افضل گوہر کی شعری اُپج

افضل گوہر کا پہلا شعری مجموعہ ’’اچانک‘‘ ۲۰۰۱؁ء میں شائع ہوا لیکن اس سے قبل افضل گوہر ادبی دنیا میں نہ صرف متعارف ہو چکا تھا بلکہ اپنی ایک الگ شناخت رکھتا تھا۔ اس کا شعری مجموعہ منظر عام پر آنے سے قبل ملک بھر کے ادبی جرائد میں اس کا کلام اس تواتر سے شائع ہوا کہ لوگ اُس کی زمین سے جُڑی ہوئی شاعر ی کے قائل ہو گئے۔شاعری کوئی اکتسابی علم نہیں کہ ہر خاص و عام اسے سیکھ کر طبع آزمائی کرتا پھرے، یہ ملکہ تو صرف چند لوگوں کو ودیعت کیا جاتا ہے ۔ بقول شبلی نعمانی ’’شاعری اک آگ ہے جو خودمشتعل ہوتی ہے، ایک چشمہ ہے جو خود اُبلتا ہے ، ایک برق ہے جو خود کوندتی ہے۔ صلہ و انعام ، داود دہش، تحسین و آفرین سے اس کا کوئی تعلق نہیں ‘‘ ۔

مولانا شبلی نعمانی کی درج بالا رائے کے تناظر میں اگر افضل گوہر کی شاعری اور زندگی کے معمولات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ شاعری واقعی اک آگ ہے جو خود مشتعل ہوتی ہے اور ایک چشمہ ہے جو خود اُبلتا ہے کیونکہ افضل گوہر نے ایک عمر سپہ گری کی ۔ آرمی میڈیکل کور میں وہ فزیوتھراپسٹ تھا ، اُس کا کام جسموں کو حدت پہنچا کر انہیں زندگی سے آشنا کر نا تھا لیکن نہ جانے کیسے اُسے یہ خیال آیاکہ بیمار روح کو بھی حرارت درکار ہوتی ہے اوراسطرح اُس نے جسموں کو گرمانے کے ساتھ ساتھ روح کو گرمانے کا کام بھی سنبھال لیا ۔

افضل گوہر کی شاعری کو میں نے زمین سے جڑی ہوئی شاعری اس لئے کہا ہے کہ اُس کے ہاں عام شعرا ء کی طرح ہر غزل حسن و عشق کے تذکروں سے لبریز نہیں ہے بلکہ اُس کے ہاں انسانی زندگی کے متنوع سماجی اور معاشرتی پہلوؤں کو موضوع بنایا گیا ہے ۔ انسان کے دکھ ،درد اور محرومیاں اُس کی شاعری کو خام مال مہیا کرتی ہیں ۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اُس نے اپنی زندگی کے تیئس (۲۳)سال ہسپتالوں میں مریضوں کی مسیحائی میں گذارے اور ان کے دکھ، درد اور محرومیوں کو قریب سے دیکھا اور نہ صرف دیکھا بلکہ محسوس
بھی کیا ۔ یہیوجہ ہے کہ اُس نے ان تمام دکھوں کی اذیت اور کرب کو اپنی شاعری میں ڈھال کر قاری کے سامنے رکھ دیا ۔
دُکھ کی دیمک تو کہیں جڑ میں لگی ہوتی ہے
اور اثر پیڑ کے ہر پات میں آجاتا ہے
٭٭٭٭٭
لباس اطلس و کمخواب کے پہننے سے
بدن کے زخم کبھی مند مل نہیں ہوتے
٭٭٭
کتنا عجیب دُکھ تھا ہوا سے شکست بھی
چہرہ جھلس گیا ہے اَنا سے چراغ کا
٭٭٭٭٭
کسی کربِ مسلسل کی اذیت میں مقیّد ہیں
جو خود کو حلقۂ زنجیرسے باہر سمجھتے ہیں

شاعر کا چیزوں کو دیکھنے کا پنا انداز ہوتا ہے ۔ وہ چیزوں کو ان کی اصلی حالت کی بجائے اپنے تخلیاتی تجربے کی روشنی میں دیکھتا ہے ۔

افضل گوہر کی شاعری میں بھی ہمیں اُس کا اپنا تخلیق کردہ استعاراتی نظام نظر آتا ہے ۔ اُس نے پیڑ ، پرندہ ، دریا اور صحراکی علامات کو مختلف معنوں میں استعمال کرکے جدید مفاہیم پیدا کئے ہیں اس سلسلے میں کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:۔
سوچا تھا اب کی بار کنارے پہ جاؤں گا
دریا بھی میرے ساتھ ہی ناؤ میں آگیا
٭٭٭٭٭٭
تیرا گھر تو پیڑسے ٹوٹے ہوئے پتوں کا تھا
تجھ کو یہ کس نے کہا تھا تُوہوا مہمان کر
٭٭٭٭٭٭
عبور ہم نے جو صحرا کیا تو خیموں میں
کوئی لئے ہوئے چھاگل کوئی کھجور آیا

افضل گوہر نے نہ صرف عمدہ پیرائے میں غزل لکھ کر اپنے آپ کو منوایا ہے بلکہ اس نے نہایت خوبصورت نظمیں بھی تخلیق کیں۔ اُس کے شعری مجموعے ’’ہمقدم‘‘میں سولہ نظمیں شامل ہیں جو جدید نظم کی تعریف پر پورا اترتی ہیں۔اس مجموعے میں شامل ایک نظم ’’خواب کے
تحیّر سے‘‘ نہایت عمدہ اسلوب میں کہی گئی نظم ہے۔
اُونگھتی ہتھیلی سے
جب بھی آنکھ ملتا ہوں
خواب کے تخیّر سے
رات کسمساتی ہے
اور میرے بستر کی
ایک ایک سلوٹ میں
رینگتی ہے بے چینی
کتنی کروٹیں بدلوں
کتنا خود کو سلجھاؤں
ہونے اور نہ ہونے کے
ایسے دُکھ میں کھویا ہوں
آدھی نیند جاگا ہوں
آدھی نیند سویا ہوں

افضل گوہرکے ابھی تک چھ مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ اُس کے پہلے مجموعے ’’اچانک‘‘ (۲۰۰۱؁ء)پر احمد فراز اور افتخار عارف نے فلیپ لکھے۔ دوسرے مجموعے ’’ہجوم‘‘ (۲۰۰۶؁ء) پر ڈاکٹر وزیر آغا ، عطاالحق قاسمی اور جنرل (ریٹائرڈ) کے ۔ ایم عارف کے توصیفی الفاظ موجود ہیں ۔ افضل گوہر کا تیسرا مجموعہ ’’ رمق‘‘ (۲۰۰۸؁ء) کے نام سے ، چوتھا مجموعہ ہمقدم (۲۰۰۹؁ء) اور پانچواں مجموعہ ’’جھلک‘‘ (۲۰۱۳؁ء) کے نام سے شائع ہوا ۔ ’’خوش نما‘‘ (۲۰۱۰؁ء) کے نام سے افضل گوہر نے اپنی غزلوں کا انتخاب بھی شائع کیا جس پر ظفر اقبال نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’اس کی شاعری نے ہمیشہ مجھے خوش کیا ہے ۔ عمدہ شاعر میں اتنی توانائی ہوتی ہے کہ وہ رفتہ رفتہ ایک مثال بن جاتا ہے اور اُس کا طے کردہ معیار دوسروں کو نہ صرف پسماندہ نہیں رہنے دیتا بلکہ اس سے آگے نکل جانے کیلئے اُکساتا بھی ہے ‘‘ ۔

افضل گوہر عہدِ حاضر کا نمائندہ شاعر ہے ۔ وہ جس خوبصورت انداز سے غزل کہہ رہا ہے وہ اسی کا خاصہ ہے ۔ اس نے اپنے موضوعات کا انتخاب اپنے گردوپیش سے کیا ہے۔روزمرہ پیش آنے والے واقعات کواس نے اپنی شاعری کاحصہ بنایا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس کی شاعری پڑھتے ہوئے ہمیں احساس ہوتا ہے کہ وہ ہمارے دل کی باتیں بیان کر رہا ہے۔افضل گوہر کے چند مزید اشعارسنئے اور سر دھنئے۔
اس بار بھی کام آئیں پرندوں کی دعائیں
اس بار بھی پیڑوں پہ لگا بور زیادہ
٭٭٭٭٭
میں جو پتھر کی طرح ساکت و جامد تھا کبھی
دیکھ اب ناپ رہی ہے مری رفتار ہوا
٭٭٭٭
یہ جو دشواریٔ حالات بڑھا دی گئی ہے
بات اتنی بھی نہ تھی بات بڑھا دی گئی ہے
Khalid Mustafa
About the Author: Khalid Mustafa Read More Articles by Khalid Mustafa: 22 Articles with 50808 views Actual Name. Khalid Mehmood
Literary Name. Khalid Mustafa
Qualification. MA Urdu , MSc Mass Comm
Publications. شعری مجموعہ : خواب لہلہانے لگے
تحق
.. View More