ثقافت کے امین

فرانسیسی ناول نگار مشیل و یلنیل کے مشہور ناول ’ سب مشن ‘ کو جرمنی میں اسٹیج پر پیش کیا جارہا ہے ، اس ناول میں بتایا گیا ہے کہ سن 2022میں فرانس میں مسلم آبادی کی حمایت پر ایک مسلمان الیکشن جیت کر صدر بن جاتا ہے۔ناول سب مشن (submission)کا فرانسیسی نام Soumissionہے ۔ ناقدین اور دانشوروں نے ایسے سن2015کا انتہائی چونکا دینے والے پلاٹ کا ناول قرار دیا تھا ناول کا زمانہ اب سے تقریباََ چھ برس بعد یعنی2022ء کا ہے کہ فرانس میں ایک مسلمان انتہا پسند حکومت انتخابات جیت کر قائم ہوگئی ہے اس حکومت نے مشہور سوریوں یونیورسٹی کا نام تبدیل کرکے پیرس سوریوں اسلامک یونیورسٹی کردیا ہے ۔ خواتین نے مغربی جامے چھوڑ کر حجاب کو اپنانے پر مجبور ہیں ، یونیورسٹی کے غیر مسلم اساتذہ کو مذہب کی تبدیلی کا سامنا ہے۔ناول نگار اسلام فوبیا کا شکار نظر آتا ہے اور اس نے مسلمانوں کی بڑھتی تعداد اور مسلم ممالک میں پر تشدد واقعات سمیت پوری دنیا میں مسلم امت کی جانب سے کئی معاملات پر متحد ہونے اور اسلام کے نام پراسلام کو بد نام کرنے والے نام نہاد اسلام دشمن ایجنٹوں سے متاثر ہو کر ناول لکھا ہے۔یہ بات طے شدہ ہے کہ کسی بھی جنگ کیلئے پروپیگنڈا ایک اہمیت کاحامل شعبہ ہے تو دوسری جانب منفی پرپیگنڈوں سے بچانے کیلئے لکھاریوں ، شعرا ٗ کا کردار بڑا اہم بن جاتا ہے۔ انٹر نیٹ کے اس جدید دور میں اپنا مافی الضمیر کسی کو بھی ایک سینکڈ میں پہنچا دینا اب ناممکن نہیں رہا۔ مغرب ہمیشہ اسلا م کی قوت سے خوفزدہ رہا ہے کبھی اسلام کو تلوار کی طاقت سے پھیلنے کا سبب قرار دیا تو کبھی انتہا پسندی تو کبھی دہشت گردی کانام دیا ۔جنگ صرف بارود سے نہیں لڑی جاتی بلکہ کالم نگاروں ، شعرا اور ادیب دانشوربھی قلم و زبان کے ذریعے اپنا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ امت مسلمہ کے خلاف فرانس میں اس قسم کے تھیٹر آزادی رائے کہلائے جاتے ہیں لیکن مجھ سے کسی نے کہا کہ کبھی الفاظوں سے فریق مخالف کے جذبات کا بھی اندازہ لگا یا جائے کہ ا س کے عمل کسی کو کس قدر تکلیف پہنچ سکتی ہے میں اس بات کو من و عن تسلیم کرتا ہوں۔ چار دہائیوں قبل ہمارے معاشرے میں علما کا کردار مسجد اور محراب تک محدود رہا وہ دنیا ور دین کے سیاسی و اجتماعی نظام سء کماحقہ واقف نہیں تھے تاہم جس جس طرح معاشرہ بلوغت کی جانب رواں ہوا تو و ہی لو گ جو ٹی وی کے مخالف تھے ، چینلوں میں ایک جنازے کو نہ دکھائے جانے پر انتہائی جذباتی ہوگئے تھے ۔اسلام ایک امت واحدہ کا مکمل نظام ہے اور اس کی چھوٹی چھوٹی اینٹیں متفرق مسالک سے جڑیں ہوئی ہیں ۔ دور جدید میں ان مسائل میں خود کو الجھا بیٹھے ہیں اور ایک مخصوص راستے پر رواں ہیں کمیونزم ، کپٹل ازم کے افراط و تفریط ، اسلام کے اقتصادی نظام اور موجودہ دور میں اسلامی بینکاری نظام کی کامیابی اور سہولت سے تقریر و تحریر کے ذریعے عوام کو جس سہل انداز میں آگاہ کیا جاسکتا ہے اس کے لئے اجتماعی کوشش کی ضرورت ہے۔مغربی یلغار سے ہماری نوجوان نسل صرف منفی فواہد حاصل کر رہی ہے ۔مثبت فوائدکو اپنانے کے بجائے آزادی خیال اور حقوق فلاں فلاں میں تقلید ہمارے معاشرے کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔کیا ہم نے مستقبل میں فرانس کے ناول کی طرح کسی ثقافتی یلغار کو روکنے کیلئے مربوط حکمت عملی بنائی ہے تو اس کا جواب ہمیں نہیں میں ملے گا ۔ ہمارے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔لیکن روایتی رنگ میں کچھ ایسے ثقافتی رنگ ہمارے معاشرے میں مل جاتے ہیں جو ہمیں اس بات کو بھولنے نہیں دیتے کہ ثقافت ہمارے معاشرے کا اہم جزو ہے۔ بلوچستان میں گذشتہ دنوں آٹھ روز تک سبی میلہ میں پاکستانی صوبوں کے ثقافتی رنگ دیکھنے کو ملے صوبائی وزیر اعلی ثنا اﷲ زہری نے کہا کہ"ثقافت ہماری پہچان ہے ، ہزاروں سال پر محیط تاریخ کو زندہ رکھنے کے لئے ہمیں مل کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ۔یہاں بسنے والی تمام قومتیں اپنی بہادری ، مہمان نوازی ، چادر اور چار دیواری کے احترام اور خواتین کو اعلی مقام دینے میں مثبت روایات کی وجہ سے مشہور ہیں۔"سندھی ثقافت کے حوالے پاکستان کے سندھی باشندے اپنی ثقافتی ورثے کی حفاظت کے لئے پریشان نظر آتے ہیں۔سندھی ادیب دانشور کا شکوہ ہے کہ ہمارے بچے سندھی زبان جو ہزاروں سال قدیم ہے ، سے نا آشنا ہوتے جا رہے ہیں۔اسکولوں میں سندھی زبان کے ئے رکھے جانے والے اساتذہ خود سندھی سے نا آشنا ہیں۔رہی سہی کسر موبائل فون میں رومن طریقے سے لکھے جانے نے پوری کردی ہے۔ سندھی دانشوروں کا یہ نوحہ نظر انداز کئے جانے کے قابل نہیں ہے ، گذشتہ کئی سالوں سے سندھی ٹوپی اجرک ڈے منایا جانے لگا ہے جس سے سندھ کے عوام سند ھ کی ثقافت سے آگاہی ملنا شروع ہوگئی ہے، کسی دانشور کے لئے سندھی ثقافت کو جاننا کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن مغرب کی دلداہ نوجوان نسل کو اپنی ثقافت سے روشناس کرانا جوائے شیر لانے کے مترادف ہے۔سندھ فیسٹول بڑی پر شکوہ نداز میں منایا گیا ۔نوجوان نسل سندھ کے نئے اور جدید انداز سمجھ پائے اور انھیں اندازہ ہوا کہ ثقافت اپنی زمین پر کس قدر سکون مہیاکرتی ہے۔پنجاب بھی اپنی ایک ثقافت اور ایک پہچان رکھتی ہے ، مرزا صاحبہ ، میلہ چراغاں ، پنجابی لوک ، پنجابی کیلنڈر ، ہیر رانجھا ، سوہنی ماہی وال ، جدت بی بی ، جھمر ، رانی تاج، بھنگڑا اور برمی تقویم جیسے لوک ورثے کو سمجھنے میں مدد بھی دیتے ہیں لیکن مبالغہ آرائی کی بہتات کی وجہ سے ثقافت کا رنگ چھپ سا جاتا ہے۔پنجاب کے ثقافتی رنگ کو نمایاں کرنے کیلئے بھی پنجاب حکومت خاص اہتمام کرتی ہے اور عوام کی بڑی تعداد اس میں شرکت کرتی ہے اور میڈیا کے ذریعے ثقافت و روایات کا پیغام بھی آگے تک جا پہنچتا ہے ۔ ثقافت کے حوالے سے کسی بھی ایک قوم یا صوبے کا احاطہ کسی ایک کالم میں تو کیا کئی ضخیم کتابوں میں نہیں کیا جاسکتا۔ خبیرپختونخوا بھی صدیوں کی رویات و ثقافت کو لئے رواں دوں ہے لیکن یہاں خیبر پختونخوا کی حکومت دیگر صوبائی حکومتوں کے مقابلے میں ایک قدم آگے نظر آتی ہے۔پاکتان میں پہلی بار صوبائی سطح پر محکمہ ثقافت خیبر پختونخوا کے ادیبوں ، شاعروں اور ہنر مندوں کی حوصلہ افزائی اور قدر دانی کیلئے اقدامات اٹھا کر قابل تقلید تاریٰخی کارنامہ انجام دیا گیا ہے۔گذشتہ دنوں خیبر پختونخوا نے تاریخ میں پہلی مرتبہ 500فنکاروں کو اعزایہ دیا گیا انھیں محکمہ ثقافت کی جانب سے اعترافی سٹریفکیٹ تقسیم کئے گئے اور جہاں تک معلومات حاصل کیں ، میرٹ کا اس میں بہت زیادہ خیال رکھا گیا۔ کچھ افراد فہرست میں شمولیت سے رہ گئے ، لیکن یہ ایک عام سی بات ہے کہ ہزاروں لاکھوں لوگوں میں یکساں نمائندگی ملنا ممکن نہیں ۔ کئی ایسے فنکاروں کے بارے میں علم ہوا کہ ان کے گھر میں ایک وقت کا کھانا بھی بہت مشکل سے پکتا تھا کیونکہ اس نے خود کو اپنی روایتوں میں گم کردیا تھا اور عائلی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں رہا تھا ۔ اقربا پروری ، سمیت کئی الزامات لگانا بھی ہماری ثقافت کا جصہ بن گیا ہے۔ سندھ ، بلوچستان ، پنجاب کے یمحکمہ ثقافت کو بھی خیبر پختونخوا کی تقلید کرتے ہوئے نامور اور گم نام ثقافت کے امینوں کو تلاش کرکے منظر عام پر لانا چاہیے ۔ لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ کرپشن ، اقربا پروری اور پسندیدہ شخصیات کے تعین میں خود کو غیر جانب دار رکھنے کی ضرورت ہوگی ہماری علاقائی ثقافتیں ہماری پہچان ہیں کیونکہ یہ صدیوں سے چلی آ رہی ہیں ، اور اس کے حفاظت کا ذمہ حکومت وقت اور ارباب اختیار کی ذمے داری ہے۔ثقافتی ورثے صرف عمارتیں ہی نہیں ہوتی بلکہ ایک انسان اس کا فن بھی ہمارا ثقافتی ورثہ ہے اس کے تجربات اس کے فنون اس کی جدت اور اس کی محنت کو دنیا کو سامنے لانے کیلئے عملی طور پر اقدامات کی ضرورت ہے ۔ ہمیشہ دکھا گیا ہے کہ ثقافت کے امین اس قدر اھاہ گہرائیوں میں چلے جاتے ہیں کہ انھیں ڈھونڈنے کیلئے بڑی تگ و دو کنی پرتی ہے اگر ہم اپنی مثبت ثقافت کو زندہ رکھیں گے تو اپنی ماضی کی غلطیوں اور ان اقوام کی کامیابیوں سے بھی سبق حاصل کرکے ملک و قوم کو ترقی کی راہ میں دال سکتے ہیں، پاکستان میں بسنے والی تمام قومیتوں کی ایک الگ پہچان و ثقافت ہے ان کی روایتیں ہیں انھیں جاننے کی ضرورت بھی ہے ان کی حفاظت کی ہماری ذمے داری ہے۔ثقافت کے امین کی مالی اعانت بھی ہمارا فریضہ ہے ، خیبر پختونخواکی حکومت کی جانب کئے جانے والے اس اہم اقدام کو تمام صوبوں کو اپنانے کی ضرورت ہے۔یہ ایک مثبت عمل ہے۔ با حیثیت ہماری ثقافت اسلام ہے لیکن ایسے اس قدر سازشوں کا شکار بنا دیا گیا ہے اور اس کے خلاف اس قدر رکیک پروپیگنڈا کیا گیا ہے جیسے ہم اپنی علاقائی چقافت کو سامنے لا کر عالمی برادری کے سامنے رکھ سکتے ہیں کہ ہم امن و سلامتی کے امین ہیں ، ہماری صدیوں کی ثقافت میں تشدد و جدال اس پیمانے پر نہیں تھا کہ انسان کا انسانیت سے ہی ایمان اٹھ جائے۔ہمیں اپنے علاقائی رنگ کے منفی و مظبت تما پہلوؤں کو سامنے لانے ہوگا ، اگر ہم اس ناکام رہے تو سب مشن نامی ناول لکھے جاتے رہیں گے ، ماری تاریخ ہماری ثقافت مسخ ہوتی رہے گی اور ہم سوائے افسوس کرنے کے کچھ اور نہیں کرسکیں گے۔تو کیا بہتر نہیں ہے اسلام کے امن و ساامتی کے پیغام کو جہاں قلم کار ، شعرا اور ادیب اپنے موضعات کا حصہ بنائیں وہان دوسری جانب ہم علاقائی بنیادوں پر تمام قومیتوں کے ہنرمندوں کیحوصلہ افزائی بھی کریں تاکہ وہ کسی منفی سرگرمیوں میں مایوسیکا شکار ہوکر ملک و قوم کیلئے اپنی صلاحیتوں کا گلط استعمال کرے ۔ اگر اس کی تنقید بھی ہوتی ہے تو ایسے اپنی ثقات و راوایات سے محبت ہوتی ہے اور ہمیں ان کا مکملساتھ ساتھ دینا چاہیے بجائے تنقید کرنے ، سیاسی پوائنٹ اسکورنگ اور احسان جتائے بغیر اس شعبے میں سنجیدگی سے کام کی ضرورت ہے۔ثقافت کی امینوں کی ذمہ داری ارباب اختیار کے فرائض میں ہے۔ ثقافت کے امین کاخطاب یا معمولی اعزازیہ کسی فنکار کی محنت ، محبت اور اپنے فن سے چاہت کی جگہ نہیں لے سکتا لیکن ہمیں اعتراف تو کرنا چاہیے۔کم ازکم یہ تو کرسکتے ہیں ۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 657904 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.