رمضان کو تعلیم کا شوق (ایک سچی کہانی)

محمد رمضان گاؤں کوٹ نظام دین ،تحصیل شاہ کوٹ ضلع ننکانہ پنجاب کے غریب خاندان۔۔۔۔۔رمضان کو بھی اپنے گاؤں میں ایک ٹھیکدار کے پاس روزانہ کی بنیاد پر مزدوری مِل گئی۔لیکن شرط یہ تھی کہ ابھی اُسکی عمر 11سال تھی لہذا 15روپے روزانہ۔۔۔۔۔ رمضان کو وہاں مزدوری کرنے کا موقعہ ملا تو وہ بہت خوش ہوا کہ اگر آج میں اینٹیں اُٹھا کر عمارت میں لگوا رہا ہوں شاید میں کل اس میں پڑھنے بھی لگوں۔ اسکول مکمل ہوا اوراُسکا نام " گورنمنٹ ہائی اسکول کوٹ نظام دین" ۔۔۔۔۔چار بچے ہارون،احمد،اقصیٰ اور حمنہ جدید تعلیم حاصل کرنے میں کمال دکھا رہے ہیں ۔گو کہ ابھی وہ بااعتماد تعلیمی ادارے " دی گیٹ آف نالج ہائی اسکول" شاہ کوٹ ۔۔۔۔۔سر پر اینٹیں اُٹھانے سے ہاتھوں میں کتابیں اُٹھانے تک ایک تکلیف دہ سفر کیا ہے اُسکی شخصیت میں کتنا نکھار آیا۔۔۔۔

محمد رمضان

 محمد رمضان گاؤں کوٹ نظام دین ،تحصیل شاہ کوٹ ضلع ننکانہ پنجاب کے غریب خاندان میں پیدا ہوا۔ غربت میں بچپن کی سیڑھی پر ہی اُسکو محسوس ہو گیا کہ وہ اُسکے 5بھائی اور 3 بہنوں سب اپنے والدین کے ساتھ ایک سادہ زندگزار رہے ہیں اور کھیل کود میں مشغول ہیں ۔ کچھ سال بعد پھر اُسکو خیال آیا کہ وہ اُن دوسرے بچوں کی طرح اسکول کیوں نہیں جا رہا ہے جسطرح وہاں کے کچھ لڑکے لڑکیاں ایک مخصوص قسم کے رنگ کے کپڑے پہن کر صبح کتابیں اُٹھائے جاتے ہیں ۔

والدمحمد حسین خاندان کے اخراجات پورا نہیں کر پا رہے تھے لہذا بیٹوں نے بھی خواہش ظاہر کی کہ وہ اپنے والد کا ہاتھ بٹائیں اور اس ہی وجہ سے رمضان کو بھی اپنے گاؤں میں ایک ٹھیکدار کے پاس روزانہ کی بنیاد پر مزدوری مِل گئی۔لیکن شرط یہ تھی کہ ابھی اُسکی عمر 11سال تھی لہذا 15روپے روزانہ ملیں گے جبکہ بڑوں کی مزدوری20روپے روزانہ تھی۔

رمضان بحیثیت مجبوری مزدوری تو کر رہا تھا لیکن اُسکا دِ ل اسکول کی طرف ہی مائل تھا کہ کسی طرح کوئی ایسا سبب بن جائے کہ وہ اسکول میں داخل ہو جائے۔ وہ بچپن سے ہی گاؤں کی مسجد میں جا کر امام صاحب کی اچھی باتیں سُنا کرتا تھا لہذا اب اُس میں ایک تجسس پیدا ہوچکا تھا کہ اسکول میں بھی کیا خوبی ہوتی ہے اور وہاں تعلیم حاصل کرنے والوں کو پسند کیوں کیا جاتا ہے ؟

حکومتِ وقت نے اُنکے گاؤں میں ایک اسکول تعمیر کر نا شروع کیا ۔ رمضان کو وہاں مزدوری کرنے کا موقعہ ملا تو وہ بہت خوش ہوا کہ اگر آج میں اینٹیں اُٹھا کر عمارت میں لگوا رہا ہوں شاید میں کل اس میں پڑھنے بھی لگوں۔ اسکول مکمل ہوا اوراُسکا نام " گورنمنٹ ہائی اسکول کوٹ نظام دین" رکھا گیا۔ ساتھ ہی تعلیم کا آغاز بھی ہو گیا لیکن رمضان اپنی بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ مزدوری میں ہی مصروف رہا۔ وقت نے پہلی کروٹ بدلی اور اُس ہی اسکول میں شام کی مفت تعلیم کی کلاسیں شروع کی گئیں ۔ ساتھ میں شوق رکھنے والوں کو مفت کتابیں بھی فراہم کی جاتیں۔

رمضان نے فوراًاسکا فائدہ اُٹھایا اور اسکول میں" الف ب پ" پڑھنے سے آغاز کر دیا۔ چند ماہ میں اُس نے اپنی ذہنی صلاحیت کا مظاہرہ کر کے کافی حد تک پڑھنا سیکھ لیا اور حساب میں جمع تفریق کے سوالات حل کرنا بھی۔لیکن اسکول کی انتظامیہ سلسلہ برقرار نہ رکھ سکی اور سال کے اندر ہی شام کی کلاسیں بند کر دی گئیں۔

رمضان اُداس ہو گیا لیکن مزدوری سے فراغت کے بعد اپنی کتابیں پڑھتا رہتا اور مسجد میں جاکر قرآنِ مجید بھی پڑھنا شروع کر دیا۔ماں "منظوراں بی بی" سے اُسکی اُداسی دیکھی نہ جاتی لہذا ایک دِن اُس نے کہا کہ جا بیٹا اگر اسکول میں داخلہ ملتا ہے تو پڑھ لے ہم گزارہ کر لیں گے۔وہ اسکول گیا تو وہاں کے اُستاد اُس کو جانتے تھے کہ وہ ایک محنتی مزدور بچہ ہے جسکو پڑھنے کا شوق ہے ۔اُنھوں نے اُسکو تیسری جماعت میں داخلہ دے دیا جو اُسکی عمر کے مطابق چھوٹی جماعت تھی لیکن اُس نے اتنی محنت کی کہ وہ سال میں دو ،دو جماعتیں پاس کرتے ہوئے نویں جماعت میں پہنچ گیا اور پھر اُردو زبان میں سائنس کے مضامین میں سیکنڈ ڈویثرن سے میٹرک کا امتحان بھی پاس کر لیا۔

رمضان کے حالات نے اس سے زیادہ اجازت نہ دی اور وہ ایک سرکاری ادارے میں کچھ مدت کیلئے ملازم ہو کر کوئٹہ چلا گیا لیکن وہاں کا ماحول اُسکی سوچ و کردار سے مطابقت نہ رکھتا تھا لہذا جلد ہی کسی اور شعبے میں قسمت اَزمائی کیلئے لاہور آگیا۔ سائنس کے مضامین کی مدد سے کوئی اعلیٰ ڈگری تو حاصل نہ کر سکا لیکن اُن مضامین و پڑھنے میں مہارت کی وجہ سے ایک نجی ہسپتال میں کچھ بہتر ملازمت مل گئی۔
لاہور میں اُسکے ساتھ کام کرنے والے اور کچھ اور وقتاً فوقتاً اُسکے دوست بنتے چلے گئے اور اُسکا اخلاق ،محنت اور سیکھنے کی لگن سب کو پسند آنے لگی۔اچھے لڑکے کی تلاش کس کو نہیں ہوتی اور وہ بھی اپنی بیٹی کیلئے۔بس ایسا ہی لاہور سے ایک ر شتہ کسی دوست کے تعلق والوں کی طرف سے رمضان کو آگیا ۔لڑکی بی اے پاس تھی ۔رشتہ اچھا تھا لہذا رمضان کے بہن بھائیوں نے والدین کی اجازت سے شادی کروا دی۔
وقت گزرتا رہا اور رمضان اپنی تعلیم کا فائدہ اُٹھا کر لاہور میں ملازمت اور ایک چھوٹے سے کاروبار سے منسلک ہو گیا اور اپنے حُسنِ اخلاق سے اپنی بیوی بچوں کو اپنے گاؤں میں والدین کے پاس لے گیا۔اُسکی بیوی محترمہ عطیہ رمضان بھی تعریف کے قابل ثابت ہوئی اور اُسکی دستِ راست بن گئی۔ آج اُنکی خوشگوار ازدواجی زندگی سے اُنکے چار بچے ہارون،احمد،اقصیٰ اور حمنہ جدید تعلیم حاصل کرنے میں کمال دکھا رہے ہیں ۔گو کہ ابھی وہ بااعتماد تعلیمی ادارے " دی گیٹ آف نالج ہائی اسکول" شاہ کوٹ کی چھوٹی کلاسوں میں ہیں لیکن ٹیچرز اُن بچوں کا اعتماد و ذہانت دیکھ کر رمضان اور اُسکی بیوی سے کہتے ہیں کہ اگر انکو مستقبل میں بھی تعلیم کا بہترین ماحول میسر آتا رہا تو اِنشااللہ اِنکی شخصیت میں ایک خاص نکھار نظر آئے گا اور اُسکی اہم وجہ تعلیم ہی ہو گی۔

ٹیچرز کیا جانتے ہیں کہ اُن میں تو نکھار آئے گا لیکن جس نے مزدوری کے دوران سر پر اینٹیں اُٹھانے سے ہاتھوں میں کتابیں اُٹھانے تک ایک تکلیف دہ سفر کیا ہے اُسکی شخصیت میں کتنا نکھار آیا تھا کہ وہ آج بھی کسی محفل میں بیٹھا ہو تا ہے تو اپنے دوستوں کو جو تعلیم یافتہ بھی ہیں اور اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز ہیں یہی کہتا ہے کہ کچھ نیا بتاؤ تاکہ میرے علم میں اضافہ ہو اور میرے کام بھی آئے۔

رمضان سے مراد بہت سے ایسے سینکڑوں اور بھی ہوں گے جنہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت کچھ نہ کچھ تعلیم حاصل کر کے معاشرے میں اپنا مقام بنالیا ہو گا۔ لیکن لاکھوں ایسے بچے بھی ہوں گے جنکو تعلیم کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں ہو گا اور نہ ہی اُنکی تعلیم کیلئے کوئی بہتر تعلیمی ادارے موجود ہوں گے۔گو کہ حکومتی سطح پر اور کچھ نجی ادارے و افراد کی طرف سے کوششیں جاری رہتی ہیں۔

کاش ! آج بھی بہت سے ایسے بچوں میں تعلیم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوجائے جو مزدوری کرتے ہیں اور پھر اُنکے لیئے بہتر موقع بھی میسر آجائے۔ آمین!

Arif Jameel
About the Author: Arif Jameel Read More Articles by Arif Jameel: 204 Articles with 304763 views Post Graduation in Economics and Islamic St. from University of Punjab. Diploma in American History and Education Training.Job in past on good positio.. View More