جہالت کے فیکٹریوں میں پڑھے لکھے لوگ

دینی مدارس جہالت کی فیکٹریاں ہیں۔ یہ الفاظ تمام قارئین کو یاد ہوں گے ۔ ان الفاظ میں کس حد تک صداقت ہے اور ایسے الفاظ کہنے کا مقصد کیا تھا، یہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔

قارئین کرام ! آج ایک ایسے تقریب کے بارے قلم اٹھانے کی جسارت کر رہا ہوں جو مغربی اشاروں پر ناچنے والوں اور اسلام کو بدنام کرنے والوں کی اصلیت بے نقاب کرے گا۔ تعلیمی ادارے چاہے دینی ہو یا دنیاوی، ہر ادارے میں سال کے آخر میں تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ پرائیویٹ سکولز میں تقسیم انعامات اور پیرنٹس ڈے کے عنوان سے پروگرامات ترتیب دئے جاتے ہیں۔ کالجز میں اینول ایونٹ کے نام سے تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ یونیورسٹیز میں کانو وکیشن کے نام سے تقریب ہوتی ہے۔ ان تقریبات میں فارغ ہونے والے طلبہ کو اسناد دیے جاتے ہیں۔ لیکن اگر بغور جائزہ لیاجائے تو یہ ایک تعلیمی ایونٹ کم اور میوزیکل ایونٹ زیادہ لگ رہا ہوتا ہے۔ ان کے بر عکس دینی مدارس میں بھی سالانہ ایونٹس کا اہتمام کیا جاتا ہے جس کو تقریب دستار بندی و تقسیم اسناد کا نام دیا جاتا ہے۔ ان تقاریب میں جہاں قرآن کریم کے بعد سب سے زیادہ اصح کتاب ’’بخاری شریف‘‘ کی آخری حدیث کی درس دی جاتی ہے۔ وہاں فارغ التحصیل طلبہ کو اسناد دے کر معاشرے میں ان کی ضرورت اور ذمہ داری کا احساس دلایا جاتا ہے۔

موضوع کے طرف واپس آتے ہوئے آج ایک ایسے کانووکیشن کا ذکر کرنا چاہوں گا جو اپنے مثال آپ ہے۔ دینی و دنیا وی تعلیم کے امتزاج میں منفرد ادارے جامعۃ الرشید کے کانووکیشن کا انعقاد 17 اپریل بروز اتوار ہوا۔ بطور متخصص کانووکیشن میں شرکت کا شرف حاصل ہوا۔ کانووکیشن ایک عام اجتماع کے بالکل برعکس تھا۔ عام شرکت کی قطعا اجازت نہیں تھی۔ پروگرام میں شرکت کے لیے باقاعدہ دعوت نامے جاری کئے گئے تھے ۔ اپنی نوعیت کے اس منفرد کانووکیشن میں تقریبا چار سو کے قریب متخصصین، فاضلین درس نظامی و کلیۃ الشریعہ ، گریجویٹس و پوسٹ گریجویٹس کو اسناد دیے گئے۔ جن میں BA, BBA, MBA, Journalism, English Language سمیت دیگر کئی شعبوں کے طلبہ شامل تھے۔ پروگرام میں جامعہ کے پروجیکٹس اور اہداف پر روشنی ڈالی گئی۔ وطن عزیز اور اسلام کی خدمت کے لیے مختلف اداروں کو افرادی قوت کی فراہمی اور کردار سازی کے بارے جامعہ کے پروگرام پر ڈاکومنٹری پیش کی گئی۔

پروگرام میں شرکت کرنے والوں میں معروف و مشہور اینکرز، مختلف یونیورسٹیز کے وائس چانسلز، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے غیر ملکی اساتذہ کے علاوہ سندھ چیمبر آف کامرس کے صدر، معروف تاجر، پاک آرمی کے سابقہ افسران سمیت مختلف سماجی افراد اور مختلف طبقہ ہائے زندگی کے افراد نے شرکت کی۔ تقریب سے بینظیر بٹھو یونیورسٹی دیر کے وائس چانسلر، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے استاد، مشہور اینکر پرسن شاہد مسعود اور جنرل حمید گل مرحوم کے صاحبزادے عبد اﷲ گل سمیت کئی افراد نے خطاب کیا۔ تمام مہمانان گرامی نے دینی مدارس کے کردار مثبت قرار دیا اور جامعۃ الرشید کے پروگراموں کو سراہا۔ اس موقع پر موجود تمام افراد نے اس بات کی تائید کی کہ دنیاوی تعلیم علوم وحیہ کے بغیر گمراہی ہے۔ فارغ ہونے والے متخصصین، علماء اور گریجویٹس کو حضرت شیخ الاسلام مفتی اعظم پاکستان جناب مفتی رفیع عثمانی صاحب نے مبارک باد دینے کے ساتھ اس بات کی وصیت کی کہ دین کی خدمت اور پر امن اسلامی معاشرے کی تعمیر اب تم سے ہو۔

یہ عظیم الشان تقریب تقریبا 5 گھنٹے جاری رہا جسے باقاعدہ انٹرنیٹ پر بھی نشر کیا گیا۔ اس طویل تقریب نے نظم و ضبط کی مثال قائم کی۔ ایک دینی مدرسہ کے اتنے طویل ، منظم اور پر امن پروگرام اور اس میں شرکت کر نے والے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے تعلیم یافتہ افراد نے یہ ثابت کر دیا کہ دینی مدارس جہالت کی فیکٹریاں نہیں بلکہ عظیم تعلیمی ادارے ہیں۔دہشت گردی اور کرپشن کا خاتمہ، ملکی سلامتی، استحکام اور پرامن معاشرے کی تکمیل صرف دینی تربیت سے ہی ممکن ہے۔

Abid Ali Yousufzai
About the Author: Abid Ali Yousufzai Read More Articles by Abid Ali Yousufzai: 97 Articles with 75982 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.