قحط زدہ تھر کی اصل کہانی

قحط کی وجہ سے سینکڑوں بچے موت کی منہ میں چلے گیے۔ امداد نہ ملنے کی وجہ سے اموات میں اضافہ۔ قحط زدہ تھر میں موت کے سائے۔ بچوں کی شرح اموات میں اضافہ۔ پانی کی غیر موجودگی اور حکومت کی عدم توجہ کی وجہ تھر کے مکین غربت کی لکیر سے نیچے گزاررہے ہیں۔فاقوں پر مجبور والدین بچوں کے بھوک و پیاس کی وجہ سے موت کی منہ میں جانے سے بچانے میں ناکام۔

قارئین کرام! یہ چند ایک جملے گذشتہ کئی برسوں سے مروڑ تروڑ کر مختلف انداز سے پیش کیے جارہے ہیں۔ کوئی اپنے مفادات کے لیے ملکی حالات کو خراب کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ کوئی سیاسی ہمدردیاں سمیٹنے کے درپے ہے۔ کو ئی غیروں کے اشاروں پر ناچتا ہے۔ تھر پاکستان کے صوبہ سندھ کے مشرقی حصے میں واقع ہے جو بھارت کے ساتھ جا ملتا ہے۔

تھر ایک ریگستانی خطہ ہے جہاں قحط سالی کا ہونا معمول کی بات ہے۔ تاہم یہاں کی قحط سالی کو اتنا بڑا ایشو بنا کر انتشار پھیلانا اور غیر ملکیوں کو معدنیات سے بھرے ہوئے خطے تک رسائی دینا یقینا محب وطن پاکستانی کی کارستانی نہیں ہو سکتی۔تھر کا علاقہ اگر چہ وسیع ریگستان پر پھیلا ہوا ہے۔ تاہم پانی نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ یہاں زندگی کے آثار موجود نہیں۔ یہ اﷲ رب العزت کے طرف سے عطا کردہ قدرتی وسائل سے مالا مال خطہ ہے۔ آج سے کئی دہائیوں پہلے کبھی یہاں قحط اور خشک سالی ہوا کرتی تھی جو بعض دفعہ جان لیوا بھی ثابت ہوا کرتی تھی۔ تاہم گذشتہ چند سالوں سے اس علاقے کو قحط زدہ قرار دے کر انتشار پھیلانے کی کئی مقاصد ہو سکتے ہیں۔

تھر کے علاقے میں اگرچہ غربت ہے ۔ تاہم اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ یہاں کی سو فی صد آبادی غربت کے لکیر کے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں اور یہاں کی باسیوں کو بنیادی سہولیات میسر نہیں۔ اس علاقے میں مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم بھی بکثرت موجود ہیں ۔ یہاں اگرچہ زراعت موجود نہیں تاہم اگر پانی میسر ہو تا خاطر خواہ زرعی فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ پانی کے بدلے قدرت نے اس خطے کو کوئلہ، تیل اور قدرتی گیس جیسے معدنیات سے نوازا ہے۔

خطے میں انتشار پھیلا کر جہاں چند لالچی اور مفاد پرست عناصر نے سرکاری و سیاسی توجہ اور فوائد حاصل کرنے کی کوشش کی وہاں بہت سے دوسرے خطرات بھی لاحق ہوگئے۔ علاقے بین الاقوامی میڈیا کے توجہ کا مرکز بن گیا۔ حکومت پاکستان اور صوبائی حکومتوں سمیت مختلف ممالک نے امداد اور اپنی ٹیمیں بھیجی۔ سیاسی جماعتوں نے اقتدار کی لالچ میں یہاں کے مکینوں کو غلام بنانے کی کوشش کی۔ تھر کے عوام جفاکش تھے اور اپنے محنت مزدوری کرتے تھے۔ بیرونی امداد کے نام پر محنتی عوام کو ذہنی معذور بنا کر بھکاری بنا دیا گیا۔ امداد کے ساتھ مختلف ممالک کی ٹیمیں یہاں پر براجمان ہوگئیں۔ یقینا عین توقع کے مطابق یہاں بھی این جی اوز کسی سے پیچھے نہ رہی۔ موقع سے فائدہ اٹھا کر ملک دشمن اور شر پسند عناصر بھی علاقے میں داخل ہوگئے۔ پاکستان کے قدرتی وسائل اور اسلامی تشخص کو ملیامیٹ کرنے کے خواب دیکھنے والے اقوام نے بھی اپنے نمائندے پہنچادئے۔

بیرونی ممالک اور این جی اوز نے یہاں امداد کے نام پر یہودیت، نصرانیت اور لادینی عقائد کی ترویج شروع کردی۔ باقاعدہ بائبل کے کلاسز لگائے جانے لگے۔ امداد کے نام پر چند روپوں کے عوض یہاں کی مسلم آبادی کی قیمتی سرمایہ وحدانیت الٰہی کو سلب کرنے کی کوششیں کی گئی۔ بہت سے نو مسلموں کو مرتد کر دیا گیا۔ ایک اسلامی ریاست کے اند دینی مدارس اور اسلام کی ترویج پر پابندیاں لگانے کے حربے استعمال کیے جانے لگے۔ غیر مسلموں کا اسلام میں داخل ہونے کا راستہ روک دیا گیا۔

وطن عزیز کے دشمن یہاں آکر اپنی جڑیں مضبوط کرنے لگے۔ امدادی ٹیموں کے نام پر یہاں اپنے مراکز بنا کر وطن عزیز کے حالات کو خراب کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل دشمن بلا خوف و خطر رہنے لگے۔ وطن عزیز کے قدرتی وسائل کو ہڑپ کرنے اور پاکستانیوں کو محروم کرنے والے افراد باثر افراد کو قابو کرنے میں مصروف عمل ہو گئے۔ سیاسی رہنماؤں سمیت صوبائی حکومتی ارکان اور بعض بیوروکریٹس باقاعدہ ان کے جالوں میں پھنس چکے ہیں۔ بنیادی سہولتی مراکز قائم کرکے غیر مسلموں کو تعینات کر دیا گیا ہے۔

تھر کے قحط کے رونے والے تو دنیا بھر میں پاکستان کا منفی امیج ظاہر کرنے میں کسی حد تک کامیاب ہو گئے لیکن کیا وہ علاقے کے مسائل کے حل کا پلان پیش کر سکتے ہیں؟ کیا بیرونی امدادی ٹیمیں اور این جی اوز یہاں پر بحالی میں کامیاب ہو چکے ہیں؟ کیا اسلامی تعلیمات اور مدارس پر تشویش کرنے والے دین و ملک کے خیر خواہ ہیں؟ یقینا نفی میں ہی جواب آئے گا۔

اگر چہ تھر قحط زدہ ہے۔ لیکن مسئلے کا حل بھی ہمارے پاس موجود ہے۔ یہاں کے عوام کو بھیک کی نہیں سہولیات اور رہنمائی کی ضرورت ہے۔ حکومت اقدامات کرکے تھر پارکر میں نہری نظام کا جال بچھائیں۔ یہاں کے عوام کو نہ صرف پینے کا پانی دے بلکہ اتنا ہو کہ بنجر زمین سونا بھی اگلنے لگے۔ علاقے کے مکینوں کے عقائد کو محفوظ کرنے کے لیے اقدامات کریں۔ غیر ملکی ٹیموں اور این جی اوز کو کام سمیٹنے کا ٹاسک دے کر پاکستانی افراد پر مشتمل ٹیمیں تشکیل دے۔ قحط کے خاتمے اور بنیادی ضروریات باہم پہنچانے کے ساتھ نظریاتی تحفظ، ملکی قدرتی وسائل اور دشمنوں سے سرحدوں کی حفاظت کی اقدامت اولین ترجیحات میں شامل کریں۔ تھر کے نام پر ملک کو تھوڑ نے سے بچانا نہ صرف حکومت اور مسلح افواج کی ذمہ داری ہے، بلکہ ہر مسلمان اور محب وطن پاکستانی کا فرض ہے۔
Abid Ali Yousufzai
About the Author: Abid Ali Yousufzai Read More Articles by Abid Ali Yousufzai: 97 Articles with 75343 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.