مرعوبیت کی وبا اور ہمارا ملک

ملک ہندوستان میں اس وقت سب سے زیادہ اگر کوئی بیماری لوگوں کو لاحق ہو ا ہے تو ہے ’’مرعوبیت ‘‘جس طرح فوبیا ایک بیماری ہے اسی طرح مرعوبیت بھی بیماری کے زمرے میں شامل ہے۔گرچے مرعوبیت کا عنصر ہندوستان میں بہت قدیم ہے ۔لیکن فی زمانہ اس میں شدت دیکھی جا رہی ہے ۔اسی مرعوبیت کی بنا پر یہا ں کے مغلیہ سلطنت کے بادشاہ سے لیکر نوابوں کی کرسی تک چلی گئی تھی ۔نتیجہ یہ ہوا کہ پورا ہندوستان تین سو سالوں تک ظالم اور جابر برطانیہ کے زیرنگین اپنی گزارنے پر مجبور ہوئے ۔اور حالات اس قدر خراب ہوئے کہ ہندوستانیوں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا جانے لگا ۔جس کے نتیجے میں محب وطن سرفروش جاں نثار مجاہدین آزادی نے اپنے خون جگر سے آزادی کی لکیر کو کھینچا ۔لیکن افسوس کے محکمہ پولیس سے لیکر بینک کے قوانین ابھی بھی وہی ظالم انگریزوں کی مرہون منت ہے اور ٹھیک اسی طرح کا براؤ ہندستانیوں پر آج بھی ہو رہا ہے جو آزادی سے قبل انگریزہندوستانیوں کے ساتھ کیا کرتے تھے ۔اس وقت انگریزو ں کا سب سے بڑا مرغوب طریقہ کار یہ تھا کہ غریب مزدور کسانوں کو تھوڑا بہت قرض فراہم کر دیا کرتے تھے اور پھر ان پر لگان اس قدر ہوتا تھا کہ لگان چکانے کے باوجود قرض کی ادائیگی کے لئے روپے نہیں بچ پاتے تھے جس کی وجہ سے کسانوں کے کھیت کی کاغذات ضبط کر لیا کرتے تھے اور انہیں ان کی زمین سے بے دخل کر دیتے تھے ۔اسی طریقے کو بہت دنوں تک یہاں کے ساہو کار نے پنا یا جس پر متعدد فلمیں بن چکی ہیں ۔اور یہاں کے بینک بھی کسانوں مزدور وں کی چند ہزار قرض نہ چکانے کی وجہ سے انہیں ان کی زمین سے بے دخل ہی نہیں کرتے ہیں بلکہ انہیں ذدوکوب بھی کیا جاتا ہے ان کی عزت سے بھی کھلواڑ کیا جاتا ہے ۔یہ اور اس طرح کے تمام واقعات روز روشن کی عیاں ہے ۔ٹھیک اسی دن جس دن وجئے مالیا یہاں سے بھاگا تھا ایک کسان کے قسط نہ پورا ہونے پر پولیس نے بے رحمی سے اس کی پٹائی کی اور اس کا ٹریکٹر بھی لے کر چلے گئے ۔لیکن وجئے مالیا نے چند ہزار نہیں بلکہ ہزاروں کروڑ روپے لیکر ملک سے بھاگ جاتا ہے اور حکومت اس کو روکنے میں ناکام ہوتی ہے بلکہ اس کے خلاف کارروائی کرنے کی جرء ت بھی نہیں ہو پا رہی ہے ۔سب ایک دوسرے کو موردالزام ٹھہرارہے ہیں ۔لیکن پیسہ واپسی کے لئے کوئی اقدام کرنے کو راضی نہیں ہے ۔بینک بھی خاموش ہو گئے ہیں بلکہ انہوں نے ہزاروں امیرذادوں اور کمپنیوں کے قرض کو معاف بھی کر دیا ہے جس کو حکومت ہند کی تائید حاصل تھی لیکن افسوس کے کسانوں مزدوروں کے لئے کوئی قرض معافی کی بات نہیں کرتا ہے جب کہ ان کا قرض محض چند ہزار تک ہی محدود ہوتے ہیں ۔اس کے با وجود ان کے حق کی باتیں ہر پارٹی کرتی ہے لیکن عملی طور کسی نے کبھی کسانوں کے مسائل حل کرنے کی کوشش نہیں کی ہے ۔چونکہ مرعوبیت اب سر چڑھ کر بول رہا ہے ۔کہنے کو اب کانگریس پارٹی کسانوں کی بات کرنے لگی ہے ۔کوئی ان سے پوچھے ملک میں سب سے زیادہ عرصہ تک حکومت کرنے کے باوجود کسانوں کی حالت اتنی بری کیوں ہے ۔ان کے ساتھ ہورہے ظلم کوئی نئی بات تو نہیں ہے بلکہ ان کی تاریح بڑی قدیم ہے جس کی جڑ بہت اندر تک جاتی ہے ۔انہی معاملے کو لیکر سپریم کورٹ نے بینکوں کے ڈوبے ہوئے قرض پر ریزوبیک اور مرکزی حکومت کو سخت پھٹکار لگاتے ہوئے پوچھا ہے کہ آخر کس طرح لوگ اور کمپنیاں بینکوں کا کروڑوں روپے کا قرض بغیر ادا کئے ملک سے باہر فرار ہو جاتے ہیں ۔عدالت عظمی کی جانب سے یہ تبصرہ ایک معاملہ کی سماعت کے دوران کیا گیا ،جس میں حال ہی میں ایک اخبار میں آر ٹی آئی کے حوالے سے شائع ہونے والی اس خبر پر از خود نوٹس لینے کی درخواست کی گئی ۔خبروں کے مطابق ۲۹؍سرکاری بینکوں نے ۲۰۱۳؍سے ۲۰۱۵؍کے درمیان تقریباً 2.11لاکھ کروڑ روپے کے قرض کے معاملات کو بند کر دیا ہے۔درخواست دہندہ نے آر بی آئی سے ان کمپنیوں اور افراد کی فہرست سونپنے جانے کو کہا تھا ،جن پر پبلک سیکٹر کے بینکوں کا 500کروڑ روپے یا اس سے زیادہ کا قرض واجب الادا ہے۔چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر کی صدارت والے بنچ نے آر بی آئی کی جانب سے دو ہفتہ پہلے ایسے لوگوں کی سونپی گئی فہرست پر آج وزارت خزانہ اور انڈین بینک ایسو سی ایشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے پوچھا کہ قرض خواہوں سے وصولی کیلئے کیا قدم اٹھائے جا رہے ہیں ۔عدالت نے آر بی آئی سے سخت لہجے میں کہا کہ ایک ریگولیٹر کے طور پر اس کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اس طرح کے معاملات پر وہ سخت نگرانی رکھے۔اس معاملے میں آر بی آئی کو بھی فریق بنایا گیا ہے ۔عدالت نے کہا چند ہزار کے قرض لینے والے کسانوں سے قرض کی رقم وصول کرنے کے تمام اقدامات کئے جاتے ہیں ،جبکہ اپنی کمپنیوں کو دیوالیہ بتا کر بیرون ملک جا کر عیش کر رہے ہیں ۔اس معاملے کی آئندہ سماعت 26اپریل کو ہوگی ۔سپریم کورٹ اور سخت رخ اپنانے ہوئے حکومت ہند سے مطالبہ کرنا چاہئے کہ وجئے مالیا کو ملک واپس اسی طرح لانے کی کوشش کی جائے جس طرح کسی دہشت گرد کو پکڑنے کے لئے حکومت ہند سفارتی تعلقات بناتی ہے ۔چونکہ یہ کسی دہشت گردی سے کم نہیں ہے کہ ہزاروں کروڑوں روپے لیکر ملک سے بھاگ جائیں اور ہندوستان کی معیشت تباہ و برباد ہو جائیں ۔
 
Falah Uddin Falahi
About the Author: Falah Uddin Falahi Read More Articles by Falah Uddin Falahi: 135 Articles with 101543 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.