بیرونِ ملک علاج!

وزیراعظم میاں نواز شریف طبی معائنے کی غرض سے برطانیہ پہنچ چکے ہیں، معائنے کے نتیجے میں اگر کچھ علاج ضروری ہوا تو یقینا وہ بھی وہیں پر کروایا جائے گا۔ ہر انسان اپنی معاشی حالت کے مطابق ہی اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کرتا ہے، یوں انسان درجہ بدرجہ زندگی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ میاں صاحب کی مالی حالت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وہ دنیا کے اچھے سے اچھے ڈاکٹر سے اپنا چیک اپ کروائیں، جہاں علاج کی تمام تر جدید اور حیران کن سہولتیں حاصل ہوں ۔ وزیراعظم پر ہی کیا موقوف، ہر کھاتا پیتا آدمی علاج کے لئے باہر جاتا ہے۔ علاج یا تعلیم کے لئے بیرون ملک جانا کوئی جرم نہیں، نہ ہی طعنہ ہے، کیونکہ جہاں کوئی سہولت بہترین دستیاب ہو، انسان اُدھر کا ہی رخ کرتا ہے،شرط وہی ہے کہ جس کی جیب میں پیسہ ہوگا وہی باہر جائے گا۔ پاکستان میں باہر جا کر چیک اپ کروانے یا علاج کی غرض سے باہر جانے کے عمل پر بہت تنقید کی جاتی ہے۔جس روز وزیراعظم لندن کے لئے خصوصی طیارے سے روانہ ہوئے ، لاہور میں اسی روز ینگ ڈاکٹرز نے احتجاجی مظاہر ہ کیا، انہوں نے اپنے مطالبات میں دو مختلف باتوں کا ذکر کیا، اول یہ کہ اگر اپنی حکومت تمام تر طبی سہولتیں پاکستان میں فراہم کردے تو انہیں علاج کے لئے باہر جانے کی ضرورت ہی نہیں، سب کچھ پاکستان میں ہو سکتا ہے۔ دوم، تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے۔ ینگ ڈاکٹرز کے احتجاج کی وجہ سے سڑک بھی بلاک ہوئی، ایک طرف ڈاکٹرز احتجاج کر رہے تھے تو دوسری جانب وہ شہری سراپا احتجاج تھے، جو ٹریفک کے جام ہوجانے کی وجہ سے پھنسے ہوئے تھے، ایسے میں یقینا کوئی بہت جلدی میں ہوتا ہے، کوئی مریض ہوتا ہے، کسی بچے کا پیپر ہوتا ہے، کسی نے کسی تقریب یا دفتر میں بر وقت پہنچنا ہوتا ہے۔

ینگ ڈاکٹرز کے مسائل سامنے آتے رہتے ہیں، کچھ مسائل مائنڈ سیٹ کی وجہ سے بھی موجود ہیں، بعض معاملات میں حمایت اور مخالفت کا عنصر زیادہ اثرانداز ہوجاتا ہے اور مطالبے کی شکل میں سامنے آجاتا ہے۔ ینگ ڈاکٹرز کا قضیہ پنجاب میں ہی ہے، دوسرے صوبوں میں اس کی بازگشت زیادہ سنائی نہیں دیتی۔ گزشتہ سالوں میں ان لوگوں کی ہڑتال بہت طول پکڑ گئی تھی، صوبائی حکومت ان کے مطالبات کو ماننے کے لئے تیار نہ تھی، ان کی ملازمت سے چھٹی کروانے کی منصوبہ بندی بھی سامنے آئی تھی، تاہم بعدازاں ’کچھ لو کچھ دو‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے معاملات قابو میں آگئے تھے۔ اب یہ ہے کہ کوئی نہ کوئی مسئلہ سراٹھاتا رہتا ہے اور حکومت کے لئے سر درد کا موجب بنا رہتا ہے۔ سڑکیں بلاک کرنے اور جھوم جھوم کر نعرے لگاکر اپنے مطالبات پیش کرنے سے یقیناوہ حکومت کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانے میں کامیاب ہوجائیں گے، یہ الگ بات ہے کہ حکومت نے بھی اپنی رٹ قائم رکھنا ہوتی ہے، کیونکہ ساکھ کا معاملہ ہوتا ہے۔ احتجاج تو چونکہ حق ہے، مگر ایسا بھی کوئی قانون ہونا چاہیے، جس کے مطابق احتجاج بھی ہوجائے، دوسروں کو پریشانی کا سامنا بھی نہ کرنا پڑے، اپنا حق مانگتے ہوئے دوسروں کا حق چھین لینا کوئی انصاف نہیں۔

دیگر مطالبوں کے علاوہ ینگ ڈاکٹرز نے ایک بات بہت پتے کی کی، کہ اگر حکمران پاکستان میں طبی سہولتیں بہم پہنچائیں تو انہیں اور دوسرے لوگوں کو علاج کے لئے باہر نہ جانا پڑے۔ یقینا حکومتوں کے پاس اپنی کارکردگی اور صحت کے میدان میں کئے گئے اقدامات کی طویل فہرست موجود ہوگی، وہ ہسپتالوں میں فراہم کی جانے والے مشینری اور مفت ادویات کا تذکرہ بھی کریں گے، مختلف امراض کے علاج کے لئے نئے ہسپتال یا بڑے ادارے یا شعبے قائم کرنے کی بات بھی ہوگی، ڈاکٹروں کی تعیناتی اور سہولتوں کی فراہمی کا ذکر بھی ہوگا۔ دراصل حکومتوں کی نگاہ میں ’سب اچھا‘ ہوتا ہے۔ یوں بھی ہوتا ہے کہ اگر کبھی کسی ہسپتال وغیرہ کا دورہ پڑ جائے تو سہولیات اور ناکارہ مشینری دیکھ کر حکمران سیخ پا بھی ہوجاتے ہیں۔ سب اچھا نہیں ہے، ہسپتالوں میں ضروری مشینری بھی موجود نہیں، جدید مشینری کو استعمال کرنے کی بجائے وہ پڑے پڑے خراب ہورہی ہے۔ ہسپتالوں کے نظام میں خرابیاں اس قدر زیادہ ہوچکی ہیں کہ عام آدمی کے علاج کی سہولتیں بھی بعض اوقات دستیاب نہیں ہوتیں۔ بات سادہ ہے، اگر حکمران کسی چیز کو اپنی ترجیح بنا لیں اور اخلاص کے ساتھ اس پر عمل کریں تو کچھ بھی ناممکن نہیں۔ مگر کیا کیجئے کہ ان کی ترجیح اپنی مراعات ، پروٹوکول اور مفادات ہیں۔ پاکستان میں ماہر ڈاکٹرز کی کمی نہیں، اگر انہیں جدید مشینری بہم پہنچائی جائے تو سب کچھ پاکستان میں ہو سکتا ہے، کروڑوں کے اخراجات بھی بچ سکتے ہیں۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 426820 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.