ایسے ہوتے ہیں استاذ شاگرد

میرا خاندان بہت فقیر،لاچار وبےچارتھا،گھر میں ایک ایک پائی کے لئے ہم بچے لوگ ترس جاتے تھے،محلے والے اپنے بچوں کے لئے ڈھیر ساری چیزیں خریدلاتے،اڑوس پڑوس کے بچے ہمارے سامنے اِتراتے بھی تھے،ہم پرانے کپڑے، سوکھی خوراک اورپھٹی ہوئی جوتیوں کے ساتھ گزربسر کرتے تھے،ہمارے بچپن میں غربت وبے کسی کے واقعات بہت ہیں،ان میں سےصرف ایک واقعہ آج اپنے قارئین سے شیئر کرنا چاہوں گا۔ایک دن ہمارے سکول میں پکنک پر جانے کا اعلان بورڈ پرچسپاں ہوا،ہمیں پکنک کا بہت شوق تھا،اعلان کی سرخی دیکھ کر خوشی کی انتہا جونہ رہی تھی،تھوڑی ہی دیر میں کافور ہوگئی،کیونکہ آخر میں لکھاہواتھاکہ شریک ہونے والا ہر طالب علم ایک ریال جمع کرے گا،تَو جاسکے گا ورنہ نہیں،ہمیں پریشانی ہوئی کہ ریال کہاں سے لائیں گے،معلوم تھا کہ والدین ایک ریال دینے سے بھی قاصر ہیں،بہرحال گھر جاکر پہلے امی کو تفصیل بتائی،پھر ملتجیانہ انداز میں ایک ریال جمع کرنے کا بھی بتادیا، امی کی آنکھیں ڈبڈباگئیں،پکڑ کر والد صاحب کے پاس لے گئیں،اُن سے ریال کا مطالبہ ہوا،لیکن جیساکہ ہمیں پتہ تھا ان سے بھی ایک ریال کا مسئلہ عقدۂ لا ینحل بن گیا،رو رو کر میرا براحال تھا،اللہ تعالی سے بھی بہت التجائیں کیں،امی نے کہا ،بیٹا میں کچھ قرض دار کرکے ایک ریال کا معاملہ ضرور حل کروں گی،مگررشتے داروں اور پڑوسیوں سے کہنے کے باوجود، پکنک پر جانے سے ایک روز قبل تک ان سے کچھ نہ بھی بن پڑا۔

عجیب اتفاق دیکھئیے کہ آج ہم نمناک آنکھوں کے ساتھ سکول گئے،پرہمارے ایک فلسطینی ٹیچر نے جو بھی مشکل سوالات پوچھے،میں نے ہی سب کے صحیح جوابات دئیے ،استاذ نے خوش ہوکر خلافِ معمول ہمیں انعام میں ایک ریال دیدیا،تمام لڑکوں نے ہمارے لئے تالیاں بھی بجائیں،کلاس کے بعد ہم نے فوراً جاکر وہ ریال منتطمینِ پکنک کے پاس پہنچادیا،یوں پکنک میں ہماری شرکت کے اسباب میسر آگئے،رونے دھونے کے بر عکس ہنستے مسکراتے ہوئےگھر آکر والدین کو صحیح جوابات پر انعامی ریال کا تذکرہ کیااور پکنک والوں کے یہاں اسے جمع کرنے کا بھی بتایا،ہمارے والدین نے اللہ تعالی کاشکر ادا کیااور ہمارے ٹیچر کے لئے بہت دعائیں کیں،آج کے دن ہماری خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی،جسےکئی مہینوں تک میں محسوس کرتاتھا،میرے والدین بھی اُس ایک ریال کے ملنے پر باربار (اللہ تیرا شکر ہے) کہتے رہے۔

دن گزرتے رہے،وہ زمانہ بھی گیا،میں بڑا ہوگیا،تعلیم بھی مکمل ہوئی،میں پریکٹیکل لائف میں آگیا،میں نے زندگی میں مشکل دن بہت دیکھے تھے ،خوب محنت کرتاتھا،کاروبار میں دن رات مگن رہا،ایک وقت آیا، اللہ کا فضل ہواکہ مجھے رفاہی کام کی اہمیت سمجھ میں آئی، میں نے رفاہی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کیا،جتناجتنا میں اللہ کے نام دیتا،اس سے کئی گنا زیادہ مجھے میرے غیرت مند رب کی طرف سےملتارہا،اس اثنا میں اچانک مجھے اپنا وہ سکول کے زمانے کا فلسطینی ٹیچر یادآیا،جس نے بڑے مشکل وقت میں مجھےایک ریال انعام میں دیاتھا۔

میں سوچنے لگاکہ استاذ نے وہ ریال مجھے انعام میں دیا تھا،یا صدقے کی نیت سےدیاتھا،میں نے بہت سوچا مگر کسی نتیجے پر پہنچے بغیر میں نے فیصلہ کیاکہ اس استاذ کو تلاش کرنا ہے،چنانچہ میں اپنے سکول گیا،وہاں میں نے ان کی معلومات لینے کوشش کی،پتہ چلا،ریٹائڑد ہوگیاہے، فلاں محلے میں رہتاہے،بوڑھا ہوگیا ہے،معاشی لحاظ سے بھی کمزوری کا شکار ہے،میں ان کے گھر پہنچا،سلام کیا،انہوں نے بٹھایا،خود وہ اپنا سامان باندھ رہاتھا، کیونکہ وہ اگلے دن اپنے ملک فلسطین جارہاتھا،میں نے حال احوال کے بعد اُن سے پوچھا،کیا آپ کو وہ طالب علم یادہے جس کو آپ نے صحیح جوابات پر کلاس میں ایک ریال دیاتھا،وہ ذہین شخص تھا ،انہوں نے ہاں میں سر ہلایا، میں نے کہا وہ میں ہوں،انہوں نے مسکراتے ہوئےکہا،توبیٹا آج آپ وہ ریال واپس کرنے آئے ہیں، میں نے کہا،نہیں،میں آپ کو تھوڑی دیر کے لئے باہر لے جانے آیاہوں، انہوں نے کہا، لیکن آپ دیکھ رہے ہیں کہ میں بہت مشغول ہوں، مٰیں نےکہا، پھر بھی میرا اصرار ہے،انہوں نے حامی بھری،میں ان کو کراچی کے ڈیفنس کی طرح جدہ کےایک علاقے میں لے گیا،وہاں میرا ایک عالی شان بنگلہ تھا،اندر زیرو میٹر کار بھی تھی،وہ سب میں نےان کو دکھایا،پھر میں نے کہا،سر یہ اس بنگلے اور کار کی چابیاں ہیں،آپ قبول فرمائیں،تو مجھے بہت خوشی ہوگی،پہلے وہ چکراگیا،پھرانہوں نے کچھ سوالات کئے،میں نےجوابات دیئے،وہ مطمئن ہوگیا،پھر کہنے لگا، قبول ہے،میں نے کہا،ایک عرض اور بھی ہے،انہوں نے غور سے دیکھا،پھر کہنے لگا فرمائیے، میں نے کہا،اس کے ساتھ ماہانہ بیس ہزار ریال بھی آپ کے اکاؤنٹ میں لائف ٹائم آتا رہے گا،اس نے فوراً دوگانہ صلاۃِ شکر اداکی،پھر زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگا،میرا مزاج لوگوں سے مانگنے کا نہیں ہے،حالات نے کچل کے رکھ دیا تھا،جو دعائیں اور وظائف یاد تھے،عرصے سے پڑھتا رہا،آخر کار اللہ نے سن لی،میں نے کہا،لیکن استاذِ محترم میرے اموال کے مقابلے میں یہ بنگلہ ،کار اور بیس ہزار ریال،آج کے زمانے میں آپ کے ایک ریال کے مقابلے میں پھر بھی بہت کم ہیں،آج آپ ان چیزوں سےاتنے خوش نہیں ہوئے ہوں گے ،جتنا میں اُس وقت آپ کے ایک ریال سے خوش ہواتھا،وہ خوشی میں آج بھی محسوس کرتاہوں،کچھ دیر باہمی دلچسپی کے امور پر باتیں کرنے کے بعد انہوں نے مزید ترقیوں کی دعائیں دے کر مجھے رخصت کیا۔سعودی بلیونیئرسلیمان بن عبد العزیز الراجحی نے اخیر میں لکھا ہےکہ،جب کسی کو خوشی دو، کسی کی مصیبت دور کرو،جزائے خیرکے لئے باری تعالی کے کرم کا انتظار کرو۔

مزید یہ بھی یاد رکھیں،کہ گینیس بک نے روئے زمین پرسب سے بڑے وقف املاک کے طورپر قصیم کے علاقے میں‘‘الراجحی نخلستان’’ کو قراردیاہے،جس میں 2لاکھ سے زیادہ کھجوروں کے درخت ہیں،یہ سب وقف للہ ہے،اس کی کھجوریں پاکستان اور دنیا بھر میں مفت تقسیم کی جاتی ہیں،حرمین شریفین میں پورے سال اور بالخصوص رمضان المبارک میں روزہ داروں کے افطار کے لئے زیادہ ترالراجحی کی کھجوریں پیش کی جاتی ہیں۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 811520 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More