پیر کی قلابازیاں

تلاشِ حق راہِ فقر کے مسافر اپنے چہروں پر عقیدت و احترام کے پھول سجا ئے اِس نام نہا د پیر کے آستانے پر گردنیں جھکا ئے پیر کے قدموں میں اپنی پیشانیاں رگڑنے قدم بو سی کی غرض سے زمین پر کیڑے مکو ڑوں جانوروں کی طرح لا ئن بنا ئے بیٹھے تھے پیر صاحب کی با رعب آواز سے کمرے کے درو دیوار لر ز رہے تھے ۔ پیر صاحب کے پاس روحانی خزانہ تو تھا نہیں وہ صرف اپنی آواز میں مصنو عی جلال اور گر ج پیدا کر کے آنے والوں کو متا ثر کر نے کی نا کام کو شش میں لگے ہو ئے تھے پہلے تو پیر صاحب نے اپنے آبا ؤ اجداد کی قصیدہ نگا ری کی پھر اپنی تعریفوں کے پل با ندھے پھر زمین پر بیٹھے مریدوں سے با آواز حلف لیا کہ آج سے آپ کی آزادی ختم اب اِس دنیا اور اگلی دنیا میں مریدوں کی کا میا بی کا انحصا ر اب صرف مرشد کی رضا اور خدمت ہے پھر آستا نے اور مر شد خا نے پر حاضری کے آداب بتا ئے گئے یہ واضح طو رپر کہا گیا کہ کبھی بھی مر شد خانے خالی ہا تھ نہیں آنا یعنی آج سے بیچارے مریدوں کی زندگیوں کا اولین مقصد مر شد کی رضا ہے اور اگر اِس میں کسی قسم کی کو تا ہی یا گستاخی ہو ئی تو نہ اِس جہاں کے رہیں گے اور نہ ہی اگلے جہاں کے اِس طرح کی بہت ساری با توں کے بعد نئے مریدوں کو جا نے کا حکم دیا گیا ۔نئے بیعت ہو نے والوں میں اکثریت تو نا م نہا د بیعت کے لیے آئے تھے لیکن اِن میں تین ایسے افراد تھے جو واقعی کسی بھی پیر کے لیے قیمتی اثاثہ بن سکتے تھے۔ اُن کی آنکھوں پیشانیوں اور ہا تھوں کی مخروطی انگلیوں سے پتہ چل رہا تھا کہ وہ روحانیت قرب الہی اور تلا ش حق کا فطری رحجان رکھتے ہیں اُن کی روح اور جسم میں پیدائشی جبلّی روحانی رحجا ن تھا ایسے لو گ تلا ش حق کے لیے کڑی سے کڑی عبا دت اور مجا ہدے سے بھی نہیں ڈرتے اُن تینوں نے مرشد کے قریب آنے اُن کے ہا تھ چو منے اور اُن سے تھو ڑی سی گفتگو کر نے کی کو شش کی تو اُن کو دور دھتکا ر دیا گیا کہ کتا بوں میں سب کچھ لکھا ہے اُسے پڑھ لیں یا مزار پر موجود خلیفہ سے جا کر پو چھ لیں ۔ پیر صاحب کو دیکھنا اُن کی آواز سننا ہی بہت بڑی عبا دت تھی جو اُن کو مل چکی تھی اُن تینوں نے مرشد کے قریب آنے کی بہت کو شش کی لیکن اُ ن کو تقریبا دھکے دے کر با ہر نکا ل دیا گیا۔ میں حیران پریشان پیر صاحب کا انسانوں بلکہ اپنے مریدوں سے نا رواسلوک کو دیکھ رہا تھا روز اول سے صوفیا ء جو ہر دور میں معاشرے کے مظلوم پسے ہو ئے طبقے کو اپنے دامن میں جگہ دیتے ہیں سسکتے تڑپتے روتے بلکتے غریب پسماند ہ انسانوں کو گلے سے لگا کر اُن کو حوصلہ دیتے آئے ہیں جب معا شرے کا طبقاتی نظام مجبور بے کس لوگوں کو دھتکار دے تو اہل حق ہی وہ مقدس گروہ ہوتے ہیں جو اِن مظلوم پسے ہو ئے طبقے کو اپنے شفقت بھرے دامن اور با زوؤں میں پنا ہ دیتے ہیں ۔ معا شرے کا سب سے مقدس شفقت بھرا یہی وہ گروہ ہو تا ہے جو امیر غریب کی تمیز کئے بغیر انسانوں کو گلے سے لگا تا ہے اُن کے دکھ اپنی محبت اور شفقت سے چُنتا ہے جبکہ یہاں پر تو پیر صاحب آنے والے زائرین کو گلے سے لگا نا ان کی اشک جو ئی کر نا اپنے محبت بھرے دامن کو اُن کے لیے وا کر نا تو دور کی بات ہے اُن سے مصافحہ کر نا گلے سے لگا نا اُن کو تسلی کے دو بول بو لنا بھی اپنی تو ہین سمجھا اُن کی طرف شفقت محبت بھری نگا ہ ڈالنا بھی گوارا نہ کیا آنے والے غریب ملک کے دور دراز علا قوں سے تصوف روحانیت کے مو تی چننے آئے تھے اپنی روحوں کے زنگ کو صاف کر انے آئے تھے اپنی روحانی پیا س بجھا نے آئے تھے یہاں دن بھر اُن کو انتظا ر کی سولی پر لٹکا ئے رکھا اور پھر ہمیں متا ثر کر نے کے لیے بھیڑ بکریوں کی طرح ہا نک کر اُن کو اندر لا یا گیا زمین پر چوپا ئے جا نوروں کی طرح لا ئن میں بٹھا دیا گیا اور پھر بیعت کے ڈرامے کے بعد ان جا نور نما انسانوں کو دھکے دے کر با ہر نکال دیا گیا میں حیران پریشان انسانوں کے ساتھ اس درد ناک روئیے کو دیکھ رہا تھا اور پھر قدرت نے ہمیں ایک اور معنی خیز منظر دکھا کر پیر صاحب کا اصل چہرہ دکھا دیا پیر صاحب جو صبح سے اب تک اپنے چہرے پر تصوف اور بڑے پیر کا لبا دہ اوڑھے بیٹھے تھے قدرت نے ایک سبق آموز واقعے سے اُن کا ما دیت میں غر ق چہرہ بھی دکھا دیا کہ پیر صاحب کے جسم کا روواں روواں ما دیت پر ستی میں غرق ہو چکا ہے ۔ مریدوں کو بیعت کی سعادت دینے کے بعد ایک بار پھر پیر صاحب مغرور فا تحا نہ نظروں سے میری طرف دیکھ رہے تھے کہ ہما ری شان یہ ہے کہ روزانہ بے شما ر لو گ روحانیت کی بھیک ما نگنے ہما رے در پر آتے ہیں اور اپنے خالی دامن تصوف ، فقیری کی لا زوال دولت سے بھر کر واپس جا تے ہیں پیر صاحب یہ ثابت کر نا چاہ رہے تھے کہ وہ ایک چشمہ معرفت ہیں جہاں روزانہ بے شمار لو گ رو حانیت کا فیض لے کر واپس جا تے ہیں اصل میں پیر صاحب نے مجھے ایک اور سبق دیا تھا کہ تم ابھی تک میرے عقیدت مندوں میں شامل نہیں ہو ئے تم پتہ نہیں خود کو کیا سمجھ رہے ہو میری شان اورمقام یہ ہے رو زانہ کتنے لو گ میرے آستانے کی چوکھٹ پر اپنا ما تھا رگڑتے ہیں ۔ لیکن میں حسب معمول خا موشی سے اُس کی طرف دیکھ رہا تھامیری خا مو شی اور بے نیازی اُس کو کھا رہی تھی ابھی وہ ایسی سوچوں میں گم تھا کہ اچانک خا دم نے اطلاع دی کہ فیصل آبا د سے فلاں شیخ صاحب تشریف لائے ہیں ۔ آنے والے شیخ صاحب کا نام پیر صاحب کے لیے ایک خو شگوار دھما کے سے کم نہ تھا خادم نے بتا یا کہ شیخ صاحب با ہر آنے والے ہیں یہ سننا تھا کہ پیر صاحب نے اپنی شاہی مسند سے چھلا نگ لگا ئی اور دروازے کی طرف دوڑے ہم حیران پریشان کہ یہ کو ن خو ش قسمت ہے جو با ہر آیا ہے جس کے استقبال کو پیر صاحب ننگے پا ؤں با ہر کی طرف بھا گے ہیں ۔ ہم حیرت کے مجسمے بنے پیر صاحب کے بدلتے روئیے کو دیکھ رہے تھے ۔ ہم بھی شدت سے اِس انتظار میں تھے کہ یہ کو ن عظیم انسان ہے یا کو ئی بہت بڑا ولی اﷲ کو ئی عظیم روحانی ہستی جس کے احترام میں پیر صاحب ہم سب کو بھو ل کر دوڑ کر اُس کے استقبال کو گئے ہیں ۔ ہم آنے والے شخص کی قسمت پر رشک کر رہے تھے ۔ پیر صاحب جو فرعونیت کا مجسمہ بنے احکا مات پر احکا مات صادر کر رہے تھے ایک دم فرعونیت سے اُتر کر غلا موں کی طرح با ہر بھا گے ہیں پیر صاحب کے استقبا لیہ روئیے نے ہما رے اشتیاق اور تجسس کو بہت زیا د ہ بھڑکا دیا تھا ۔ ہم شدت سے منتظر تھے کہ آنے والے کا دیدار ہم بھی کر یں ۔ اور پھر ہمیں زیا دہ انتظار نہ کر نا پڑا پیر صاحب ایک مو ٹے تا زے بڑی تو ند والے اُدھیڑ عمر شخص کے ساتھ با نہوں میں با نہیں ڈالے اندر داخل ہو ئے پیر صاحب کی با چھیں کھلی ہو ئی تھیں ۔ خا دموں نے پیر صاحب کے آنے سے پہلے ہی ایک بہت بڑی صو فہ نما کر سی پیر صاحب کے بر ابر لا کر رکھ دی تھی ۔اب پیر صاحب نے اپنے برابر والی کر سی پر شیخ صاحب کو بٹھایا اور خود اپنی شاہا نہ نشست پر جلوہ افروز ہو گئے ۔ شیخ صاحب اپنے ساتھ فروٹ کی بہت زیا دہ پیٹیاں لے کر آئے تھے جو خا دم اندر لا رہے تھے ۔پیر صاحب نے شفقت محبت اور خو شامدی لہجے میں شیخ صاحب کا حال احوال پو چھا ساتھ ساتھ پیر صاحب بتا رہے تھے کہ شیخ صاحب کے لیے دن رات آستا نے پر دعاؤں اور ذکر اذکار کا سلسلہ جا ری ہے شیخ صاحب نے نئے نو ٹوں کی بہت ساری گڈیاں شاپر میں بھر کر پیر صاحب کو پیش کیں۔ پیر صاحب نے ہما ری طرف دیکھا اور اپنی ایک اور زندہ کرا مت کا دھماکہ کیا پیر صاحب فرمانے لگے یہ ہما رے بہت بڑے جا نثار اور حقیقی مریدہیں اِن کی عقیدت و محبت کا یہ حال ہے کہ ہر سال نئے ما ڈل کی نئی کا ر یہ ہما رے لیے ایک ٹرک میں لاد کر لا تے ہیں ان کی عقیدت یہ ہے کہ نئی کا ر پر پہلے صرف پیر صاحب ہی بیٹھیں گے اِس لیے کو ئی ڈرائیور کار کو چلا کر نہیں لا تا عقیدت ہو تو ایسی محبت ہو تو ایسی پیر صاحب کے منہ سے اپنی تعریف سن کر شیخ صاحب بھی اپنی بڑی تو ند کو ہلا ہلا کر ہنسنے لگے ۔ پیر صاحب کی خو شامد سے لگ رہا تھا کہ شیخ صاحب پیر ہیں اور پیر صاحب شیخ صاحب کے مرید ہیں ۔ پیر صاحب کا رویہ دیکھ کر مجھے ما ضی کے بہت بڑے ولی اﷲ یا د آئے جب کسی حکمران نے بہت سارے دیہات پر مشتمل سینکڑوں ایکڑز پر محیط جا گیر کے کا غذات با با جی کی خدمت میں نذرانے کے طور پر پیش کئے تو با با جی نے جلال میں آکر پروانے کو پرزے پرزے کر کے ہوا میں لہرا دیا اور کہا یہ حکمرا نی تمہیں ہم نے عطاکی ہے تمہا ری جرات کیسے ہو ئی ہما ری ہی چیز ہمیں دینے کی ۔
Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 801 Articles with 653735 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.