کرکٹ بورڈ کے پیٹرن چیف کے نام کھلا خط

 کرکٹ بورڈ کے پیٹرن چیف میاں محمد نواز شریف ہیں ۔ وہ ایشیا اور ورلڈ کپ میں بدترین شکستوں کے باوجود ابھی تک کرکٹ کے معاملات سے غافل ہیں ۔ اس کے باوجود کہ پاکستان میں اب ہاکی ٗ کرکٹ ٗ فٹ بال اور سکوائش سمیت جتنے بھی کھیل ہیں سب زوال کا شکار ہیں۔ ایک عدالتی کمیشن ایسا قائم کیا جا ئے جو بطور خاص کرکٹ بورڈ کے بدترین معاملات ٗبڑھتی ہوئی کرپشن اور پے در پے ناکامیوں کے عوامل تلاش کرکے ذمہ داران کو برطرفی کے ساتھ سز ا بھی د ے ۔جن کی وجہ سے ہر ٹورنامنٹ میں پاکستانی قوم کو شرمندگی اور ذہنی ٹینشن کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ آج کل فیصل آباد میں پاکستان کپ (یعنی پچاس پچاس اوورز کے میچز) کھیلا جارہا ہے ۔کرکٹ بورڈ کادعوی ہے کہ ون ڈے طرز پر کھیلا جانے والا یہ ٹورنامنٹ کھلاڑیوں کے ٹیلنٹ میں اضافے کا باعث بنے گا ۔لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ شائقین کی عدم دلچسپی اس کا واضح اظہار ہے ۔ پرانے ٗ تھکے ماندے اور چلے ہوئے کارتوس کھلاڑیوں کے بارے میں قوم خوب جان چکی ہے ۔میری نظر میں یہ ٹورنامنٹ پیسے اور وقت کے ضیاع کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے کیونکہ اس میں کھیلنے والے تقریبا تمام کھلاڑی یا تو آزمائے ہوئے ہیں یا وہ ہیں جنکی کارکردگی کبھی ٹھیک نہیں رہی۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ کھیلنے اور کھلانے والے تمام ایک ہی سطح کے کھلاڑی ہیں ۔کرکٹ دیکھنی ہو تو بھارت اور بنگلہ دیش میں ہونے والے آئی پی ایل اور بی پی ایل کو دیکھیں ۔جس کی وجہ سے دونوں ملکوں میں بہترین کھلاڑی سامنے آئے ہیں۔جس طرح کرکٹ بورڈ پر بوڑھے اور تھکے ماندے لوگ سوار ہیں وہ اپنی ہی طرح کھلاڑیوں کو ٹیمیوں میں شامل کرکے حیرت انگیز نتائج کے منتظر نظر آتے ہیں ۔میں دعوی سے کہتا ہوں کہ اگر ان کھلاڑیوں کے ساتھ سو سال بھی کھلا جا تارہے گا تو نتائج شرمندگی کے سوا کچھ نہیں ہوں گے کیونکہ ان کھلاڑیوں کی معیاد ختم ٗ تکنیک پرانی اور جسمانی طاقت ختم ہوچکی ہے ۔ وہ ایڑھی چوٹی کا زور لگا کر بھی گیند باؤنڈ ری سے باہر نہیں پھینک سکتے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ ٹیم میں ایسے پرجوش اور مضبوط جسمانی ساخت کے کھلاڑی آئیں جو دوسری ٹیموں کی طرح 20 اوورز میں دو اڑھائی سو سکور کرسکیں ۔نہ کہ پاکستان کپ کی طرح پچاس اوورز میں دو سو پر آؤٹ ہوجائیں۔ایسے کھلاڑی ہمیں کہاں سے مل سکتے ہیں ۔آئیے یہ راز بھی آپ کو بتا ہی دوں ۔ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں اسکو تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ جس طرح ورلڈ کپ کے کوالیفائی راؤنڈ میں دنیا کی بہترین آٹھ ٹیموں کے علاوہ باقی تمام چھوٹے ممالک کی ٹیمیں آپس میں کھیلتی ہیں پھر ان میں سے دو کامیاب ٹیمیں ٹاپ ٹین میں شامل ہوکر ورلڈ کپ میں حصہ لیتی ہیں اور باقی دوبارہ کوالفائی میچز کھیلنا شروع کردیتی ہیں ۔ اسی طرح پاکستان میں بڑے شہروں کی ٹیموں کوچھوڑ کرپہلے تحصیل اور ضلع کی سطح سکول اور کالجز میں تربیتی کیمپ لگائے جائیں۔ فنٹس کاایک معیار مقرر کرکے اس پر پورا اترنے والے کھلاڑیوں کے مابین کرکٹ بورڈ کے مقرر کردہ مبصرین (جنہوں نے خود ٹیسٹ یا فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی ہو) کی نگرانی میں میچز کروائے جائیں ۔ جو کھلاڑی کارکردگی کے اعتبار سے معیاری نظرآئیں انہیں پہلے تحصیل پھر ضلع اور پھر ڈویژن کی ٹیم میں شامل کرلیا جائے۔پھر تمام ڈویژن کی ٹیموں کے مابین میچ کھیلے جائیں۔ پاکستان میں اس وقت 588 تحصیلیں ٗ 149 ضلع اور 34 ڈویژن ہیں۔ ان تمام کو کرکٹ بورڈ میں رجسٹرڈ کرکے ان کے مابین میچز کروائے جائیں اور مقامی ٹی وی چینلز پر ان میچز کو دکھانے کااہتمام بھی کیا جائے ۔بطور خاص بلوچستان ٗ سندھ ٗ پنجاب ٗ گلگت اور کے پی کے کے دور دراز علاقوں کو فوکس کیاجائے۔ اس طرح کرکٹ کے فروغ کے ساتھ ساتھ نفرتیں کم اور قومی یکجہتی کو بھی فروغ حاصل ہوگااور نئے باصلاحیت کھلاڑی بھی وافر تعداد میں مل جائیں گے جو لمبے عرصے تک قومی ٹیم میں کھیل سکیں ۔ مزید برآں تحصیل سطح پر عالمی میعار کی گراؤنڈ تیار کی جائیں تاکہ پاکستانی قوم کے نوجوان اپنی ہوم گراؤنڈ پر بین الاقوامی معیار کی کرکٹ کھیل کر عالمی سطح پر اپنے ملک کا نام سربلند کرسکیں ۔یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ کتنے ہی ٹیسٹ کرکٹر دیہی علاقوں اور چھوٹے شہروں سے نکلے اور دنیا ئے کرکٹ میں چھا گئے ۔وقار یونس بورے والا ٗ محمد عرفان گگو منڈی ٗ محمدعامر گوجرخان ٗ عاقب جاوید شیخوپورہ ٗ محمد آصف ٗ شیخوپورہ ٗ شعیب ملک اور عمران نذیر سیالکو ٹ ٗ منظور الہی ساہیوال سے دریافت ہوئے ۔ اس کے باوجود کہ وہاں کرکٹ کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں پھر بھی جن نوجوانوں میں ٹیلنٹ ہوتا ہے وہ کسی نہ کسی طرح خود کو منوا لیتے ہیں نہ جانے ان جیسے کتنے اور کھلاڑیوں چھوٹے شہروں میں ٹیلنٹ رکھنے کے باوجود ابھر نہیں سکے ۔ کرکٹ بورڈ کے ٹکڑوں پر پلنے والوں کی فوج ظفر موج دکھائی دیتی ہے خدارا ان کا بوجھ کم کریں ۔ تحصیل ٗضلع اور ڈویژن سطح پر مبصرین کو فی میچ اعزازیہ دے کر ان سے نئے اور باصلاحیت کھلاڑی متعارف کروانے کا کام لیں جو وہ آسانی سے کرسکتے ہیں۔ اگر پاکستان کرکٹ بورڈ کے بابے یہ کام نہیں کرسکتے تو میں ایک چیلنج سمجھ کر یہ کام بخوبی کرسکتا ہوں آزمائش شرط ہے ۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 662406 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.