میرے بچپن کی عید․․․․!

․․․․․جو افراد چالیس سے اوپر ہوں وہ اپنی یادوں کو کئی حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں یعنی پہلے دس سال،گیارہ سے بیس یا پچیس سال پھر اس سے آگے پینتیس سال تک اور اس کے بعد چالیس اور پھر اس سے آ گے ․․․․․․․․․! ویسے تو ہرانسان کے اندر ایک بچہ ہمیشہ چھپا رہتا ہے لیکن ظاہرہے بچپن سے مراد ابتدائی بارہ سال کی عیدین ہیں․․․․․

یوں تو جناب ہماری عید بھی اپنے دورکے حساب سے ہوتی تھیں۔سادہ ،خاموش اور عمومی سی!روزہ خواہ ایک نہ رکھا ہو مگر بے چینی سے عید کا انتظار، روز ے گننا اور کپڑے الماری ؍بکس سے نکال کر جسم سے لگا کرناپنااور اگر نہ بنے ہوں تو ضد اور اصراروغیرہ وغیرہ․․․․․پھرعید کے دن نئے کپڑے پہن کر دوستوں ، سہیلیوں کے ساتھ مل کر ایک دوسرے کے گھر جا کر سویاں کھانا ( بھائی کے ساتھ ان کے موٹے دوست ضیاء کے گھر کپڑوں پر سویاں گرا لینا اور پھر بھائی کی ڈانٹ ، ان کی امی کا پیار سے ہماری فراک صاف کرنا․․ آ ئندہ سویوں کو ہاتھ نہ لگانے کاہماراعزم․․․ایک دم یاد آ گیا!) ،عیدی وصولنے کا مقابلہ اورپھر اسے چٹھے مٹھے میں اڑانا․․․․چشمہ ،گھڑی ہار بندے، لاٹری، کھلونے․․․․یہ سب تو ہر دور کے بچے کرتے ہیں البتہ زمانے کے لحاظ سے تر جیحات بدلتی ہیں․․․․ لیکن ہر ایک کے کچھ منفرد سے حالات بھی ہوتے ہیں۔

جیسا کہ رمضان والے بلاگ میں بتا چکے ہیں کہ ہم اسٹاف ٹاؤن میں رہتے تھے! شہر سے بارہ میل پرے․․․تو جنگل میں منگل کے مترادف عید کے دن یونین بلڈنگ ( جمنازیم ،پوسٹ آفس کے پیچھے بڑی سی عمارت جہاں تقریبات منعقد کی جاتی تھیں․․) میں خصوصی فنکشن کا اہتمام ہوتا تھاجس کا انتظار ہم بچے پورا سال کرتے تھے۔ عید کی صبح (ظاہرہے بعد نماز عید) ایک ٹرمنل بس چلتی تھی جو اسٹاف ٹاؤن کے ہرکونے سے(جہاں تک یاد دا شت کام کرتی ہے بلالحاظ گریڈ اور عہدہ ہوتی تھی ) سب کو یونین بلڈنگ پہچاتی تھی۔ فرانسیسی طرز کی اس عمارت کی خاص بات درمیان میں چڑھائی(be slo )کے ساتھ داخلہ تھا( اگر چہ اطراف میں پیچدار سیڑھیاں بھی تھیں )چڑھائی کے دونوں طرف سمینٹ کے تالاب ( pools ) تھے جو کبھی خشک اور کبھی پانی سے بھرے ہوتے تھے جن کے بیچ میں فوارے نصب تھے!

مرکزی ہال کی چھتیں بہت اونچی تھیں جن میں کبوتر کے خاندان آ باد تھے۔

تقریب کا فارمٹ تو بالکل یاد نہیں آ رہا ! شایدکچھ خطاب اور تقریریں ہوتی ہوں گی ! کچھ شاعری اور ہلکا پھلکا ہوگا! چٹکلے؍ لطیفے اور خاکے وغیرہ

( خاکوں کی نقل ہم بعد میں ا تارا کرتے تھے) مگر اس کی خاص بات دلچسپ میجک شو ہوتا تھا جس کے کمالات اتنے عشروں بعد بھی یاد ہیں! ایک منظر جو آج بھی ذہن میں تروتازہ ہے وائس چانسلر صاحب اسٹیج کی سیڑھیوں سے اتررہے تھے تو ان سے ہاتھ ملایا تھا !

تواضع لنچ باکس سے ہوتی جس میں کیلے اور مٹھائی کے ساتھ آلو کے چپس بھی ہوتے تھے۔ کولڈ ڈرنک سال میں ایک دفعہ ہی پینے کو ملتی تھی اور چپس بھی ( اب کی طرح نہیں کہ ہر وقت چپس اور کوک ! ) غبارے اور ٹافیاں بھی ملتی تھی( ان سے منسلک بہت سے جھگڑے یاد آ رہے ہیں جو ہوتے تھے ! ) ۔ پارک میں اپنے پسندیدہ جھولوں پر بیٹھنے پر بھی کافی بحث ہوتی تھی ۔ ․․․․․․․ابا اپنے دوستوں، اساتذہ اور بزرگوں سے ملوانے لے جایا کرتے تھے۔( آج بھی شہید ملت روڈ سے گزرتے ہوئے نظریں وہ بنگلہ تلاش کرتی ہیں جہاں ڈاکٹراشتیاق حسین قریشی صاحب سے ملاقات کو جاتے تو ہم ان کے لان میں کھیلا کرتے تھے !) یوں پہلا ہنگامہ خیز دن اختتام ہوتا تو تھک کر سو جاتے!

اگلے دن نانا،نانی کے گھرجانا طے تھاچنانچہ ناشتے کے بعدتیارہوتے اور اسٹاپ کی طرف رواں دواں ہوتے کہ اسٹاف بس کے ذریعے جا سکیں۔ اس معاملے میں عمومی طور پر بھی مگرعید میں تو خاص طور پر بس کے اڈے یا اولین اسٹاپ پر پہنچنے کی فکرہوتی کہ اچھی سی سیٹ مل سکے کیونکہ اکثر یت نانی، دادی کے گھر جا رہی ہوتی تھی۔اسٹاف ٹاؤن کی حدود سے باہر آتے ہی بس کے دروازے لاک کر دیے جاتے اورپہلا اسٹاپ جب جیل روڈ کا آتا جہاں کھولے جاتے ( اس وقت حسن اسکوائر بھی نہیں تھا ! ذرا سو چیں دنیا کیا تھی اس وقت!)

ہم گرو مندر پر اتر تے ( بنوری ٹاؤن ) سڑک کراس کر کے کارنر پر عبد الکریم نیوز ایجنسی سے پسندیدہ رسالے خریدتے( حالانکہ کئی رسالے گھر میں ابا نے لگوا رکھے تھے مگر اپنی عیدی کا ایک با شعورمصرف سمجھ میں یہی آتا تھا ! ) ۔وہاں سے تھوڑا آگے پیدل چل کر تانگے میں بیٹھ کر نانی کے گھر پہنچتے تو رشتہ داروں کا پورا قبیلہ موجود ہو تا ۔ انواع و اقسام کے ماموؤں ( امی کے کزنز ) سے عیدی بٹورتے اور اڑاتے! یہاں تو دکانیں بھی ہوتی تھیں ۔ پسندیدہ برفی ،پیڑے کھاتے․․․․․فیملی ڈاکٹر بھی قریب ہی موجود تھے لہذا ہاضمہ بگڑ نے کی صو رت میں رابطہ آ سان ہوتا ۔کبھی کبھاررات کو قیام بھی کر لیتے اور یہ اس وقت ہوتا جب دادی بھی ہمارے ساتھ ہوتیں ۔ اگر دادی نہ آ تیں تو بھائی طارق رو تا رہتا کہ دادی اکیلی ہیں گھر میں اگر گد ھا گھس آ یا تو وہ کیا کریں گی ؟؟؟ ایک عیدپر ناناکے گھر دروازے رنگے جا رہے تھے اور سارے بچے ان سے چپکنے میں جبکہ بڑے ان کو باز رکھنے کی کوشش میں مصروف عمل رہے۔ اس عید پر نانی نے سب لڑ کیوں کے لیے گلابی مخمل کے سوٹ پر سفید بروکیڈ لگا کر خوبصورت فراک تیار کروایا تھا جو ہم سب کو بہت پسند تھا مگر پھر ہم بڑے ہوگئے اور وہ سوٹ بیکار ہو گیا ․․․․

عزیز قارئین ! یہ توتھیں ہماری بچپن کی عید کی یادیں ! یوں تو بلاگ مکمل ہو گیا ہے مگر کچھ فلیش مناظر آپ کو بتاناچاہیں گے․․․․․

․․ رمضان سے بہت پہلے امی نانی کے ساتھ مل کر خریداری سے فارغ ہوجاتیں کیونکہ پھر نانی مصروف ہو جاتی تھیں اس کے علاوہ صاحبہ خالہ جو امی کی سلائی میں مدد کرتی تھیں وہ بھی آخر میں اپنی سلائیاں کرتی تھیں بلکہ مجھے ان کا آ خری جملہ اس حوالے سے یا د ہے جو انہوں نے چاند دیکھ کر کہا تھا․․․․․اوہ مجھے ابھی پاجا مہ سینا ہے ۔۔۔( شوہر ) کا! ․․․ دوسرا منظر : وہ عیدکی صبح جلدی جلدی سلائی مکمل کر رہی ہیں اور ایک دم چیخ ماری کہ کچے دھاگے کے بجائے ترپائی والا دھاگہ کھول دیا ․․․ساری محنت اکا رت! ․․․تیسرا منظر : وہ ماش کی دال امی کو دے کر جارہی ہیں کہ ماسی سے پسوا لیجیے گا مجھے کل کی دعوت کے لیے دہی بڑے بنا نے ہیں اور ہم ماسی کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ وہ جلدی سے ان کا کام کر دے ․․․وہ بھی تو ہمارا اتنا خیال رکھتی تھیں رمضان کی دوپہر ہمارے کھانے پینے کا انتظام کر کے امی کو ریلیکس رکھتیں ․․․․ایسی زندہ دل شخصیت کا یوں گزر جانا کتنا تکلیف دہ رہا ہوگا! امی اکثر یاد کرتی تھیں کہ ایک دفعہ ہم نے بیس رمضان تک خریداری نہ کی تو وہ بہت متفکر تھیں کہ بھابھی بچوں کے کپڑے کیوں نہیں آئے اب تک؟ اس زمانے میں سب ہی ایک دوسرے کا خیال کرتے تھے۔ چاند رات کو اپنی اور ہماری مشترکہ دیوار سے اپی ہمارا دوپٹہ دے رہی ہیں جو مون بھائی رنگوا کر لائے ہیں ۔ بچوں کے سوٹ میں دوپٹہ نہیں تھا مگر ہمارے شوق اور فر مائش کو دیکھتے ہوئے بنوا لائے۔ اﷲ سب کو جنتوں میں خوش رکھے!
یادوں کی چلمن سے جھانکتا عید کے کپڑوں کے حوالے سے حماقت بھرا ذاتی واقعہ بڑایادگار ہے۔ اباجان کے پی ایچ ڈی کے لیے جر منی جانے کے بعد پہلی عید پڑی ۔ میں اس وقت چوتھی یا شاید پانچویں میں تھی۔ رمضان سے بہت پہلے امی ہم سب کے کپڑے خرید کر اور اپنی کزن سے سلوا کر لائیں تو میں نے اسے رد کر دیا کہ مجھے نہ یہ رنگ پسند ہے اور نہ کپڑا! اور مجھے اب فراک بھی نہیں پہننی بلکہ جمپر سلوا کر دیں ! حالانکہ میں کوئی ضدی بچی بھی نہیں تھی اور نہ کپڑے میں کوئی خرابی یا کمی تھی! مکمل اور بہترین لباس تھا لیکن عمر کے اس حصے میں آکر مجھے اپنی اس بے جا ضدکاجواز کچھ یوں سمجھ آ تا ہے کہ ابا کی کمی ہم سب بہن بھائی محسوس کررہے تھے کہ وہ ہمیں کس طرح کپڑے دلوانے لے جاتے تھے اور پھر فا لودہ کھلواتے تھے! تو ہر بچہ ایک مختلف انداز میں اپنا رد عمل ظا ہر کر رہا تھا۔بے چاری امی! اس وقت نہ اتنے وسائل تھے اور نہ رواج کہ کئی جوڑے بنائے جائیں چنانچہ امی میرے آ نسو دیکھ کر بھی خا موش تھیں لیکن بڑے بھائی نے امی کو سمجھا یا ( وہ کوئی بہت بڑے نہیں ساتویں ؍ آ ٹھویں میں ہی ہوں گے مگر ابا کی بہن بھائیوں کا خیال رکھنے کی ہدایت نے ان کو مجبور کیا ہو شاید ! ) کہ امی آ پ اس کے لیے دوسرا جوڑا بنادیں ․․․․اور انہوں نے اس طرح انتظام کیا کہ پاجا مہ وہی ہو مگر شرٹ نئی بنا کر خوبصورت دوپٹہ خرید دیا۔ بہت ہی اسٹائلش سی شرٹ سلوا ئی جس کو پہن کر میں بہت خوش ہوئی کیونکہ سب اس کی تعریف کر رہے تھے ۔ زندگی میں پہلی بار اسمارٹ کا لفظ بھی سننے کو ملا ! آہ !یہ اسمارٹ نیس تو میری ماں کی تھی جس نے اتنی محنت کی اور نانی سے ڈانٹ بھی سنی کہ بچوں کے کہنے چلوگی تم ؟؟بچپن میں جس لباس کو پاکر ہم بہت خوش تھے اب اس کو دیکھ ہنسی اور شرم آ تی ہے !! آہ! انسان اتنا ہی سطحی ہے !
دوسری طرف ابا کی فر مائش کہ سب بچے عید کے لباس میں تصویر بھجوائیں․ اسٹوڈیو جاکر تصویر کھنچوانے کا رواج تھا مگر بھائی کو فوٹو گرافی کا شوق چڑ ھا تو انہوں نے بیس روپے کا کیمرہ خریدا تھا جس سے لی گئی تصاویر ہمارے بچپن کو ہماری آ نکھوں کے سامنے لاکھڑا کرتی ہے! اور عید کارڈکا ذکرتورہی گیا! وہ بھی ایک اندازتھا! ہم نے زندگی کاپہلا عید کارڈبھیجاتو اس پر مکہ مدینہ کی تصویر اور برسوں بعد جب اگلی نسل سے وصول کیا تو اس پر بھی وہی تصویر !!!
کتنے اچھے تھے میرے بچپن کے دن ․․․!!!

Farhat Tahir
About the Author: Farhat Tahir Read More Articles by Farhat Tahir: 72 Articles with 74178 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.