روشنی کے مینار ہیں اولیاءَاللہ

محترم قارئین کرام السلامُ علیکم
کسی دوست نے مجھ سے سوال کیا تھا کہ عشرت بھائی آپ نیک صحبت کی بُہت زیادہ ترغیب دیتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ جبکہ اُنکا خیال تھا کہ تنہائی میں جو مزہ عبادت کا ہے وہ محفل میں مُیسر نہیں اور خُدا عزوجل تو انسان کی شہہ رگ سے بھی زیادہ نزدیک ہے پھر کسی نیک یا بد کا قُرب کیا فائدہ دے سکتا ہے یا کیا نقصان پُہنچا سکتا ہے؟ لہٰذا آج میں نے سوچا کیوں نہ آپ سے آج اسی موضوع پر اپنے خیالات شئیر کروں۔

مسلم اور بُخاری شریف کی اِک حدیثِ پاک کا مفہوم ہے، نبی کریم رؤف الرحیم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان عالیشان ہے کہ اچھے اور بُرے مصاحب کی مثال مُشک اُٹھانے والے، اور بھٹی جھونکنے والی جیسی ہے۔ کستوری اُٹھانے والا تُمہیں(خُوشبو) دیگا یا اُس سے خریدو گے یا تُمہیں اُس سے عمدہ خُوشبو آئے گی۔ (جبکہ) بھٹی جھونکنے والا یا تُمہارے کپڑے جلائے گا یا تُمہیں اُس سے ناگوار بدبو آئے گی۔

اس حدیث پاک میں پیارے آقا علیہ السلام نے اچھی اور بُری صحبت کی جانب اشارہ فرما کر نہائت خوبصورت طریقے سے اُمت کو مِثال دے کر سمجھایا ہے کہ صحبت ضرور اثر دِکھاتی ہے چاہے وہ اثر اچھا ہو یا کہ بُرا۔ اسی لئے سلف صالحین، اولیائے کاملین کے دور مُبارک کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانان عالم اس صحبت کی برکت حاصل کرنے کیلئے دور دراز ملکوں کا سفر جو کہ اُس زمانے میں بڑا دُشوار سفر ہوا کرتا تھا اختیار کیا کرتے تھے۔

اور اولیائے کرام کو چونکہ اللہ رَبُ العالمین نے اپنے دوستوں میں شُمار کیا ہے اس لئے اِن اولیاءَ اللہ میں اللہ کریم کی صفات کا اثر بھی ضرور پایا جاتا ہے کیونکہ دوست اپنے دوست کی صُحبت کا اثر ضرور لیتا ہے اس لئے اگر اللہ کریم عالم ہے تو اُس کے دوست جاہل نہیں ہوسکتے چاہے وہ علم مدرسہ سے حاصل کریں یا اُنہیں اللہ کریم کی جانب سے علم لُدنی کی دولت سے نوازا جائے۔ اگر اللہ کریم کی صفت کریم، رحمٰن، اور رحیم، ہے تو کیسے ممکن ہے کہ جِسے رَبَّ العالمین اپنا دوست بنائے وہ ظالم ہو انسانوں سے سختی کا معاملہ فرمائے۔

اور جب اللہ کریم کی صفت سخی ہے تو یہ بھی ممکن نہیں کہ وہ کسی بخیل کو اپنا دوست بنائے آپ چاہیں سیرت اولیاءَاللہ کی ہزاروں کُتب پڑھ لیں اُن میں آپکو ایک بھی جاہل، شقیُ القلب، اور بخیل، نہیں مِلے گا اور جس میں یہ مذموم صفات ہونگی وہ اللہ کریم کا دوست ہر گز ہرگز نہیں ہوگا جِسے اللہ کریم اپنی دوستی کے لئے چُن لیتا ہے وہ عام نہیں رہتا خاص ہوجاتا ہے پھر اللہ کریم اپنے اِن دوستوں کے سینوں کو حکمت او دانائی سے بھر دیتا ہے اور اس حکمت اور دانائی کی قدر عالم سے پوچھو تو علامہ جلال الدین رومی جیسی عظیم الشان علمی اور نابغہ روزگار ہستی پُکار اُٹھی کہ
مولوی ہر گِز نہ شُد مولائے رُوم
تا غلامِ شمس تبریزی نہ شُد

یعنی کوئی عالم تب تک عالم نہیں ہوسکتا جب تک کسی شمس تبریزی (رحمتہ اللہ علیہ) جیسے قلندر باصفا ولی کا غلام نہ بن جائے اور آپ حضرت جلال الدین رومی علیہ الرحمہ کی زندگی کا جب مُطالعہ کریں گے تو دیکھیں گے کہ جب تک حضرت جلال الدین رومی علیہ الرحمہ نے حضرت شمس تبریز (رحمتہ اللہ علیہ) کی غُلامی کا پٹہ اپنی گردن میں نہیں ڈالا تھا کوئی خاص مرتبہ نہ پاسکے تھے اور بعدِ غلامی یہ حال کہ آپکی مِثال کا عالم پورے رُوم میں نظر نہیں آتا۔
بَقولِ شاعر
جب تک بِکا نہ تھا تو کوئی پوچھتا نہ تھا
تُم نے خرید کے مجھے انمول کردیا

وَمَنۡ يُّضۡلِلۡ فَلَنۡ تَجِدَ لَهٗ وَلِيًّا مُّرۡشِدًا۔ سورہ کہف آیت نمبر 17
اس آیت کریمہ میں بھی اللہ کریم ارشاد فرمارہا ہے کہ( اور جسے وہ گمراہ ٹھہرا دے تو آپ اس کے لئے کوئی ولی مرشد (یعنی راہ دکھانے والا مددگار) نہیں پائیں گے۔

لیجئے اسکا فیصلہ بھی قُرآن مجید فرقان حمید نے فرما دیا کہ جسے اللہ کریم ہدایت دینا چاہے تو اُسکو رہنما مُرشد عطا فرما دیتا ہے اور جسے گُمراہ کرنا چاہے تو اُسے اپنے محبوب بندوں سے اولیائے کاملین سے، مُرشد سے محروم کردیتا ہے۔

لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ ایسے اولیائے کاملین کے دامنوں سے خُود کو وابستہ کرلیں کہ جنکے قلوب نُور اِلٰہی سے جگمگا رہے ہوں جنکے اجسام ہر لحظہ انوار اِلٰہی سے مُستفید ہورہے ہوں جنکے سینے حکمت و دانائی سے بھرے ہوں اور یقین جانیے جب آپ اِن کے در سے واقعی قلب اور ذہن سے وابستہ ہوجائیں گے تو یہ دُنیاوی تکالیف آپکو ہیچ نظر آنے لگے گی، شیطانی مکر وفریب کے جال آپ پر اثر انداز نہ ہوسکیں گے قلب کی سختی رفو ہوجائیگی، اوہام و ابہام دفع ہوجائیں گے کہ جنکے لئے رَبِّ لم یزل ارشاد فرما رہا ہے یہ میرے دوست ہیں اِنکے قدم میری رضا کے واسطے اُٹھتے ہیں اِنکا بولنا میرا بولنا ہے اُن کی زُبان سے کوئی بات بِنّا مقصد کے نہیں نکلتی یہ وہ رِجالُ العالم ہیں کہ اِنکی صحبت سے ہماری زندگی بھی سنور جاتی ہے اور آخرت کیلئے زادِ راہ بھی اِکھٹا ہوتا رہتا ہے۔ زندگی کا مقصد بھی حاصل ہوجاتا ہے، اور آخرت کی سمجھ بھی۔

یہ وہ لوگ ہیں کہ جِس سے یہ خُوش ہوجائیں رَبِّ کریم اُس سے خُوش ہوجائے، اور یہ جس سے ناراض ہوجائیں تو وہ خُدا کی پکڑ سے نہیں بچ پاتا، یہی وہ لوگ ہیں جِن کی بابت مدنی مُصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِرشاد نے فرمایا مفہوم، مومن کی فراست سے بچو کہ اللہ کہ نُور سے دیکھتا ہے اگر صرف اِس حدیث پاک پر ہی کلام کرلیا جائے تو مجھ سا کم علم بھی صفحات کے صفحات بھر دے۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے دُشمنوں کیلئے اللہ کریم اعلان جنگ فرما دے۔

چُناچہ یہ حدیث قدسی جو بُخاری میں موجود ہے پیش کررہا ہوں، ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے میں اُس سے اعلانِ جنگ کرتا ہوں۔

اور میرا بندہ ایسی کسی چیز کے ذریعے میرا قرب نہیں پاتا جو مجھے فرائض سے زیادہ محبوب ہو اور میرا بندہ نفلی عبادات کے ذریعے برابر میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں (اللہ تعالیٰ) اس (بندے) کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔

اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اسے ضرور عطا کرتا ہوں اور اگر وہ میری پناہ مانگتا ہے تو میں ضرور اسے پناہ دیتا ہوں۔ میں نے جو کام کرنا ہوتا ہے اس میں کبھی اس طرح متردد نہیں ہوتا جیسے بندۂ مومن کی جان لینے میں ہوتا ہوں۔ اسے موت پسند نہیں اور مجھے اس کی تکلیف پسند نہیں۔
البخاري في الصحيح، کتاب : الرقاق، باب التواضع 5 / 2384

محترم قارئین کرام کس قدر عجیب بات ہے کہ دُنیاوی بادشاہوں کے جو دوست ہوں تو اُنکی اہمیت تسلیم کی جائے اُنکی ناز برداری کی جائے کہ یہ صدر مملکت کا مصاحب ہے یا گورنر صاحب کا یا وزیر اعلیٰ کا دوست ہے اِسکی ناراضگی کو بادشاہ، گورنر، یا وزیر کی ناراضگی گردانا جائے اُسکی خوشامد کرتے پھریں کہ وہ حاکم کا مصاحب ہے۔ اور جسے خُدا کی دوستی نصیب ہو تو اُس سے کسی قلب میں بیزاری ہو دُشمنی ہو عداوت ہو تو کس قدر بدنصیب ہے وہ انسان جس سے اعلان جنگ کا اعلان اللہ کریم فرمائے اور کس قدر خُوش نصیب ہیں وہ اذہان وہ قلوب جن میں اولیاءَ اللہ کی مُحبت ہو احترام ہو اور جیسا کہ میں نے پہلے ہی کہا کہ اِنکے سینے حکمت اور دانائی منبع ہوتے ہیں تو کسی اللہ کریم کے ولی کی صحبت پا کر دیکھئے آپکا یقین پُختہ ہوجائے گا۔

مجھے اپنی جوانی کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے جِسے آپ کیساتھ شئیر کرنا چاہوں گا 31 جولائی سنہ 1993 میں میری رفیقہ حیات کا انتقال ہوگیا یہ حادثہ زندگی پر ایسا اثر انگیز ہُوا کہ کامل ایک برس تک ذہن پر اِسکے صدمات کا اثر بُہت شدت کیساتھ باقی رہا اُنہی دِنوں ایک عجیب سا خُواب جِسے میں روزانہ دِیکھا کرتا لیکن تعبیر سے قاصر تھا کافی عُلماءَ کرام کی بارگاہ میں حاضر ہوا لیکن کوئی تشفی آمیز جواب مرحمت نہیں ہوا جس سے قلب کو اطمینان حاصل ہوتا آخر میں ایک جید عالم صاحب نے مُجھے ایک درویش کا پتہ بتایا اور کہا اقبال میاں جس سوال کا جواب تُم تلاش کر رہے ہو اُسے کوئی درویش ہی حل کر سکتا ہے لہٰذا ایک اللہ کے ولی( حضرت علامہ علی اکبر نِظامی کمبل پوش۔ رحمتہ اللہ علیہ ) کے آستانے پر حاضر ہوا، وہ مجھے دیکھ کر مُسکرائے اور بیٹھنے کا اشارہ کیا میں نے عرض کیا حضورِ والا ایک خُواب دیکھتے ہُوئے کئی ماہ گُزر گئے ہر دوسرے دِن یہی خُواب دیکھ رہا ہوتا ہوں اگرچہ اپنے خوابوں کی تعبیر خُود اَخذ کر لیتا ہوں لیکن اِس خُواب کی تعبیر میں خُود کو معذور پاتا ہُوں مجھے آپ کے آستانے پر فُلاں عالم صاحب نے بھیجا ہے آپ ہی میرے حال پر رحم فرمائیں اور تعبیر عنایت فرما دیں، اسکے بعد میں نے اپنی حَالتِ زار اور اپنا خُواب بیان کردیا۔ جِسے سُن کر وہ چند لمحے خاموش رہے اور پھر اِرشاد فرمایا ۔ بیٹا کیا تُم نے اپنی مرحومہ زوجہ سے قبلِ انتِقال کوئی وعدہ کیا تھا؟

میں کافی دیر تک سوچتا رہا اور جب کُچھ یاد نہیں آیا تو اپنا سر نفی میں ہِلادیا اُنہوں نے ایک اشارہ مزید دِیتے ہوئے فرمایا کسی مقدس مقام پر جانے کا وعدہ کیا ہُو؟ مُقدس مُقام کا سُنتے ہی دماغ میں جھماکہ سا ہُوا اور میں نے عرض کیا۔ حضورِ والا مجھے یاد آگیا اُس نے عمرہ پر جانے کی خُواہش کا اظہار کیا تھا اور میں نے وعدہ کیا تھا کہ آپ جیسے ہی صحتیاب ہوجائینگی میں آپکو عُمرہ کیلئے لے جاؤں گا!

حضرت علامہ علی اکبر نِظامی کمبل پوش۔ رحمتہ اللہ علیہ نے مُسکراتے ہوئے اِرشاد فرمایا بس اب تُم اپنا وعدہ پورا کرو اور عمرہ کیلئے تیاری کرو، میں نے عرض کیا جناب میں اُسے عمرہ پر کس طرح لیجا سکتا ہوں اُسکا تو وصال ہُوئے کئی ماہ گُزر چُکے ہیں؟ حضرت علامہ علی اکبر نِظامی کمبل پوش۔ رحمتہ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا میاں اُسے نہیں لیجاسکتے لیکن اُس کی جانب سے کسی اور عاشقِ مدینہ کو تو لیجاسکتے ہو کچھ لمحوں بعد عصر کی آذان کا وقت ہوگیا اور مجھے اِجازت مِل گئی میں مسجد کی جانب جاتے ہوئے یہی سوچ رہا تھا اِسے کہتے ہیں مومن کی فِراست اور اُسکی اُڑان، کہ جس سوال کیلئے کئی ماہ سے پریشان تھا ایک مردِ قلندر کے دَر پر یوں حل ہوگیا جیسے کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں۔ جب میں عمرہ کی سعادت حاصل کر کے واپس آیا تو کُچھ عرصہ بعد ہی حضرت علامہ علی اکبر نِظامی کمبل پوش۔ رحمتہ اللہ علیہ کا وصالِ ظاہری ہوگیا اور مجھ سمیت ہزاروں لوگ اُس عظیم مرد قلندر کی ظاہری صحبت سے مِحروم ہوگئے ۔

تقریباً 5 برس کے بعد آپکے صاحبزادے نے آپکو خُواب میں دیکھا آپ فرما رہے تھے بیٹا میری قبر میں پانی آگیا ہے مجھے یہاں سے دوسری جگہ منتقل کرو چند دِنوں میں باہر سے بھی مزار مُبارک کی حالت سے معلوم ہونے لگا کہ قبرِ مُبارک بیٹھنے لگی ہے لہٰذا ڈپٹی کمشنر سے اجازت حاصل کی گئی اور اعلیٰ افسران اور ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں جب جسم مُبارک کو منتقلی قبر کیلئے باہر نکالا جارہا تھا تو چہرہِ مُبارک سے کپڑا ہٹ گیا اور لوگوں نے نعرہ تکبیر کی صدا بُلند کرنی شروع کردی آپ رحمتہ اللہ علیہ کی زُلفیں لہرا رہی تھیں اور چہرہِ مُبارک پر ایسی تابانی تھی گویا ابھی ابھی سوئے ہُوں ایک صاحب نے فرطِ جذبات سے مغلوب ہوکر چہرہِ مُبارک کے ایک حصے پر انگلی رکھ کر ہٹائی تو اُس جگہ کے گِرد سُرخی پھیل گئی اور پھر چہرہ مُبارک نارمل ہوگیا اور وہ صاحب لوگوں کو متوجہ کر کے کہہ رہے تھے لوگوں دیکھ لو یہ ہیں اولیاءَ اللہ جن کے جسموں کو بعد وفات نہ زمین نقصان پُہنچاتی ہے نہ زمانے کی گردش ہی اِنکے جسموں پر اثر انداز ہوتی ہے میرپورخاص میں اب بھی سینکڑوں ایسے افراد موجود ہیں جِنہوں نے یہ ایمان افروز واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔

اللہ کریم سے دُعا ہے کہ تمام دُنیا کے مسلمانوں کے قلوب کو اپنے اولیاءَ کے بغض سے محفوظ فرماکر اُنکی مُحبت کا مدینہ کردے اور تمام دُنیا کے مسلمانوں کو اِن روشنی کے میناروں سے مُستفید فرمائے (آمین بِجاہِ النبیِ الامین)۔
ishrat iqbal warsi
About the Author: ishrat iqbal warsi Read More Articles by ishrat iqbal warsi: 202 Articles with 1054553 views مجھے لوگوں کی روحانی اُلجھنیں سُلجھا کر قَلبی اِطمینان , رُوحانی خُوشی کیساتھ بے حد سکون محسوس ہوتا ہے۔
http://www.ishratiqbalwarsi.blogspot.com/

.. View More