فریضہ جہاد اور چند آسان باتیں

مولانا منصور احمد
وہ تشریف لائے اور بڑے سلیقے سے میرے پاس بیٹھ گئے۔ سلام‘ دعا اور رسمی جملوں کا تبادلہ ہوا اور بات اصلی موضوع پر آگئی۔ وہ پہلے سے وقت لے کر اور اپنا مقصد بتا کر تشریف لائے تھے‘ اس لیے گفتگو کا آغاز میں نے ہی کیا۔ سب سے پہلے میں نے اُن سے پوچھا:
ہمارا رب کون ہے ؟
انہوں نے کہا : ’’ اللہ ‘‘
میں نے پوچھا :
ہمارے رسول کون ہیں ؟
انہوں نے کہا : ’’ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘
میں نے عرض کیا :
اچھا ! ہمارا مذہب کیا ہے؟
فرمانے لگے : ’’ اسلام ‘‘
ان بظاہر سیدھے سادھے سوالات سے وہ بہت حیران اور کچھ پریشان ہوئے۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتے ‘ ایک بار پھر میں نے عرض کیا :
آئیں! ایمان کی تازگی اور تجدید کیلئے ایک مرتبہ ہم دل کی گہرائیوں سے پڑھ لیں :
رضینا باللہ رباًّ و بالا سلام دیناً و بحمدٍ صلی اللہ علیہ وسلم نبیًّا ورسولاً
﴿ ہم اللہ تعالیٰ کے رب ہونے پر، اسلام کے ضابطہ حیات ہونے پر اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نبی اور رسول ہونے پر دل و جان سے راضی ہیں﴾

آنے والے مہمانوں نے میری رعایت کرتے ہوئے میری یہ فرمائش بھی پوری کر دی لیکن ابھی تک اُن کی الجھن دور نہیں ہوئی تھی اور وہ بزبانِ حال پوچھ رہے تھے کہ مولانا صاحب! ہم آپ کو شکل و صورت سے مسلمان دکھائی نہیں دے رہے؟ کہ آپ ہم سے ایسے سوالات پوچھے جا رہے ہیں۔ میں نے یہ سب کچھ ان کے چہروں پر لکھا ہوا پڑھ لیا تھا‘ اس لیے خود ہی عرض کیا :
’’ آپ برا نہ مانیں‘ میں نے صرف اس لیے یہ تذکیر اور یاد دہانی کروائی ہے کہ ہم مسلمان ہیں‘ اللہ تعالیٰ کو اپنا رب اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا رسول مانتے ہیں، کیونکہ بہت سے پڑھے لکھے اور دیندار حضرات بھی جب اس مسئلے پر گفتگو کرتے ہیں تو قرآن و سنت کے واضح فرامین کو چھوڑ کر مرزا غلام قادیانی ملعون کے افکار اور سنی سنائی باتوں کو اختیار کر لیتے ہیں ۔ ‘‘

میں نے عرض کیا کہ اگر آپ واقعی مسئلہ جہاد کو قرآن و سنت کے حوالے سے سمجھنا چاہتے ہیں تو یہ بالکل آسان اور واضح مسئلہ ہے۔ اس کے سمجھنے سمجھانے میں چند منٹ سے زائد نہیں لگیں گے ۔ آئیں! پہلے قرآن مجید کی روشنی میں اس مسئلے کو دیکھتے ہیں :

قرآن مجید وہ محکم اور لاریب کتاب ہے ‘ جس کے ایک ایک حکم کو ماننا ہر صاحب ِ ایمان کیلئے ضروری ہے کسی ایک آیت کا انکار بھی انسان کو ایمان سے محروم کر دیتا ہے ۔ قرآن مجید نے اکثر مسائل کو اصولی اور اجمالی طور پر ذکر کیا ہے‘ جب کہ فریضہ جہاد کو بہت مفصّل انداز سے بیان کیا ہے۔ ’’ فتح الجّواد فی معارف آیات الجہاد‘‘ میں مدنی سورتوں کی ۸۵۵ آیات ِ جہاد کا ذکر ہے اور وہ سورتیں جن میں آیاتِ جہاد موجود ہیں ‘ وہ یہ ہیں :
البقرہ. اٰل عمران . النسائ . المائدہ . الانفال . التوبہ . الحج . النور . الاحزاب . محمد ﴿القتال﴾ . الفتح . الحجرات . الحدید. المجادلۃ . الحشر. الممتحنہ. الصّف . التحریم. العادیات . النصر
پھر ان میں سے کئی سورتیں تو مکمل طور پر اسی فریضہ کو بیان کرتی ہیں ۔

اسی طرح قرآن مجید میں ان غزوات و سرایا کا ذکر بھی موجود ہے :
﴿۱﴾ سریہ ابن حجش رضی اللہ عنہ ۔ ﴿۲﴾ غزوہ بدر ۔ ﴿۳﴾ غزوہ بنی قینقاع۔﴿۴﴾ غزوہ احد ۔ ﴿۵﴾ غزوہ حمرائ الاسد ۔ ﴿۶﴾ غزوہ بدر ﴿صغریٰ﴾ ۔ ﴿۷﴾ غزوہ خندق ﴿احزاب﴾ ۔ ﴿۸﴾ غزوہ بنی قریظہ ۔﴿۹﴾ غزوہ حدیبیہ ۔ ﴿۰۱﴾ فتح مکہ ۔﴿۱۱﴾ غزوہ خیبر ۔ ﴿۲۱﴾ غزوہ تبوک ۔ ﴿۳۱﴾ غزوہ حنین ۔ ﴿۴۱﴾ غزوہ ذات الرقاع ۔﴿۵۱﴾ غزوہ بنی نضیر ۔

ان کے علاوہ قرآن مجید کے بیان کردہ دیگر جہاد ی واقعات بھی تفصیل سے آپ کو بندہ کی مرتب کردہ کتاب ’’ قرآن مجید کے جہادی واقعات ‘‘ میں مل جائیں گے ۔

آئیے! اب سیرت طیبہ کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ جہاد کی رحمت کو عام کرنے کیلئے کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا عملی اقدامات فرمائے اور امت کیلئے کیا اسوئہ حسنہ قائم فرمایا :

رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عملی جہاد اور کفار کے ساتھ عسکری مقابلے کا آغاز ہجرت مدینہ کے بعد سے ہوتا ہے ۔ صرف دس سالوں کے اندر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۷۲ یا ۸۲ ﴿ سیرت نگاروں کے اختلاف کے مطابق﴾ مرتبہ بہ نفس نفیس میدان جہاد کا رخ فرمایا اور اپنے عشاق کیلئے ایک واضح راستہ متعین فرما دیا۔ آپ ﷺ نے جن غزوات میں شرکت فرمائی ان کی اجمالی فہرست مندرجہ ذیل ہے :

الا بوائ ، بواط العشیرہ ، ذات الرقاع، بدر صغریٰ ، بنی سلیم ، بنی قینقاع ، سویق ، غطفان ، احد، حمرائ الاسد، بنی نضیر ، ذات الرقاع ، بدر صغری، دومۃ الجندل ، خندق یا احزاب ، بنی قریظہ ، بنی لحیان ، ذی قرد ، بنی مصطلق ، حدیبیہ ، خیبر ، عمرۃ الفضائ ، فتح مکہ ، حنین طائف اور آپ ﷺ کی زندگی کا سب سے آخری غزوہ ، غزوہ تبوک تھا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان غزوات کے علاوہ تقریباً چھپن مرتبہ اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کفار کے مقابلے میں بھیجا جنہیں سیرت کی اصطلاح میں سرایا کہتے ہیں اور تاریخ و حدیث کی کتب میں با قاعدہ ان سب کی تفاصیل اور واقعات موجود ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جہاد سے یہ تعلق عارضی اور معمولی نہیں بلکہ مستقل اور دائمی تھا ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود ہی ارشاد فرمایا :
’’ میں قیامت سے پہلے تلوار دے کر بھیجا گیا ہوں تاکہ صرف اکیلے اللہ کی عبادت کی جائے جس کا کوئی شریک نہیں اور میری روزی میرے نیزے کے سائے کے نیچے رکھ دی گئی ہے اور ذلت و پستی ان لوگوں کا مقدر بنا دی گئی ہے جو میرے لائے ہوئے دین کی مخالفت کریں اور جو کسی عبادت کے ساتھ مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہی میں سے ہوگا ‘‘ ﴿ مسند احمد ﴾

احادیث مبارکہ کی کتب میں ایسی بہت سی مستند احادیث موجود ہیں جن سے واضح طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جہاد کا سلسلہ صرف دورِ نبوت کے ساتھ خاص نہیں تھا بلکہ قربِ قیامت تک اس فریضے نے جاری رہنا ہے ۔ ظاہر ہے کہ دراصل مسلمانوں کو یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ وہ اسلام کی سربلندی کے لیے اور اہلِ اسلام کی حفاظت کے لیے اس فریضے کو ادا کرتے رہیں ۔ ایسی چند احادیث بھی پیش خدمت ہیں :
﴿۱﴾ حضرت جابر بن سمرۃ (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
’’ ہمیشہ یہ دین قائم رہے گا اور اس دین کے لیے مسلمانوں کی کوئی ایک جماعت قیامت تک قتال کرتی رہے گی ۔‘‘ ﴿صحیح مسلم ﴾

﴿۲﴾ حضرت عبداللہ بن عباس(رض) سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :
’’ اب ﴿مکہ سے ﴾ کوئی ہجرت نہیں، البتہ جہاد اور اس کی نیت ﴿ہمیشہ﴾ باقی رہیں گے ، اور جب ﴿حاکم وقت کی طرف سے ﴾ تم سے جہاد کے لئے نکلنے کا مطالبہ کیا جائے تو جہاد کے لیے نکل کھڑے ہو جائو ۔‘‘ ﴿صحیح بخاری﴾
﴿۳﴾ حضرت معاویہ بن سفیان(رض) سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا :
’’میری امت کا ایک گروہ اللہ کے حکم ﴿ یا دین﴾ پر قائم دائم رہے گا ۔ انہیں چھوڑنے والا یا ان کی مخالفت کرنیوالا انہیں کوئی ضرر نہیں پہنچا سکے گا حتی کہ قیامت ﴿نزدیک﴾ آ جائے گی اور وہ لوگوں پر غالب رہیں گے۔‘‘ ﴿صحیح مسلم﴾
﴿۴﴾ حضرت عمر ان بن حصین (رض) سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :
’’ میری امت کا ایک گروہ حق کی حمایت میں ہمیشہ قتال کرتا رہے گا اور اپنے مخالفین پر غالب رہے گا حتی کہ ان میں سے آخری شخص دجال اکبر کے خلاف قتال کرے گا ۔‘‘ ﴿سنن ابی دائود ﴾
﴿۵﴾ حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :
’’ میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر جہاد کرتا رہے گا اور قیامت تک غالب رہے گا ۔ پھر حضرت عیسی (ع) ﴿آسمان سے﴾ اتریں گے اور اس گروہ کا امیر حضرت عیسی (ع) سے کہے گا کہ آئیے نماز پڑھائیے ۔ حضرت عیسی (ع) فرمائیں گے . نہیں ! امیر تمہی میں سے ہوگا. یہ اللہ تعالیٰ کی اس امت پر نوازش ہے ۔‘‘﴿صحیح مسلم﴾
﴿۶﴾ حضرت سلمہ بن نفیل کندی(رض) فرماتے ہیں کہ ایک دن میں اللہ کے رسول ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی نے کہا : یا رسول اللہ ! لوگوں نے گھوڑوں کو لا پروائی کی وجہ سے پتلا ﴿کمزور﴾کر دیا ، جہادی ہتھیار اتار دئیے اور یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ اب جہاد نہیں رہا اور جنگ نقطہ ٔ اختتام کو جا پہنچی ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ اس آدمی کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا :
’’ان لوگوں نے غلط کہا ہے، ابھی تو جہاد و قتال کا آغاز ہوا ہے اور میری امت کا ایک گروہ حق کی خاطر ہمیشہ قتال کرتا رہے گا ۔ اور اللہ تعالیٰ ان کے لیے بعض قوموں کا دل پھیر دے گا اور ان کو ان سے رزق عطا فرمائے گا حتی کہ قیامت قائم ہو جائے ۔‘‘ ﴿سنن نسائی﴾
﴿۷﴾ حضرت انس(رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
’’ جب سے اللہ تعالیٰ نے مجھے نبی بنا کر بھیجا ہے تب سے لے کر اس وقت تک جہاد جاری رہے گا کہ جب میری امت کا آخری فرد دجال سے لڑائی کرے گا ۔ کسی جابر ﴿ بادشاہ﴾ کا جبر اور کسی عادل﴿ بادشاہ ﴾ کا عدل جہاد کو باطل نہیں کر سکتا !‘‘ ﴿سنن ابی دائود﴾
﴿باقی صفحہ5 بقیہ نمبر1﴾

اتنے سارے حوالہ جات پیش کرنے کے بعد میں نے آنے والے معزز دوستوں سے عرض کیا کہ مرزا غلام قادیانی کے افکار تو وہی ہیں جو اکثر و بیشتر ہمارے دانشور اور کالم نگار اپنی تقریروں اور تحریروں میں چباتے رہتے ہیں ۔ آپ کی تسلی کیلئے ایک حوالہ بھی عرض کئے دیتا ہوں :

’’ میں یقین رکھتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مرید بڑھیں گے، ویسے ویسے مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیں گے کیونکہ مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے ۔ ‘‘ ﴿ مجموعہ اشتہارات ص ۹۱ ، ج ۳﴾

اب ہم میں سے ہر ایک کو خود ہی یہ فیصلہ کر لینا چاہیے کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کا سچا بندہ اور آقا مدنی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وفادار امتی بننا چاہتا ہے تو خود بھی جہاد کا کام کرے اور دوسروں تک بھی اس کی دعوت پہنچائے اور اگر خدانخواستہ کوئی مرزا ملعون کا مرید بننا چاہتا ہے تو اُس کے لیے بھی راستہ کھلا ہے ۔

اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو دین کی صحیح سمجھ اور اُس پر عمل نصیب فرمائے ۔ ﴿آمین﴾
Shaheen Ahmad
About the Author: Shaheen Ahmad Read More Articles by Shaheen Ahmad: 99 Articles with 194141 views A Simple Person, Nothing Special.. View More