پانامہ لیکس اور پاکستانی حکمران

آج کل ساری دنیا میں پانامہ لیکس نے سیاسی فضا ء کو متغیر کر رکھا ہے ۔ کچھ ممالک کے وزرا ء ، اعلیٰ سطحی حکام ،ارکان ِ پارلیمنٹ نے ان پیپرز کی اشاعت کے بعد استعفیٰ دے دیا ہے اور بعض کے خلاف مظاہرے جاری ہیں ۔

اس تمام تر اشاعت پر بات کرنے سے پہلے ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ پانامہ لیکسٰ یا پانامہ پیپرز دراصل ہے کیا ؟ پانامہ پیپرز یا پانامہ لیکس دراصل گیارہ اشارعہ پانچ میلین خفیہ دستاویزات پر مشتمل ہیں جن میں 214,000 آف شور کمپینیوں کے شیئر ہورڈرز ، مالکان اور ڈیرکٹرز کی تفصیل موجود ہے ۔ دراصل یہ تمام دستاویزات ایک گمنام شخص جان ڈو نے جرمنی کے ایک اخبارSuddeutsche Zeitung کو 2015ء میں بھیجے اس اخبار کے لیے یہ ایک بہت بڑی خبر تھی لیکن اس اخبار نے پاکستانی اشاعتی اداروں کی مانند بنا تحقیق کے اس خبر کو اقوام ِ عالم کے سامنے نہیں رکھا بلکہ ان تمام دستاویزات کی تصدیق کے لیئے اس اخبار نے International consortium of investigative Journalists (ICIJ) سے مدد مانگی جو کہ عالمی طور پر مشہور ترین صحافیوں کی اعلیٰ پائے کی تنظم ہے۔ اس تنظیم نے تما م دستاویزات کو تحقیق اور تجزیہ کے لیے چار سو صحافیوں اور ایک سو سات تشہراتی اداروں میں(جو کہ چھہتر ممالک میں قائم ہیں)میں تقسیم کئے گئے ۔ پہلی نیوز رپورٹ جو ان پیپرز پر مشتمل تھی تین اپریل کو شائع ہوئی ۔ICIJ کا دعویٰ ہے کہ تمام ممالک میں موجود آف شور کمپنیوں کی مکمل تفصیل مئی تک شائع کر دے گی ۔

یہاں یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ آف شور کمپنیوں کی حقیقت کیا ہے ؟ آف شوردراصل کمپنیاں ہیں جو کہ کسی بھی بیرون ممالک بنائی جاتی ہیں اور ان کی مالکیت اور شیئرز کو خفیہ رکھا جاتا ہے ۔ان کمپنیوں کے مالکان کا اس ملک میں جہاں یہ کمپنی بنائی جاتی ہے آنا جانا کم ہوتا ہے اور عموما یہ کمپنیاں عام کمپنیوں کی طرح کام کرتی ہیں قانونی طور پر یہ کمپنیاں غیر قانونی نہیں ہیں کیونکہ یہ باقاعدہ رجسٹرڈ کمپنیاں ہیں سوائے چند ایک کے ۔ان کمپنیوں کی باقاعدہ رجسٹرشن ہوتی ہے اور یہ تمام کمپنیوں کی طرح اپنے شیئرز بھی لانچ کر سکتی ہیں ۔آف شور کمپنی بنانے کے لییباقاعد ہ قانونی کاروائی کی جاتی ہے جس کی بنا ء پر یہ کمپنیاں غیر قانونی قرارنہیں دی جا سکتی ۔ یہ کمپنیاں کالے دھن کو قانونی بنانے کا ایک ذریعہ بھی ہیں ۔ پانامہ پیپرز یا پانامہ لیکس میں وہ تمام تر ثبوت ، دستاویزات کے ساتھ موجود ہیں جن میں حکمرانوں ، سیاست دانوں ، اداروں کے سربراہوں ، کے نام ہیں جنھوں نے اپنے ان آف شور کمپنیوں میں اپنا پیسہ لگایا اور ان کو عوام کی نظروں سے اوجھل رکھا گیا ۔ جس وقت یہ پیپرز شائع ہوئے ان میں پانچ ممالک کے ایسے سربراہاں جنھوں نے اپنے اثاثاجات آف شور کمپنیوں میں لگائے کے نام سرفہرست تھے۔ان ممالک میں ارجنٹینا ، آئیس لینڈ ، سعودی عرب ، یوکرائین ، متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں ، ان کے قریبی رشتہ داروں ، اعلی ٰ سطحی سرکاری افسران کے نام شامل تھے ۔ ان پانچ ممالک کے علاوہ چالیس ممالک کے افسران ، حکمران اور سیاست دان جنھوں نے آف شورکمپنیوں میں رقوم لگائی ان کے اثاثوں کی تفصیلات شائع کی گئی ۔

یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ یہ آف شور کمپنیاں کس جگہ پر بنائی گئی اور کس ملک نے ان کمپنیوں کے بنائے جانے سے فوائد بھی حاصل کئیے ۔ واضع رہے کہ یہ آف شور کمپنیاں اس ملک سے کہیں دور کسی اور ملک میں بنائی جاتی ہیں جہاں ان کے مالکان رہتے ہیں ۔یہ کمپنیاں زیادہ تر برطانیہ کے جزائر میں بنائی گئی جبکہ زیادہ تر بینک ، قانونی مشاورتی ادارے اور افراد جن کے ذریعے رقوم ان کمپنیوں میں منتقل کی گئی یا جن کے ذریعے ان کمپنیوں کے شیئرز خریدے گئے ان میں سے زیادہ تر کاتعلق ہانگ کانگ سے ہے ۔

پانامہ پیپرز کے شائع ہونے کے بعد جہاں بہت سے ممالک کے حکمرانوں ، اعلیٰ سطح کے افسران کے آف شور کمپنیوں میں اثاثوں کی تفصیلات دنیا کی نظروں کے سامنے آئی ہیں وہاں وطن ِعزیز کے حکمران خاندان اور خصوصا وزیر اعظم پاکستان کے اثاثاجات کی تفصیلات بھی دنیا کے سامنے لا رکھی گئی ہیں ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ نہ صرف وزیر اعظم بلکہ کئی افسران پر بھی کرپشن کے ذریعے کمائی گئی رقوم کو آف شور کمپنیوں کے شیئرز خرید کر ناجائز کمائی کو جائز میں تبدیل کیا ۔ ان دستاویزات کا مالیاتی پہلو اگر دیکھا جائے تو وزیر اعظم جناب نواز شریف کے ان اثاثوں کی تفصیل ہے جن کا پہلی بار انکشاف ریمنڈ ڈبلیو بیکر نے 2005 میں اپنے ایک کالم Capilisms Achilles Heels میں کیا ۔1998ء میں The observer میں بھی ان اثاثوں کے بارے میں ایک کہانی شائع کی گئی ۔ تاہم حکمران خاندان ان خبروں کی مسلسل تردید کرتا آیا ہے لیکن پانامہ پیپرز میں ان تمام اثاثوں کے ثبوت پیش کیئے گئے ۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان پیپرز کے شائع ہوتے ہی پارلیمنٹ اور قومی اسمبلی میں وزیر اعظم اور ان اعلیٰ سطحی ارکان جو کرپشن میں ملوث رہے اور اس کرپشن کے ثبوت بھی دنیا کے شامنے لائے جا چکے ہیں ان کے خلاف قرار دادپیش کی جاتی اور ان پیپرز پر عالمی سطح اور ملکی سطح دونوں پر خود وزیر اعظم تحقیقات کا حکم دیتے اور ان تحقیقات کے مکمل ہونے تک اپنے عہدے سے معطل کیے جاتے ۔ اگر ثابت ہو جاتا کہ وہ کرپشن کے مرتکب رہے ہیں تو عہدہ سے از خود مستعفی ہو جاتے اوراگر اس کے برعکس نتائج سامنے آتے تو ان لیکس پر کام کرنے والوں کے خلاف ایکشن لیا جاتا ۔لیکن ایسا کچھ نہیں جبکہ اس کے برعکس حالیہ پانامہ لیکس کے انکشافات پر وزیر اعظم کچھ بوکھلائے نظر آتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ
پانامہ لیکس کی آڑ میں انتشار پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔

ان پیپرز کے شائع ہوتے ہی وزیر اعظم علاج کی غرض سے بیرون ِ ملک روانہ ہو چکے ہیں ۔ان پانامہ لیکس کے خلاف لندن میں مظاہرے بھی ہوئے ہیں ۔ایک ہفتہ گزر جانے کے بعد وزیر ِ خزانہ جناب اسحاق ڈار ، اور وزیر داخلہ چوہدری نثار کے مطابق ان پیپرز کی تحقیقات کے لیے ایک عدالتی کمشن بنایا جائے گا ۔ عدالتی کمشن صرف اور صرف رپورٹ پیش کر سکتا ہے کیونکہ اس کا دائرہ کار محدود ہوتا ہے اس کمشن کو کسی قسم کی سزا کا اسے کوئی اختیار نہیں اور بالآخر اس عدالتی کمشن کے فیصلے پر عملدرآمد اگر کسی کو کچھ کرنا ہے تووہ یہی کرپٹ حکمران ہیں ۔ یاد رہے کہ کئی معاملات میں عدالتی کمشن بنائے گئے ، جنھوں نے اپنی رپورٹیں بھی پیش کی لیکن ان پرکوئی عملدرآمد نہیں کیا گیا اور نہ ہی کسی طاقت ور مجرم کو قرار واقع سزا ملی۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران دوسرے ممالک کے حکمرانوں کی طرح کرپشن کے الزاما ت پر مستعفی نہیں ہوتے اور بلکہ وہ اس کے برعکس ان تمام باتوں کی تردید کرتے نظر آتے ہیں ۔ عوام کی حالت یہ ہے کہ وہ نظریاتی بنیادوں پر انھی کرپٹ لوگوں کا چناؤ کرتے ہیں اور کرپشن کے الزامات ، ثبوت کے باوجود ملک کو لوٹنے والے ملک کے حکمران بنتے ہیں ۔کرپشن کے حق میں مظاہرے کیے جاتے ہیں ۔ المیہ در المیہ یہ کہ کرپشن کے خلاف احتجاج کرنے والے خود بھی کرپشن کے مرتکب ہوتے ہیں ۔جمہوریت کی آڑ میں کرپٹ سیاست دان ایک دوسرے کا نہ صرف ساتھ دیتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کی مکمل مدد کرتے ہیں۔
Maemuna Sadaf
About the Author: Maemuna Sadaf Read More Articles by Maemuna Sadaf: 165 Articles with 148748 views i write what i feel .. View More