھ کھولنے سے لیکر آخری آرام گاہ تک ایک لمحے کےلئیے بھی اکیلا نہیں چھوڑتا بلکہ قدم قدم پر ہماری رہنمائی کرتا ہے.
تو ایسا کیسے ممکن ہے کہ اتنا جامع ہونےکے باوجود وہ ہمیں ظاہرا بھی دوسروں سے ممتاز نہ کرپائے اور جداگانہ تشخص سے نہ نوازے، جبکہ ایک ادنی سا پیشہ اور ادارہ بھی اپنے افراد کو اپنی پہچان سے محروم نہیں کرتا ؟؟؟
جی بھابھی ! اس بات میں تو واقعی وزن ہے...
وہ پر سوچ انداز میں بولی :
بالکل یہی بات میں کہنا چاہ رہی تھی کہ اسلام نے بھی اپنے پیروکاروں کو دیگر مذاہب سے ممتاز کرنے کےلئیے بےحد معززانہ حلیےسے نوازا ہے جو فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے !
اور اسلام میں داخل ہونے کے بعد اس کے تمام قوانین و تقاضوں سے واقف ہونا ہم پر لازم ہے.
بھابھی! اسلام اس بارے میں ہم سے کیا تقاضا کرتا ہے ؟؟؟
اس کو اب اس گفتگو میں بے حد دلچسپی محسوس ہورہی تھی...
ہاں یہ بہت اچھا سوال پوچھا تم نے...
اسلام نےتمام دیگر معاملات کی طرح ہمیں لباس کے بارے میں بھی کچھ اصول بتائے ہیں:
1- لباس ساتر ہونا چاہیئے . یعنی ایسا لباس نہ ہو جو بظاہر ڈھیلا ڈھالا ہو مگر اتنا باریک ہو کہ جسم کی رنگت نمایاں ہو یا پھر موٹا تو ہو مگر اتنا چست ہو کہ بدن کا انگ انگ واضح اور نمایاں ہو رہا ہو .
2- مرد ایسا لباس نہ پہنے جو عورت کے لباس کے مشابہ ہو اور نہ عورت ہی مردانہ وضع قطع اختیار کرے.
3- مسلمان کےلئیےایسےلباس اور وضع قطع کی گنجائش نہیں رکھی گئ جو دیگر غیر مسلم اقوام کا تشخص ہیں.یعنی غیر مسلموں کا سا لباس نہ پہنے.
اگر تم غور کرو تو یہ بات سامنے آئے گی کہ دنیا کے تمام مذاہب کے پیشوا کم و بیش ایک ہی جیسے حلیے میں نظر آتے ہیں.
اسلام نے مرد کو ڈاڑھی اور عورت کو پردے جیسا منفرد تشخص عطا کیا ہے کہ دیکھتے ہی پتہ چل جائے کہ یہ مسلم یا مسلمہ ہے.
اس کے ذہن کی تمام گرہیں ایک ایک کرکے کھلتی چلی گئیں اور ہدایت کی باد نسیم نے آگہی کے تمام در وا کردیئے کہ لاحاصل سے حاصل تک کا سفر ایک پل میں طےہو گیا تھا.
جی بھابھی ! اب میں خوب سمجھ گئی ہوں اور ان شاءاللہ اپنا یہ امتیازی تشخص ہمیشہ برقرار رکھوں گی.
آمین ثم آمین
از قلم : بنت میر
 
Sadia Javed
About the Author: Sadia Javed Read More Articles by Sadia Javed: 5 Articles with 3359 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.