میں مجرم ہوں بے غیرت نہیں

(ایک محب وطن مجرم کی کہانی)
 ترک اپنی آزادی کیلئے سارے یورپ سے جنگ کر رہے تھے ۔ محب وطن مصطفی کمال پاشا کے جھنڈے تلے جمع تھے۔ اس زمانے میں ایک ساحلی گاؤں میں قتل کا ایک واقعہ پیش آیا ۔ محمد ادالی نامی ایک بدمعاش ترک کو اس گاؤں کی ایک لڑکی سے محبت ہو گئی تھی ۔ لڑکی بھی اسے چاہنے لگی تھی اور آپس میں عہد ہو گیا تھا کہ جنگ کے بعد شادی کر لیں گے۔ محمد ادالی روزرات کو چھپ کر محبوبہ کے گھر جاتا اور خفیہ ملاقاتیں کرتا ۔ایک رات حسین نامی ایک چوکیدار نے محمد ادالی کو دیکھ لیا اور گاؤں بھر میں اس کی محبوبہ کو بدنام کر نے لگا نتیجتاً سب لوگ اس کی محبوبہ سے نفرت کرنے لگے ۔ اس کی سہیلیاں تک نے بات کرنا چھوڑ دیا ۔ محمد ادالی نے یہ دیکھا تو محبوبہ کے والدین کو اپنی شادی کا پیغام بھیج دیا جسے انہوں نے منظور کر لیا۔ لیکن منگنی ہو جانے پر بھی چوکیدار بدگوئی کرتا اور تہمتیں لگاتا رہا۔ ایک دن محمد ادالی کی محبوبہ چھوٹی چھوٹی لڑکیوں کو ساتھ لے کر باغوں میں سیر کرنے گئی اُن میں چوکیدار کی لڑکی بھی تھی۔ چوکیدار کو جب معلوم ہوا تو بہت غصہ آیا اور محمد ادالی کی محبوبہ کے گھر پہنچ گیا ۔ سڑک پر کھڑے ہو کر غلیظ گالیاں دینی شروع کر دیں ، اس پر محمد ادالی نے بندوق نکالی اور چوکیدار کو قتل کر دیا ۔ پولیس نے محمد ادالی کو گرفتار کر لیا ، کچھ عرصہ بعد عدالت نے پھانسی دینے کا حکم صادر کر دیا ، پھانسی والے دن کی رات مقتول چوکیدار کا غمزدہ بوڑھا باپ قید خانے میں آیا تاکہ اپنی آنکھوں سے قاتل کو پھانسی پاتا ہوا دیکھے ، اپنا دل ٹھنڈا کرے وہ اسی انتظار میں رات بھر جیلر کے دفتر میں بیٹھا رہا ۔ صبح تڑکے جیل کے دروازے پر ایک گاڑی آ کے رُکی اور جیلر کو خبر دی گئی کہ گاؤں کے حاکم سرکاری وکیل اور ڈاکٹر یہ تین آدمی آئے ہیں ۔ جیلر نے کھڑے ہو کر اپنی وردی درست کی اور آنے والوں کا خیر مقدم کیا ان لوگوں کا پھانسی کے وقت موجود ہونا ضروری تھا ۔ جیلر بہت پریشان نظر آ تا تھا ، حاکم نے پریشانی کی وجہ پوچھی تو جیلر نے جواب دیا میں بیس برس سے جیلر ہو ں لیکن آج سے پہلے میں نے کسی کو پھانسی نہیں دی آج مجھے اس بے رحمانہ فعل کیلئے مجبور ہونا پڑا ہے ۔ اُف پھانسی دینا کیسا مشکل کام ہے۔ بڑی مشکل کے بعد ایک آدمی ملا ہے جس نے بڑی رقم کے لالچ میں آ کر جلاد بننا منظور کیا ہے۔ ہم نے پھانسی جامع مسجد کے سامنے دینے کا پروگرام بنایا ہے تاکہ سب لوگ عبرت حاصل کریں۔

اس دوران حاکم کی نظر بوڑھے آدمی پر پڑی اس کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے ۔ جیلر نے بتایا کہ مقتول چوکیدار کا باپ ہے ۔ مقتول اس کا اکلوتا بیٹا تھا زندگی کا اکیلا سہارا پھر وہ کہنے لگا یہ آکر میرے قدموں میں گر پڑا اور رو رو کر درخواست کی کہ اسے قاتل کی صورت دیکھا دوں اور پھانسی اس کی آنکھوں کے سامنے دوں تاکہ اس کی دل میں ٹھنڈک پڑے۔ حاکم نے بوڑھے آدمی پر تر س کھایا تسلی دی اور کہا کہ گھر جا کر آرام کرے ایسا نہ ہو کہ بیمار ہو جائے۔ بوڑھے نے جواب دیا قتل کے دن سے آج تک مجھے نیند نہیں آئی ہر لمحہ پیارے بیٹے کی یاد ستاتی ہے ۔ کیا عجب کہ قاتل کو پھانسی پاتا دیکھ کر میرے بے چین دل کو قرار آجائے ۔ اس کے ساتھ ہی بوڑھے نے دھاڑیں ما ر مار کر رونا شروع کر دیا۔

حاکم نے ہمدردانہ لہجے میں کہا مطمئن رہو ابھی تھوڑی دیر میں انصاف کا ہاتھ قاتل سے تمہارا بدلہ لے گا تم بہت تھک گئے ہو کیوں نہ جا کر آرام کرو۔ بوڑھا آدمی جوش سے اُٹھ کھڑا ہوا ، آنسو صاف کیے اور کہنے لگا آپ سے میری درخواست ہے کہ مجھے قاتل کے گلے میں پھندا ڈالنے کی اجازت دیں ۔ کاش آپ کو میری بربادی کا حال معلوم ہوتا مقتول میرا اکلوتا لڑکا تھا اور اپنے پیچھے سات ننھے ننھے بچے چھوڑ گیا ۔ میری زندگی کا بھی وہی سہارا تھا۔ بڑھاپے نے مجھے بالکل بے کار کر دیا ہے نہ کھیتی ہو سکتی ہے نہ کچھ اور ۔یہ سوچ کر دل ٹکڑے ہوتا ہے کہ بچوں کو کیسے پالوں گا ؟ بوڑھا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔

پھانسی کا وقت قریب تھا ۔ جیلر اُٹھا تاکہ قاتل کو باہر لائے۔ اُسی وقت موٹر کی آواز آئی کتوں نے بھونکنا شروع کر دیا۔ سب لوگوں کو تعجب ہوا کہ موٹر کیسی آر ہی ہے۔ گاؤں میں کسی کے پاس موٹر نہیں تھی ، زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ سنتری نے آ کر خبر دی کہ ایک یورپی آفیسر موٹر پر آیا ہے اور فوراً حاکم سے ملنا چاہتا ہے ۔ حاکم کو سخت حیرت ہوئی وہ کھڑا ہو گیا ۔ یورپی آفیسر؟ حاکم نے جیل کے پھاٹک پر آ کے دیکھا کہ ایک اطالوی کیپٹن باہر موجود ہے اور اس کے ساتھ مترجم بھی ہے۔ آپس میں تعارف ہوا پھر حاکم اُسے لے کر جیلر کے کمرے میں لوٹ آیا ۔ مترجم نے حاکم سے کہا ہم پہلے آپ کے گھر گئے تھے وہاں معلوم ہوا کہ آپ جیل میں ہیں یہ آفیسر فاتح اطالوی فوج کے سپہ سالار جنرل گلیلیو کا خصوصی نمائندہ ہے اور جنرل کے حکم سے بہت ضروری کام سے آیا ہے۔ آپ کی عدالت نے ایک شخص محمد ادالی کیلئے پھانسی کی سزا تجویز کی ہے کیونکہ اس نے ایک ترک چوکیدار کو قتل کر ڈالا تھا بعد میں اطلاع ملی کہ اس شخص کو آج ہی پھانسی دی جانے والی ہے چنانچہ ہمیں سپہ سالار نے حکم دیا کہ فوراً روانہ ہو جائیں اور آپ سے مطالبہ کریں کہ وہ قیدی ہمارے حوالے کر دیا جائے کیونکہ وہ جزیرہ ترما کا باشندہ ہے اور جزیرہ ترما پر اٹلی کا قبضہ ہو چکا ہے لہذا اب وہ شخص ترک نہیں بلکہ اطالوی ہے ۔ اس کے بھائی کمال آفندی نے اطالوی حکومت سے درخواست کی ہے کہ اس معاملے میں مداخلت کرے ۔ حکومت نے اس کی درخواست قبول کر لی ہے کیونکہ وہ اٹلی کا دوست اور خیر خواہ ہے آپ خوب جانتے ہیں کہ ترک حکومت یورپی سلطنت کی رعایا کو سزا نہیں دے سکتی لہذا ترک عدالت نے اس شخص کے بارے میں جو فیصلہ کیا ہے وہ خلاف قانون ہونے کی وجہ سے باطل ہے ۔ براہ مہربانی آپ اسے ہمارے حوالے کر دیں تاکہ اسے اُس کے وطن بھیج دیا جائے تمام حاضرین کا فیوز اُڑ گیا (سناٹے میں آگئے) اور حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے ترک حاکم نے مترجم سے کہا تمہاری تقریر کا خلاصہ یہ ہے کہ تم اس قاتل کو ہم سے طلب کرتے ہو جسے ہماری عدالت نے مقدمہ چلانے کے بعد پھانسی کی سزا دی ہے یہی بات ہے ناں؟ مترجم نے فخر سے اقرار کیا تو حاکم نے کہا ۔ لیکن کسی سلطنت کو یہ حق حاصل نہیں کہ ہم سے ایک ایسے شخص کو طلب کرے جس کا جرم ثابت ہو چکا ہے۔ جسے عدالت سزا دے چکی ہے ۔ یہ تو سخت ظلم اور توہین ہے ، تم کس حق سے یہ مطالبہ کر رہے ہو؟ کس قوت کے زور پر مجرم کو ہم سے لے سکتے ہو؟ میں اُسے تمہارے حوالے نہیں کرونگا۔ مترجم نے حاکم کا جواب افسر کو بتادیا ۔ افسر نے کہا اگر اٹلی کو حق نہ ہوتا تو سپہ سالار ہر گز یہ مطالبہ نہ کرتا ۔ رہ گیا قوت کا سوال تو اٹلی کی قوت کا حال سب کو معلوم ہے۔ اٹلی اپنا یہ مطالبہ زبردستی منوا سکتا ہے اگر جی چاہے تو باہر نکل کر دیکھئے ۔ اطالوی جنگی جہاز سامنے لنگر انداز ہے اور اس کی توپوں کے دہانے اسی گاؤں کی طرف ہیں ۔ اگر آپ انکار کریں گے تو جہاز گاؤں برباد کر ڈالے گا اور اطالوی فوج اس قیدی کو چھین لے جائے گی ، اس وقت ذلت بہت زیادہ ہو گی اور مفت میں پوری آبادی تباہ ہو جائے گی ۔ ترک حاکم کا منہ سرخ ہو گیا اس نے جواب دیا میں مجرم تمہارے حوالے نہیں کرونگا اگر ضرورت ہوئی تو جنگ کرونگا۔ جنگی جہاز مجھے مرعوب نہیں کرسکتا۔ میں اطالوی فوج سے نہیں ڈرتا افسر کو معلوم ہونا چاہئے کہ میں اٹلی کا مطالبہ قبول کرنے سے انکار کرتا ہوں ، اگر اٹلی قیدی کو چھڑوانا چاہتا ہے تو ہمارے گورنر سے بات کرے اس کا حکم لا کر مجھے دکھائے میں اپنے حکام بالا کے سوا کسی کا حکم نہیں مان سکتا۔

اطالوی افسر تمسخر سے مسکرایا پھر اس نے اپنا اٹیچی کیس کھولا اور ایک بڑا سا لفافہ نکال کر حاکم کی طرف بڑھادیا۔ حاکم نے بڑی برہمی سے لفافہ کھولا اس میں وزیر داخلہ کا حکم تھا کہ قیدی محمد ادالی کو افسر کے حوالے کردو ۔ حکم دیکھ کر تمام لوگوں کا یہ حال ہو گیا کہ کاٹو تو بد ن میں لہو نہیں۔ سب بہت شرمندہ اور ناراض ہو ئے ۔ حاکم نے دانت پیس کر کہا اُف یہ کیسی سخت ذلت ہے؟ کاش زمین پھٹ جائے اور مجھے نگل لے ، ڈاکٹر نے کہا ہماری حکومت کیسی بے غیرت بن گئی ہے اسے ملک اور عزت کا ذرا بھی پاس نہیں رہا۔ جیلر نے سرد آہ بھر کر کہا افسوس ہماری بد نصیبی یہ کہ ایسی ذلیل حکومت دیکھنے کیلئے زندہ رہے ۔ اطالوی افسر نے اُکتا کر مترجم کے ذریعے کہا جلد فیصلہ کرو میں زیادہ دیر انتظار نہیں کر سکتا ۔ انکار ہے تو میں جاتا ہوں۔ تیس منٹ کے اندر جنگی جہاز گولا باری شروع کر دے گا اور اطالوی فوج آ کر قیدی کو زبردستی چھین لے جائے گی ۔ ترک افسروں نے ایک دفعہ پھر ایک دوسرے کو دیکھا ۔ گاؤں کے حاکم نے افسردگی سے کہا اب ہم کیا کر سکتے ہیں ۔ وزیر داخلہ کا حکم آ چکا ہے۔ ہم قیدی کو حوالے کرنے پر مجبور ہیں۔ مقتول کا بوڑھا باپ بیقرار ہو گیا اور حاکم سے کہنے لگا حضور کیا ہوا؟ خدارا مجھے تو بتا دیجئے آپ لوگ یہ کیا باتیں کر رہیں ہیں؟ جو کچھ میرے کانوں نے سنا ہے اس پر مجھے یقین نہیں آتا۔ حاکم نے شرم سے نگاہیں نیچی کر کے جواب دیا بھائی ہوا کیا؟ بے غیرتی ، بے حیائی ، ذلت ، رسوائی ، تیرے لخت جگر کا قاتل اطالوی رعایا بن چکا ہے ۔ اطالوی حکومت نے ترک وزارت داخلہ سے مطالبہ کیا کہ قاتل کو اس کے حوالے کر دیا جائے اور وزارت نے یہ توہین آمیز مطالبہ قبول کر لیا ۔ ساحل پر اطالوی جنگی جہاز توپیں تانے کھڑا ہے ، انکار کی صورت میں گاؤں پر گولا باری کریگا اور اطالوی فوج آ کر قاتل کو ہم سے چھین لے جائے گی۔ بوڑھے نے روتے ہوئے اُکھڑی آواز میں کہا : اﷲ کیلئے مجھ پر ترس کھاؤ اور دل لگی نہ کرو کیا یہ مناسب ہے کہ میرے جیسے شکستہ دل بوڑھے کے ساتھ مذاق کیا جائے؟ حضور مجھ پر رحم کیجئے ۔ حاکم نے غصے میں جواب دیا ، دیوانے ہو تم؟ ہم بھلا تم سے مذاق کیوں کرنے لگے؟ دیکھتے نہیں کہ غیرت و شرم سے خود ہمارا کیا حال ہو رہا ہے؟ ہم کیا کریں ہماری حکومت ذلیل ہو چکی ہے۔ بوڑھے نے جوش میں آ کرکہاناممکن ہماری سلطنت صدیوں سے روس سے لڑتی رہی ہے اس نے کبھی کسی کے سامنے سر نہیں جھکایا ایک مرتبہ کچھ روسیوں نے ہمارے ملک میں آ کر پناہ لی تھی تب ہماری حکومت نے روس سے ہولناک جنگ منظور کر لی مگر ان پناہ گزینوں کو حوالے نہیں کیا تھا۔ میں کیوں یقین کروں کہ اب ہماری حکومت اتنی ذلیل ہو سکتی ہے کہ ایک قاتل کو کسی اجنبی حکومت کے حوالے کر دے ۔

حاکم نے بوڑھے کی تقریر روک کر کہا بھائی بس چپ رہو ۔ ہمارے زخموں پر نمک نہ چھڑکو خدا اس حکومت کو غارت کر دے اس نے پوری قوم کو ذلیل کر ڈالا ہے۔ بوڑھے کے سوکھے رخساروں پر آنسو بہنے لگے ، جیلر کو بڑا ترس آیا اس نے دوڑ کر اپنے رومال سے اس کے آنسو پونچھے اور کہا ہم نہیں چاہتے کہ تمہیں زیادہ دُکھی کریں تم نیک آدمی ، صاف دل ہو مگر ان سیاسی اسباب سے ناواقف ہو جنہوں نے ہمیں اس ذلت تک پہنچا دیا ۔ غداروزیر اجنبیوں کی خوشامد میں لگے ہوئے ہیں تاکہ وزارت کی کرسیوں پر بیٹھے رہ سکیں ۔ ان غدداروں نے ترک قوم کو ذلیل کر دیا ہے اب تم اپنے گھر جاؤ اور خدا سے دعا کرو کہ ملک کو اس ذلیل حکومت سے نجات دے۔

بوڑھے کا چہرہ غصے سے لال ہو گیا اور اس نے زور سے میز پر گھونسا مارا اور چلا گیا۔ یہ میرا حق ہے ، میرا بیٹا قتل ہوا ہے ، میں اس کے خون سے ہرگز دست بردار نہیں ہو نگا۔ اگر اٹلی کا آدمی مارا گیا ہوتا تو کیا وہ معاف کر دیتا ؟ کیا ایک کے بدلے ہزاروں کا خون نہ بہا دیتا؟ میں انصاف کا طالب ہوں ، میرا مطالبہ یہ ہے کہ کتاب اﷲ کی رو سے فیصلہ ہو جائے کیا تم خدا کو ناخوش کر کے اٹلی کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہو؟ اگر اٹلی کے ڈر سے قصاص نہیں لے سکتے تو میں اپنے ہاتھ سے قصاص لے لونگا۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ بڑھاپے نے مجھے اس قابل بھی نہیں چھوڑا کہ قوم کی عزت و آبرو بچا سکوں یقین کرو اس وقت میرا دل شیر کا دل بن گیا ہے اور میری رگوں میں جوانی کا خون جوش مارنے لگا ہے میں ایک پرانا سپاہی بھی ہوں ۔ روس ، سربیا اور یونان کی جنگوں میں اپنا خون بہا چکا ہوں ، میں نے اپنے پیارے وطن کی خاطر اپنا خون اس لیے نہیں بہایا تھا کہ مرتے وقت اسے ذلیل ہوتے ہوئے دیکھوں۔ میں آج بھی وہی سپاہی ہوں جو ایک لمحے کے لئے بھی قوم کی ذلت برداشت نہیں کر سکتا۔

بوڑھا جوش سے بالکل دیوانہ ہو رہا تھا وہ اطالوی افسر پر ٹوٹ پڑا ۔ اگر لوگ پکڑنہ لیتے تو وہ ضرور اسے مارتا ، بوڑھا بار بار گھونسا دکھاتا اور چلاتا ۔ تو کون ہے ، چلا جا یہاں سے۔

حاکم نے کھڑے ہو کر بوڑھے کا ہاتھ تھام کر خوشامدانہ انداز میں کہا : بھائی ہم پر ترس کھاؤ ، تمہیں سیاسی حالات کی خبر نہیں تم نہیں جانتے اس وقت ہماری قوم کی حالت کیسی نازک ہو رہی ہے۔

بوڑھا رونے لگا اگر تم انصاف نہیں کرو گے تو قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ کے حضور تمہارا دامن پکڑوں گا اور اپنے شہید لڑکے کا خون آلود کرتا دکھا کر چلاؤں گا ۔ انصاف ۔ انصاف

اطالوی افسر اپنی توہین پر سخت خفا ہوا مگر گاؤں کے حاکم نے اسے بتایا کہ مجرم نے اسی کا لڑکا قتل کیا ہے اور قاتل کے اس طرح رہا ہوجانے پر یہ جوش میں آگیا ہے۔ حاکم نے جیلر سے پوچھا کیا مجرم کو خبر ہو گئی ہے کہ وہ آج پھانسی پائے گا؟ اس نے سوچا اگر خبر نہ ہوئی ہو تو اچھا ہے ورنہ چھوٹنے پر وہ حکومت کا مذاق اُڑائے گا کہ اس سلسلے میں کچھ نہ کر سکی۔

جیلر نے جواب دیا ۔ جی ہاں اسے خبر ہو گئی ہے رات کو بعض دشمن جیل کی دیوار کے پاس آ کر کھڑے ہوئے اور چلا کر کہنے لگے محمد ادالی ! مبارک ہو ، کل تجھے پھانسی دی جائے گی اور ہمارے دلوں میں ٹھنڈک پڑے گی۔ حاکم نے افسوس سے سوال کیا یہ معلوم ہونے کے بعد مجرم کی کیا حالت ہوئی؟ جیلر نے جواب دیا وہ بڑا سخت دل ہے پھانسی کی خبر سن کر ذر ا بھی پریشان نہیں ہوا بلکہ چلانے والوں کو اس نے بری بری گالیاں دیں اور ان پر پتھر پھینکے ۔ چار سپاہیوں نے اسے پکڑ کر بیڑیاں پہنانا چاہئیں مگر اس نے سب کو مارا ۔ ایک کا دانت توڑ ڈالا ، دوسرے کا سر زخمی کر دیا ، ایک کو ایسا مارا کہ وہ بے ہوش ہو گیا حاکم نے افسوس سے ہاتھ مل کر کہا بڑا سرکش ہے اب جیل سے نکلے گا اور حکومت پر خوب ہنسے گا لیکن کیا کیا جائے خدا کو یہی منظور تھا۔ مقتول کے بوڑھے باپ کو یقین ہو گیا کہ قاتل ضرور رہا ہو جائے گا وہ کھڑا ہو گیا اس نے کمر کی پیٹی ڈھیلی کر لی ، پیٹی میں چھری چھپی ہوئی تھی ، حاکم نے دیکھا کہ بوڑھا دانت پیس رہا ہے وہ اس کے قریب گیا اور کہنے لگا بھائی ہم کیا کریں تقدیر کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا لیکن نا اُمید نہ ہوں خدا عادل ہے وہ ضرور تمہارے بیٹے کا انتقام لے گا۔ اب تم گھر جاؤ ، قاتل سپاہیوں کے جھرمٹ میں اپنی بیڑیاں کھڑکھڑاتا اور گالیاں دیتا چلا رہا تھا اسے حاکم کے سامنے کھڑا کیا گیا۔ وہ طعنہ زنی سے کہنے لگا آخر مجھے اتنا سویرے اُٹھا کر کیوں تکلیف دی گئی؟ اگر آپ سب کو کسی نیک کام کیلئے اتنا سویرے بلایا جاتا تو کبھی نہ آتے۔ مگر جلاد ی کا فرض ادا کرنے کیلئے ہنسی خوشی دوڑے چلے آئے لیکن مجھے کوئی پروا نہیں ہے کیونکہ میں موت سے نہیں ڈرتا میں اپنی منگیتر کی آبرو پر مر رہا ہوں ۔ شریف آدمی ایسی موت پر رنجیدہ نہیں، خوش ہوتے ہیں۔ حاکم اس کی بکواس پر خفا ہوا اور بولا خاموش رہو۔قاتل کو غصہ آ گیا اس نے حاکم پر حملہ کرنا چاہا مگر بے بس تھا ، ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھیں ، دانت پیس کر چلایا میرے ہاتھ کھلے ہوتے تو تمہیں میری توہین کرنے کی جرأت نہ ہوتی۔ آہ ! خوش ہو جاؤ محمد ادالی ابھی پھانسی پر لٹکا ہوگا اس کے بعد تم لوگ چین سے سو سکو گے ۔ سارا گاؤں ہنسے گا لیکن بے چاری میری منگیتر روئے گی ۔ وہ ضرور غم سے مر جائے گی افسوس اس کی جوانی برباد ہو گئی۔

حاکم نے سنجیدگی سے کہا فضول نہ بکو غور سے سنو عدالت نے تمہارے لیے پھانسی کی سزا تجویز کی تھی ۔ ہم آج اس لیے آئے تھے کہ تمہیں پھانسی پر لٹکا دیں لیکن شیطان نے ہاتھ بڑھا کر تمہیں بچا لیا میں ابھی تمہیں رہا کر رہا ہوں مگر یاد رکھو خدا تم سے تمہارے گناہ کا بدلہ ضرور لے گا۔

قاتل زور سے قہقہہ مار کر ہنسا ماشااﷲ! آپ مجھے بے وقوف بنانا چاہتے ہیں ۔ شرم نہیں آتی مرتے ہوئے آدمی کا مذاق اُڑاتے ہو؟ حاکم غصے سے دانت پیستا رہا پھر اس نے حکم دیا کہ قاتل کی ہتھکڑیا ں اور بیڑیاں کھول دی جائیں ۔ قاتل نے اپنے ہاتھ پاؤں کھلے دیکھے تو حیران ہو گیا۔ وہ کبھی حاکم کو دیکھتا ، کبھی جیلر کو اور کبھی کسی دوسرے کو اس کی سمجھ میں نہیں آ یا کہ ماجرا کیا ہے؟ وہ چلایا یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں؟ کیا میں واقعی چھوڑ دیا گیا ہوں؟ وہ حاکم سے مخاطب ہوا ، جناب ! یہ کیا ماجرا ہے؟ آپ مجھ سے دل لگی تو نہیں کر رہے ہیں۔ حاکم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے وہ دانت پیس کر کہنے لگا جا تجھے رہائی مل گئی۔

قاتل دو چار قدم چلا اس نے اپنے ہاتھ پاؤں غور سے دیکھے۔ اب تک وہ شک میں تھا کہ کہیں حالت خواب میں نہ ہو۔ حاکم کہنے لگا حضور ! مجھے معاف کر دیجئے ۔ میری منہ سے سخت الفاظ نکل گئے تھے میں بالکل نا اُمید تھا اس لیے گستاخی کر گیا ۔ آہ زندگی کیسی میٹھی چیز ہے اس وقت سے پہلے مجھے زندگی کبھی اتنی پیاری معلوم نہیں ہوئی ۔ آپ مجھے معاف کر دیجئے ۔ گواہ رہیئے کہ میں اپنے تمام گناہوں اور برائیوں سے توبہ کرتا ہوں ۔ آپ انشااﷲ جلد سن لیں گے کہ میں مجاہدین وطن کے ساتھ دشمنان وطن سے جنگ کر رہا ہوں۔ میں شہادت ہی کی موت مرونگا اور جب تک جیوؤں گا غازی ہو کر جیوؤں گا۔ خدا ہمارے مقدس وطن کا نگہبان ہو اور یہ سلطنت برقرار رہے ۔ حاکم نے فوراً جواب دیا اس سلطنت کو دعا نہ دو کیونکہ تم اس سلطنت کی رعایا نہیں ہو اس سلطنت کو دعا دو جس کی تم رعایا ہو۔

قاتل کی تیوری چڑھ گئی وہ غصے سے کہنے لگا یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں کیا میں ترک نہیں ہوں کیا میں ترک حکومت کی رعایا نہیں ہوں؟

حاکم نے پوچھا تو کس جگہ کا رہنے والا ہے؟

قاتل نے جواب دیاجزیرہ ترماکا۔

جزیرہ ترما پر اٹلی کا قبضہ ہو چکا ہے اب وہ ترکی سلطنت میں نہیں ہے اگر تو ترک رعایا ہوتا تو اس وقت پھانسی لٹکا ہوتا ۔ اٹلی نے تیری جان بچائی ہے لہذا اٹلی کا شکریہ ادا کر حاکم نے اطالوی افسر کی طرف اشارہ کیا۔ قاتل کچھ سمجھ نہ سکا خدارا مجھے بتا ئیے معاملہ کیا ہے؟ مجھے تو کچھ خبر نہیں میں کس حکومت کی رعایا ہوں؟ یہ اجنبی افسر کون ہے؟ حاکم چپ رہا۔ اطالوی افسر کا مترجم آگے بڑھا ، اس نے فخر سے کہنا شروع کر دیا کہ حاکم نے سچ کہا ہے جزیرے میں تیرا بھائی اٹلی کی خدمت کر رہا ہے اس نے اطالوی حکومت سے درخواست کی ہے کہ تیرے معاملے میں مداخلت کرے کیونکہ اب تو اطالوی رعایا ہے ۔ وہ درخواست حکومت نے منظور کر لی اور ترکی حکومت سے تیری رہائی کا مطالبہ کیا۔ باہر نکل کر دیکھو جنگی جہاز اسی لیے آیا ہے کہ اگر تجھے رہا نہ کیا گیا تو گاؤں پر گولا باری کی جائے اور اطالوی فوج آ کر تجھے زبردستی چھڑا لے جائے لہذا نعرہ بلند کر اٹلی زندہ باد۔

قاتل کا منہ سرخ ہو گیا وہ دیوانہ وار چلایا تو کون ہے؟ مترجم نے اکڑ کر جواب دیا میں جنرل گلیلیو کا مترجم ہوں ان کی فوجیں اس وقت قونیا برقابض ہیں قاتل سب کچھ سمجھ گیا تھا اس نے غصے اور جوش سے اپنے ہاتھ ہلائے اور مترجم سے کہنے لگا کان کھول کر میری بات سنو جو کچھ میں کہوں اچھی طرح یاد کر لو ۔ اپنے سپہ سالار سے جا کر ایک ایک حرف دہرادینا بے شک میں مجرم ہوں ، قاتل ہوں ، ذلیل ہوں، دنیا میں کوئی برائی نہیں جو میں نہ کر چکا ہوں ۔ ہر ایک سے لڑنا جھگڑنا ، گالیاں بکنا ، ڈاکے مارنا ، میرا کام تھا پھر میں نے ایک پاک بھائی کا خون بہایا اور خدا کی نظر میں مردود بن گیا لیکن اس سب کے باوجود یاد رہے کہ میں ترک ہوں ، میرا ضمیر ہر گز منظور نہیں کر سکتا کہ ترکوں کی حکومت ذلیل ہو ۔ ترک قانون نے مجھے پھانسی کی سزا دی ہے یہ قانون میرے ملک کا قانون ہے میں اس کی اطاعت کرونگا ۔ میں اس طرح زندگی قبول کرنے سے انکار کرتا ہوں کہ میرا وطن میری قوم ذلیل ہو جائے۔ میں ترک ہوں اور ترک کا بیٹا، میری غیرت یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ کوئی دوسری سلطنت میرے معاملے میں دخل دے اور میری حکومت کو ذلیل کر کے میری جان بچائے تم جا کر اپنے جنرل سے کہہ دینا کہ و ہ مجرم پڑھا لکھا نہیں ہے کہ خوش نما لفظ بول سکے ۔ سیاست سے بھی جاہل ہے لیکن دو لفظ جانتا ہے آزادی، خود مختاری کیا تم سمجھتے ہو میں اپنے ذلیل غدار بے ایمان بھائی کی سفارش مان لونگا اور جزیرے لوٹ جاؤنگا؟ یہ کبھی نہیں ہو گا ، جزیرے میں میرا نہ کوئی بھائی ہے ، نہ ماں ہے ۔ یہ حاکم میرا باپ ہے یہ جیلر میرا بھائی ہے اور ترکی کی یہ مقدس سر زمین میری ماں ہے ، قاتل گاؤں کے حاکم کی طرف مڑا۔ حاکم کے ہاتھ میں ابھی تک وزیر داخلہ کا حکم تھا جس کی رو سے قاتل کی رہائی ہوئی تھی ۔ قاتل نے حاکم سے پوچھا یہ آپ کے ہاتھ میں کیا ہے؟ حاکم نے جواب دیا یہی وہ حکم ہے جس نے تمہیں رہائی دلائی ہے ۔ قاتل نے یکایک کاغذ اس کے ہاتھ سے چھین لیا اور پھاڑ کر اپنے پیروں میں روندا ڈالا ۔ سب حیران رہ گئے ، قاتل جوش سے چلایا میں رہائی قبول کرنے سے انکار کرتا ہوں مجھے ہتھکڑیاں ، بیڑیاں پہنا ؤ اور لے جا کر پھانسی پر لٹکا دو لعنت ہے اگر میں اپنے ملک و قوم کو ذلیل کرا کے زندہ رہوں ۔ وہ حاکم کا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگا تو اس کے آنسو نکل آئے۔ حکم دیجئے کہ مجھے فوراً پھانسی دے دی جائے اگر آپ انکار کرینگے اور مجھے چھوڑ دیں گے تو میں پھر قتل و غارت گری شروع کر دونگا ۔ آپ کو شرم آنی چاہئے کہ عدالت کا فیصلہ غاصب اٹلی کے ڈر سے ٹھکرا رہے ہیں ۔ ابھی حکم دیجئے کہ مجھے بیڑیوں میں جکڑ دیا جائے ورنہ میں یہیں دو چار کا خون کر ڈالوں گا۔ حاکم کو اس کا جوش دیکھ کر اندیشہ ہو ا کہ کہیں وہ کسی کو مار نہ ڈالے۔ لہذا اس نے حکم دیا کہ اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال دی جائیں ۔ یہاں تک کہ اس کا جوش کم ہوجائے۔ قاتل کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنا دی گئیں وہ دونوں گھٹنوں پر جھک گیا اس نے ہاتھ اُٹھائے اور ہتھکڑیاں چوم کر چلایا یہ ہتھکڑیاں ، بیڑیاں اس سے کہیں بہتر ہیں کہ مجھے کسی دشمن ملک کے ذریعے زندگی حاصل ہو زندہ باد ترکی!

اس اطالوی افسر کو قہرآلود نظر سے دیکھ کر کہا چلا جا یہاں سے میں تیرا غلام نہیں ہوں ۔ مقتول کا باب تمام ماجرا دیکھ رہا تھا اور فرط تاثر سے زار و قطار رو رہا تھا وہ آگے بڑھا ۔ اس نے کمر سے خنجر نکال لیا اور قاتل سے کہنے لگا محمد ادالی ! سن اگر تونے رہائی قبول کرلی ہوتی اور اس افسر کے ساتھ جانے لگتا تو یہ خنجر تیرے سینے میں پیوست ہو جاتا اور تو خاک و خون میں لوٹ رہا ہوتا ! تو نے میرے بیٹے کو مارا ہے اور میرے دل کے ٹکڑے کیے ہیں ۔ میں تیرے خون کا پیاسا تھا لیکن اس وقت تو نے مقدس وطن کی عزت بچائی ہے اور قوم کا سر اونچا کر دیا ہے ۔ انتقام کی آگ میرے دل میں بالکل بجھ گئی ہے۔ اب میری بات سن خبردار انکار نہ کرنا میرے ساتھ چل مجھے اپنا سمجھ میں تجھے اپنا بیٹا سمجھوں گا اور اپنے سینے سے لگا ؤں گا بے شک تو بہادر ہے۔ میں بھی بہادر ہوں ۔ آج سے تو میرا فرزند ہے ، وہ حاکم کی طرف متوجہ ہوا ، میں نے اپنے بیٹے کا خون معاف کر دیا اسے چھوڑ دو ، اب یہ میرا بیٹا ہے۔
-----ختم شدـ-----
Amir Shahzad Awan
About the Author: Amir Shahzad Awan Read More Articles by Amir Shahzad Awan: 2 Articles with 2812 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.