استاد کا احترام اور ہماری زندگی

اگر ہمارے معاشرے میں سروے کیا جائے اور تمام بچوں سے ایک ہی سوال پوچھا جائے کہ آپ بڑے ہو کر کیا بنو گئے۔۔۔؟؟؟ تو سب کے مختلف جوابات( ڈاکٹر،انجینئر ، سائنس دان، پائلٹ اور کوئی تو سی ایس ایس) آپ کا سامنا کریں گئے مگر کہیں بھی کسی جگہ آپ کو یہ جوا ب نہیں ملے گا کہ میں استاد بنو گا۔۔۔یہ تو الگ بات ہے کہ جب قسمت کی دیوی مہربان نہ ہو تو مجبوراً ذریعہ معاش کے لیے تدریسی عمل شروع کر دیا جاتا ہے، مگر معاشرے کے کسی فرد کی نظر اس جواب پر اُٹھی ہے کہ کیوں کوئی استاد نہیں بننا چاہتا۔۔۔؟؟؟اُسکا ایک جواب میر ی نظر میں صرف یہ ہی ہے کہ آج کے جدید معاشرے میں استاد کی قدر و عظمت کو انتہائی درجے تک نا پید کر دیا گیا ہے، استاد کو وہ مقام نہیں دیا جاتا جس کا وہ صحیح معنوں میں حق دار ہے۔حالانکہ والدین وجود فانی کا سبب ہے اور استاد زندگانی باقی کا ۔۔۔اگر استاد نہ ہوتا وتو جو چیز باپ سے حاصل ہوئی تھی وہ دائمی ہلاکت کی طرف پہنچ جاتی۔مگر دوسری جانب استاد جسے روحانی والدین کا درجہ دیا گیا ہے، طلباء میں حصول ِ علم کی لگن جگانا، ذہنی صلاحیتوں اور قابلیت سے آگاہی اور متحمل مزاجی استاد ہی کا خاصہ ہے۔ لیکن فی زمانہ ایسے اساتذہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں جو دل سے پڑھاتے ہوں نہ کہ کتا بو ں سے رٹا لائی زیشن کے تحت۔۔۔اور ایسا صرف اس صورت میں ممکن ہو سکتا ہے جب وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں گے اور سوئے ہوئے ضمیر کو بیدا ر کریں گے۔
نہیں نہ امید اقبال اپنی کشتیاں ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے

ہمارے استاد۔۔۔! استاد کو روحانی والدین کا درجہ دیا گیا ہے کیونکہ والدین وہ ہوتے ہیں جو اولاد کو زمین پر لاتے ہیں اور استاد زمین سے آسمان پرپہنچاتا ہے۔ والدین کے ساتھ ساتھ استاد کا بھی ادب و احترام لازم قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ شاگرد بھی روحانی اولاد ہوتی ہے ۔ استاد اس ہستی کا نام ہے جو اپنے شاگردوں کو علم کے زیور سے آراستہ کرتے ہیں اور ان کی اخلاقی تربیت کر کے معاشرے میں ایک اعلیٰ مقام تک پہنچا تے ہیں۔جس طرح والدین کے احسانات کا بدلہ ادانہیں کیاجا سکتا اسی طرح استاد کے احسانات کا بھی بدلہ ادانہیں ہو سکتا اور جس طرح حقیقی والدین کے حقوق ہیں اسی طرح روحانی والدین کے حقوق بھی ہم پر لاگو ہوتے ہیں۔ استاد کے احترام و حقوق میں سب سے اہم حق یہ ہے کہ انتہائی ادب و احترام کے ساتھ اپنے استاد کی بتائی گئی ہر بات کو بغور سن کر اس کو ذہن نشین کر کے اس پر عمل کر ے اور علم کو دوسروں تک پہنچائے اور خود پوری لگن کے ساتھ علم کے حصول کے لیے پوری جدوجہد کرے کیونکہ ایک استاد کو حقیقی خوشی تب ملتی ہے جب ان کا شاگرد اونچے مقام پر پہنچ جاتا ہے۔

استا د کی توجہ اور تربیت کے بغیر کوئی بھی بچہ کامیابی کے سفر پر کامزن نہیں ہو سکتا اس لیے جس قد ر استاد کا ادب کر ے گا اور جس قدر استاد کا احترام کرے گا اتنی جلدی وہ کامیابی کی سیڑھیوں پر کامزن ہو گا۔ استاد کے ساتھ ہمیشہ عاجزی و انکساری کے ساتھ گفتگو کرنی چاہیے نہ کہ بحث ومباحثہ یا تو ں تکرار سے۔ استاد کے ساتھ ادب کے ساتھ بات کرنا استاد کا حق ہے۔استاد چاہے آپ کا کسی بھی میدان کا ہو۔ استاد ۔۔۔ استاد ۔۔۔ ہی ہوتا ہے۔۔ اور اسکا ادب ہم پر لازم ہوتا ہے۔ استاد کی ہر بات ماننا ہمارا حق ہے ماسوائے غیر شرعی۔ یادر کھیے کہ جو لوگ اپنے استاد کا احترام نہیں کرتے وہ زندگی کے کسی بھی میدان میں ترقی نہیں کر سکتے اور وہ ہمیشہ اپنی منزل سے دور ہی رہتے ہیں۔ا ستاد کے حقوق میں یہ بات بھی آتی ہے کہ ان کا ادب کیا جائے انکا حکم سنا جائے اور احترام کے ساتھ اس کی تعبیر کی جائے ۔ اگر شاگرد اس طرح کریں گے تو استادکو دلی راحت و خوش نصیب ہو گی اور ان کے ساتھ انتہائی شفقت و نرمی کے ساتھ پیش آئیں گئے، کیونکہ استاد کی مخصوص توجہ کے بغیر خصوصی کامیابی ممکن نہیں ہے۔ اس لیے ہم کو چاہیے کہ اپنے استا د کے حقوق کو پہچان کر ان کا احترام کریں اور ان سے ہدایت حاصل کریں ، جو بھی استاد کا ادب کرتا ہے خوش نصیبی اسکا مقدر ہوتی ہے۔ اور ہاں ایک اور بات :
"جو بھی با ادب ہو گا وہ کامیاب ہو گا"

ہر رشتہ ، ہر میدان، ہر شعبہ اور زندگی کی ہر گھڑی میں اگر آپ با ادب ہیں تو کامیابی آپ کی ہو گی، دنیا آپ کی طابع ہو گی اور اگر نافرمانی اور بے ادبی کو پکڑا تو یاد رکھیں کہ نصیب میں ماسوائے ٹھوکروں کے کچھ بھی نہیں ہو گا۔اپنی طبعیت میں عاجزی ، نرمی اور شفقت کا خمیر پیدا کرکے دیکھو کہ کوئی بھی منزل آپ کا چند قدم آگے بڑھ کر انتظار کرے گی۔
Muhammad Jawad Khan
About the Author: Muhammad Jawad Khan Read More Articles by Muhammad Jawad Khan: 113 Articles with 182020 views Poet, Writer, Composer, Sportsman. .. View More