اسلامی تعلیمات کی روح کے منافی خواتین پروٹیکشن بِل میں کچھ شقیں

شق نمبر 7 سب سیکشن ای۔سنگین تشدد جس سے متاثرہ شخصیت کی زندگی ، ناموس یا شہرت کو خطرہ لاحق ہونے کا احتمال ہو تو وہ اپنے گھر سے باہر نکل جائے۔ہمارئے معاشرئے میں کیا اِس طرح کی تعلیم دی جا سکتی ہے کہ ہم اپنی بیٹی بہن اور بیوی کو متذکرہ بالا بیان کردہ شق 7 سب شق ای کے مطابق کس طرح کی بات کی تربیت دئے رہے ہیں کہ زندگی میں سنگین تشدد ناموس یا شہرت کو خطرہ لاحق ہونے کا احتمال ہو۔کیا اِس طرح کی گمان کی وجہ سے گھر سے نکلا جا سکتا ہے۔ اور اِس گمان کے تحت کہ کیونکہ عزت ناموس کو خطرہ لاحق ہے گھر ہی چھوڑ دیا جائے۔اِس شق کے حوالے سے اگر بنظر عمیق جائزہ لیا جائے تو کیا ہم عورت کے گھر سے باہر نکلنے اور بھاگنے کے نتائج سے آگاہ ہیں ۔ کیا اِس طرح ہم گھر کی چار دیواری کے تحفظ پر خود ہی سوال نہیں اُٹھا رہے ۔کیا خواتین سنٹرز والدین یا شوہر اور بچوں کی محبت و نگہبانی کے متبادل ہوسکتے ہیں۔ اِس شق کے مطابق تو عورت خدشہ کی بنیاد پر بیٹی بہن اور بیوی صرف خدشہ کی بنیاد پر گھر چھوڑ کر چلی جائے تو کیا ہماری سوسائٹی میں اُسے قبول کیا جائے گا۔ کیا کوئی خاوند اِس طرح گھر چھوڑ کر جانے والی خاتون کو بطور بیوی دوبارہ اپنے گھر میں آباد کرنے پر راضی ہوگا۔ ہمارئے معاشرئے میں نیوز چینلز و پرنٹ میڈیا تو اس طرح کی خبروں کی اشاعت سے اُس خاندان کا حشر نشر کر دیتے ہیں اور سماج میں اُس خاندان کی عزت کا جنازہ نکال چھوڑتے ہیں۔ اِس طرح کی شق کے مسودئے کو پڑھے بغیر اِس میں شامل کر دیا گیا۔ اور اِس شق کے معاشرئے پر مرتب ہونے والے نتائج و عواقب کی کوئی پرواہ نہیں کی گئی۔اِس شق کے حوالے سے اہل علم و دانش سے نہ ہی رجوع کیا گیا ہے۔ ہمار ا دین اسلام تو یہ کہتا ہے کہ اگر خاوند ایک یا دو طلاقیں دئے دیتا ہے۔ تو ایام ِ عدت میں بھی عورت اپنے خاوند کا گھر چھوڑ کر نہیں جاسکتی۔ ملاحظہ ہو اﷲ پاک کا ارشاد:ائے نبی ﷺ جب تم عورتوں کو طلاق دو تو اُنھیں ان کی عدت کے لیے طلاق دیا کرو اور عدت کو شمار کرو اور اﷲ سے ڈرو جو تمھارا رب ہے نہ تم انہیں اِن کے گھروسں سے نکالاو اور نہ خود نکلیں مگر یہ کہ کھلی بے حیائی( عمل میں )لائیں اور یہ اﷲ کی حدیں ہیں اور جو اﷲ کی حدوں سے آگے بڑھے تو یقیناً اُص نے اپنے آپ پر ظلم کیا تو نہیں جانتا شائد اﷲ اِس کے بعد کوئی نئی بات پیدا کردئے۔

( الطلاق) مذکورہ بالا آیت کریمہ میں ـ یہ بیان کیا گیا ہے کہ تم انہیں اِن کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ خود نکلیں۔اِن کے گھروں سے مراد خاوندوں کے گھر ہیں جن میں عورتیں رہ رہی ہیں ان میں رہنے کی وجہ سے ہی ان کو گھر فرمایا ہے۔ یعنی عورت کے لیے عدت کے ایام گھر میں گزارنا ضروری ہیں اور نہ خاوندوں کو انھیں گھر سے نکالنے کی اجازت ہے اور نہ اِنھیں خود ان گھر وں سے نکلنے کی۔اِسکی حکمت اﷲ پاک نے۔ اتنی مدت اِس گھر میں رہنے کی وجہ باہمی صلح اور رجوع کی کوئی صورت پیدا ہوسکتی ہے ۔اور اگر وہ دونوں ایک دوسرئے سے اِسی وقت الگ ہوگئے اور عورت کو گھر سے نکال دیا یا وہ خود نکل گئی تو صلح ہونے کے امکانات معدوم ہو جاتے ہیں۔اور پھر اِس آیت میں اِسے حدوس اﷲ کہا جارہا ہے۔ عدت میں عورت کو گھر سے نکالنا یا عورت کا خود نکل جانا یا عورت کو اس وقت طلاق دینا جو طلاق دینے کا وقت نہیں ہے۔ یہ معمولی غلطی اور خطا نہیں ہے بلکہ وہ اﷲ کی حدود کو پھلانگنا ہے اور ایسے لوگ اپنے آپ پر ظلم کر رہے ہیں۔
 
MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE
About the Author: MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE Read More Articles by MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE: 452 Articles with 381872 views MIAN MUHAMMAD ASHRAF ASMI
ADVOCATE HIGH COURT
Suit No.1, Shah Chiragh Chamber, Aiwan–e-Auqaf, Lahore
Ph: 92-42-37355171, Cell: 03224482940
E.Mail:
.. View More