چاند پر بستی

یورپ چاند پر انسانوں کے رہنے اور کام کرنے کے لئے بستیاں بسانے کے مشن پر گامزن ہے۔ یورپی خلائی ایجنسی’’ ای ایس اے‘‘ اس پر دن رات کام کررہی ہے۔ امریکیوں کی اگلی منزل مریخ ہے۔ امریکی خلائی ایجنسی ناسا اس پر تیزی سے کام میں مصروف ہے۔ پانامہ لیکس نے امریکہ ،بھارت یا اسرائیل کو سرکاری سطح پر کوئی نقصان نہیں پہنچایا ہے۔ بھارت میں گاندھی فیملی کے قریبی اور فلم سٹار امیتابھ بچن کا نام ہے۔ اسرائیل کی سیکروں کمپنیا اور شیئر ہو لڈرز کا نام بھی ان میں شامل ہے۔ امریکہ کی کوئی آف شور کمپنی پانامہ میں نہیں بنی۔

روسی صدر پوٹن کا الزام ہے کہ پانامہ لیکس کے پیچھے امریکہ اور سی آئی اے ہے۔ جو دنیا میں افراتفری پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اس خلفشار اور سیاسی بھگدڑ سے امریکہ اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ روسی صدر اور بعض دیگر کی بات پر اعتبار کیا جائے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اس سازش میں امریکی ہاتھ بھی ہو سکتا ہے۔ اگر سی آئی اے کے ساتھ راء اور موساد کو جوڑ دیا جائے تو پتہ چلے گا کہ پانامہ میں دنیا کے مختلف ممالک کی اہم شخصیات نے اپنی کمپنیاں قائم کیں۔ جن میں پاکستانی وزیراعظم کے بیٹوں کا نام بھی لیا جا رہا ہے۔ جبکہ وزیراعظم پر براہ راست الزام نہیں لگا۔ دنیا میں جن حکمرانوں پر براہ راست الزامات نہیں لگے ، انہوں نے استعفیٰ بھی نہیں دیا۔ پاکستان میں ان الزامات کی تشہیر کے مقاصد بھی اب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں رہے ۔

آج ہر کوئی سوال کرتا ہے، اب کیا ہو گا۔ ملکی صورتحال کیا رنگ لے گی۔ نواز شریف مستعفی ہوں گے؟؟ وغیرہ۔ اب بھی وہی ہو گا جو پہلے ہوتا رہا ہے۔ کوئی نیا چمتکار نہیں ہو سکتا۔ جیسی مخلوق ، ویسے ہی حکمران۔ لیکن عجیب بات ہے کہ جب ملک میں معاشی صورتحال بہتری کی طرف گامزن ہو نے لگتی ہے۔ اسی وقت کوئی نیا سیاسی بحران پیدا کرنے کی کوشش شروع ہو جاتی ہے۔مختلف ادوار میں مختلف لوگ استعمال ہوئے۔آج پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر کام ہو رہاہے۔ 46ارب ڈالرکا یہ منصوبہ جب مکمل ہو گا تو اس ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔ ملک میں ہزاروں میگاواٹ کے بجلی پروجیکٹ زیر تکمیل ہیں۔ ان میں پن بجلی پیدا کرنے والے منصوبوں کی تعداد زیادہ ہے۔ توانائی بحران کی وجہ سے بھی ملک میں لا تعداد کمپنیاں بند ہو گئیں۔ دہشتگردی اور جرائم نے لا تعداد کمپنیاں کراچی میں بند کیں۔ توانائی کے بحران ختم ہونے اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے بعد یہاں معاشی انقلاب آ سکتا ہے۔ یہ ملک بہت زرخیزہے۔ یہاں انسانی اور قدرتی وسائل کی بہتات ہے۔ ہمارے ہزاروں لوگ ان غیر ملکی کمپنیوں کے لئے آؤٹ سورسنگ کر رہے ہیں۔جو ممالک چاند پر بسنے میں دلچسپی لیتے ہیں۔ مغربی کمپنیاں اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لئے پاکستان کے لیبر پر بھی انحصار کر رہی ہیں۔

بول میڈیا گروپ بھی اسی آؤٹ سورسنگ والی ملکی کمپنی ایگزیکٹ کی پیداوار ہے۔ آؤٹ سورسنگ سے ہماری لاعلمی بھی اس گروپ کی کامیابی میں رکاوٹ کی ایک بڑی وجہ بنی ہے۔ یہ پروپگنڈہ کیا گیا کہ بول میڈیا کرپشن یا کسی بڑے انٹرنیشنل فراڈ کی پیداوار ہے۔ جو لوگ اپنے مد مقابل کسی کو برداشت نہیں کرسکتے۔ یا جو دوسروں کے منہ سے نوالہ چھین لینا چاہتے ہیں۔یا جو اقتدار اور کرسی کے لئے تڑپتے ہیں۔ وہی بے تاب ہیں۔ انہیں موقع کی تلاش ہے۔ جب بھی اس ٹنل میں کوئی جگنو دمکتا ہے تو انہیں روشنی کی کرن نظر آ جاتی ہے۔ وہ سر دھڑ کی بازی لگانا شروع کر دیتے ہیں۔

ملک میں بجلی کے پروجیکٹوں پر تیزی سے کام جاری ہے۔ موٹر ویز اور میٹروز بن رہی ہیں۔ 46ارب ڈالرز (تقریباً46کھرب روپے)کا پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کے مکمل ہونے تک ہمیں روزگار کے مواقع ملیں گے۔ تعمیراتی اور پیداواری کاموں میں لا تعداد عناصر ایک ساتھ متحرک ہوتے ہیں۔ اگر آپ کوئی عمارت ، سڑک یا پل تعمیر کر رہے ہیں تو ان کاموں کے آغاز سے تکمیل تک کے لئے سروے کے بعدجیالوجسٹ، انجینئرز، بلڈرز، کنٹریکٹرز، ریت، سیمنٹ، بجری، سریا، شٹرنگ، ویلڈر، مستری، ترکھان جیسے لا تعداد عوامل کام شروع کرتے ہیں۔ محنت کش ہی تعمیرات سے فائدہ حاصل کرتا ہے۔ منصوبے کی تکمیل کے بعد کے ثمرات تا دیر حاصل کئے جاتے ہیں۔

ہو کوئی چاہتا ہے یہاں صنعتیں ، ملیں، فیکٹریاں ، کارخانے قائم ہوں۔ ان میں پیداواری یونٹ لگیں۔ ملک میں ضرورت کی ہر یہاں ہی تیار ہو۔ بلکہ پیداوار اتنی بڑھے کہ ہم اس سے زر مبادلہ کما سکیں۔ ہماری مصنوعات کی دنیا میں مانگ ہو۔ ہماری زرعی پیداوار میں اضافہ ہو۔ کیا یہ سب بنیادی ڈھانچے اور توانائی کی قلت پر قابو پائے بغیر ممکن بن سکتا ہے۔ جب کہ ان دو بنیادی وجوہات کے باعث پہلے سے قائم کارخانے بند ہو گئے ہیں۔ یہ تاثر عام کیا گیا ہے کہ ان تعمیراتی کاموں میں شریف برادران کا سریا لگ رہا ہے۔ اس کے سوا کوئی فائدہ میں نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس الزام میں کچھ صداقت بھی ہو۔ مگر یہ الزامات سیاسی ہیں۔ ہمارے ہاں بد نیتی اور تعصب پر مبنی سیاست کو عروج ملنا سب کے لئے خطرناک ہے۔ لوگ سیاستدانوں کے آگے پیچھے چکر لگانے پر اس وجہ سے مجبور نہیں کہ ان کی کوئی عقیدت یا احترام یا بزرگی و انسانیت سے لوگ متاثر ہیں بلکہ یہ سب مفادات کے لئے ہے۔ لوگوں کی مجبوریاں ہیں۔ ورنہ اس قماش کی سیاست کو کوئی گھاس بھی نہ ڈالتا۔ مگر اب تعلیم یافتہ طبقہ کی بیداری اور اس کے شعور پر انحصار ہے۔ کہ وہ اپنا مستقبل کیسا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس ملک کی خوشحالی، مضبوطی اور استحکام کے لئے ان کا کیا کردار ہو گا۔ وہ ملک کے لئے کیا کریں گے۔ ہمیں بھی چاند اور سیاروں پر بسنے کی آرزو ہے۔ مگر یہ خواب ان دھرنوں، کرپشن، الزامات، نعروں، جشن بازی، دولت کی لوٹ مار ، میرٹ کی پامالی، تعمیر و ترقی روکنے سے پورانہیں ہو گا۔ ملک دشمن یہاں افراتفری پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ملک کو غیر مستحکم کرنا، دہشت گردی، عدم برداشت کا کلچر، تہذیب و تمدن کا جنازہ نکالنا ان کا مقصد ہے۔ چاند اور مریخ پر وہ بستیاں قائم کرنے کے مشن پر نکل چکے ہیں اور ہم آپس میں لڑ رہے ہیں۔03009568439پر ایس ایم ایس/واٹس ایپ۔ میرے ابو پاک آرمی میں تھے۔ اب پرائیویٹ سکول میں استاد ہیں ۔مگر ہم تنگ دستی کے شکار ہیں۔ اس وجہ سے میں بارہویں جماعت سے آگے تعلیم جاری نہیں رکھ سکتا۔ کوئی گھر میں بیمار ہو جائے تو فاقوں تک نوبت آ جاتی ہے۔ مجھے کسی باعزت نوکری کی تلاش ہے۔ آپ سے تعاون کی درخواست ہے۔ ثاقب سفیر،چوکیاں اعوان آباد، بلوچ آزاد کشمیر ۔۔میں پولیس ملازم ہوں۔ یہاں تمام افسران دیگر اضلاع سے آئے ہیں۔ جو غریب عوام کو تنگ کر رہے ہیں۔ ہمارے محکمہ کے اندر بھی مختلف جرائم ہو رہے ہیں۔ جس سے معاشرہ خراب ہو رہا ہے۔ وزیراعلیٰ ، آئی جی صاحب سے اس طرف توجہ دینے کی اپیل ہے۔ فیصل خان، کے پی کے پولیس،ضلع تورغر۔

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 483667 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More