ڈس ایبل آل راﺅنڈر شیر علی آفریدی کے لئے عالمی اعزاز

ہمت مرداں مدد خدا کا محاورہ اردو بولنے اور پڑھنے والے افراد اس وقت سے سنتے چلے آ رہے ہیں جب سے دنیا میں یہ زبان تخلیق ہوئی۔ اکثر و بیشترکسی کا حوصلہ بڑھانے کے لئے بھی اس محاورے کو استعمال کیا جاتا ہے۔تاہم دنیا میں کبھی کبھی ایسی شخصیات سامنے آ جاتی ہیں جنہیں دیکھتے ہی زبان سے بے ساختہ یہ محاورہ رواں ہوجاتا ہے۔صوبہ کے پی کے میں باڑ ہ ، خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے شیر علی آفریدی کا تعلق بھی ان شخصیات میں سے ایک ہے جو دنیا کی نظروں میں ” نا ممکن “ نظر آنے والے اہداف کو محض اپنی قوت ارادی اور سخت محنت سے حاصل کر لیتے ہیں۔
 

image

ایک ٹانگ سے محروم اور مصنوعی ٹانگ کے ذریعے دنیا کے تیز رفتار ترین ڈس ایبل پلیئرزمیں سے ایک آفریدی نہ صرف پاکستان کے لئے ایک بڑا سرمایہ ہیں بلکہ پاکستانیوں کے لئے ایک مشعل راہ بھی ہیں جنہوں نے اپنی پرفارمنس سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ حوصلے بلند ہوں تو جسمانی معذورعظیم مقصد کے حصول میں آڑے نہیں آتی۔خوش قسمتی سے پاکستان ایسے حوصلہ مند لوگوں سے مالا مال ملک ہے۔ قبل ازیں فرحان سعید بھی ڈس ایبل ہونے کے باوجود تیز رفتاری سے بالیں پھینک کر ایک عالم کو مبہوت کر چکے ہیں۔ دونوں کے درمیان ایک فرق یہ ہے کہ فرحان سعید بیساکھی کی مدد سے دوڑتے ہوئے گیند کراتے ہیں جبکہ شیر علی آفریدی سینتھیٹک کی مصنوعی ٹانگ استعمال کرتے ہیں۔ گراﺅنڈ میں دور سے انہیں بال کراتے دیکھنے والے شائقین ایک نظر میں یہ جاننے سے قاصر ہوتے ہیں کہ وہ کسی ڈس ایبل بالر کو اتنی تیز رفتاری سے گینگیں کراتے ریکھ رہے ہیں۔ سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ شیر علی آفریدی بہت سے نارمل کھلاڑیوں سے زیادہ فاسٹ گیندیں کراتے ہیں۔

آل راﺅنڈر شیر علی آفریدی نے 2011میں پروفیشنل کرکٹ کا آغاز کیا۔وہ سوئٹزرلینڈ ،فرانس ، انڈیا اور افغانستان کے خلاف انٹرنیشنل کرکٹ میں قومی اسکواڈ کی جانب سے کھیلتے ہوئے 15میچز میں 32وکٹیں حاصل کر چکے ہیں۔عالمی سطح پر درمیانی نمبروں پر کھیلتے ہوئے وہ 300رنز اور10کیچز پکڑ چکے ہیں ڈس ایبل ہونے کے باوجود132کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گیند کرانے والے شیر علی آفریدی نے ڈومیسٹک سیزن میں بھی40وکٹیں اپنے نام کر لی ہیں۔ چار بھائیوں اور تین بہنوں کے گھرانے سے تعلق رکھنے والے شیر علی نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ کے پی کے حکومت بشمول وفاقی حکومت اورپی سی بی ڈس ایبل کرکٹرز کی کوئی سپورٹ نہیں کرتی ۔ ہاں جنیدخان ، مصباح، یونس خان وغیرہ سپورٹ کرتے رہے ہیں۔ایک اور سوال کے جواب میں شیر علی نے بتایا کہ عمران خان سے ایک با رکے پی کے میں ایک ڈس ایبل میچ کے موقع پر ملاقات کی تھی جنہوں نے اچھی پرفارمنس پر حوصلہ افزائی بھی کی مگر صوبائی حکومت کی جانب سے کوئی سپورٹ نہیں ملی،شین واٹسن کو اپنا پسندیدہ کرکٹر قرار دینے والے شیر علی نے تسلیم کیا کہ کرکٹ ایک مہنگا کھیل ہے تاہم انہوں نے کسی ہچکچاہٹ کے بغیر تسلیم کیا کہ کرکٹ بیٹس، گلوز گیندیں ، پیڈز اور کٹس وغیرہ کا انتظام ان کی فیملی کے ارکان اورفرینڈز کرتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ اب تک کسی کمپنی نے انہیں اسپانسر نہیں کیا حالانکہ دیگر کھلاڑیوں کی طرح ملٹی نیشنل کمپنیوں کی سپورٹ سے ڈس ایبل کھلاڑیوں کے کھیل میں مزید نکھار پیدا ہو سکتا ہے۔
 

image


 2012 میں پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم نے انڈیا کادورہ کیا اور وہاں ہم نے انڈیا کے ساتھ T20 سیریز کھیلی جس میں ہم نے انڈیا کو انڈیا میں ہی 3-0 سے شکست دے دی۔ اس کے بعد افغانستان نے پاکستان کا دورہ کیا اور اس کے بعد ہم نے 2013 میں پھر انڈیا کا دورہ کیا۔ اس کے بعد2014 میں پاکستان ڈس ایبلڈ ٹیم نے سویٹزر لینڈ اور فرانس کا دورہ کیا جہاںپر ہمارے میچز مختلف کلب کے ساتھ تھے اور سب کے سب نارمل پلیئر تھے۔ وہاں پر میری باؤلنگ سپیڈ 132 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی۔ وہاں پر ہم نے چار "4" میچز کھیلے اور 15 وکٹیں لیں۔ مجھے سوئٹزر لینڈ کرکٹ بورڈ کی طرف سے ایوارڈ ملا کیونکہ وہاں پر نارمل پلئیر میں بھی اتنا تیز سپیڈ والا باؤلر نہیں تھا۔ پچھلے سال دسمبر2015 میں کراچی میں پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹرا فی منعقد ہوئی جس میں پورے ملک سے 12 ریجن کی ٹیموں نے حصہ لیا اس ٹورنا منٹ میں ہماری ٹیم نے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرلی تھی اور یہ سیمی فائنل " جیو سوپر" پر لائیو ٹیلی کاسٹ ہوا تھا۔ اور اس ٹورنامنٹ میں میری آل راؤنڈر پرفارمنس تھی جس کی وجہ سے میں نے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرلی تھی۔

شیر علی آفریدی جب دو سال کے تھے تو طوفانی ہواﺅں کی زد میں آکر اپنے گھر کے ایک کمرے کی چھت گرنے سے اس کے ملبے تلے دب گئے ۔ ان کی کزن اس قدرتی آفت کی نذر ہو گئی جبکہ کمرے کی چھت پر ڈالے گئے گارڈر تلے دبنے کے باعث دو سالہ آفریدی ہلنے جلنے کی پوزیشن میں بھی نہیں تھے۔جب مقامی لوگوں نے گارڈر کو آفریدی کی ٹانگ پر سے ہٹایا تو بہت دیر ہو چکی تھی۔ معصوم آفریدی کو اس واقعے میں دوہرے سانحے سے گزرنا پڑا۔ ایک جانب تو ان کی کزن اللہ کو پیاری ہو چکی تھی تو دوسری جانب ان کے اپنے پاﺅں کی ہڈی گھٹوں کے اوپر سے مکمل طور پر ٹوٹ چکی تھی۔اس وقت جب یہ علاقہ شمال مغربی صوبہ سرحد کے نام سے موسوم تھا تب وہاں طبی سہولیات اتنی فراوانی سے دستیاب نہیں تھیں جتنی آج ہیں۔آفریدی کو حادثہ کے کئی گھنٹے بعد اسپتال پہنچایا گیا۔ ہسپتال میں زخم کے معائنے اور ابتدائی طبی علاج کے تقریباً دو یا تین گھنٹے بعد ڈاکٹروں نے بتایا کہ پاﺅں کا زخم خراب ہو چکا ہے اور اب ان کی زندگی بچانے کے لئے ٹانگ کا ٹنا ہوگی ۔

ڈاکٹروں کی جانب سے متاثرہ فیملی کو بتادیا گیاتھا کہ ٹانگ نہ کاٹی گئی تو بچے کی زندگی کو بھی خدشات لاحق ہو جائیں گے۔شیر علی آفریدی نے ماضی میں جھانکتے ہوئے بتایا کہ جب میں تھوڑا بڑا ہوا تو والدہ نے آگاہ کیا کہ میرے ابو ٹانگ کاٹنے کے لئے تیار نہیں تھے ۔ تاہم آفریدی کے ماموں نے حالات کو بھانپتے ہوئے ان کے والد کو ڈاکٹروں کی اس وارننگ اور خدا کی رضا سے آگاہ کیا اور کسی نہ کسی طرح آپریشن کے پروفارما پران کے انگوٹھے کا نشان لگوا لیا۔آفریدی کو آپریشن تھیٹر میں لے جانے کے بعد ان کی فیملی تھیٹر کے باہر سجدوں میں پڑی ان کی زندگی کی بھیک مانگنے میں مصروف تھی ۔ ڈاکٹر آپریشن تھیٹر سے باہر آئے تو انہوں نے سپاٹ لہجے میں بتایا کہ بچے کی جان بچ گئی ہے تاہم اس کی جان بچانے کے لئے ایک ٹانگ کاٹنی ناگزیر ہو گئی تھی۔ ٹانگ کٹنے کی روح فرسا خبر سن کر خاندان کے لوگوں نے چیخ وپکار شروع کر دی مگر پھر بڑے بوڑھوں اور عمائدین کے سمجھانے کے بعد فیملی بچے کی جان بچ جانے پر خدا کا شکر ادا کرتی ہوئی گھر کو لوٹی۔
 

image

ڈاکٹرز نے ٹانگ گھٹنے کے اوپرسے کاٹ لی تھی جس کے نتیجے میں زخم ٹھیک ہونے میں تقریباً دو تین سال لگ گئے۔ آفریدی نے بتایا کہ پھر ابو نے میرے لئے مصنوعی ٹانگ بنوا دی جس کی مدد سے میں چلنے پھرنے کا عادی ہو گیا۔پھر ہر دو سال بعد نئی مصنوعی ٹانگ بنوانے کی ضرورت پیش آتی تھی کیونکہ جیسے جیسے بدن کی نشو و نما ہو رہی تھی پہلی والی ٹانگ چھوٹی پڑ جاتی تھی۔ پھر میں نے سکول میں ایڈمیشن لیا۔آفریدی نے وہ وقت یاد کرتے ہوئے بتایا کہ سکول میں جانے کے بعد میرے کلاس اور سکول کے ساتھی میرا مذاق اُڑاتے اور مجھے تنگ کرتے تھے ۔ لیکن اس وقت میرے امی ، ابو اور دادا میرا حوصلہ بڑھایا کرتے تھے۔ یہ ان کی حوصلہ افزائی تھی کہ آج میں اس مقام پر ہوں۔ اس دوران میں نے اپنی پڑھائی جاری رکھی۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ مجھے کھیل کا بھی بہت شوق تھا۔ اس وقت ہمارے سکول میں صرف دو کھیل تھے ۔کرکٹ اور والی بال ۔میں نے ان دونوں کھیلوں میں بھر پور حصہ لیا۔ اور ساتھ ساتھ اپنے گاؤں میں بھی یہ دونوں کھیل کھیلتا رہا۔ جیسا کہ میری تعلیمی سرگرمیوں پر سب طالب علم ساتھی میرا مذاق اُڑاتے تھے اُسی طرح ایک اسپورٹس مین کی حیثیت سے بھی سب نے میرامذاق اُڑایا۔وہ کہتے تھے کہ کہ ایک طرف بیٹھ جاؤ تمہیں کھیلنے کی کیا ضرورت لیکن میں نے حوصلہ نہ چھوڑا اور پڑھائی کے ساتھ ساتھ کھیل بھی جاری رکھا۔

جب میں نویں جماعت کو پہنچا تو ہمارے علاقے میں دہشتگردی عروج پر پہنچ چکی تھی اور پھر فوجی آپریشن شروع ہوا۔ آپریشن کے پہلے دن ہی ہم اپنا گھر بار چھوڑ کر پشاور چلے گئے۔ ہم نے پشاور میں کرایہ پر گھر لے لیا ۔جب میں نے سکون کی سانس لی تو اپنی پڑھائی کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا۔وقت دبے پاﺅں گزرتا رہا ۔جب میں میٹرک کا امتحان دے رہا تھا تو وہاں اپنے امتحانی ہال کے نزدیک ایک کرکٹ سٹیڈیم دیکھا۔ میں وہاں گیا اور دل میں خواہش بیدار ہوئی کہ کاش میں بھی یہاں کھیلتا تو کتنا مز ہ آتا۔ کیوں کہ کرکٹ کے ساتھ مجھے جنون کی حد تک شوق تھا ۔پھر میں جیم خانہ گراﺅنڈ گیاا ور کلب میں داخلہ لے لیا ۔جب داخلہ لینے لگا تو کوچ نے میری دل آزاری کرتے ہوئے کہا آپ تو معذور ہو کیسے کھیلو گے ۔میں نے انہیں جواب دیا کہ سر میرا حوصلہ بلند ہے ،آپ مجھے چانس تو دیں پھر میں آپ کو مایوس نہیں کروں گا۔

آفریدی نے فخریہ بتایا کہ جب میں نے کلب لیول کرکٹ سٹارٹ کی تو مجھے بڑی خوشی ہوتی تھی کیوں کہ میچز میں سب سے اچھی پرفارمنس میری ہوتی تھی ۔ٹانگ کٹ جانے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر آفریدی نے کہا کہ میں نے کبھی محسوس نہیں کیا کہ میں معذور ہوں اور نہ اپنے کلب کے پلیئرز کو محسوس ہونے دیا ۔ کوچ ہمیشہ اپنے کلب کے پلیئر کو ہمیشہ ڈانٹتے تھے اور میری مثال دیتے کہ آفریدی کو دیکھو اور اس سے شرم کرو آپ لوگوں سے اچھا کھیلتا ہے ۔ مجھے بڑی خوشی ہوتی تھی یہ سن کر اور پھر میرا ایک دوست جو خود بھی ڈس ایبل تھااس نے کہا کہ پشاور میں ڈس ایبل کرکٹ ٹیم کا انعقاد ہورہا ہے اور اس کےلئے دو دن بعد ٹرائل ہے قیوم سٹیڈیم پشاور پہنچ جاؤ ۔ یہ سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی جب میں ٹرائل کے لئے گیا تو میں نے باؤلنگ کا ٹرائل دیا۔ جب میں نے ٹرائل دیا تو کوچ اور سلیکٹرزمجھ سے بہت متاثر ہوئے اور مجھے ٹیم میں بولر کی حیثیت سے سلیکٹ کر لیا۔ اس کے بعد آل پاکستان ڈس ایبل کرکٹ کا ٹورنامنٹ ہوا جس میں میری کارکر دگی متاثر کن رہی اور اس کے بعد میرا نام قومی سطح پر آیا۔ جب میں نے نیشنل سطح پر ٹرائل دیا تو اس میں بھی مجھے منتخب کر لیا گیا۔

شیر علی آفریدی نے حکومت پاکستان ، پاکستان کرکٹ بورڈ اور مختلف ڈیپارٹمنٹس سے یہ گزارش کی ہے کہ آپ نارمل پلئیرز کو سپورٹ کرتے ہیں جب کہ اسی طرح ہم بھی اس معاشرے کا حصہ ہیں۔ گورنمنٹ اور تمام اداروں کو چاہیے کہ ہمیں بھر پور سپورٹ کریں اور ساتھ دیں کیونکہ جس طرح ایک نارمل کھلاڑی ملک وقوم کی نمائندگی کرتا ہے ۔اسی طرح ہم بھی ملک و قوم کی نمائندگی کرتے اورا پنے ملک کا نام روشن کرتے ہیں ۔ ہمیں آپ پر پورا بھروسہ ہے کہ آپ ہمیں بھر پور سپورٹ کرینگے اور ہمیں محرومی کا احساس نہیں دلائیں گے۔پھر ہم بھی انشا اللہ آپ کی توقعات پر پورا اتریں گے۔
 
YOU MAY ALSO LIKE:

Peshawar, which is home to star-cricketer Shahid Afridi, has produced another gem for Pakistan cricket – However, this time, the star is an inspiration for all of mankind, not just Pakistanis.