کرپشن کے خلاف معاشرتی تحریک؟

 کرپشن کے خلاف طوفان برپا تھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئینی سربراہ جناب ممنون حسین نے بھی اس میں حصہ ملا کر ثوابِ دارین حاصل کرنے کی سعی فرما لی ہے۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ صدر صاحب کے تخیل کو قبول فرمائے، عمل کی توفیق وہ جسے چاہے دے سکتا ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ صدر نے ایک تقریب سے خطا ب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ــ’’ ․․․ دہشت گردی کی طرح کرپشن نے بھی ملک کو بے انتہا نقصان پہنچایا ہے، اس سے نہ صرف قومی وسائل کا ضیاع ہوتا ہے، بلکہ معاشرہ بے چینی اور ہیجان کا شکار بھی ہوتاہے۔ کرپشن کی ایک وجہ تو لالچ ہے، اس کے علاوہ اخلاقی اور روحانی تربیت کی کمی بھی اس کی بنیاد بنتی ہے۔ اب کرپشن کے خلاف معاشرتی سطح پر بھر پور تحریک چلانے کی ضرورت ہے ․․․‘‘۔ صدر مملکت کے فرمودات قابلِ غور ہیں، مگر پریشانی یہ ہے کہ غور کرنے والا کوئی نہیں ۔ موصوف کی باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکمرانوں کو اس بات کا مکمل احساس ہے کہ کرپشن ہو رہی ہے اور یہ بھی کہ یہ ملک وقوم کے لئے نقصان دہ ہے، اتنی ہی نقصان دہ ہے جس قدر دہشت گردی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دہشت گردی کے خلاف جس طرح آپریشن ضربِ عضب کارفرما ہے، اسی قسم کی بیماری کے لئے اسی طرح کا آپریشن درکار ہے۔ اگر صدر صاحب کے بقول دہشت گردی اور کرپشن برابر نقصان دہ ہیں تو پھر انہوں نے ان کا علاج کیوں مختلف بتایا ہے، ایک مرض کے علاج کے لئے آپریشن اور وہ بھی ایسا کہ جس میں فوج پوری قوت کے ساتھ کوشاں ہے، دہشت گردوں کی سرکوبی کے لئے بہت سے جوان بھی جامِ شہادت نوش کر چکے ہیں، مگر دوسری طرف کرپشن کے خلاف آپریشن کی بجائے معاشرتی سطح پر تحریک چلانے کی بات کی جارہی ہے۔ مرض ایک سا ہے ، تشخیص بھی ایک سی ہے ، علاج بھی ایک سا ہی ہونا چاہیے۔

بھرپور’’ معاشرتی تحریک‘‘ کی وضاحت جناب صدر نے نہیں کی، قوم کے لئے آسانی ہو جاتی، وہ کس طرح اس تحریک کا حصہ بنے اور کونسی خدمت سرانجام دے کہ اس کی تحریک کے نتیجے میں کرپشن کا خاتمہ بالخیر ہو جائے۔ ممکن ہے اب حکومتی کارندے ان کے فرمان کی روشنی میں اس تحریک کے خال و خد قوم کے سامنے لائیں، معلوم ہو، کہ تحریک کون چلائے گا، اس کا لائحہ عمل کیا ہوگا، اس کی ترتیب کیا ہوگی، آیا وہ گلی محلے سے شروع ہوگی یا اس کا آغاز اسلام آباد کے صدارتی محل سے ہوگا، اس کی ابتدا تخت لاہور سے ہوگی، یا کسی دور دراز علاقے سے شروعات ہوں گی۔ پھر اس تحریک میں کوئی قائد بھی ہوگا یا ہر حکومتی عہدیدار اپنے اپنے مقام پر اس کی قیادت کرے گا، اور عوام کو کرپشن کے نقصانات سے آگاہ کرے گا۔ معاشرتی تحریک سے یہ مراد بھی لی جاسکتی ہے کہ پورا معاشرہ ہی اپنے طور پر اس تحریک کا علمبردار اور سرخیل ہو۔ اگر پورا معاشرہ ہی کرپشن کے خلاف محرک کے طور پر سامنے آجائے تو یہ پریشانی ہوگی کہ آخر وہ کس کے خلاف تحریک چلا رہے ہیں۔ ویسے تو آجکل بھی یہی کچھ ہو رہا ہے، تمام سیاستدان اس بات پر نہ صرف یکسو ہیں بلکہ تحریکیں چلارہے ہیں کہ کرپشن کا خاتمہ ہونا چاہیے، سب کا احتساب ہونا چاہیے، اکثر نے خود کو احتساب کے لئے پیش بھی کردیا ہے، مگر افسوس کہ کسی نے ان کی اس پیشکش کو شرفِ قبولیت نہیں بخشا۔

صدرِ مملکت نے کرپشن کی ایک یہ وجہ بھی بیان کی ہے کہ اخلاقی اور روحانی تربیت کی کمی ہے۔ صدر صاحب کا کام مرض اور اس کی وجہ بتانا تھا، سو انہوں نے بتا دیا، کرپشن کرنے والوں کی روحانی اور اخلاقی تربیت کون کرے گا؟ یہ فیصلہ قوم خود کرے۔ قوم کو بھی کچھ سوچنا چاہیے اور کوئی فیصلے کرنے چاہیئں، ہر کام حکمرانوں پر ہی نہ چھوڑتے جائیں، حکمران بے چارے کیا کچھ کریں، انہوں نے انتظامی کام بھی کرنے ہوتے ہیں۔ بہتر تو یہی تھا کہ تربیت کا کام صدر خود سنبھال لیتے، کچھ فراغت میں کمی آتی، کچھ مصروفیت میسر آتی۔ کرپشن کے خلاف تحریکوں کی تو اس وقت کوئی کمی نہیں، جماعت اسلامی کے سراج الحق کچھ عرصہ سے یہ تحریک چلائے ہوئے ہیں، عمران خان نے بھی اس کا اعلان کردیا ہے، عوام بھی یہی کچھ چاہتے ہیں، مگر جو لوگ کرپشن کر رہے ہیں وہ کسی تحریک کا حصہ نہیں بن رہے، نہ بن سکتے ہیں۔ مقتدر طبقات کرپشن کرتے رہیں اور بے اختیار معاشرہ تحریک چلاتا رہے، نتیجہ سامنے ہے۔
 
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 427861 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.